میں ایک میاں ہوں

0

میں ایک میاں ہوں۔ مطیع وفرمانبردار۔ اپنی بیوی روشن آراء کو اپنی زندگی کی ہر ایک بات سے آگاہ رکھنا اصول زندگی سمجھتا ہوں اور ہمیشہ اس پر کاربند رہا ہوں۔ خدا میرا انجام بخیرکرے۔

چنانچہ میری اہلیہ میرے دوستوں کی تمام عادات وخصائل سے واقف ہیں جس کا نتیجہ یہ ہے کہ میرے دوست جتنے مجھ کو عزیز ہیں اتنے ہی روشن آراء کو برے لگتے ہیں۔ میرے احباب کی جن اداؤں نے مجھے مسحور کررکھا ہے انہیں میری اہلیہ ایک شریف انسان کے لیے باعث ذلت سمجھتی ہے۔

آپ کہیں یہ نہ سمجھ لیں کہ خدانخواستہ وہ کوئی ایسے آدمی ہیں جن کا ذکر کسی معزز مجمع میں نہ کیا جاسکے۔ کچھ اپنے ہنر کے طفیل اور کچھ خاکسار کی صحبت کی بدولت سب کے سب ہی سفید پوش ہیں لیکن اس بات کو کیا کروں کہ ان کی دوستی میرے گھر کے امن میں اس قدر خلل انداز ہوتی ہے کہ کچھ نہیں کہہ سکتا۔

مثلاً مرزا صاحب ہی کو لے لیجئے۔ اچھے خاصے بھلے آدمی ہیں وہ محکمۂ جنگلات میں ایک معقول عہدے پر ممتاز ہیں لیکن شکل وصورت ایسی پاکیزہ پائی ہے کہ امام مسجد معلوم ہوتے ہیں۔ جوا وہ نہیں کھیلتے، گلی ڈنڈے کا ان کو شوق نہیں، جیب کترتے ہوئے کبھی وہ نہیں پکڑے گئے۔البتہ کبوتر پال رکھے ہیں۔ انہیں سے جی بہلاتے ہیں۔ ہماری اہلیہ کی یہ کیفیت ہے کہ محلے کا کوئی بدمعاش جوئے میں قید ہو جائے تو اس کی ماں کے پاس ماتم پرسی تک کو چلی جاتی ہیں۔ گلی ڈنڈے میں کسی کی آنکھ پھوٹ جائے تو مرہم پٹی کرتی رہتی ہیں۔کوئی جیب کترا پکڑا جائے تو آنسو بہاتی رہتی ہیں لیکن وہ بزرگ جن کو دنیا بھر کی زبان مرزا صاحب مرزا صاحب کہتے تھکتی نہیں ہمارے گھر میں ‘موئے کبوتر باز’ کے نام سے یاد کیے جاتے ہیں۔ کبھی بھولے سے بھی میں آسمان کی طرف نظر اٹھا کر کسی چیل، کوے، گرھ، شکرے کو دیکھنے لگ جاؤ تو روشن آراء کو فوراً خیال ہو جاتا ہے کہ بس اب یہ بھی کبوتر باز بننے لگا۔

اس کے بعد مرزا صاحب کی شان میں ایک قصیدہ شروع ہوجاتا ہے۔ بیچ میں میری جانب گریز۔ کبھی لمبی بحر میں کبھی چھوٹی بحر میں۔

ایک دن جب یہ واقعہ پیش آیا تو میں نے مصمم ارادہ کرلیا کہ اس مرزا کمبخت کو کبھی پاس نہ پھٹکنے دوں گا۔ آخر گھر سب سے مقدم ہے۔ میاں بیوی کے باہمی اخلاص کے مقابلے میں دوستوں کی خوشنودی کیا چیز ہے؟ چنانچہ ہم غصے میں بھرے ہوئے مرزا صاحب کے گھر گئے۔ دروازہ کھٹکھٹایا۔ کہنے لگے “اندر آجاؤ” ہم نے کہا “نہیں آتے تم باہر آؤ” خیر آخر اندر گیا۔ بدن پر تیل مل کر ایک کبوتر کی چونچ منہ میں لئے دھوپ میں بیٹھے تھے۔ کہنے لگے “بیٹھ جاؤ” ہم نے کہا “بیٹھیں گے نہیں” آخر بیٹھ گئے۔ معلوم ہوتا ہے ہمارے تیور کچھ بگڑے ہوئے تھے۔ مرزا بولے” کیوں بھئی! خیرباشد!” میں نے کہا “کچھ نہیں” کہنے لگے “اس وقت کیسے آنا ہوا؟”

اب میرے دل میں فقرے کھولنے شروع ہوئے۔ پہلے ارادہ کیا کہ ایک دم ہی سب کچھ کہہ ڈالو اور چل دو۔ پھر سوچا کہ مذاق سمجھے گا، اس لیے کسی ڈھنگ سے بات شروع کروں، لیکن سمجھ میں نہ آیا کہ پہلے کیا کہیں۔ آخر ہم نے کہا:
” مرزا! بھائی کبوتر بہت مہنگے ہوتے ہیں۔”

یہ سنتے ہی مرزا صاحب نے چین سے لے کر امریکہ تک کے تمام کبوتروں کو ایک ایک کرکے گنوانا شروع کیا۔ اس کے بعد دانے کی مہنگائی کے متعلق گل افشانی کرتے رہے اور پھر محض مہنگائی پر تقریر کرنے لگے۔ اس دن تو ہم یوں ہی چلے آئے لیکن ابھی کھٹ پٹ کا ارادہ دل میں باقی تھا۔ خدا کا کرنا کیا ہوا کہ شام کو گھر میں ہماری صلح ہوگئی۔ ہم نے کہا چلو اب مرزا کے ساتھ بگاڑنے سے کیا حاصل؟ چنانچہ دوسرے دن مرزا سے بھی صلح صفائی ہوگئی۔

لیکن میری زندگی تلخ کرنے کے لیے ایک نہ ایک دوست ہمیشہ کارآمد ہوتا ہے۔ ایسا معلوم ہوتا ہے کہ فطرت نے میری طبیعت میں قبولیت اور صلاحیت کوٹ کوٹ کر بھر دی ہے کیونکہ ہماری اہلیہ کو ہم میں ہر وقت کسی نہ کسی دوست کی عادات کی جھلک نظر آتی رہتی ہے، یہاں تک کہ میری اپنی ذاتی شخصی سیرت بالکل ہی ناپید ہوچکی ہے۔

شادی سے پہلے ہم کبھی کبھی دس بجے سوکر اٹھا کرتے تھے ورنہ 11بجے۔ اب کتنے بجے اٹھتے ہیں؟ اس کا اندازہ وہی لوگ لگا سکتے ہیں جن کے گھر ناشتہ زبردستی صبح کے سات بجے کرا دیا جاتا ہے اور اگر ہم کبھی بشری کمزوری کے تقاضے سے مرغوں کی طرح تڑکے کے اٹھنے میں کوتاہی کریں تو فوراً کہہ دیا جاتا ہے کہ یہ اس نکٹو نسیم کی صحبت کا نتیجہ ہے۔ ایک دن صبح صبح ہم نہا رہے تھے۔ سردی کا موسم، ہاتھ پاؤں کانپ رہے تھے۔ صابن سر پر ملتے تھے تو ناک میں گھستا تھا کہ اتنے میں ہم نے خدا جانے کس پراسرار جذبے کے تحت غسل خانے میں الاپنا شروع کردیا اور پھر گانے لگے کہ “توری چھل بل ہے نیازی ۔۔۔”اس کو ہماری انتہائی بد مذاقی سمجھا گیا اور اس بد مذاقی کا اصل منبع ہمارے دوست پنڈت جی کو ٹھہرایا گیا۔

لیکن حال ہی میں مجھ پر ایک ایسا سانحہ گزرا ہے کہ میں نے تمام دوستوں کو ترک کر دینے کی قسم کھالی ہے۔

تین چار دن کا ذکر ہے کہ صبح کے وقت روشن آراء نے مجھ سے میکے جانے کی اجازت مانگی۔ جب سےہماری شادی ہوئی ہے روشن آراء صرف دو دفعہ میکے گئی ہے۔ اور پھر اس نے کچھ اس سادگی اور عجز سے کہا کہ میں انکار نہ کرسکا۔ کہنے لگی “تو پھر میں ڈیڑھ بجے کی گاڑی سے چلی جاؤں” میں نے کہا “اور کیا؟”

وہ جھٹ تیاری میں مشغول ہوگئی اور میرے دماغ میں آزادی کے خیالات نے چکر لگانے شروع کئے۔یعنی اب بےشک دوست آئیں، بےشک ادوھم مچائیں، میں بےشک گاؤں، بےشک جب چاہوں اُٹھوں، بےشک تھیٹر جاؤں۔ میں نے کہا:

“روشن آرا جلدی کرو۔ نہیں تو گاڑی چھوٹ جائے گی”

ساتھ اسٹیشن پر گیا۔ جب گاڑی میں سوار کر چکا تو کہنے لگی “خط ضرور لکھتے رہیے” میں نے کہا “ہر روز۔ اور تم بھی۔”

“کھانا وقت پہ کھا لیا کیجئے اور ہاں دھلی ہوئی جرابیں اور رومال الماری کے نچلے خانے میں پڑے ہیں”

اس کے بعد ہم دونوں خاموش ہو گئے اور ایک دوسرے کے چہرے کو دیکھتے رہے۔ اس کی آنکھوں میں آنسو بھر آئے میرا دل بھی بیتاب ہونے لگا اور جب گاڑی روانہ ہوئی تو میں دیر تک مبہوت پلیٹ فارم پر کھڑا رہا۔

آخر آہستہ آہستہ قدم اٹھاتا ہوا کتابوں کی دکان تک آیا اور رسالوں کے ورق پلٹ پلٹ کر تصویریں دیکھتا رہا۔ ایک اخبار خریدا۔ تہہ کرکے جیب میں ڈالا اور عادت کے مطابق گھر کا ارادہ کر لیا۔

پھر خیال آیا کہ اب گھر جانا ضروری نہیں۔ اب جہاں چاہوں جاؤں، چاہوں تو گھنٹوں اسٹیشن پر ہی ٹہلتا رہوں۔ دل چاہتا تھا قلابازیاں کھاؤں۔

کہتے ہیں جب افریقہ کے وحشیوں کو کسی تہذیب یافتہ ملک میں کچھ عرصہ کے لئے رکھا جاتا ہے تو وہ وہاں کی شان وشوکت سے بہت متاثر ہوتے ہیں لیکن جب واپس جنگلوں میں پہنچتے ہیں تو خوشی کے مارے چیخیں مارتے ہیں۔ کچھ ایسی ہی کیفیت میرے دل کی بھی ہو رہی تھی۔ بھاگتا ہوا اسٹیشن سے آزادانہ باہر نکلا۔ آزادی کے لہجہ میں تانگے والے کو بلایا اور کود کر تانگے میں سوار ہوگیا۔
سگریٹ سلگا لیا ٹانگیں سیٹ پر پھیلا دیں اور کلب کو روانہ ہوگیا۔
رستے میں ایک بہت ضروری کام یاد آگیا۔ تانگہ موڑ کر گھر کی طرف پلٹا۔ باہر ہی سے نوکرکو آوازد دی۔

“امجد!”
“حضور!”
“دیکھو، حجام کو جا کر کہہ دو کہ کل گیارہ بجے آئے۔”
“گیارہ بجے۔ سن لیا نا؟ کہیں روز کی طرح پھر چھ بجے وارد نہ ہوجائے.”
“بہت اچھا حضور”
“اور اگر گیارہ بجے سے پہلے آئے تو دھکے دے کر باہر نکال دو”

یہاں سے کلب پہنچے۔ آج تک کبھی دن کے دو بجے کلب نہ گیا تھا۔ اندر داخل ہوا تو سنسان، آدمی کا نام و نشان تک نہیں۔ سب کمرے دیکھ ڈاالے۔ بلڈر کا کمرہ خالی، شطرنج کا کمرہ خالی، تاش کا کمرہ خالی، صرف کھانے کے کمرے میں ایک ملازم چھریاں تیز کر رہا تھا۔

اس سے پوچھا “کیوں بے آج کوئی نہیں آیا؟”

کہنے لگا “حضور! آپ تو جانتے ہی ہیں اس وقت بھلا کون آتا ہے؟”

بہت مایوس ہوا۔ باہر نکل کر سوچنے لگا کہ اب کیا کروں؟ اور کچھ نہ سوجھا تو وہاں سے مرزا صاحب کے گھر پہنچا۔ معلوم ہوا ابھی دفتر سے واپس نہیں آئے۔ دفتر پہنچا۔ دیکھ کر بہت حیران ہوئے۔ میں نے سب حال بیان کیا۔ کہنے لگے “تم باہر کے کمرے میں ٹھہرو، تھوڑا سا کام رہ گیا ہے بس ابھی بھگتا کے تمہارے ساتھ چلتا ہوں۔ شام کا پروگرام کیا ہے؟”

میں نے کہا “تھیٹر”
کہنے لگے “بس بہت ٹھیک ہے۔ تم باہر بیٹھو میں ابھی آیا”

باہرکے کمرے میں ایک چھوٹی سی کرسی پڑی تھی اس پر بیٹھ کر انتظار کرنے لگا اور جیب سے اخبار نکال کر پڑھنا شروع کردیا۔ شروع سے آخر تک سب پڑھ ڈالا اور ابھی چار بجنے میں ایک گھنٹہ باقی تھا۔ پھر سے پڑھنا شروع کردیا سب اشتہار پڑھ ڈالےاور پھر سب اشتہاروں کو دوبارہ پڑھ ڈالا۔

آخر کار اخبار پھینک کر بغیر کسی تکلف یا لحاظ کے جمائیاں لینے لگا۔ جمائی پہ جمائی، جمائی پہ جمائی حتیٰ کہ جبڑوں میں درد ہونے لگا۔ اس کے بعد ٹانگیں ہلانا شروع کیا لیکن اس سے بھی تھک گیا پھر میز پر طبلے کی گتیں بجاتا رہا۔ بہت تنگ آ گیا تو دروازہ کھول کر مرزا سے کہا “ابے یار اب چلتا بھی ہے کہ مجھے انتظار ہی میں مار ڈالے گا۔ مردود کہیں کا۔ سارا دن میرا ضائع کردیا۔”

وہاں سے اٹھ کر مرزا کے گھر گئے۔ شام بڑے لطف میں کٹی۔ کھانا کلب میں کھایا اور وہاں سے دوستوں کو ساتھ لیے تھیٹر گئے۔ رات کے ڈھائی بجے گھر لوٹے۔ تکیے پر سر رکھا ہی تھا کہ نیند نے بےہوش کردیا۔

صبح آنکھ کھلی تو کمرے میں دھوپ لہریں مار رہی تھی۔ گھڑی کو دیکھا تو پونے گیارہ بجے تھے۔ ہاتھ بڑھا کر میز پر سے ایک سگریٹ اٹھایا اور سلگا کر طشتری میں رکھ دیا اور پھر اونگھنے لگا۔

گیارہ بجے امجد کمرے میں داخل ہوا۔ کہنے لگا”حضور! حجام آیا ہے”

ہم نے کہا “یہیں بلا لاؤ۔” یہ عیش مدت کے بعد نصیب ہوا ہے کہ بستر پر لیٹے لیٹے حجامت بنوالیں۔ اطمینان سے اٹھے اور نہادھوکر باہر جانے کے لئے تیار ہوئے لیکن طبیعت میں وہ شگفتگی نہ تھی جس کی امید لگائے بیٹھے تھے۔ چلتے وقت الماری سے رومال نکالا تو خدا جانے کیا خیال دل میں آیا وہیں کرسی پر بیٹھ گیا اور سودائیوں کی طرح اس رومال کو تکتا رہا۔ الماری کا ایک اور خانہ کھولا تو سرمئی رنگ کا ایک ریشمی دوپٹہ نظر پڑا۔ باہر نکالا ہلکی ہلکی عطر کی خوشبو آرہی تھی۔ بہت دیر تک اس پر ہاتھ پھیرتا رہا۔ پھر دل بھرآیا گھر سونا معلوم ہونے لگا۔ بہتیرا اپنے آپ کو سنبھالا لیکن آنسو ٹپک ہی پڑے۔ آنسو کا گرنا تھا کہ بیتاب ہوگیا اور سچ مچ رونے لگا۔ سب جوڑے باری باری نکال کر دیکھے لیکن نہ معلوم کیا یاد آیا کہ اور بھی بےقرار ہوتا گیا۔

آخر نہ رہا گیا باہر نکلا، اور سیدھا تار گھر پہنچا۔ وہاں سے تار دیا کہ “میں بہت اداس ہوں۔ تم فوراً آجاؤ۔”

تار دینے کے بعد دل کو اطمینان ہوا۔ یقین تھا کہ روشن آراء اب جس قدر جلد ہوسکے گا آجائے گی اس سے کچھ ڈھارس بندھ گئی اور دل پر سے جیسے ایک بوجھ ہٹ گیا۔

دوسرے دن دوپہر کو مرزا کے مکان پر تاش کا معرکہ گرام ہونا تھا۔ وہاں پہنچے تو معلوم ہوا کہ مرزا کے والد سے کچھ لوگ ملنے آئے ہیں۔ اس لیے تجویز یہ ٹھہری کہ یہاں سے کسی اور جگہ سرک چلو۔ ہمارا مکان تو خالی تھا ہی۔ سب یار لوگ وہیں جمع ہوئے۔ امجد سے کہہ دیا گیا کہ حقے میں اگر ذرا بھی خلل واقع ہوا تو تمہاری خیر نہیں اور پان اس طرح سے متواتر پہنچے رہیں کہ بس تانتا لگ جائے۔

اب اس کے بعد کے واقعات کو کچھ مرد ہی اچھی طرح سمجھ سکتے ہیں۔ شروع شروع میں تو تاش باقاعدہ اور باضابطہ ہوتا رہا جو کھیل بھی کھیلا گیا بہت معقول طریقے سے قواعدوضوابط کے مطابق اور متانت وسنجیدگی کے ساتھ۔ لیکن ایک دو گھنٹے کے بعد کچھ خوش طبعی شروع ہوئی۔ یار لوگوں نے ایک دوسرے کے پتے دیکھنے شروع کردیئے۔ یہ حالت تھی کہ آنکھ بچی نہیں اور ایک آدھ کام کا پتہ اُڑا نہیں اور ساتھ ہی قہقہےپر قہقہے اُڑنے لگے۔ تین گھنٹے کے بعد یہ حالت تھی کہ کوئی گھٹنا ہلا ہلا کر گا رہا ہے، کوئی فرش پر بازو ٹیکے سیٹی بجا رہا ہے، کوئی تھیٹر کا ایک آدھ مذاقیہ فقرہ لاکھوں دفعہ دہرا رہا ہے۔ لیکن تاش برابر ہورہا ہے۔ تھوڑی دیر کے بعد دھول دھپا شروع ہو گیا۔ ان خوش فعلیوں کے دوران میں ایک مسخرے نے ایک ایسا کھیل تجویز کردیا جس کے آخر میں ایک آدمی بادشاہ بن جاتا ہے، دوسرا وزیر، تیسرا کوتوال اور جو سب سے ہار جائے وہ چور۔ سب نے کہا “واہ واہ کیا بات کہی ہے۔” ایک بولا “پھر آج جو چور بنا اس کی شامت آجائے گی” دوسرے نے کہا “اور نہیں تو کیا۔ بھلا کوئی ایسا ویسا کھیل ہے۔ سلطنتوں کے معاملے ہیں۔ سلطنتوں کے۔”

کھیل شروع ہوا۔ بدقسمتی سے ہم چور بن گئے۔ طرح طرح کی سزائیں تجویز ہونے لگی۔ں کوئی کہے” ننگے پاؤں بھاگتا ہوا جائے اور حلوائی کی دکان سے مٹھائی خرید کے لائے” کوئی کہے “نہیں حضور! سب کے پاؤں پڑے اور ہر ایک سے دو دو چانٹے کھائے” دوسرے نے کہا “نہیں صاحب! ایک پاؤں پر کھڑا ہو کر ہمارے سامنے ناچے” آخر میں بادشاہ سلامت بولے “ہم حکم دیتے ہیں کہ چور کو کاغذ کی ایک لمبوتری نوک دار ٹوپی پہنائی جائے اور اس کے چہرے پر سیاہی مل دی جائے اور یہ اسی حالت میں جاکر اندرسے حقے کی چلم بھر کر لائے” سب نے کہا “کیا دماغ پایا ہے حضور نے۔ کیا سزا تجویز کی ہے واہ واہ۔”

ہم بھی مزے میں آئے ہوئے تھے۔ ہم نے کہا “تو ہوا کیا؟ آج ہم ہیں کل کسی اور کی باری آجائے گی” نہایت خندہ پیشانی سے اپنے چہرے کو پیش کیا۔ ہنس ہنس کر وہ بیہودہ سی ٹوپی پہنی۔ ایک شان استغنا کے ساتھ چلم اٹھائی اور زنانے کا دروازہ کھول کر باورچی خانے کو چل دیے اور ہمارے پیچھے کمرہ قہقہوں سے گونج رہا تھا۔

صحن میں پہنچےہی تھے کہ باہر کا دروازہ کھلا اور ایک برقعہ پوش خاتون اندر داخل ہوئی۔ منہ سے برقعہ الٹا تو روشن آراء۔

دم خشک ہوگیا۔ بدن پر ایک لرزہ سا طاری ہوگیا۔ زبان بند ہوگئی۔ سامنے وہ روشن آراء جس کو میں نے تار دے کر بلایا تھا کہ “تم فوراً آجاؤ میں بہت اداس ہوں” اور اپنی یہ حالت کہ منہ پر سیاہی ملی ہے، سر پر وہ لمبوتری سی کاغذ کی ٹوپی پہن رکھی ہے اور ہاتھ میں چلم اٹھائے کھڑے ہیں اور مردانے کمرے سےقہقہوں کا شور برابر آرہا ہے۔ روح منجمد ہوگئی اور تمام حواس نے جواب دے دیا۔ روشن آراء کچھ دیر تو چپکی کھڑی دیکھتی رہی اور پھر کہنے لگی ۔۔۔۔۔۔بس میں کیا بتاؤں کہ کیا کہنے لگی؟ اس کی آواز تو میرے کانوں تک جیسے بیہوشی کے عالم میں پہنچ رہی تھی۔

اب تک آپ اتنا تو جان ہی گئے ہوں گے کہ میں بذات خود از حد شریف واقع ہوا ہوں۔ جہاں تک میں میں ہوں مجھ سے بہتر میاں دنیا پیدا نہیں کرسکتی۔ میری سسرال میں سب کی یہی رائے ہے اور میرا اپنا ایمان بھی یہی ہے۔ لیکن ان دوستوں نے مجھے رسوا کردیا ہے۔ اس لیے میں نے مصمم ارادہ کرلیا ہے کہ اب یا گھر میں رہوں گا یا کام پر جایا کروں گا۔ نہ کسی سے ملوں گا اور نہ کسی کو اپنے گھر آنے دوں گا۔ سوائے ڈاکیے یا حجام کے اور ان سے بھی نہایت مختصر باتیں کیا کروں گا۔

“خط ہے؟”
“جی ہاں”
“دے جاؤ۔چلے جاؤ”
“ناخن تراش دو”
“بھاگ جاؤ”
بس اس سے زیادہ کلام نہ کروں گا۔ آپ دیکھئے تو سہی!