اردو کی آخری کتاب

0

ماں کی مصیبت

ماں بچے کو گود میں لیے بیٹھی ہے۔ باپ انگوٹھا چوس رہا ہے اور دیکھ دیکھ کر خوش ہوتا ہے۔ بچہ حسبِ معمول آنکھیں کھولے پڑا ہے۔ ماں محبت بھری نگاہوں سے اس کے منہ کو تک رہی ہے اور پیار سے حسبِ ذیل باتیں پوچھتی ہے:

(١) وہ دن کب آئے گا جب تو میٹھی میٹھی باتیں کرے گا۔
(٢) بڑا کب ہوگا؟ مفصل لکھو۔
(٣) دولہ کب بنے گا اور دلہن کب بیاہ کر لائے گا؟اس میں شرمانے کی ضرورت نہیں۔
(٤) ہم کب بوڑھے ہوں گے؟
(٥) تو کب کمائے گا؟
(٦) آپ کب کھائے گا؟ اور ہمیں کب کھلائے گا؟
باقاعدہ ٹائم ٹیبل بنا کر واضح کرو۔

بچہ مسکراتا ہے اور کلینڈر کی مختلف تاریخوں کی طرف اشارہ کرتا ہے تو ماں کا دل باغ باغ ہو جاتا ہے۔ جب ننھا سا ہونٹ نکال کر باقی چہرے سے رونی صورت بناتا ہے تو یہ بے چین ہوجاتی ہے۔ سامنے پنگورا لٹک رہا ہے۔ سلانا ہوا تو افیم کھلا کر اس میں لٹا دیتی ہے۔ رات کو اپنے ساتھ سلاتی ہے (باپ کے ساتھ دوسرا بچہ سوتا ہے) جاگ اٹھتا ہے تو جھٹ چونک پڑتی ہے اور محلے والوں سے معافی مانگتی ہے۔ کچّی نیند میں رونے لگتا ہے تو بیچاری مامتا کی ماری آگ جلا کر دودھ کو ابال دیتی ہے۔ صبح جب بچے کی آنکھ کھلتی ہے تو آپ بھی اٹھ بیٹھتی ہے۔ اس وقت تین بجے کا عمل ہوتا ہے۔ دن چڑھے منہ دلاتی ہے آنکھوں میں کاجل لگاتی ہے اور جی کڑا کر کے کہتی ہے کیا چاند سا مکھڑا نکل آیا۔ واہ واہ!!

کھانا خود بخود پک رہا ہے

دیکھنا بیوی آپ بیٹھی پکا رہی ہے ورنہ دراصل یہ کام میاں کا ہے۔ ہر چیز قرینے سے رکھی ہے۔ دھوئے دھائے برتن صندوق پر چنے ہیں تاکہ صندوق نہ کھل سکے۔ ایک طرف نیچے اوپر مٹی کے برتن دھرے ہیں۔ کسی میں دال ہے کسی میں آٹا کسی میں جو ہے۔ پھکنی اور پانی کا لوٹا پاس ہے تاکہ جب چاہے آگ جلائے جب چاہے پانی ڈال کر بجھا دے۔ آٹا گندھا رکھا ہے۔ چاول پک چکے ہیں۔ نیچے اتار کر رکھے ہیں۔ دال چولہے پر چڑھی ہے۔ غرضیکہ سب کام ہوچکا ہے لیکن یہ پھر بھی پاس بیٹھی ہے۔ میاں جب آتا ہے تو کھانا لا کر سامنے رکھتی ہے۔ پیچھے کبھی نہیں رکھتی۔کھانا کھا چکتا ہے تو کھانا اٹھا لیتی ہے۔ ہر روز یوں نہ کرے تو میاں کے سامنے ہزاروں رکابیوں کا ڈھیر لگ جائے۔ کھانے پکانے سے فارغ ہوتی ہے تو کبھی سینا لے بیٹھتی ہے کبھی چرخہ کاتنے لگتی ہے۔ کیوں نہ ہو؟ مہاتما گاندھی کی بدولت یہ ساری باتیں سیکھی ہیں آپ ہاتھ پاؤں نہ ہلائے تو ڈاکٹر سے علاج کروانا پڑے۔

دھوبی آج کپڑے دھو رہا ہے

بڑی محنت کرتا ہے شام کو بھٹی چڑھاتا ہے، دن بھر بیکار بیٹھا رہتا ہے۔ کبھی کبھی بیل پر لادی لادتا ہے اور گھاٹ کا رستہ لیتا ہے۔ کبھی نالے پر دھوتا ہے کبھی دریا پر تاکہ کپڑوں والے کبھی پکڑ نہ سکیں۔ جاڑا ہو تو سردی ستاتی ہے، گرمی ہو تو دھوپ جلاتی ہے۔ صرف بہار کے موسم میں کام کرتا ہے، دوپہر ہونے آئی، اب تک پانی میں کھڑا ہے۔ اسے ضرور سرسام ہوجائے گا۔ درخت کے نیچے بیل بندھا ہے۔ جھاڑی کے پاس کتا بیٹھا ہے۔ دریا کے اس پار ایک گلہری دوڑ رہی ہے دھوبی انھیں سے اپنا جی بہلاتا ہے۔

دیکھنا دھوبن روٹی لائی ہے۔ دھوبی کو بہانا ہاتھ آیا ہے۔ کپڑا پٹرے پر رکھ کر اس سے باتیں کرنے لگا۔ کتے نے بھی دیکھ کر کان کھڑے کئے۔ اب دھوبن گانا گائے گی دھوبی دریا سے نکلے گا دریا کا پانی پھر نیچا ہوجائے گا۔

میاں دھوبی! یہ کتا کیوں پال رکھا ہے؟ صاحب کہاوت کی وجہ سے اور پھر یہ تو ہمارا چوکیدار ہے۔ دیکھیے! امیروں کے کپڑے میدان میں پھیلے پڑے ہیں کیا مجال کوئی پاس تو آجائے۔ جو لوگ ایک دفعہ کپڑے دیے جائیں پھر واپس نہیں لے سکتے۔ میاں دھوبی! تمہارا کام بہت اچھا ہے۔ میل کچیل سے پاک صاف کرتے ہو۔ ننگا پھراتے ہو۔۔۔۔