Fort William College ki Khidmat in Urdu | فورٹ ولیم کالج کا قیام اور اغراض و مقاصد

0

فورٹ ولیم کالج

فورٹ ولیم کالج کا قیام اردو ادب کی تاریخ میں ایک اہم واقعہ ہے۔ اردو نثر کی تاریخ میں خصوصاً یہ کالج سنگ میل کی حیثیت رکھتا ہے۔ اگرچہ کالج انگریزوں کی سیاسی مصلحتوں کے تحت عمل میں آیا تھا تاہم اس کالج نے اردو زبان کے نثری ادب کی ترقی کے لئے نئی راہیں کھول دیں تھیں۔

سر زمین پاک و ہند میں فورٹ ولیم کالج مغربی طرز کا پہلا تعلیمی ادارہ تھا جو لارڈ ولزلی کے حکم پر 1800ءمیں قائم کیا گیاتھا۔ اس کالج کا اولین مرکز کلکتہ بنا۔فورٹ ولیم کالج کے محرکات خالصتاً ادبی نہیں بلکہ اس کے پسِ پشت کچھ سیاسی مقاصد بھی کارفرما تھے۔

دلی کی مرکزی حکومت جب کمزور ہوئی تو انگریزوں کے قدم یہاں مضبوطی سے جمنے لگے۔ تاجروں کے روپ میں آنے والے انگریز جب ہندوستان پر مکمل قابض ہوگئے تو انھیں یہاں کی مقامی زبان کو سیکھنے کی ضرورت پیش آئی جس مقصد کے لیے اس کالج کا قیام عمل میں لایا گیا۔ اس کالج کے قیام کا ایک مقصد تو کمپنی کے ملازمین کو ہندوستان کی معاشرت اور ہندوستانی زبان سے واقفیت دلانا تھا تو دوسری طرف اس کالج کے قیام کا ایک مقصد فارسی کی حاکمیت کم کرکے مسلمانوں کو ان کے مرکز سے ہٹانا بھی تھا۔ کیونکہ اس کالج کے تحت ذریعہ تعلیم ہندی (اردو) زبان کو ٹھہرایا گیا تھا۔

کالج کے قیام کا ایک مقصد تصنیفات کے ذریعے سے اس وقت کی ہندوستانی رعایا کے دلوں پر انگریزی حکومت کی شان و شوکت ، رعایا پروری اور علم دوستی کی دھاک بٹھانا بھی تھا۔ اس کالج کے تحت مطبوعہ کہانیاں ، تاریخ ، شاعری اور قانون جیسی اصناف میں گراں قدر اضافہ کیا گیا۔ اگرچہ اس کالج کے مقاصد سیاسی غرض لیے ہوئے تھے مگر اس سے بلواسطہ طور پر اردو زبان کو فائدہ حاصل ہو رہا تھا۔ جس سے اردو نثر کی ایک مؤثر تحریک نے جنم لیا۔

اس کالج کے ذریعے تعلیمی ضروریات کو پورا کرنے کے لیے کلاسیکی زبانوں کی مشہور اور مقبول کتابوں کو اردو میں منتقل کرنے کی کوشش کی گئی۔اس کالج میں لفظی ترجمے کی بجائے مفہوم کو اردو کے جامے میں ڈھالا گیا۔بہت سی کتابوں کے تراجم ہوئے جن میں کہیں سادگی و سلاست تو کہیں زبان غرابت کا شکار نظر آتی ہے۔ مجموعی طور پر فورٹ ولیم کالج کے ادیبوں نے ایک ایسی تحریک کو فروغ دیا جس نے اردو نثر کو ادبی اظہار کی راہ دکھانے کے ساتھ اردو زبان میں ایک عام فہم اسلوبِ نگارش کو رواج دیا۔

فورٹ ولیم کا کالج کا سیاسی پسِ منظر

سنہ 1757 میں سراج الدولہ اور انگریزوں کے درمیان پلاسی کی جنگ نے انگریزوں کو انڈیا میں پاؤں جمانے کا موقع فراہم کیا لیکن لارڈ کلائیو کی قیادت میں ہی بنگال کے نواب میر قاسم کے خلاف سنہ 1764 میں ہونے والی بکسر کی جنگ نے پورے بنگال پر ایسٹ انڈیا کمپنی کے اقتدار کو مستحکم کر دیا۔اس کے بعد ایسٹ انڈیا کمپنی نے محسوس کیا کہ انھیں یہاں ایسے لوگوں کی ضرورت ہے جو ان کے کام کاج کے انتظام و انصرام میں ان کی مدد کر سکیں اور اسی کے پیش نظر گورنر جنرل وارن ہیسٹنگس نے اکتوبر سنہ 1780 میں کلکتہ مدرسہ قائم کیا جسے بعد میں مدرسہ عالیہ کے نام سے جانا گیا۔اس کے کچھ عرصے بعد ایشیا ٹک سوسائٹی کا قیام عمل میں آیا۔

1798 میں جب لارڈ ولزلی ہندوستان کا گورنر جنرل بن کر آیا تو یہاں کے نظم و نسق کا جائزہ لینے کے بعد اس نتیجے پر پہنچا کہ انگلستان سے جو نئے ملازمین کمپنی کے مختلف شعبوں میں کا م کرنے یہاں آتے ہیں وہ کسی منظم اور باقاعدہ تربیت کے بغیر اچھے کارکن نہیں بن سکتے۔

لارڈ ولزلی کے نزدیک ان ملازمین کی تربیت کے دو پہلو تھے ایک ان نوجوان ملازمین کا علمی اضافہ کرنا اور دوسرا ان کو ہندوستانیوں کے مزاج اور ان کی زندگی کے مختلف شعبوں ان کی زبان اور اطوار طریقوں سے واقفیت دلانا۔ پہلے زبان سیکھنے کے لئے افسروں کو اناونس دیا جاتا تھا لیکن اس سے کوئی خاطر خواہ نتائج برآمد نہیں ہو سکے تھے اس لئے جب لارڈ ولزلی گورنر جنرل بن کر آئے تو اُنھوں نے یہ ضروری سمجھا کہ انگریزوں کو اگر یہاں حکومت کرنی ہے تو اس کا تقاضا یہ ہے کہ کمپنی کے ملازمین کا مقامی زبانوں اور ماحول سے آگاہی کے لئے تعلیم و تربیت کا باقاعدہ انتظام کیاجائے۔

ان وجوہات کی بناء پر ولزلی نے کمپنی کے سامنے ایک کالج کی تجویز پیش کی۔ کمپنی کے کئی عہداروں اور پادرویوں نے اس کی حمایت کی۔ اور اس طرح جان گلکرسٹ جو کہ ہندوستانی زبان پر دسترس رکھتے تھے۔ جو بعد ازاں فورٹ ولیم کالج کے شعبہ ہندوستانی کے پہلے صدر مقرر ہوئے تھے انھوں نے انڈیا ، کلکتہ اور شمالی ہند میں کافی عرصہ گزارنے کے بعد یہ محسوس کیا کہ اس ملک میں ایک زبان ایسی ہے جو پورے شمالی ہندوستان میں بولی اور سمجھی جاتی ہے اور اسے انھوں نے ‘ہندوستانی’ زبان کا نام دیا۔

اس وقت اردو یا ہندی کا علیحدہ علیحدہ تصور موجود نہ تھا۔یوں اس وقت اسی زبان کو ذریعہ تعلیم بنایا گیا۔لارڈ ولزلی نے کمپنی کے اعلیٰ حکام سے منظوری حاصل کرکے 10 جولائی 1800 میں فورٹ ولیم کالج کلکتہ کے قیام کا اعلان کیا۔ لیکن اس شر ط کے ساتھ کہ کالج کا یوم تاسیس 4 مئی 1800 تصور کیا جائے۔ لارڈ ولزلی کی کوششوں سے جس کالج کا قیام عمل میں لایا گیا اس نے اردو کے سرمائے میں بہت اضافہ کیا۔ ذیل میں کالج کی ادبی خدمات کا جائزہ پیش کیا گیا ہے۔

فورٹ ولیم کالج کی ادبی خدمات:

فورٹ ولیم کالج نے اردو ادب کی بے پناہ خدمت کی اور اس ادبی جہت کا نمائندہ اور اہم ترین کردار ڈاکٹر گلکرسٹ ہے۔ گلکرسٹ نے اپنی ذاتی کوششوں سے اردو زبان سیکھی اس کو اردو ادب سے اتنی دلچسپی نہ تھی۔لیکن اردو زبان کی قواعد اور لغت کو مرتب کرنے کا ارداہ کیا۔1887ء میں ہندوستانی لغت کا مسودہ تیار کیا۔ دو سال بعد دوسری کتاب ہندوستانی زبان کے قواعد چھپی۔ اس کے بعد ضمیمہ ہندوستانی لسانیات منظر عام پر آئی۔

ان کتابوں کی اشاعت سے اسے ہندوستانی زبان کے ماہر کی حیثیت حاصل ہو گئی۔ولزلی نے انگریز افسروں کی تعلیم کے سلسلے میں سب سے زیادہ اسی سے استفادہ کیا۔ کالج کے قیام کے وقت آپ کو یہاں ہندوستانی زبان کا پروفیسر بھی مقرر کیا گیا۔گلکرسٹ نے اس سلسلے میں اردو زبان ،نصابی کتب کی ترتیب اور مدرسوں کے انتظام جیسے مسائل کی طرف توجہ دی۔گلکرسٹ نے کتابوں کی اشاعت کے سلسلے میں بھی اہم کرادر ادا کیا۔

ایک وقت آیا کہ گلکرسٹ نے کتابوں کی اشاعت کے اخراجات اپنی ذاتی جیب پر برداشت کیے۔گلکرسٹ کالج سے چار سال تک وابستہ رہا مگر اپنی ذاتی کوششوں سے اس نے اردو دانوں کی ایک اچھی جماعت پیدا کردی اور ایسی قابل قدر کتابیں آنے والی نسلوں کے استفادے کے لیے ورثے کے طور پر چھوڑیں۔

فورٹ ولیم کالج نے جو ادب تخلیق کیا اس میں عوامی دلچسپی کو فوقیت دی اور قصوں اور کہانیوں کو ادب میں پیش کرنے کا بیڑہ اٹھایا۔ یہیں سے داستان گوئی کے فن کو بھی فروغ حاصل ہوا۔ گلکرسٹ کے بعد جس ادیب کا نمایاں کام ملتا ہے وہ میر بہادر علی حسینی ہیں۔انھوں نے درس و تدریس کے علاوہ تصنیف و تالیف کا کام بھی کیا۔ان کا شمار گلکرسٹ کے قریبی لوگوں میں کیا جاتا تھا۔ آپ دیگر مصنفین کی کتابوں کی تصحیح اور نگرانی کا کام بھی کرتے تھے۔ آپ کا اہم کارنامہ مثنوی سحر البیان کو نثر بے نظیر میں ڈھالنا ہے۔

حسینی نے گلکرسٹ کے رسالہ قواعد زبان کو مرتب کیا اور ہتو پردیش کا ترجمہ اخلاق ہندی کے نام سے کیا۔ فورٹ ولیم کالج کو میر امن جیسا ادیب بھی حسینی کی وساطت سے ملا۔ دوسرے ادیبوں کی نسبت میر امن کی تصنیفات کی تعداد کم ہے۔ ان کی گنج خوبی کو کچھ زیادہ مقبولیت نہ ملی۔ لیکن اس کالج سے شائع ہونے والوں کتابوں میں ”باغ و بہار“ ایک زندہ جاوید کتاب ہے۔ فورٹ ولیم سے شائع ہونے والی کتابوں میں ‘قصہ چہار درویش’ کو میر امن نے سلیس ٹکسالی یعنی دہلوی زبان میں لکھا جو کہ ‘باغ وبہار’ کے نام سے آج بھی سکول اور کالجوں کے نصاب میں شامل ہے۔

حیدر بخش حیدری نے فورٹ ولیم کے تحت سب سے زیادہ کتب مرتب کیں۔ نصاب کی کتب کا انگریزی ترجمہ بھی کیا۔ ان کی مشہور کتابوں میں آرائش محفل ، تاریخ نادری ، گلزارِ دانش ، تذکرہ گلشنِ ہند اور ہفت پیکر وغیرہ شامل ہیں۔

میر شیر علی افسوس کی ‘آرائش محفل’ ایک ہندوستانی شاہی خاندان کی کہانی ہے نہ کہ حاتم طائی کی۔ اسی طرح انھوں نے سعدی کی تصنیف گلستان کا ترجمہ ‘باغ اردو’ کے نام سے کیا۔ کالج میں نثری کی ایک قسم فارسی اور عربی کے زیرِ اثر پروان چڑھی جس کے نمائندہ مرزا علی لطف اور مولوی امانت اللہ تھے۔

مرزا علی لطف نے گلزار ابراہیم کا ترجمہ اضافوں کے ساتھ کیا۔ہندی اور سنسکرت کے زیر اثر اسلوب کا نمائندہ کاظم علی جوان ہے جس نے کالی داس کی کتاب شکنتلا کا ترجمہ کیا۔ اس کے علاوہ بیشتر مصنفین نے مشکل اسلوب کو قبول کرکے اس میں تصنیف وتالیف کا کام کیا جن میں سید اعظم علی اکبر آبادی کی کتاب فسانہ سرور افزا اور رجب علی بیگ سرور کا فسانہ عجائب وغیرہ قابلِ ذکر ہیں۔

اس کے علاوہ دیگر اہم کتب میں میر امن کی اخلاقیات پر تصنیف کردہ کتاب ‘اخلاق محسنی’ اور غلام اشرف کی ‘اخلاق النبی’ اہمیت کی حامل ہیں۔ شاکر علی نے داستان الف لیلیٰ رقم کی جبکہ مولوی امانت اللہ کی کتاب ‘ہدایۃّ الاسلام’ بھی قابل ذکر ہیں۔

خلیل علی خان کی ‘داستان امیر حمزہ’ اور حیدر بخش حیدری کی ‘آرائش محفل’ آج بھی بہت سے اداروں میں مکمل یا جزوی طور پر شامل نصاب نظر آتی ہیں۔اسی طرح وہاں دیوناگری میں للو لال کی تصنیف پریم ساگر اور مظہر علی خان کی بیتال پچیسی بھی سامنے آئیں۔

مجموعی طور پر دیکھا جائے تو فورٹ ولیم کالج کی نثر کے اثرات محض کالج تک محدود نہ رہے بلکہ دور دور تک پھیلے اور اس نے منفی ردعمل کے اثرات کو بھی مثبت طور پر قبول کیا۔ بلاآخر 1905ء میں ولزلی کی لندن واپسی سے ایک سال قبل گلکرسٹ کی سبکدوشی کے بعد بھی یہ کالج چل تو رہا تھا مگر بہت جلد اس کی تحریک ماند پڑنے لگی۔ گلکرسٹ کے بعد ٹامس رولک ، جوزف ٹیلر ، ڈاکٹر ولیم اور ہنٹر جیسے اساتذہ اس کالج سے وابستہ تو رہے مگر کام کی رفتار پہلے سی نہ رہی۔ مختصراً یہ کہا جاسکتا ہے کہ اس تحریک کا شمار اور یہ ادارہ اردو کے جان دار متحرک ادروں میں شمار ہوتا ہے۔

خود آموزی کے سوالات:

  • فورٹ ولیم کالج کا قیام کب عمل میں لایا گیا؟
  • کس نے فورٹ ولیم کالج کے قیام کی تجویز پیش کی؟
  • کس نے مقامی زبان کو سیکھنے کی ضرورت کو سب سے پہلے محسوس کیا؟
  • فورٹ ولیم کالج کے شعبہ ہندوستانی کے پہلے صدر کون تھے؟
  • ڈاکٹر گلکرسٹ نے اردو میں کس حوالے سے نام پیدا کیا؟
  • ڈاکٹر گلکرسٹ کی کتب کے نام تحریر کریں۔
  • فورٹ ولیم کالج کا سیاسی پس منظر مختصراً بیان کریں۔
  • فورٹ ولیم کالج کے قیام کے مقاصد مختصراً لکھیں۔
  • فورٹ ولیم کالج کے تحت سب سے زیادہ کتب مرتب کرنے کا سہرا کس کے سر ہے؟
  • فورٹ ولیم کالج نے کس طرح کے نثری ادب کو پروان چڑھایا؟