Mabad Jadidiyat in Urdu | اردو ادب میں مابعد جدیدیت

0

مابعد جدیدیت کی تعریف اور پسِ منظر

جدیدیت کی جگہ جس تحریک نے لی اسے ما بعد جدیدیت کہتے ہیں۔ انگریزی میں اس کے لیے پوسٹ ماڈرنزم کی اصطلاح استعمال کی جاتی ہے۔ زمانی طور پر جدیدیت کے بعد کا زمانہ تحریکیں ،ادبی رجحانات اور تنقیدی فکر جو جدیدیت کے بعد آئی اسے مابعد جدیدیت کہا جا تا ہے۔

مابعد جدیدیت بطور ایک تنقیدی فکر کے جدیدیت کے بعد آئی۔ مغرب میں اس کا آغاز 1950ء کی دہائی میں ہوا ہمارے ہاں مابعد جدیدیت کا آغاز 1980 ء کی دہائی میں ہوتا ہے۔ مابعد جدیدیت کا جدیدیت سے تاریخی اور فکری تعلق ہے لیکن مابعد جدیدیت کا دائرہ کار اس سے وسیع ہے۔ ڈاکٹر ناصر عباس نیئر ما بعد جدیدیت کے آغاز کے حوالے سے یوں رقم طراز ہیں:
” ما بعد جدیدیت سے اردو تنقید کا تعارف نوے کی دہائی میں ہوا، مگر ما بعد جدیدیت کے مباحث کے لیے سازگار فضاء قائم کرنے کا کام ساختیات نے اسی کی دہائی میں انجام دے رکھا تھا۔ جب ہمارے ہاں ساختیات پر بحث و گفتگو ہورہی تھی تو مغرب میں مابعد جدیدیت پر مکالمہ اپنے عروج پر تھا۔ یوں ہمارے ہاں مابعد جدیدیت سے وابستہ مسائل و مباحث نسبتاً تا خیر سے آئ اور کچھ لوگوں کو یہ کہنے کا موقع ملا کہ یہ مغرب کے چبائے ہوئے نوالے ہیں مگر حقیقت یہ ہے کہ ہر ثقافت میں نئے مباحث کے شروع اور قائم ہونے کا ایک خاص وقت ہوتا ہے۔”

مغربی تہذیب اپنے مادی مظاہر اور فکری رویوں سمیت ایک نئے اور مختلف مرحلے میں داخل ہونے کا نام ما بعدجدیت تجویز کیا گیا ہے۔ مابعد جدیدیت اپنی اصل میں مغربی فینومنا ہے۔مگر چوں کہ دنیا چاہتے یا نہ چاہتے ہوئے مغرب سے متاثر ہے اس ہے اس مفہوم میں مابعد جدید صورت حال بھی ہے۔ ما بعد جدیدیت کا لفظ سب سے پہلے انگریز مصور جان وٹیکنز چیپ مان نے 1970ء میں استعمال کیا۔ اس کے بعد مختلف مفکرین نے اس لفظ کو استعمال کیا۔

1979ء میں لیوتار نے اس کی وضاحت کرنے کے بعد اسے جامعات تک عام کیا۔ مابعد جدیدیت کے دو زاویے سامنے آتے ہیں۔ اول جو عام ہے اور ہمارے اردگرد ملتا ہے۔جس میں صارفیت ، عالمگیریت اور میڈیا وغیرہ شامل ہیں جبکہ مابعد جدیدیت ثانی اپنے فکری پوٹینشل کے ساتھ 1980ء کی دہائی میں زیر بحث آئی۔ اس کے ابتدائی نقوش کریگارڈ اور نطشے کے ہاں نظر آتے ہیں۔ نطشے کی نہنزم (عدمیت) کو مابعد جدید فکر کی زنجیر کی اہم کڑی تسلیم کیا گیا۔ نطشے کا موقف ہے کہ مادی دنیا کی اقدار اس کی اپنی سچائی سے طے ہونی چاہیں۔ نطشے خدا کی موت کا اعلان بھی کرتا ہے۔

مابعد جدیدیت کی سب سے بڑی دین سماجی تشکیل کی فکر ہے۔ جس کے مطابق ہر شعبہ فکر کی اپنی زبان ہے جو سماجی تفاعل سے وجود میں آتی ہے۔ مابعد جدیدیت میں تکثریت، عدم تعین اور اضافت کا نقطہ نظر دریدا کی دین ہے۔ دریدا کے نزدیک معنی کی کثرت متن پر مسلط نہیں ہوتی بلکہ یہ ایک لسانی قوت ہے جو زبان کی بنیادی خصوصیت ہے۔ مابعد جدیدیت میں پیراڈیم ہے اور ان کا ہر تجربہ مقامی ہے جو اپنے ہی تناظر میں قابل عمل اور قابل فہم ہے۔ مختصراً مابعد جدیدیت زندگی ، ثقافت اور تاریخ کے سب پہلوؤں کو سمجھنے میں مدد دیتی ہے۔

مابعد جدیدیت اور ادب:

ما بعد جدیدیت میں ادب، آرٹ، فن، تعمیر، موسیقی ،عمرانیات ،سیاست ،مذہب فیشن جیسے موضوعات اور شعبے شامل ہیں۔ مابعد جدیدیت ثقافت کو زیادہ موضوع بناتی ہے۔ کسی ملک وقوم کی روایت ، زندگی اور عادات سے ثقافت صورت پذیر ہوتی ہے۔ مابعد جدیدیت کی رو سے کوئی بھی ادب ہو وہ اپنی ثقافت کا عکاس ہوتا ہے۔ لہٰذا ادب کو اسی تناظر میں دیکھناضروری ہے۔

مابعد جدید تنقید میں مطالعے کا طریق کار اور مقصد آئیڈیالوجی اور اقدار سے وابستہ ہے یعنی کسی بھی متن کا مطالعہ مائیکرومیکرو، یک زمانی ہو یا دو زمانی ، نفسیاتی ہو یا سماجی قدر یا آئیڈیالوجی کی اہمیت سے انکار نہیں کر سکتا۔ اس انداز تنقید میں زندگی کے مختلف شعبوں اور معاشرے کے مختلف نظریات کو مد نظر رکھ کر ادب کا تجز یہ پیش کیا جا تا ہے۔ اسی لیے یہ ایک وسیع انداز نقد ہے اس میں انتہا پسندی اور اجارہ داری کو کوئی دخل نہیں بلکہ حقیقت کو ایک سے زیادہ زاویوں سے سمجھا جا سکتا ہے لیکن یہی متنوع صورت حال کو دریافت نہیں کرتی اسی لیے ما بعد جدیدیت نے جدیدیت کے نظریات کو وسعت بخشی۔ تاہم مابعد جدیدیت کی ادبی اور ثقافتی اصطلاح حتمی طور پر جدیدیت کے خلاف کسی ردعمل کو سامنے نہیں لاتی بلکہ ایسا بھی ہوا ہے کہ جدیدیت کے زیر اثر ابھرنے والے بعض رویوں نے جو ادب تخلیق کیا وہ بھی بعد میں مابعد جدید یت کہلایا۔

ما بعد جدیدیت کا تعلق معاشرے کی ثقافت سے ہے اسی لیے اس میں نظریات کی کثرت موجود ہے۔ اس کا کوئی ایک مستند متن نہیں بلکہ یہ مرکزیت کے خلاف ہے۔ پہلا مرکزیت اور تکثیریت کا پرچار کرتی ہے۔ مابعد جدیدیت نے اسی لیے معروضی صداقت پر سوالات اٹھائے اسی وجہ سے بعد میں آنے والے تمام نظریات میں ہمیں معروضیت کی صداقت دکھائی دیتی ہے۔ چوں کہ اس نے مقامی اور تہذیبی حوالوں سے متن کے تجزیے پر زور دیا اسی لیے اس میں داستانوں، نسلی قصوں اور دیو مالاؤں کی معنویت بھی بڑھ گئی ہے۔

مابعد جدیدیت نے جو زبان کا جواز دیا ہے اس حوالے سے کہتی ہے کہ زبان میں جو تمام اسمائے ضمیر ہوتے ہیں (ضمیر فاعلی ضمیر مفعولی ) نام اس لیے رکھتے ہیں کہ نام کے اندر معنی کی اہمیت ہوتی ہے۔ مابعد جدیدیت کے نقطہ نظر کے مطابق انسان خود مختارنہیں کیوں کہ زبان پر ساری زندگی اس کا اظہار رہتا ہے۔

مابعد جدیدیت میں بین المتونیت پائی جاتی ہے۔ مابعد جدیدیت نے کہا کہ ادب میں مصنف زیادہ اہم نہیں ہے کیوں کہ خود مصنف کی شناخت خود اپنے زمانے کے نظریات علم اور بیانیہ پر منحصر ہوتی ہے اگر مصنف دوسروں پر انحصار کر رہا ہے تو لہذا وہ خود مختار نہیں ہے۔ مصنف اہم نہیں ہے چوں کہ وہ خود مختارنہیں ہے، مابعد جدیدیت یہ کہتی ہے کہ مصنف کی موت واقع ہو جاتی ہے۔ ادب میں ہمارے لیے مصنف اہم نہیں ہے بلکہ متن زیادہ اہم ہے۔ مصنف خود اہم نہیں ہے بلکہ جن چیزوں کی پیداوار ہے وہ اہم ہیں۔

جدیدیت کے نزدیک مصنف دنیا جہاں سے الگ نہیں ، جو زمانے سے آگے نہیں ہے۔ مابعد جدیدیت کہتی ہے کہ ہر شے اپنے زمانے سے آگے نہیں ہوتی وہ اپنے زمانے کے کلچر سے وابستہ ہوتی ہے۔ دنیا کا کوئی آدمی اپنے زمانے سے پیچھے نہیں ہوتا۔ مابعد جدیدیت نے مصنف کے پیغمبرانہ منصب کو معزول کیا۔ کلامی، نقطہ ارتقاء یہ سب باتیں مابعد جدیدیت کا موضوع ہیں۔

مابعد جدیدیت کے تناظر میں روایت کو بھی اہمیت حاصل ہے۔ ما بعد جدیدیت کسی ایک وحدانی نظریے کا نام نہیں بلکہ مابعد جدیدیت اصطلاح کا احاطہ کرتی ہے۔ مختلف بصیرتوں اور ذہنی رویوں کا جن سب کی تہہ میں بنیادی بات تخلیق کی آزادی اور معانی پر بٹھائے ہوئے پہرے یا اندرونی اور بیرونی دی ہوئی لے کورد کر نا ہے۔ یہ نئے ذہنی رویے نئی ثقافتی اور تاریخی صورت حال بھی ہے یعنی جدیدیت کے بعد مابعد جدیدیت کہلائے گا لیکن اس میں جدیدیت سے انحراف بھی شامل ہے جواد بی بھی ہے اور آئیڈیا لوجیکل بھی ہے۔

ما بعد جدیدیت بیک وقت کئی روپ دھارے ہوئے ہے۔ مابعد جدیدیت میں کثرت تعداد تنوع اور لامرکزیت کے جن عناصر کا ذکر بار بار ہوتا ہے وہ ما بعد جدیدفکر میں بھی موجود ہیں۔ موجودہ ثقافتی حالات میں بھی اس اعتبار سے مابعد جدیدیت کی تھیوری صورت حال کا عکس بھی ہے۔ ما بعد جدیدیت صارفیت، عالمگیریت اور میڈیا پر بات کرتی ہے۔ یہ صارفیت ، اشیاء اور پیدوار پر توجہ دیتی ہے۔ صارفیت کا براہ راست تعلق صنعتی عہد اور سرمایہ داری سے ہے۔ صنعتی عہد کی پہلی صدی کا فکری رشتہ جدیدیت ہے۔ صنعتی عہد اور صارفیت کے کلچر میں تاہم فرق بھی ہے کہ اول الذکر اشیاء کی پیداوار پر، مگر آخرالذکر اشیاء صرف پرزور دیتا ہے۔ شے بجائے خود اہم نہیں رہی اس کی اہمیت اس کے صرف اور معاشی قدر کے وسیلے سے ہے۔ صارفیت کے کلچر نے ہر شے کو کموڈیٹی میں بدل دیا ہے۔ ہر قدر نظر یے، پیشے، شخص سب پر برائے فروخت لکھ دیا گیا ہے۔

مابعد جدیدیت اور اردو افسانہ

اردو افسانے میں کئی نام ابھرے ہیں جو مابعد جدیدیت کے حوالے سے اہمیت کے حامل ہیں۔ جدیدیت سے نجات اور اپنی آواز خود پیدا کر نے نیز ان کی شناخت کرانے کا حوصلہ نئے افسانہ نگاروں کے ہاں ایک روشن لکیر ہے۔ انتظار حسین ، نیئر مسعود، عابد سہیل ، رضوان احمد، سریندر پرکاش ،شوکت حیات، انجم عثانی ،انیس رفیع ، رشید امجد ،انور سجاد، اسد محمد خان جیسے افسانہ نگاروں کے ہاں مابعد جدیدیت کے آثار دکھائی دیتے ہیں۔

مابعد جدید افسانے نے کرداروں کو ان کے چہرے واپس کئے ہیں۔ ان کے ہاتھوں اور پیروں میں پڑی ہوئی بیڑیوں کو توڑا ہے، انہیں زندگی کی آزاد فضا میں از خودنقل و حرکت کا موقع فراہم کیا ہے، ان کے چہروں کے طبقاتی اور ثقافتی بیک وقت دونوں تشخص کے نشانات کو فوکس کیا ہے۔ مابعد جدید افسانہ دائرے سے کہیں کچھ چھوٹتا نہیں اور جو کچھ چھوٹتا ہے وہ از کارفتہ اورتخلیقی طور پر غیرآمد ہوتا ہے۔

نیئر مسعود کی بات کی جائے تو انھوں نے اجتماعی زندگی کے کسی بھی پہلو کونظرانداز نہیں کیاہے۔ ان کے شعور کا محور انسان کی اجتماعی ماضی نہیں اس کا اجتماعی حال اور زوال ہے۔ ان کے نمائندہ افسانوں میں ’ سلطان منظر کا واقعہ نویس ‘ ’ طاوس چمن کی مینا‘ ’ بڑا کوڑا گھر‘ اور’ مراسلہ‘ شامل ہے۔ اس ضمن میں’ سلطان مظفرکا واقعہ نویس‘ کافی دلچسپ، طویل اور نئے موضوع کی جانب اشاریہ ہے۔

شوکت حیات ایک معروف افسانہ نگار ہیں۔ ان کی نگاہیں سیاسی احوال وکوائف کے باب میں ہمیشہ کھلی رہتی ہیں۔ نتیجے میں وہ ان تمام ناہمواریوں کی خبر رکھتے ہیں جن سے انسان کی زندگی عبارت ہے۔ لیکن ایسی ناہمواریوں کا سبب بھی انسان ہے، کوئی ماورائی صورت نہیں۔ چونکہ مابعد جدیت ایسے تمام نا گفتہ مظاہر کو نشانہ بناتے ہوئے خوشگوار اور متوازن زندگی کی جویا ہے اس لئے شوکت حیات کی اکثر تخلیقات جدید تر رویہ کی نشاندہی کرتے ہوئے مثبت زندگی کا اشارہ بن جاتے ہیں۔ ان کے افسانوں میں’ بکسوں سے دبا آدمی‘’ سیاہ چادریں اور انسانی ڈھانچہ‘، اور’ تین مینڈک‘ بہترین علامتی افسانے ہیں لیکن انہوں نے افسانہ’ بانگ‘ میں تخلیق روایت سے انحراف کیا۔ ان کا افسانہ’ فرشتے‘ مابعد جدید کا نمائندہ افسانہ ہے جس میں افسانہ نگار نے یہ دکھانے کی کوشش کی ہے کہ کس طرح نحیف شخص حالات سے مسلسل ٹکرا رہا ہے۔ بگڑے ہوئے حالات کے آگے سپرنہیں ڈال دیتا۔ ان کی اصلاح کے لئے دانشوری کی راہ اپناتا ہے۔

شفیع جاوید کا اپی ٹاپ، شفع مشہدی کا شونا رہزین،انیس رفیع کا’ سات گھڑے پانیوں والی عورت ‘ پیامبر، ریڑھ کی ہڈی، ساتواں بوڑھا، ذکیہ مشہدی کے افعی، اجن ماموں کابیٹھکہ، محمد مظہر الزماں خان کا’ گلدار‘ ’سوانح حیات‘ ’ دستاویز‘، طارق چھتاری کا ’ باغ کا دروازہ‘ ،’منیم پلیٹ‘ ’ پہیہ‘، سید محمد اشرف کا ’آدمی‘ ’ وہ ایک لمحہ‘ ’ڈار سے بچھڑے‘، ساجد رشید کا ’ زندہ درگور ‘ ’نخلستان میں کھلنے والی لڑکی‘، خالد جاوید کا ’ کو بڑ‘ ’پیٹ کی طرف مڑے ہوئے گھٹنے وغیرہ ایسے افسانے ہیں جو مابعد جدیدیت کا رنگ لیے ہوئے ہیں۔ بحثیت مجموعی مابعد جدیدیت کے رجحان نے شاعری ناول اور دیگر اصناف سخن کے ساتھ ساتھ اردو افسانے پر بھی اپنے نمایاں اثرات مرتب کیے ہیں۔

سوالات:

  • مابعد جدید فکر سے کیا مراد ہے؟
  • مابعد جدید فکر کس رویے کی ضد ہے؟
  • مابعد جدید کے مطابق متن کا اصل مفہوم کہاں موجود ہوتا ہے؟
  • مابعد جدیدیت کے مطابق قاری کی کیا اہمیت ہے؟
  • مابعد جدیدیت کے دو بڑے زاویے کون سے ہیں؟
  • مابعد جدید لکھنے والوں کے نام بیان کریں؟