Darul Tarjuma Usmania in Urdu | دارالترجمہ عثمانیہ کا پس منظر اور ادبی خدمات

0

پسِ منظر:

دارالترجمہ عثمانیہ اس سر زمین پر قائم ہوا جہاں کی اپنی ادبی روایات تاریخ کے صفحات پر اہم اور نمایاں مقام رکھتی ہیں۔ یہ وہ جگہ ہے جہاں 1328ء میں بہمنی خاندان نے اپنی خود مختاری کا اعلان کیا اور ایک ایسے تمدن کی تعمیرشروع کی جس میں یہاں کی تہذیب ومعاشرت اور ادب دسیاست کے نمایاں خط و خال بنائے ہیں۔ ان حکمرانوں نے اپنے دور حکومت میں اردو زبان کی ترقی و تریج کے لیے پورے دکن میں اُردو کے مرکز قائم کیے۔

بہمنیوں نے علم وفضل اور شعر و سخن کی ایک ایسی فضا پیدا کر دی جسے بعد کے سلاطین نے مزید فروغ دیا۔ عہد بہنی اور اس سے قبل صوفیائے اکرام نے بھی اپنا پیغام محبت دکن کے مختلف علاقوں میں اردو زبان میں پہنچایا۔ شیخ عین الدین گنج العلم، خواجہ بندہ نوازگیسودراز شمس العشاق شاہ میراں جی اور برہان الدین جانم نے تصوف سے متعلق چند محتقر نظم و نثر میں رسالے تصنیف کیے۔

جب بہمنی سلطنت کمزور ہوگئی تو دکن میں پانچ نئی سلطنتیں وجود میں آئیں۔ یہ سلطنتیں بیجاپور میں عادل شاہی گولکنڈہ میں قطب شاہی ، احمد نگر میں نظام شاہی، برار میں عمادشاہی اور بیدر میں بریدر شاہی کے نام سے قائم ہیں۔ عادل شاہی عہد 1390 ۶ تا 1486ء پرمشتمل ہے۔ عادل شاہی حکمراں صاحب ذوق تھے اس خاندان کے حکمرانوں نے جو خاص اردو زبان کے فروغ کے لیے خدمات انجام دیں ان میں ابراہیم عادل شاہ اول ( عادل شاہی حکمرانوں کا چوتھا فرمانروا ) نے پہلی مرتبہ اردوزبان کو سرکاری زبان کا منصب عطا کیا۔

اسی عہد میں ابوالقاسم فرشتہ نے اپنی مشہور کتاب ” تاریخ فرشتہ“ کے نام سے قلمبند کی۔ اس خاندان کے چھٹے حکمراں ابراہیم عادل شاہ ثانی نے ” نورس“ تصنیف کی۔ نورس میں گیت لکھے گئے ہیں جو راگ راگنیوں میں گائے جاتے ہیں جو اس بات کا ثبوت ہے کہ بادشاہ وقت موسیقی کا شائق ، ماہر اور پارکھ تھا۔ اسی طرح دیگر حکمران بھی ادب اور فنون کے دلدادہ تھے۔

ریاست حیدر آباد کی تاریخ میں نواب افضل الدولہ کا عہدہ اس لیے اہم ہے کہ میر تراب علی خاں سالار جنگ شجاع الدولہ مختار الملک نے بحیثیت وزیراعظم بیرون دکن سے قابل افراد کو جو نظم و نسق کی اعلی صلاحیتیں رکھتے تھے ان کو حیدر آباد بلایا جن کی کوششوں سے تمام شعبے ترقی کرنے لگے۔ ریاست کی تعلیمی حالت کو بہتر اور اسے ضروریات کے مطابق بنانے کے لیے 1855ء میں سالار جنگ نے دارالعلوم کی بنیاد ڈالی۔

1887ء میں سٹی ورناکلر اسکول قائم ہوا۔ 1861ء میں سول انجینرنگ کی تعلیم کے لیے ایک اسکول کھولاگیا۔ 1872ء میں چادر گھاٹ ور ناکلر اسکول قائم کیا جہاں مدراس یونیورسٹی کے میٹرک کا امتحان ہوتا تھا۔ سر سالار جنگ اول اور شمس الامراء امیر کبیر کی ریجنسی قائم ہوئی۔ سالار جنگ اول نے بحیثیت وزیراعظم جو اہم کارنامے انجام دیے ان میں سے چند یہ ہیں۔

انہوں نے لگان کے انتظام کو درست کیا تا کہ خزانہ کی آمدنی میں اضافہ ہو۔ انتظامی امور کے پیش نظر ریاست حیدرآباد کو پانچ صوبوں چودہ ضلعوں اور تہتر تحصیلوں میں تقسیم کر دیا۔ سلطنت کے انتظام کے لیے جامع قانون بنائے اور پہلی مرتبہ 1893ء میں تحریری دستور اساسی قانونچہ مبارک“ کے نام سے مرتب کر کے نافذ کیا۔ مجلس مملکت کے زیر اثر عدالتی انتظام کو بہتر بنایا تاکہ انصاف میں تاخیر نہ ہو۔ پولیس کی جد میر تنظیم کرائی۔ جنگلات ، ڈاک ، صفائی ، تعمیرات اور طباعت کے محکموں کو بہتر بنایا۔ نظام حیدر آباد کی اردو زبان سے دلچسپی اور اس کو فروغ دینے کی ہر ممکن خواہش پر مبنی تھا۔ یہی وجہ ہے کہ ان کے دور حکومت میں اردو زبان کو جو عروج حاصل ہوا تاریخ میں اس کی مثال نہیں ملتی۔

عثمانیہ کا قیام و مقاصد:

حیدرآباد میں جامعہ کے قیام کے لیے 1917ء میں ایک عرضداشت پیش کی گئی۔ جس میں متجانس تعلیم کے اثرات بھی پیش کیے گئے اور اس کے ساتھ ہندوستان اور بیرون ہندوستان کے اکابرین کی آرا کو پیش کیا گیا۔ملک میں ایک ہی زبان یعنی اردو کو ذریعہ تعلیم بنانے کا خیال پیش کیا گیا۔ اس جامعہ عثمانیہ کے بنانے کا مقصد مذہبی ، اخلاقی ، ادبی ، فلسفی ، طبعی ، تاریخی ، طبعی ، قانونی ، زراعتی ، تجارتی اور دیگر اعلیٰ علوم کو سکھانا اور ان میں ترتیب و ترقیات کا انتظام کرنا تھا۔

ادارے کے قیام کا ایک مقصد یہ بھی پیش کیا گیا کہ تمام جملہ علوم کی تعلیم اردو زبان میں دی جائے گی لیکن اس کے ساتھ ساتھ انگریزی زبان و ادب کی تعلیم بھی لازمی ہو گی۔ اس منشور کی منظوری کے بعد جامع میں باضابطہ تعلیم کا آغاز 17 اگست 1919ء کو ہوا۔جس میں عمائدین ، معززین ،حکام کے ساتھ ساتھ طلبہ کی بڑی تعداد نے بھی شرکت کی۔اس کے افتتاحی جلسے کی صدارت صدر یار جنگ حبیب الرحمن شیروانی نے کی۔جامعہ عثمانیہ کے پہلے امیر جامعہ بھی نواب صدر یار جنگ مقرر۔

جامعہ کے قیام کا بنیادی مقصد جس پر تعلیم کا دارومدار تھا وہ یہ کہ دیگر زبانوں کے علوم و فنون کو اردو میں منتقل کرنے کا کام کیا جائے۔ جامع کی تعلیم کا ذریعہ چونکہ اردو زبان رکھا گیا تھا اس لیے دیگر علوم کی سائنسی کتابوں کے ترجمے کے لیے ایک شعبہ تراجم و تالیف کا قائم کیا گیا۔ جس کو دارالترجمہ کا نام دیا گیا۔ اس کے ساتھ اس شعبہ کی مجالس اور وضع اصطلاحات کا کام بھی عمل میں لایا گیا۔

جامعہ عثمانیہ کے شعبہ جات فنون و سائنس:

اس ادارے میں انگریزی ، اردو ، فارسی ، سنسکرت، تلنگی ، مرہٹی ، معاشیات ، تاریخ ، فلسفہ ، دینیات ، قانون ، تجارت ،جغرافیہ ، سیاسیات ، تدریس، ریاضی ، طبیعیات ، کیمیا ، حیاتیات ، زراعت ، انجینئرنگ ، طب ، عضویات ، علم الادویات ، جراحت ، امراض چشم وغیرہ کے شعبے قائم کیے گئے۔

دارالترجمہ عثمانیہ کا قیام:

جامعہ کے قیام کے بعد اردو کو ذریعہ تعلیم بنانے کے لیے ہر شعبے کی کتابوں کے ترجمے کی ضرورت تھی۔ اس ترجمے کے عمل کو عملی جامہ پہنانے کے لئے ماہر مترجمین کی ضرورت تھی جو اپنے شعبہ کے فن میں ماہر ہونے کے ساتھ ساتھ انگریزی ، اردو اور فارسی پر دسترس بھی رکھتے ہوں۔ کتابوں کے اس ترجمے سے پہلے اصلاح سازی کا کام نہایت اہم تھا۔

ترجمہ کے اس کام کے پسِ منظر کو دیکھا جائے تو اردو کتابوں اور علوم و فنون کے تراجم کی ضرورت کو نواب فخر الدین خاں بہادر نے ایک صدی قبل ہی محسوس کر لیا تھا۔ اس دور میں انھوں نے اپنی قائم کردہ درسگاہ ” مدرسہ فخریہ” میں تراجم اور تدوین و تالیف کا کام خود بھی کیا اور کروایا بھی تھا۔

جامع عثمانیہ کے قیام کی عرضداشت کو جب پیش کیا گیا تھا تو اسی وقت دارالترجمہ کے قیام کے متعلق بھی بیان کیا گیا تھا۔ جس کا ذکر یوں کیا گیا کہ ایک شعبہ تالیف و تراجم کا قائم کیا جائے جو مغربی زبانوں سے اعلیٰ درجے کی تصانیف ترجمہ کرسکے۔ جس سے ادارے کو اپنی زبان میں ایسا سرمایہ میسر ہو جائے گا جو یونیورسٹی کی ضروریات پوری کر سکے گا۔

ترجمہ کا طریقہ کار یہ رکھا گیا کہ جامعہ کی مختلف مجالس نصابی اپنی ضرورت کی کتابیں منتخب کرتی اور مجالس اعلی سے منظوری حاصل کرنے کے بعد ان کی یہ تحریک دارالترجمہ کو روانہ کر دی جاتی۔ دارالترجمہ میں دو قسم کے مترجم تھے ، داخلی اور بیرونی۔ایک وہ جو خود محکمہ کے رکن تھے جبکہ دوسرے بیرونی اصحاب جن میں زیادہ تر پروفیسر اور ماہرین ،شامل تھے۔ رکن دارالترجمہ اراکین ، طب ، فلسفہ ، سیاسیات ، تاریخ ، ریاضی ، معاشیات اور قانون جیسی کتابوں کا ترجمہ کرتے تھے۔ جبکہ باہر کے مترجمین طبیعیات ، کیمیا ، نباتات ، حیوانیات اور انجئنری جیسی کتب ترجمہ کرتے تھے۔

مکمل ترجمہ کے بعد یہ کتب نظر ثانی کے لیے جامع کے مقرر کردہ ناظر کو بھجوائی جاتی تھیں۔ نظر ثانی اور مذہبی و ادبی نقطہ کی جانچ پڑتال کے بعد یہ مسودہ مطبع خانے کو روانہ کیا جاتا۔ یہ مترجمین برصغیر کی ایسی شخصیات تھیں جو اپنے فن میں مہارت رکھتی تھیں۔

دارالترجمہ کے ابتدائی اراکین کی فہرست میں مولوی عبد الحق ، قاضی محمد حسین ، چودہری برکت علی، محمد الیاس برنی ، قاضی تلمذ حسین ، ظفر علی خان ، عبد الحلیم شرر وغیرہ جیسی شخصیات شامل تھیں۔ ان ترجموں کے لیے بطور ناظر حیدر یار جنگ اور نظم طباطبائی جیسی شخصیات کو چنا گیا۔

قاضی محمدحسین ریاضی میں ماہر تھے۔ ریاضی میں کل ہند شہرت رکھتے تھے۔ کلیہ جامعہ عثمانیہ کے صدر بھی تھے اور ریاضی کے پر وفیسر لیکن ساتھ ہی ساتھ ترجمہ کا کام بھی کرتے تھے۔ انہوں نے ریاضیات اور انجیئرنگ سے متعلق (16) کتابیں اردو میں منتقل کیں، چودھری برکت علی حیدرآباد آنے سے پہلے علی گڑھ میں سائنس کے مسلمہ استاد تھے اور اردو میں سائنس کی تعلیم کو عام کرنے میں نمایاں خدمات انجام دی تھیں۔ کلیه جامعہ عثمانیہ میں پروفیسر تھے۔ طبعیات اور کیمیاء سے متعلق 14 کتابیں لکھیں۔

عبدالماجد دریا بادی اردو کے مایہ ناز انشا پرداز تھے۔ عالم وقت کہلاتے تھے اور فلسفہ اور نفسیات پر ان کی اردو کتابیں غیرمعمولی شہرت کی حامل ہیں۔ سید ہاشمی فریدآبادی ابتداء میں مولوی عبدالحق کے ساتھ انجمن ترقی اردو میں کام کر چکے تھے۔ تاریخی مضامین کی تالیف و ترتیب کا انہیں اچھا سلیقہ تھا۔ دارالترجمہ کیلئے انہوں نے (16) کتابیں ہندوستان اور یوروپ کی تاریخ سے متعلق لکھیں۔

قامی تلمذ حسین الہ آباد یونیورسٹی کے ایم ۔ اے تھے گورنمنٹ کالج جبلپور کے عربی وفارسی کے پروفیسراور ندوۃ العلماء کے دارالعلوم کے صدر بھی رہ چکے تھے۔ علم السیاسیات کے مترجم تھے ، انہوں نے تاریخ اللسان ، تاریخ یوروپ اور دستور سیاست سے متعلق (23) کتابیں ترجمہ کیں۔

مترجمین کی فہرست بہت طویل ہے۔ان میں ایک سو سے زیادہ برصغیر ہند کے چوٹی کے عالم شامل تھے۔ ان کے نام ہی اس بات کی ضمانت ہیں کہ حیدرآباد کے دارالترجمہ کیلئے ہندستان کے بہترین علماء کی خدمات حاصل کرلی گئی تھیں۔

مجلسِ وضع اصطلاحات:

یوروپی علوم وفنون کی مستند کتابوں کے اردو ترجمہ کیلئے جب دارالترجمہ کا قیام عمل میں آیا تو اسکے ساتھ ہی ترجمہ کے کام کوعملی طور پر آگے بڑھانے اور اس میں سہولتیں پیدا کرنے کے لئے مجلس وضع اصطلاحات بھی قائم ہوئی۔ اردو زبان میں سائنسی علوم کی تعلیم کیلئے سب سے مشکل منزل علمی اصطلاحوں کی ہے۔

دیگر زبانوں کی اصطلاحوں کو جوں کا توں نہیں رکھا جاسکتا۔ سنسکرت یا عربی کی اصطلاحیں بھی اس کا بدل نہیں ہوسکتی تھیں۔ اصطلاحیں ایسی ہونی چاہیئے تھیں جو طلبا کیلئے سریع الفہم ہوں نیز جس مفہوم کیلئے وہ وضع کی جائیں اسکو اداکرسکیں۔ اس کام کیلئے انسانی اصولوں سے بھی واقفیت ضروری تھی اور رواداری کے ساتھ ہر زباں سے استفادہ کرنا لازم تھا چنانچہ اسی مقصد کیلئے دارالترجمہ کے ایک شعبہ کے طور پر مجلس وضع اصطلاحات بھی وجود میں آئی۔

مجلس وضع اصطلاحات کا کام زبان کی موجودہ ضرورتوں کے لحاظ سے ہر شعبہِ فنون کیلئے اصطلاح وضع کرنا تھا چنانچہ طبیعات کیمیا اور ریاضیات کیلئے ایک مجلس قائم ہوئی اور فنون کیلئے دوسری آگے چل کر جب حیاتیات طب اور انجینیئر نگ کے شعبے کھولے گئے توان کیلئے علیحدہ مجلسیں قائم کی گئیں۔

ہر علم وفن کے مسائل چونکہ جدا جدا ہوتے ہیں اس لئے مختلف شعبوں کیلئے اصطلاحات کی علمی و علمی کمیٹی مقرر کی گئی جس میں متعلقہ فن اور لسانیات کے ماہر غور و خوض اور بحث ومباحثہ کے بعد اصطلاحی الفاظ وضع کرتے تھے مختلف علوم وفنون کی (16) مجلسیں تھیں۔ ہر مجلس میں فن اور زبان دونوں کے ماہر شریک رہتے تھے۔

مجلس وضع اصطلاحات کا طریقہ کار یہ تھا کہ الفاظ کی فہرست تیار کر کے پہلے ہی ہر ایک رکن کے پاس بھیجی جاتی تھی اور جب اجلاس منعقد ہوتا تو ایک ایک لفظ اور اس کے اصطلاحی ترجمہ پر بحث ہوتی جب اہل فن اوراہل زبان دونوں کو اطمینان ہو جاتا تو اصطلاح قبول کرلی جاتی۔ کبھی کبھی ایسا بھی ہوتا کہ ایک ہی لفظ پر بحث طویل ہو جاتی اور کسی نتیجہ پر پہنچنے میں گھنٹوں لگ جاتے۔ یہ ایسے الفاظ کی صورت میں ہوتا جسکے مترادفات اردو میں نہیں ہیں۔

اس تعلق سے ایک بہم یہ بھی تھا انگریزی اصطلاحات کو خصوصا سائنسی مضامین میں قبول کر لیا جائے یا ترجمہ کیا جائے بعض کا خیال تھا کہ سائنسی مضامین کی حد تک ان کے ترجمہ کی ضرورت نہیں اس لفظ کو اردو میں رائج کر دیا جائے لیکن بہی خواہاں اردو اسکو زبان کے مزاج کےخلاف تصور کرتے تھے۔

اصطلاحات وضع کرنے کےعمل میں خاص طور پر اس بات کا خیال رکھا جاتا کہ جسطرح انگریزی کی بعض اصطلاحیں کئی کئی فنون میں استعمال ہوتی ہیں اسی طرح اردو اصطلاحیں بھی اتنی جامع ہوں کہ وہ کوئی فرق پیدا کئے بغیر ہر جگہ اپنے مخصوص مطالب ادا کر تی رہیں۔

غرض دارالترجمہ نے اصطلاحات کی مجلسوں کے ذریعے علوم وفنون کی ہزاروں اصطلاح کے ترجمے کئے ان میں طبیعات، ریاضیات، کیمیا، حیوانیات، نباتیات ، طب اور انجینیری جیسے علوم اور فلسفہ، منطق ، تاریخ ، معاشیات، عمرانیات جیسے فنون کا احاطہ بھی ہوگیا۔ 30 سال کے عرصے میں دارالترجمہ کے اس ادارے نے تقریباً ایک لاکھ اصطلاحات کا ترجمہ انگریزی ، جرمن اور فارسی زبان سے کیا۔

دارالترجمہ کی ان اصلاحات کو ہندوستان کے اعلیٰ حلقوں میں تسلیم کیا جاتا تھا۔ ان کا یہ یہ کارنامہ اس قدر قابل فخر تھا کہ اردو زبان اس پہ رشک کرتی رہے گی کہ جس نے اردو کو ایک علمی زبان بنا دیا۔ دارالترجمہ کے تحت ترجمہ و تالیف ہونے والی ان کی کتب کی تعداد اندازاً چار سو سے زائد ہے۔

مجموعی طور پر دیکھا جائے تو حیدرآباد کی حکومت مرکزی تسلط میں آنے کے بعد سے اس کے کئی منفی اثرات جامعہ عثمانیہ پر پڑے جس سے اس ادارے میں کئی پرانی روایات ختم ہو گئیں۔ جامعہ کا بنیادی ا متیاز اردو زبان ذریعہ تعلیم تھی مگر یہاں تمام شعبوں میں انگریزی کو ہی لازمی ذریعہ تعلیم قرار دیا گیا۔ یوں جامعہ کا وجود تو برقرار رہا مگر اس کے لیے دارالترجمہ اردو کا وجود مٹ گیا۔

سوالات:

  • جامعہ عثمانیہ کا قیام کس کے عہد میں عمل میں لایا گیا؟
  • جامعہ عثمانیہ کا سیاسی پسِ منظر مختصراً بیان کریں؟
  • جامعہ عثمانیہ میں بنیادی ذریعہ تعلیم کس زبان کو بنایا گیا؟
  • جامعہ عثمانیہ کے صدر کا نام کیا تھا؟
  • جامعہ عثمانیہ میں تعلیم کے کون سے دو بنیادی شعبے قائم کیے گئے؟
  • جامعہ عثمانیہ میں تعلیمی ضرورت کے لیے کتابوں کا انتظام کس طور سے کیا گیا؟
  • دارالترجمہ عثمانیہ کے کام اور خدمات بیان کریں؟
  • مجلسِ وضع اصطلاحات کا جامعہ عثمانیہ کے حوالے سے کیا کردار رہا؟