Halqa Arbab e Zauq In Urdu | حلقہ اربابِ ذوق کی ادبی خدمات

0

حلقہ اربابِ ذوق ابتدا و پسِ منظر:

ترقی پسند تحریک اُردو ادب کی ایک طوفانی تحریک تھی۔ اس نے ارد گرد کو اپنی لپیٹ میں لے کر خارجی زندگی کا عمل تیز کردیا اس تحریک نے جذباتی تحرک اور تخلیق کاری میں فاصلہ پیدا نہیں ہونے دیا۔ چنانچہ اس تحریک کے متوازی ایک اور تحریک نظر آتی ہے جس نے سماجی جمود کے بجائے ادبی انجماد کو توڑ نے کی کوشش کی۔ ترقی پسند تحریک کے ادب پر پابندیاں لگنا شروع ہو گئیں جس کی بنیادی وجوہات درج ذیل ہیں۔

  • سیاست کا رجحان زیادہ ہو گیا۔
  • نعرہ بازی اور انقلابی رنگ زیادہ آ گیا تھا۔
  • ادبیت کا رنگ پھیکا پڑنا شروع ہو گیا۔
  • ترقی پسند ادب میں اکتسابی رنگ بڑھ گیا تھا۔
  • ترقی پسند ادب کے موضوعات محدود ہو کر رہ گئے تھے۔

ان اسباب کے باعث ادب میں ایک نئے فکری زاویے کا آغاز ہوا جسے ہم “حلقہ اربابِ ذوق” کے نام سے جانتے ہیں۔ترقی پسند تحریک نے مادی وسائل پر فتح حاصل کرنے کی کوشش کی تھی مگر حلقہ اربابِ ذوق نے مادیت سے گریز اختیار کرکے روحانیت اور داخلیت کو فروغ دیا۔

حلقہ اربابِ ذوق کی تحریک ایک لالہ خورد کی طرح پیدا ہوئی۔جیسے جیسے اس تحریک کا داخلی مزاج ادیبوں کو متاثر کرنے لگا اس کا دائرہ بھی وسیع ہوتا گیا۔ 29 اپریل 1939ء کو سید نصیر احمد جامعی نے اپنے چند دوستوں کو جن میں نسیم حجازی ، تابش صدیقی ، محمد فاضل ، اقبال احمد ، محمد سعید ، عبدالغنی اور شیر محمد اختر شامل تھے، جمع کیا اور ایک ادبی محفل منعقد کی۔ اس محفل میں نسیم حجازی نے ایک طبع زاد افسانہ پڑھا۔ دوستوں نے اس افسانے پر بات کی اور اس ادبی سلسلے کو جاری رکھنے کے لیے ایک مجلس بنانے کا منصوبہ بنایا اور رسمی طور پو اس کا نام مجلسِ داستان گویاں رکھا۔

ان کا مقصد ایک ایسی مجلس کا قیام تھا جہاں ادیب اپنی افسانوی کہانیاں سنا کر اپنے احباب کی رائے حاصل کر سکیں۔ یہ تحریک ترقی پسند تحریک کے متوازی جاری و ساری تھی اور اس کے قیام کا مقصد ادب کے موضوع یا ہیت میں کسی نئے انقلاب کو برپا کرنا ہر گز نہ تھا۔ ابتدائی طور پر یہ حلقہ بگ سروسامانی کی صورت میں تھا۔ یہی اس سے جڑا ایک اہم واقعہ اس کے نام کی تبدیلی ہے۔

اس کی ابتدائی نو مجالس کے بعد جب اس کے پاؤں جمنا شروع ہو گئے تو اس کا نام حلقہ اربابِ ذوق رکھ دیا گیا۔ ابتدا میں اس مجلس میں شعرا کی تعداد زیادہ جبکہ افسانہ نگار کم تھے۔جب یہ حلقہ ترتیب نو پا گیا تو اس کے اغراض و مقاصد طے کرنے کا مسئلہ ہوا۔ اغراض و مقاصد کے لیے یکم اکتوبر 1939ء کے جلسے میں مختلف تجاویز کو طے کیا گیا۔ابتدائی طور پر حلقے کے ان قواعد کو تحریر نہیں کیا گیا تھا۔ حلقہ اربابِ ذوق کے درج ذیل اغراض و مقاصد بیان کیے گئے۔

  • اردو زبان کی ترویج و اشاعت۔
  • نوجوان لکھنے والوں کی تعلیم و تفریح۔
  • اردو لکھنے والوں کے حقوق کی ضمانت۔
  • اردو ادب و صحافت کے ناساز گار ماحول کو صاف کرنا۔

حلقے کے اغراض و مقاصد کے علاوہ اس کے لیے کچھ اصول بھی طے کیے گئے جن کے مطابق:

  • حلقہ اربابِ ذوق کا کوئی مستقل صدر نہ ہو گا۔
  • حلقہ اربابِ ذوق کا صرف ایک مستقل سیکرٹری ہوگا۔
  • رکن بننے کے لیے کوئی چندہ یا فیس نہیں لی جائے گی۔
  • ہر سال کے لیے ایک سیکرٹری چنا جائے گا۔
  • حلقے کی رکنیت محدود رکھی جائے گی اور جس کو چاہیں حلقے کا رکن بنایا جا سکتا ہے۔
  • حلقے کا جلسہ ہر ہفتے ایک رکن کے مکان پر ہو گا جس کے ذمے سب کو چائے پلانا ہو گا۔
  • حلقے کی نشست میں پڑھی جانے والی تحریر پر بے لاگ تبصرہ ہو گا جس کے لیے مضمون نگار یا شاعر کو خوش دلی سے ناقدین کے ان اعترضات کو سننا ہو گا۔
  • حلقے کی کاروائی کو مشتہر نہیں کیا جائے گا۔

حلقے کا یہ دور تشکیلی دور تھا۔اس دور میں حلقے نے رفقا کو اکھٹا کرنے کی کوشش کی۔ اس دور میں اگرچہ حلقے کی جہت واضح نہ تھی تاہم ایک فکری نصب العین مرتب کرنے کی کوشش کی جارہی تھی۔ حلقے کا پہلا دور میرا جی کی شمولیت کی وجہ سے اہمیت کا حامل ہے جبکہ حلقہ اربابِ ذوق کا دوسرا دور تشکیلی نوعیت کا دور ہے۔ جس میں مضامین پر تنقید کا باقاعدہ سلسلہ شروع ہو گیا۔ قواعد و ضوابط کی تربیت و تدوین کی گئی اور حلقے کی مجالس میں نئے تجربوں کو پیش کرنے کا آغاز ہوا۔

تیسرا دور طوالت بھرا دور ہے کہ اس میں یہ تحریک ایک منظم اور فعال تحریک کی صورت اختیار کر گئی جس کی نظریاتی اساس بکھر کر سامنے آگئی تھی۔ اس دور میں حلقے کے خلاف شدید ردعمل کی لہر بھی ابھری۔ یوں ہم کہہ سکتے کہ حلقہ اربابِ ذوق کا یہ دور نظریاتی پختگی اور معاصر تحریکوں سے تصادم کا دور تھا۔

حلقہ نے زندگی کے تنوع اور اس کے داخلی حسن کو اہمیت دی اور کسی موضوع پر اظہار کی قدغن نہیں لگائی۔حلقہ ارباب ذوق کے تجربات کا ایک سرا زندگی اور دوسرا فن سے ملا ہوا ہے۔ حلقہ اربابِ ذوق کا ایک اہم کارنامہ نئی تحریروں کا اجراء بھی ہے۔نئی تحریریں حلقے کی مجالس کی طرح آزادی اظہار کا فورم تھا۔ اس نے دوسری زبانوں کے اہم نظریاتی مضامین کو نمایاں طور پر شائع کیا۔

ایک وقت آیا کہ جب ادب پر سیاست کا رنگ غالب آنے لگا تو اس وقت حلقہ بھی دو حصوں میں بٹ گیا۔ حلقے کی یہ تقسیم ایک ادارے کی تقسیم نہیں بلکہ دو نقطہ نظر کی تقسیم تھی۔چنانچہ حلقے پر قابض انقلابی گروہ کو حلقہ اربابِ ذوق سیاسی کا نام دیا گیا جبکہ دوسرے حلقے کو حلقہ اربابِ ذوق ادبی کا نام دیا گیا۔

ادبی حلقے کا موقف تھا کہ زندگی سے لپٹ جانے کے باوجود ادب ، ادب ہی رہتا ہے۔ چنانچہ ادب کو کسی سیاسی نظریے میں پرکھنے کی بجائے ادب کے نقطہ نظر سے پرکھنا ضروری ہے۔ اس کے برعکس سیاسی حلقے کا خیال تھا کہ دنیا کے کسی بھی فعال معاشرتی موضوع کو شجر ممنوعہ نہیں سمجھا جانا چاہیے۔ سیاسی حلقے نے بن لکھے دستور پر عمل کرنے کی روایت ختم کی اور تحریری آئین منظور کروایا۔ جس کے مقاصد میں اردو کی ترویج و اشاعت کے ساتھ ادب جو علاقائی زبانوں اور ثقافتوں کے قریب لانا بھی تھا۔اس زوایے نے ادب اور تنقیدِ ادب کو زندگی کے تقاضوں سے ہم آہنگ کیا۔

حلقہ اربابِ ذوق کے تحت تخلیق پانے والا ادب

تنقید میں حلقہ ارباب ذوق نے یکسر مختلف رویہ قبول کیا اور ابہام کے برعکس فن پارے کے بے رحم تجزیے کا رجحان پیدا کیا۔ حلقہ کی تنقید کی ایک خصوصیت یہ بھی ہے کہ اس نے فن پارے کے حُسن و قبح کے فیصلے کو محض ذاتی تاثر کی میزان پر نہیں تولا بلکہ فیصلے کے لئے جواز مہیا کرنا بھی ضروری قرار دیا۔

جب حلقے کی تاسیس عمل میں آئی تو ترقی پسند تحریک نے مقصدیت اور افادیت کو اتنی اہمیت دے دی کہ فن پارے کی تنقید میں سب سے پہلے وہ معیار آزمایا جاتا۔ یوں تنقید کے فنی اور جمالیاتی زاویوں کو نظر انداز کیا جانے لگا۔ حلقہ فن نے حُسن کی دائمی قدروں کو اُجاگر کرنے کی سعی کی۔ چنانچہ تنقیدِ فن میں یہی زاویہ حلقہ اربابِ ذوق کا امتیازی نشان بن گیا۔

ادب برائے زندگی کے نعرے کے دوران حلقے نے ادب برائے ادب کے نظریے کو پروان چڑھانے کی کوشش کی۔ نتیجتاً حلقے کی تنقید میں فن کا جمالیاتی پہلو زیادہ نمایاں ہوا اور تخلیقات سے ان زاویوں کو تلاش کرنے کی کوشش کی گئی جن سے عالمگیر انسانیت سے ہمدردی کا جذبہ پیدا ہوتا تھا اور روح ابتزاز اور بالیدگی کی کیفیت محسوس کرتی تھی۔

میرا جی کی خدمات

حلقہ ارباب ذوق کی تنقیدی جہت کو متعین کرنے کا فریضہ میراجی نے سر انجام دیا۔ جس زمانے میں ترقی پسند تنقید ادب پارے کا رشتہ سماج سے استوار کرتے ہوئے معاشی اور سماجی محرکات کو کھوج رہی تھی اسی وقت میں میرا جی نے حال اور مستقبل کے رشتوں کی تلاش ماضی کی زمین سے کی اور جدت کو اپناتے ہوئے اُردو تنقید کو تخلیق ، تجزیاتی مطالع ، جمالیاتی پرکھ اور نفسیاتی طریقہ کار سے آشنا کیا۔ آپ نے تنقید کی کوئی باضابطہ کتاب نہیں لکھی۔ آپ کے عملی تنقید کے نظریات آپ کے مضامین کی صورت میں ملتے ہیں۔

ان کے تنقیدی مضامین کے مجموعے کا نام “مشرق و مغرب کے نغمے ” ہے۔ میراجی کا اساسی نظریہ یہ ہے کہ شعر و ادب زندگی کے ترجمان ہیں آپ ادب کو زندگی کا غلام قراردینے کی بجائے اس کو تغیر کے مماثل بتاتے ہیں اور نئے زمانے کی برتری علم ، شعور اور آگہی کو اس کا نتیجہ بتاتے ہوئے ادب کی تخلیق اور ترویج کے لیے ان عوامل کو اہم تسلیم کرتے ہیں۔

میرا جی کا یہ نظریہ بھی اہم ہے کہ داخلی اور خارجی فنی اصولوں سے قطع نظر ادب پر مصف کی شخصیت کا آئینہ ہوتا ہے۔ اور بیٹے کو باپ کا عکس قرار دیتے ہوئے بیٹے سے باپ کے کردار کی خصوصیات تلاش کرنا ممکن تصور کیا۔ اِس کے علاوہ آپ مصنف کو اُس کے عصر کے حالات سے علیٰحدہ نہیں کرتے ہیں۔ اُردو تنقید میں میراجی کی انفرادیت یہ بھی ہے کہ آپ نے نہ صرف نظریہ سازی کی بلکہ ان کےعملی اطلاق سے شعرا وغیرہ کو ان کی تخلیقات کے حوالے سے جانچنے کا شعور پیدا کیا۔

میرا جی کی کتاب “اس نظم میں” جدید شاعری کی تفہیم کے حوالے سے اہم شمار ہوتی ہے۔ان کی نظموں کا تجزیاتی مطالعہ انھوں نے نفسیاتی نظریات خصوصاً فرائڈ کے تحلیل نفسی کے اصولوں کو سامنے رکھ کر کیا۔اس لیے اس کے نظریات کا اطلاق اپنے تجزیاتی مطالعات میں بخوبی کرتے ہیں۔ آپ نے الفاظ کے مخصوص کردار پر بہت زور دیا اور آپ کے خیال میں لغوی معنوں کے علاوہ ان کے تلازمات بھی ہوتے ہیں جو شعر کو نئی جہت دیتے ہیں۔

آپ نے نظموں کا تجزیہ شعر کے ذاتی و خاندانی حالات اور لاشعوری محرکات کی روشنی میں بھی کیا۔ مثلاً بود لیئر کے بعض شعری رویوں کا اصل محرک اس کے بچپن کے گھریلو حالات اس کی نفسیاتی کیفات اور تعیش پسند زندگی میں تلاش کیا۔ آپ نے علامتی اور اشاراتی شاعری کی نفسیاتی توجیع کرتے ہوئے اسے ادب اور آرٹ کے لیے اہم قرار دے دیا کیوں کہ اس طرح سے لاشعور میں موجود احساسات و جذبات بہترین اظہار پاتے ہیں۔ میرا جی نے انگریزی اور اُردو شعرا کی نظموں پہ نفسیاتی اصولوں کے اطلاق سے اُردو تنقید کو نیا موڑ دیا آپ کے وسیلے سے اُردو تنقید جدید دور میں داخل ہوئی۔

مولانا صلاح الدین احمد کی خدمات

حلقہ کی مغربی فکر کا زاویہ میراجی جبکہ مشرقی فکر کا زاویہ صلاح الدین احمد نے مہیا کیا۔ آپ کی تنقید کے تمام انداز مشرقی تھے اور آپ نے لفظ اور خیال کے حسن کو تقویت دی۔ آپ نے اپنے رسالے ”ادبی دنیا” کے ذریعے حلقہ کو ایک پلیٹ فارم مہیا کیا۔ مشرقی تنقید کی پیروی کے ساتھ ساتھ آپ نے جدید رجحانات کے اثرات کو بھی قبول کیا۔ اور فن پارے کے جمالیاتی زاویوں کو اہمیت دیتے ہوئے اس کی فنی خوبیوں کو اجاگر کرنے کے لیے توضیحی و تحسینی انداز اپناتے ہیں۔

اقبال ، آزاد اور اُردو ناول وغیرہ آپ کی فکر کے خاص موضوع تھے اور آپ کا فکری جھکاؤ ادب برائے ادب کے نظریے کی طرف تھا۔ کلام کی اعلیٰ ادبی و فنی اقدار کی وجہ سے اقبال ان کو بہت محبوب ہے۔ آپ کے نزدیک کوئی ادیب اپنی فکر کی وجہ سے بڑا نہیں ہے بلکہ اصل حیثیت ان کے کلام کے اُس حصے کی ہے جو فنی و ادبی تقاضوں کو پورا کرتے ہیں۔

آپ کی تنقید فن پارے سے اس مسرت و انبساط کو تلاش کرتی ہے جو اس ادب پارے کو صحیح معنوں میں ادب پارہ بناتی ہے اور اس کا اثر آپ کے تنقیدی اسلوب پر بھی نظر آتا ہے۔ اقبال کے علاوہ آپ کا اہم موضوع اُردو کا افسانوی ادب ہے جس میں آپ نے قاری اور فن کار دونوں کی رہبری و رہنمائی کا فریضہ سرانجام دیا۔ حلقہ کی تنقیدی فکر کی نمائندگی آپ اس پہلو کے حوالے سے کرتے ہیں کہ آپ ادب کے مقصدی اور افادی نقطہ کے برعکس اس کی ادبیت کو اولیت دیتے ہیں اور فن پاروں کا تجزیہ اُن جمالیاتی زاویوں سے کرتے ہیں جن کی اہمیت پر حلقہ نے زور دیا تھا۔

وحید قریشی کی خدمات

حلقہ کی تنقید میں قطعیت کا زاویہ وحید قریشی نے پیدا کیا۔ آپ نے حلقہ کی تنقید میں گہرے نفسیاتی و تجزیاتی مطالع کو فروغ دیا اور تنقید کو ایک ادبی عمل قرار دیتے ہوئے بے باکی سے بے رحم تجزیے کی بنیاد رکھی۔ آپ نے ادبی تنقید کی اخلاقیات مرتب کی اور فن کو معاشرتی اور تاریخی ماحول سے علیٰحدہ کرنے کی بجائے تخلیق کو کسی ایک زاویے کی بجائے اسے مختلف پیمانوں سے جانچتے ہیں۔ اور اس کے محاسن و معائب بنا کسی مصلحت کے پیش کرتے ہیں۔ اور تنقید کو ادبی عمل بتاتے ہوئے محاسن کے ساتھ ساتھ معائب بھی بتانے سے گریز نہیں کرتے۔

آپ ادب کو پرستار کی حیثیت سے کم اور نقاد کی حیثیت سے زیادہ دیکھتے ہیں۔ نفسیاتی تنقید کے ضمن میں آپ کا اہم کارنامہ “شبلی کی حیات معاشقہ” ہے جو تنقید کی راویت میں ادب کو فرائینڈین نفسیات کی روشنی میں دیکھنے کی جانب ایک قدم ہے۔ اور فرائڈ کی نفسیات کی روشنی میں شبلی کی نفسیاتی و حسی الجھنوں کا سراغ اُن کی شاعری و خطوط سے لگایا۔ اس کے علاوہ آپ نے “مطالعہ حالی” پیش کرکے حالی کی تنقید نگاری اور اس کے تنقیدی معیارات کو اجتماعی لاشعور کی روشنی میں پرکھا۔ ادب کے تجزیاتی مطالعوں میں موضوع کی مناسبت سے تنقیدی ہتھیاروں کا استعمال اور آپ کا علمی و تحقیقی انداز آپ کے تنقیدی نتائج کو معتبر اور مستند بناتا ہے۔

ریاض احمد کی خدمات

ریاض احمد کا شمار حلقے کے اہم ناقدین میں ہوتا ہے۔ آپ کی انفرادیت یہ ہے کہ آپ نے ادبی تنقید کو سائنسی عمل بنا دیا اور حلقہ کے تنقیدی نقطہ نظر کو مثبت انداز میں اُبھارا۔ نفسیات کی تنقید آپ کی اہم جہت تھی اور آپ کی نفسیاتی تنقید کا غالب حصہ فرائیڈ کے نفسیاتی نظریات کے زیر اثر رہا۔

فرائیڈ نے دبی ہوئی جنسی خواہشات کو تخلیق کا اصل محرر قرار دیا۔ اس تصور کی روشنی میں ریاض احمد شاعری کو انسانی شخصیت کا غیر متوازن اظہار قرار دیتے ہیں۔ آپ نے زندگی کو ادب کا موضوع قرار دیا اور ادب کے وسیلے سے حسن، خیر، صداقت کی قدروں کو اُجاگر کرتے ہیں۔ آپ جدید اُردو تنقید میں استدلال کی مثال ہیں اور آپ کے تجزیے خالصتاً علمی نوعیت کے ہیں۔ آپ اُردو شاعری کی بعض تلمیحات کو بھی تحلیل نفسی کی روشنی میں دیکھتے ہوئے اس کی نفسیاتی تو جیہہ کرتے اور یوسف و زلیخا ، شیریں ، فرہاد وغیرہ کو نفسیاتی الجھنوں کا نتیجہ قرار دیتے ہیں۔

ڈاکٹر آفتاب احمد کا شمار حلقہ کے ابتدائی اراکین میں سے ہوتا ہے۔ آپ کی تنقیدی تربیت میں حلقہ کی مجلسوں اور میراجی کی صحبت نے خاص کردار ادا کیا۔ آپ نے ادب کی صحت مندانہ اقدار کا زمین کیا اور غالب کی شاعری سے اس کے داخلی رجحانات دریافت کیے۔آپ کا مقالہ ” غالب کی عشقیہ شاعری” ادبی حلقوں میں غالب شناسی کی ایک نئی جہت قرار دیا گیا۔

آپ نے غالب کی شخصیت کی انا ، خود پسندی اور احساس برتری جیسے نفسیاتی مسائل کا بھی جائزہ لیا اور غالب کی انفرادی شعری رویوں کی تشکیل میں اس کی شخصیت کے یہ پہلو بنیادی محرک قرار دیے۔ آپ کی تنقید میں مشرقی و مغربی تنقید کے دھارے ملتے ہوئے نظر آتے ہیں۔ آپ کی تنقید پر جدید مغربی مفکریل ٹی۔ ایس ایلیٹ ، ایذرا پاؤنڈ اور نفسیاتی نظریات کا گہرا اثر ملتا ہے۔

جدید شاعروں میں راشد اور فیض آپ کی تنقید کا اہم موضوع ہیں۔ آپ نے نظم کے تجزیے کی روایت میں راشد اور فیض کی نظموں کے تجزیاتی مطالعے سے اس روایت کو تقویت بخشی۔ آپ ادب میں جغرافیائی حدبندیوں کے قائل نہیں ہیں اور اپنی روایت اور ماضی سے وابستہ رہنے کو ضروری خیال کرتے ہیں۔

ڈاکٹر وزیر آغا ایک رجحان ساز اور نظریہ ساز نقاد ہیں۔ آپ نہ توکسی ایک تنقیدی دبستان کے پابند تھے اور نہ کسی مخصوص دائرے میں مقید تھے۔ آپ نے عمرانیات، نفسیات ، لسانیات و تاریخ وغیرہ جیسے دیگر علوم سے مدد لے کر امتزاجی تنقید کی بنیاد ڈالی۔ اور ادب کو ارضی ثقافتی بنیادوں پر سمجھنے کی کوشش کی۔ آپ نے ادبی مو ضوعات پر جزوی نظربھی ڈالی اور انہیں وسیع تناظر میں رکھ کر ایک بڑے کل کے ساتھ وابستہ کیا۔ آپ نے اپنی کتاب “ اُردو شاعری کا مزاج“ میں تین اصناف غزل ، نظم اور گیت کا مزاج دریافت کیا۔ اور ادبی موضوعات پر جزوی نظر ڈالنے کے حوالے سے تنقید اور احتساب “نئے مقالات” ، نظم جدید کی کروٹیں وغیرہ لکھیں۔

حلقہ اربابِ ذوق کے شعری زاویے کی بات کی جائے تو ابتدائی شعرا میں میراجی کا نام آتا ہے۔ ان کا اس حلقے میں شامل ہونا بہت اہمیت کا حامل تھا۔ میراجی اس حلقے کے سب سے باکمال اور تخلیقی لحاظ سے اخلاق شاعر تھے۔ انہوں نے پابند نظم کی مقبولیت کے دور میں آزاد اور معری نظم کو اہمیت دی۔ اور شعر کو اسلوب شعر سے روشناس کرایا۔ یورپ کی بیشتر ادبی تحریکیں، علامت نگاری، تاثریت ، سرئیلزم وغیرہ میراجی کی وساطت سے ہی اردو نظم میں داخل ہوئیں۔

میرا جی نے اپنی شاعری کی بنیاد ہندوستانی اساطیر سے ملا کر رکھی۔ میرا جی کی شاعری میں ہندوستانی تہذیب کا ارضی پہلو نمایاں ہے۔ میراجی استعارہ، علامت اور تمثال کے شاعر تھے۔ انہوں نے بات کو پھیلانے کے بجائے سمیٹنے کی کوشش کی ہے۔ میرا جی نے قدیم ماضی کو ایک پروہت کی آنکھ سے دیکھا۔ انہوں نے جنس کو منہ اور جذبے کو موضوع بنایا اور اسے زندگی کا ایک زندہ علامت اور فعال قوت کے طور پر فنکاری سے استعمال کیا۔ میراجی کی شاعری کا دوسرا زوایہ گیت اور تیسرا زاویہ غزل ہے۔ میرا جی کی مشہور کتاب ”مشرق و مغرب کے نغمے“ ہے۔

اس حلقے کے شعرا میں ایک اہم نام مختار صدیقی کا بھی ہے۔ ان کا احساس جمال لفظوں کی بجائے سروں سے مرتب ہوا۔ آپ نے شعر کی زبان میں فطرت کا نغمہ سننے اور پھر اسے لفظوں میں مجسم کرنے کی کوشش کی ہے۔ مختار صدیقی نے ماضی کو کبھی مردہ تصور نہیں کیا بلکہ اسے ذی روح سمجھ کر ان سے تخلیقی تحریک حاصل کی۔ انھوں نے غزل میں استغنا اور درویشی کی روایت کو میر کے انداز میں پیش کیا ہے۔ مختار صدیقی موہنجوڈ رو سے روحانی اور جذباتی طور پر وابستہ ہیں۔

کیا کیا پکاریں سسکتی دیکھیں لفظوں کے زندانوں میں
جب ہی کی تلقین کرنے سے غیرت مند ضمیر ہمیں

حلقہ ارباب ذوق کی تحریک کو شعرا نے تازگی اور توانائی عطا کی۔ اس تحریک کی سب سے بڑی خوبی یہ ہے کہ اس نے نئے لکھنے والوں کو شدت سے متاثر کیا اور اب جو تجربات لکھنے والے کر رہے ہیں اس کی تخلیقی اساس حلقہ ارباب ذوق کی تحریک پر ہی استوار ہوئی ہے۔

اس تحریک کے زندگی کے خارج سے مواد حاصل کیا اور تخلیق کے داخلی عمل سے اس مواد کو فن پارے کی بنت میں شامل کیا۔ حلقے کی اس تخلیقی جہت نے اردو افسانے کو متاثر کیا۔ حلقے کے افسانہ نگاروں نے نفسیات کے علم سے بھی فائدہ اٹھایا۔ اس حلقے کی تاسیس میں داستان اور افسا نے کو ہی اہمیت حاصل تھی بعد میں تنقید کو بھی افسانے پرہی آزمایا گیا۔

اس تحریک کے بانیوں میں شیر محمد اختر نسیم حجازی اور رفیع پیرزادہ شامل ہیں۔اشفاق احمد کے افسانوں میں محبت کی حسی تصور بے حد لطیف اور کثیر الاضلاع ہے۔ ان کے اضافے بظاہر محبت کے مرکزی نقطے پر گردش کرتے ہیں۔ تاہم ان کے موضوعات متنوع ہیں۔ ان کے نمائندہ افسانوں میں امی ، گڈریا اور اجلے پھول شامل ہیں۔

اسی طرح انتظار حسین حلقہ ارباب ذوق کا سب سے ذہین اور ماہر افسانہ نگار ہے۔ اس نے اردو افسانے میں تجریدیت اور علامت نگاری کے متعدد تجربے کیے۔ اس کو اردو اضافے کی نئی جہت کا پیش رو شمار کیا جاتا ہے۔ کنکری سے شہر افسوس تک، انتظار میں نے کیا، حسین فن کے متعدد مراحل طے کیے۔ اور ہر مرحلے پر اپنے فن کا واحد نمائندہ ثابت ہوا۔اس کے علاوہ افسانہ لکھنے والوں میں ممتاز مفتی ، آغا بابر ، منٹو ، رشید امجد ،منشا یاد وغیرہ شامل ہیں۔ رشید امجد کو علامتی تجرید نگاری میں خصوصی اہمیت حاصل ہے۔ بحثیت مجموعی حلقہ ارباب ذوق قوی اور فعال تحریک ہے۔ اور تاحال زندہ تحریک ہے۔ ایک مضبوط پلیٹ فارم کی موجودگی نے اس کی عملی زندگی کو ابھی تک قائم رکھا ہوا ہے۔

سوالات:

  • حلقہ اربابِ ذوق کس تحریک کے متوازی چلی؟
  • حلقہ اربابِ ذوق کا قیام کب عمل میں آیا؟
  • حلقہ اربابِ ذوق کا پرانا نام کیا تھا؟
  • حلقہ اربابِ ذوق کے اغراض و مقاصد بیان کریں؟
  • حلقہ اربابِ ذوق کے بانی کا نام کیا تھا؟
  • حلقہ اربابِ ذوق کن دو حصوں میں تقسیم ہوئی؟
  • حلقہ اربابِ ذوق کے اہم شعرا کے نام لکھیں؟
  • حلقہ اربابِ ذوق میں میرا جی کی کیا اہمیت ہے؟
  • میرا جی کی تنقیدی نظریات کی کتب کون سی ہیں؟
  • حلقہ اربابِ ذوق کی شاعری پر نوٹ لکھیں؟
  • حلقہ اربابِ سے تعلق رکھنے والے رسائل کے نام بیان کریں؟