علی گڑھ تحریک، پس منظر ، مقاصد اور ادبی خدمات

0

سیاسی پسِ منظر:

علی گڑھ تحریک کا بیج 1857ء کی جنگِ آزادی سے پھوٹا۔ 1857 سے قبل کے سیاسی، سماجی، اقتصادی اور مذہبی حالات کو بھی بہت بہتر نہیں کہا جاسکتا ہے۔ انیسویں صدی کے اوائل میں مغلیہ سلطنت برائے نام رہ گئی تھی۔ اس دور میں ہندوستان کے اکثر صوبے سرکش جاگیرداروں کے ماتحت تھے جو مغل بادشاہوں کے لیے ایک بہت بڑا چیلنج تھا، ان کے لیے ان حالات کا مقابلہ کرنا بہت مشکل تھا۔

1857 کی جنگ آزادی میں آخری مغل بادشاہ بہادر شاہ ظفر کی شکست ہوگئی، اور مکمل طور سے مغلیہ سلطنت کا خاتمہ ہوگیا۔ 1857 کی جنگ آزادی سے ہندوستانی مسلمانوں کا جانی و مالی نقصان سب سے زیادہ ہوا، اس کی وجہ یہ تھی کہ اس جنگ میں مسلمانوں نے سب سے زیادہ بڑھ چڑھ کر حصہ لیا تھا اور انگریزوں کا ماننا تھا کہ ہندوستانی مسلمان ان کے سب سے بڑے دشمن ہیں۔

اس جنگ آزادی کے ردِّعمل میں مسلمانوں کا سب سے زیادہ خسارہ ہوا۔ غدر 1857 نے حکومت کو ہندوستانیوں خاص کر مسلمانوں سے حد سے زیادہ برہم کردیا جس کے نتیجے میں مسلمانوں کی زندگی اس ملک میں دشوار ہوگئی۔ کتنے مسلمانوں کو غدر کے الزام میں سزائے موت دے دی گئی۔ کتنوں کے گھروں کو اجاڑ دیا گیا۔ ان کی جائیدادیں اور ان کی املاک کو ان سے نہایت بے دردی سے چھین لیا گیا ان پر روزی روزگار کے تمام راستے بند کردئیے گئے۔ مسلمان زمینداروں ، تعلقہ داروں اور اس قوم کے سربرآوردہ اشخاص کی عزت و آبرو سبھی کچھ برباد کردی گئی۔ غریب مسلمانوں کے چھوٹے موٹے پیشے اور کاروبار کو تباہ کردیا گیا جس سے صنعت گر، اور ہنرمند مسلمانوں کی بھی روزی ماری گئی۔ اس طرح مسلمانوں کے اندر معاشرتی، اقتصادی اور سیاسی ہر اعتبار سے بدحالی پیدا ہوگئی۔

سرسیداحمد خان نے 1857 کی تباہی کو اپنی آنکھوں سے دیکھا تھا۔ اس نازک دور نے سرسید کو ذہنی کشمکش اور عجیب پریشانی میں مبتلا کردیا تھا۔ انھوں نے ہندوستانی مسلمانوں کی فلاح و بہبود کے لیے برطانوی نظر سے مسلمانوں کے خلاف قائم تاثر کو دور کرنے کی بے حد کوشش کی اور مسلمانوں کی فلاح کے لیے مشکل سے مشکل کام کرنے کا عزم مصمم کرلیا اور وہ اپنے اس عظیم مقصد میں کسی حد تک کامیاب بھی ہوئے۔

اس تحریک کے ایک محرک تو خود سرسید احمد خان کی شخصیت بھی تھی۔ ان کی زندگی کئی مختلف دھاروں کی جانب رواں نظر آتی ہے۔علمی ، ادبی ، سیاسی اور تہذیبی تمام حلقوں میں ان کی شخصیت رواں دکھائی دیتی ہے۔1841ء سے 1857ء تک ہی انھوں نے پندرہ کتب تالیف کیں۔جس سے معلوم ہوتا ہے کہ ان کو مذہب اور تاریخ سے یکساں دلچسپی تھی۔آپ نے سائنسی انداز سے علومِ مفیدہ کی ترویج کی کوشش بھی کی۔

سرسید کی ذات قدامت اور جدیدیت دونوں کا امتزاج کیے ہوئے تھی۔یہی وجہ ہے کہ ان کی شخصیت سے ایک ایسی تحریک پھوٹی جس نے ہند کے مسلمانوں کو اپنی جدا گانہ حثیت کا احساس دلایا۔ہندوستان کے مسلمانوں کی گزشتہ ڈیڑھ سو سال کی فکری، علمی، سماجی، مذہبی، سیاسی اور ادبی تاریخ کا شاید ہی کوئی ایسا گوشہ ہو جس پر سرسید اور علی گڑھ تحریک نے بلا واسطہ یا بالواسطہ اپنے اثرات نہ چھوڑے ہوں۔

سرسید اور ان کے رفقاء کے لیے مدرسة العلوم ایک تعلیمی درس گاہ، نئے فکری رجحانات کی ایک علامت احیاء ملی کی ایک تحریک کا نام تھا۔ یہاں ‘آدم گری’ بھی ہوتی تھی اور تعمیر ملت کا سامان بھی مہیا کیا جاتا تھا۔ یہاں وقت کے اشاروں کو سمجھنا بھی سکھایا جاتا تھا اور اس کے دھاروں کو موڑنے کی صلاحیت بھی پیدا کی جاتی تھی۔ سرسید کی بلند حوصلگی، عزم راسخ خلوص نیت اور جہد مسلسل نے اس مشکل اور متنوع کام کو ایک تحریک کی شکل دے دی تھی۔ زمانے کے پیچ و خم کے ساتھ تحریک کے خد و خال بھی بدلتے رہے لیکن سرسید کے افکار کی معنویت ہر دور کے لیے بڑھتی ہی رہی اور ان کی یہ آواز برابر فضاؤں میں گونجتی رہی۔

تحریک علی گڑھ کے مقاصد:

اردو ادب میں بہت سی تحریکیں وجود میں آئیں ، لیکن علی گڑھ تحریک ان تمام تحریکوں میں اپنی انفرادی شان رکھتی ہے، اس تحریک کو مکمل ادبی تحریک نہیں کہا جاسکتا ہے۔ یہ سرسید کی سیاسی، سماجی، مذہبی، علمی و ادبی، کاوشوں کی وجہ سے وجود میں آئی اس لیے اس تحریک کو سرسید تحریک کے نام سے بھی موسوم کیا جاتا ہے۔

اس تحریک نے اردو شعر و ادب پر بھی گہرے نقوش ثبت کیے ہیں۔ سرسید اس تحریک کا پسِ منظر اور پیش منظر دونوں تھے۔اس تحریک کے اساسی پہلوؤں میں نئے علوم کا حصول ، مذہبی علوم کی عقلی تفہیم ،سماجی اصلاح اور زبان و ادب کی ترقی و سربلندی شامل تھے۔مذہب ، اردو ، ہندو مسلم تعلقات ، انگریز و انگریزی حکومت ، انگریزی زبان، مغرب کا اثر وغیرہ بھی اس کے زیرِ بحث تھے۔

سیاسی مفاہمت ، جدید تعلیم اور مذہبی اصلاح علی گڑھ کے بنیادی مقاصد میں شامل تھا۔ اس تحریک کا ایک اہم مقصد ہندوؤں اور انگریزوں کی سیاسی مفاہمت دور میں مسلمانوں کی نشاۃ الثانیہ کا احیاء اور نئے تقاضوں کے مطابق مسلمانوں کی ترقی ، بقا اور سربلندی کے لیے ایک مثبت راستے کا تعین بھی تھا۔سرسید نے اسلام کی تفہیم اور ترویج کو اس تحریک کی اساسی اہمیت قرار دیا۔ یوں وسیع زاویے میں اس تحریک کے تین بنیادی مقاصد نظر آتے ہیں۔

  • اول: مسلمانوں کی تہذیبی بقا، سیاسی ترقی اور معاشرتی سر بلندی۔
  • دوم: نئے علوم کی روشنی میں دینِ فطرت کی توضیح و تشریح اور وہم پرستی کا ازالہ جبکہ
  • سوم: زاویہ اردو زبان و ادب کا فروغ تھا۔ ذیل میں اس تحریک کی خدمات کو پیش کیا گیا ہے۔

تحریک علی گڑھ کی خدمات:

علی گڑھ تحریک ایک اہم تحریک تھی اس سے ادبی تحریک کو تقویت حاصل ہوتی رہی ہے، سائنٹفک سوسائٹی، محمڈن ایجوکیشنل کانفرنس، تہذیب الاخلاق، اور ایم او کالج کے بہی خواہوں نے تحریر و تخلیق پر اتنا زور دیا کہ جس کی وجہ سے شعر و ادب کا ایک معیار سامنے آگیا۔ سرسید احمد خاں نے زندگی کے آخری ایام کو ایم او کالج کے لیے وقف کردیا تھا۔

انگریزوں کو ہندوستان پر قابض ہونے کے بعد احساس ہوا کہ اس ملک میں ایک کی بجائے دو قومیں آباد ہیں۔انھوں نے ہندوؤں کو سیاسی میدان میں آگے بڑھانے کی کوشش کی۔جبکہ مسلمانوں کےلئے اس کے درمیان مذہب کی روکاوٹ حائل ہوگئی وہ بہت سی نئی چیزوں اور باتوں کو سیکھنے سے گریزاں تھے۔جس سے ہندوستانی مسلمانوں کی شخصیت میں ایک خلا پیدا ہو گیا۔ ایسے میں سر سید کا شمار مسلمانوں کے ایسے مصلح میں ہوتا ہے جنھوں نے مغربی اندازِفکر علوم اور فنون کو خندہ پیشانی سے قبول کیا۔انھوں نے نہ صرف انگریزوں کی حکومت کو قبول کیا بلکہ انھیں یہ بھی باور کروایا کہ ہندوستان میں دو قومیں آباد ہیں۔انھوں نے علی گڑھ کے مسلمانوں کی سیاسی پس ماندگی کو دور کرنے کی کوشش کی۔

سرسیدمسلمانوں کے خلاف انگریزوں کے دلوں میں جو نفرت تھی اس کو ختم کرنا چاہتے تھے اس لیے ‘اسباب بغاوت ہند’ لکھی۔ وہ برابر مسلمانوں کو یہ تلقین کرتے رہے کہ وہ انگریزوں کا ساتھ دیں اور علمی میدان میں ان کے شانہ بشانہ کھڑے ہوں ، ایسا کرنے سے ہی قوم کی معاشی زندگی میں خوش حالی آئے گی۔

1857 کی بغاوت کے نتیجے میں برطانوی ظلم اور زیادتی سے ہونے والے ذاتی نقصان اور قومی سانحے کی طرف سرسید کے حساس مزاج نے شدید ردعمل کا ثبوت دیا۔ سرسید کے اس کامل یقین کہ ہندوستان میں برطانوی حکومت کو دوام حاصل ہوچکا ہے انھیں اس بات پر مائل کیا کہ وہ انگریزوں کا ساتھ دیں بعد میں بغاوت پر قابو پالینے کے نتیجہ میں انگریزوں کی جانب سے ہندوستانیوں پر جو ظلم اور زیادتی ہوئی اس کا کفارہ ادا کرنے کے لیے سرسید نے خود کو ملک و قوم کی خدمت کے لیے وقف کردیا۔

اس صورتِ حال نے ایک نئے سرسید کو جنم دیا۔آپ نے مدرستہ العلوم کے ذریعے ان کی سیاسی بصیرت کو بڑھایا۔ رسالہ تہذیب الاخلاق کے ذریعے آپ نے ہندوستان کے ان مسلمانوں کے ذہنی انقلاب کی راہ ہموار کرنے کی کوشش کی۔اس انقلاب کے لیے تراجم کے ذریعے سے علمی خزانوں کو مسلمانوں کے گھروں ، کتب خانوں میں پھیلایا۔

تحریک علی گڑھ کا سیاسی زاویہ ایک فعال زاویہ تھا جس نے ہندوستانی مسلمانوں کی سیاسی اور تمدنی زندگی میں انقلاب برپا کیا اور انھیں ایک جدا گانہ قوم کا احساس دلاکر ان کے لیے سیاسی انقلاب کی راہیں ہموار کیں۔ علی گڑھ تحریک نے مسلمانانِ ہند کی مذہبی خدمات میں بھی کوئی کسر نہ اٹھا رکھی۔ مذہب کا خول توڑنے کی ابتداء کا آغاز بھی سرسید نے ہی کیا۔اس وقت مذہب کے جس روایتی زاویے نے مسلمانوں کے ذہن کو آلودہ کر رکھا تھا سرسید نے اسے عقل سلیم کے ذریعے حل کیا۔مذہب اس وقت تک صعف حصول ثواب کا ایک ذریعہ تھا۔ابتدائی طور پر شاہ ولی اللہ نے اس جمود کو توڑنے کی کوشش کی۔

علی گڑھ تحریک نے مسلمانوں پر اس نکتے کو واضح کیا کہ انگریزی تعلیم اسلام کے بنیادی نظریات پر اثر انداز نہیں ہو سکتی ہے۔فقہ اور فلسفہ کے ساتھ اس تحریک نے اسلام کی تفہیم میں عقلی نقطۂ نظر کو استعمال کیا۔سرسید احمد خاں نے علم کے قدیم تصور کو رد کیا ہے۔ ان کا خیال تھا ایسا علم حاصل کیا جائے جس سے قوم کی ترقی ہو اور معاشی زندگی میں دشواریاں نہ پیش آئیں۔

سرسید کا ماننا تھا کہ مذہبی معاملات میں عقل کا دخل ہونا چاہیے اور بغیر عقلی استدلال کے آنکھ بند کرکے مذہبی مسائل کو قبول نہیں کرنا چاہیے اس لیے انھوں نے تقلید کی پرزور مخالفت کی ہے۔ سرسید نے قرآن پاک کی تشریح عقلی دلائل کی روشنی میں کی۔ انھوں نے قرآن شریف کے اکثر واقعات اور قصے کو عقل کے مطابق ثابت کرنے کی کوشش کی ہے، مذہب اسلام کو سائنس، فلسفے اور قانون کے تناظر میں دیکھنے کی کوشش کی ہے اس لیے سرسید نے تمام معجزات اور کرامات کو ماننے سے انکار کردیا ہے۔اس سلسلے میں سر سید نے تفسیر قرآن تالیف کی۔

اس تحریک نے مذہب کی صداقت کے لیے عقلِ انسانی اور قانون فطرت کو معیار قرار دیا۔مسلمانوں کے مذہبی عقائد کو پختگی عطا کرنے کی کوشش کی۔اس لحاظ سےا س تحریک نے اسلام کے داخلی اور خارجی خطروں کو تحفظ بخشا اور ہندوستانی رسومات اور توہمات کے منفی اثرات کو زائل کیا۔

اس تحریک کا ادبی زاویہ بھی نہایت فعال تھا۔اس کے تحت نہ صرف زبان کو وسعت ملی بلکہ اردو ادب نئے اسالیب بیان سے آشنا بھی ہوا۔علی گڑھ نے سائنسی نقطۂ نظر اور اظہار کی صداقت کو اہمیت دی۔ ادبی زاویے میں اس تحریک کا سب سے بڑا اثر سوانح اور سیرت نگاری پر پڑا۔

اٹھارویں صدی میں عیسائی مبلغین اسلام کے متعلق غلط کوائف پھیلا رہے تھے چنانچہ اس تحریک نے ان غلط فہمیوں کے ازالے کی کوشش کی۔سرسید نے خطبات احمدیہ ، مولوی چراغ علی کے رسائل اور نذیر احمد دہلوی کی کتاب امہات امہ میں ان حقائق جو بیان کیا۔ شبلی نعمانی نے اس تحریک کے زیر اثر سیرت نگاری کو موضوع بنایا۔شبلی نے سیرت النبی صہ ، الفاروق ، المامون ، اور اورنگزیب عالمگیر پر ایک نظر جیسی کتب لکھیں۔

اس تحریک کے زیر اثر سرسید نے آثار الصنادید ، رسالہ اسباب بغاوت ہند ، لائل محمڈن آف انڈیا، تحقیق لفظ نصاریٰ جیسی کتب لکھیں۔اس دور میں سر سید قدامت سے جدیدیت کی جانب قدم بڑھا رہے تھے۔ان کے تصنیفی دور کے تیسرے عہد میں سفرِ لندن سے واپسی پر سر سید نے سفر نامہ لندن ترتیب دیا۔ جس میں وہ ایسے مسافر کو پیش کرتے ہیں جو ہر چیز کو بچے کی سی معصومیت سے دیکھتا ہے۔

اس دور کی ایک اہم کتاب خطبات احمدیہ بھی ہے جو سر ولیم میور کی کتاب لائف آف محمد کے جواب میں تحریر کی گئی۔ سرسید کو اس تحریک میں جو رفقا ملے تھے ان تمام میں تصنیفی صلاحیتیں بدرجہ اتم موجود تھیں۔

علی گڑھ کی تحریک کا ایک اہم مصنف نواب محسن الملک ہے۔آپ اپنی ذات میں ایک انجمن تھے۔آپ نے اپنی ذات کو سرسید کی تحریک میں ضم کر دیا۔ محسن الملک تہذیب الاخلاق کے اہم مضمون نگار تھے۔ مضمون نگار کی حیثیت سے وہ ایک ایسے مفکر کے روپ میں ابھرے جس نے ادب اور زندگی کے جمود کو توڑنے اور صالح روایات کو فروغ دینے کا ارادہ کیا۔

سرسید کے رفقاء میں ایک نام مولوی چراغ علی کا آتا ہے۔ان کا اساسی موضوع مذہب تھا۔آپ نے معترضین اسلام کے خلاف ایک دفاعی مورچہ بنایا۔ نواب وقار الملک علی گڑھ تحریک کے مسلمانوں کی ترقی کا ضامن سمجھے جاتے ہیں۔وقار الملک نے رسالہ تہذیب الاخلاق میں قومی ، معاشرتی ، مذہبی اور اخلاقی موضوعات پر متعدد مضامین لکھے۔ سرسید ان کی خدمات سے اتنے متاثر ہوئے کہ ان کے کارناموں کو زندہ رکھنے کےلیے مدرسہ العلوم علی گڑھ کی ایک عمارت ان کے نام سے موسوم کی۔

الطاف حسین حالی نے اس تحریک کے زیر اثر پادری رماد الدین کی غلط بیانیوں کے جواب میں تریاق ِ مسموم تحریر کی۔آپ نے اردو میں سوانح نگاری کی ایک بنیاد رکھی۔ حیات جاوید ، یادگار غالب اور حیات سعدی ان کے زندہ جاوید کارنامے ہیں۔آپ نے مقدمہ شعر و شاعری لکھ کر جدید شاعری کو تنقیدی اساس بھی مہیا کی۔ ان کی کتاب حیات جاوید (سوانح سر سید ) سرسید کی سرگرمیوں اور ان کی تحریک کی پوری داستان ہے۔

اسی تحریک کے زیرِ اثر مولوی نذیر احمد اور عبدالحلیم شرر جیسے نامور ناول نگار بھی اردو ادب میں ایک بیش قیمت اضافہ تھے۔نذیر احمد اردو کے پہلے ناول نگار تھے تو دوسری طرف عبدالحلیم شرر نے اردو میں تاریخی ناول نگاری کی بنیاد رکھ کر مسلمانوں کو ان کی تاریخی اسلاف سے متعارف کروایا۔

امداد امام اثر نے کاشف الحقائق کی صورت میں اردو تنقید کا ایک روشن زاویہ پیش کیا۔اس تحریک کا ایک اہم کارنامہ اردو مضمون نویسی کا فروغ ہے۔سرسید نے اس کا آغاز ٹیٹلر اور اسپیکٹر کی طرز پر تہذیب الاخلاق کی صورت میں اس کی بنیاد ڈالی۔ تہذیب الاخلاق میں انھوں نے زندگی کے مسائل کو فرحت بخش انداز میں پیش کرنے کی کوشش کی۔اس رسالے کے مضمون نگاروں میں سر سید ، نحسن الملک ، مولوی پیر بخش وغیرہ شامل تھے۔

اگرچہ علی گڑھ تحریک ایک فعال تحریک تھی۔ جو ایک واضح نصب العین کی عملی جدوجہد کر رہی تھی مگر اس کے خلاف شدید ردعمل کا اظہار بھی ہوا۔داخلی سطح پر چند رفقاء نے بھی سرسید کے مذہبی اور تعلیمی امور پر اختلاف کیا۔جبکہ کچھ متشدد ناقدین نے بھی اس کے خلاف آواز اٹھائی۔ اول الذکر کا اختلاف شائستہ انداز لیے ہوئے تھا جبکہ مؤخر الذکر طبقے نے ہجو کا انداز اختیار کیا یہ غیر سنجیدہ رویہ اودھ پنچ کی صورت میں سامنے آیا۔ مجموعی طور پر علی گڑھ تحریک اردو کی اولین فکری تحریک تھی جس نے نثری اصناف کو فروغ دیا اور قوم کو پسماندگی سے ترقی کی جانب مائل بھی کیا۔

سوالات:

  • علی گڑھ تحریک کے پیش رو کون تھے؟
  • علی گڑھ تحریک کس سیاسی پس منظر میں ابھری؟
  • علی گڑھ تحریک کے مقاصد کیا تھے؟
  • سرسید احمد خان کی تصانیف کے نام لکھیں؟
  • سر سید احمد خان نے کون کون سے رسائل کا اجرا کیا؟
  • تہذیب الاخلاق رسالے کو کن رسائل کی بنیاد پر نکالا گیا؟
  • تہذیب الاخلاق میں کن موضوعات پر مضامین شائع ہوتے تھے؟
  • تہذیب الاخلاق کے مضمون نگاروں کے نام لکھیں؟
  • تریاق مسموم کس کی تصنیف ہے اور یہ کس کے جواب میں لکھی گئی؟
  • خطباتِ احمدیہ کا موضوع کیا تھا؟
  • سرسیداحمد خان کے رفقاء میں کس کو پہلا ناقد ہونے کا اعزاز حاصل ہے؟
  • اردو کے پہلے تاریخی ناول نگار کون تھے؟
  • حاکی کی سوانح عمریوں کے نام لکھیں؟
  • علی گڑھ تحریک کی ادبی خدمات کا جائزہ لیں؟
  • علی گڑھ تحریک نے کن کن زاویوں سے خدمات انجام دیں؟