Eham Goi Ki Tehreek In Urdu | NET Urdu Notes | ایہام گوئی کی روایت

0

ایہام گوئی سے کیا مراد ہے؟

ایہام کا اصل مطلب وہم میں ڈالنا ہے۔ اصطلاح میں اس سے مراد شاعری کی ایک صنعت ہے۔اس صنعت کی ابتداء شمالی ہند کے اردو گو شعرا سے ہوئی تھی۔ صنعت ایہام میں شاعر اپنے شعر میں دو معنی پیدا کرتا ہے۔ایک معنی قریب جبکہ دوسرا معنی بعید کا ہوتا ہے۔ یوں شاعر ان الفاظ کے استعمال سے بظاہر قریب کے معنی مراد لے رہا ہوتا ہے لیکن اس کی اصل مراد بعید کے معنی ہوتے ہیں۔ یوں قاری ایک ذہنی مشق کے ذریعے ان معنوں تک پہنچتا ہے۔ مثال؛

شب جو مسجد میں جا پھنسے مومن
رات کاٹی خدا خدا کر کے

یہ اصطلاح صرف اردو ادب میں ہی نہیں بلکہ انگریزی میں لیمرک اور اور سنسکرت میں سلیش کے نام سے برتی جاتی تھی۔محمد حسین آزاد کا خیال ہے کہ اردو میں ایہام کو ہندی دوہوں کی اساس پرفروغ حاصل ہوا۔ آزاد کا یہ خیال اس حقیقت پر مبنی نظر آ تا ہے کہ سنسکرت میں ایک ایک لفظ کے کئی کئی معنی موجود ہیں۔

سنسکرت میں اس صنعت کا نام شلش ہے اور اس کی دوقسمیں ہیں۔ اول سے تنگ جس میں لفظ سالم رہتا ہے۔ دوم اب تک جس میں لفظ کے ٹکڑے ٹکڑے کر کے صنعت پیدا کی جاتی ہے۔ مولوی عبدالحق نے آزاد کی تائید کی ہے اور لکھا ہے کہ اردو ایہام ہے زیادہ تر ہندی شاعری کا اثر ہوا اور ہندی میں یہ چیز سنسکرت سے پہنچی ہے۔

اردومیں قدیم ریختہ گو شعرا کے ہاں سے امیر خسرو کے ہاں اس صنعت کے استعمال کے نمونے ملتے ہیں۔ دکنی شعراء میں ولی کے ہاں بھی اس کی مثالیں ملتی ہیں۔ایہام ایک طرح سے لفظوں کا ایسا کھیل ہے کہ جس میں شعر کے معانی قریب سے بعید تک جانے کے لیے کسی مناسب سے لفظ کا اشارہ بھی اس شعر کے اندر ہی موجود ہوتا ہے۔ایہام گو شعرا بعض اوقات اپنی شاعری میں ایہام کی صورت میں جنسی کنایہ بھی استعمال کر لیتے ہیں۔

ایہام گوئی کی تحریک کا پسِ منظر:

ولی دکنی نے اردو زبان کو جو نئی کروٹ دی تھی اس سے دلی میں اردو شاعری کا ایک چشمہ پھوٹ نکلا۔ چنانچہ جب اردو زبان کا ادبی عروج شروع ہوا تو اس کے خلاف ردعمل بڑے مضحک انداز میں ادبی محفلوں اور مشاعروں سے ابھر نے لگا۔ فارسی شعرا نے ریختہ گو شعرا کے متعلق اہانت آمیز باتیں کہنا شروع کر دیں اور میر جعفر زٹلی نے اس زبان کا مضحک زاویہ پیش کر کے اس کی قدرو قیمت کم کرنے کی کوشش کی۔

فارسی شعرا کے متذکرہ بالا منفی رویے کے خلاف اولین ردعمل خان آرزو کے ہاں پیدا ہوا اور انھوں نے فارسی کو ترک کر کے ریختہ کے مشاعرے کرانا شروع کر دیے۔ان مشاعروں میں جب اردو کو فارسی کا مقابلہ مجلسی سطح پر کرنا پڑا تو لامحالہ اظہار نے مشکل گوئی کا وہ طریقہ نکالا کہ جس سے کہنہ مشق ، خلاق اور قادرالکلام شعرا ہی نبرد آزما ہو سکتے تھے۔

چنانچہ ایہام کا فروغ جس نے ذومعنی الفاظ کے فن کارانہ استعمال سے شعرا کونئی ذہنی ورزش کا وسیلہ مہیا کر دیا، اسی کوشش کا ثمر نظر آتا ہے اور محمد شاہی عہد میں اسے اتنا فروغ حاصل ہوا کہ دیکھتے ہی دیکھتے اسے ایک با قاعدہ تحریک کی صورت مل گئی اور اسے ریختہ کی ہی ایک قسم قرار دے دیا گیا۔ ایہام کی تحریک کلاسیکی نوعیت کی ہے اور ولی کی توانا تحریک کے بعد اس کا فروغ نظر آ تا ہے۔

ایہام رعایت لفظی کے ایک مخصوص انداز کا نام ہے اور اس کا تمام تر دارومدار ذومعنی الفاظ کے فن کارانہ استعمال پر ہے۔ تخلیقی شاعر کی دانست میں لفظ گنجینہ معنی کا طلسم ہے اور وہ لفظ کے بعض معانی کو پوشیدہ رکھنے اور مخفی معنی کو لفظ کے خارجی خول سے چپکانے کی قدرت بھی رکھتا ہے۔ چنانچہ اردو کے ابتدائی دور میں جب اس زبان کا سامنا فارسی زبان سے ہوا تو شعرا نے اردو کا تمول اور قدرت بیان ظاہر کرنے کے لیے لفظ کو نئے نئے قرینوں سے استعمال کرنے کی کاوش کی اور ایہام کو فروغ دیا۔

اس میں کوئی شک نہیں کہ ایہام کی صنعت فارسی ادب میں بھی موجود ہے۔ تاہم اس زبان میں صنائع اور بدائع کلام کا حسن بڑھانے کے لیے زیادہ فطری انداز میں استعمال ہوئے ہیں اور فارسی شعرا نے ان کا استعمال اس احتیاط سے کیا ہے کہ طبیعت پر گراں نہ گزرے۔ ہندی دوہے میں لفظ کے پوشیدہ مفہوم کو سامع کے باطن میں اتارنے کا رجحان نمایاں ہے۔ اس لیے اردو میں ایہام کی تحریک ہندی اثرات کا نتیجہ ہے اور یہ اس ردعمل کا ہی ایک سلسلہ نظر آ تا ہے جو فارسی کے خلاف ملک میں پرورش پارہا تھا اور بالواسطہ طور پر اردو کے فروغ کا باعث بن رہا تھا۔

ایہام کو خان آرزو اور بالخصوص ان کے شاگردوں نے فراوانی سے استعمال کیا۔ خان آرزو کا یقین تھا کہ مستقبل میں فارسی کے بجائے ریختہ ہی اس ملک کی زبان بننے والی ہے۔ اس لیے انھوں نے فارسی سے توجہ ہٹا کر اردو کومتمول بنانے پر توجہ دینا شروع کی اور کئی شعرا کو فارسی کے بجائے اردو میں شعر کہنے پر مائل کیا۔

ایرانی تہذیب کا آفتاب چوں کہ اپنی تمازت ختم کر چکا تھا۔ اس لیے اس تحریک کو مقبولیت حاصل کرنے میں کچھ زیادہ دیر نہ لگی۔ ہندوستان میں بول چال کی عام زبان میں ہندی کا چلن چوں کہ پہلے شروع ہو چکا تھا۔ اس لیے یہ دریافت کرنا ممکن نہیں کہ ایہام کی ابتدا کس زمانے میں ہوئی۔ تاہم یہ واضح ہے کہ فارسی زبان کے بعض مستند شعرا کے ہاں بھی ہندی الفاظ استعمال کرنے کا رجحان موجود تھا۔ مثال کے طور پر میر عبدالجلیل بلگرامی نے فرخ سیر کی شادی پر جو مثنوی لکھی اس میں ہندی راگنیوں کو صنعت ایہام میں استعمال کیا گیا۔

بلاشبہ تحریک ایہام کے اجرا میں فارسی اور ریختہ کے ریمل اور مشاعرے کی فضا کو بہت اہمیت حاصل ہے تاہم اس تحریک کے فروغ میں اس عہد کے سیاسی اور سماجی عوامل کا عمل دخل بھی نظر انداز نہیں ہوسکتا۔ ایہام کی تحریک کا بیج محمد شاہی عہد کے آغاز میں بارور ہونا شروع ہو گیا تھا۔ نادرشاہ کے حملے نے اجتماعی زندگی کا شیرازہ بکھیر دیا تھا۔ فرد اجتماعی خوف سے دو چار ہوا اور عیش و طرب کی محفلوں پر افسردگی طاری ہوگئی۔

چنانچہ لفظ جومستقیم اظہار کا وسیلہ تھا اپنی معنویت کھو بیٹھا اور ایسے الفاظ جن سے بیک وقت دو یا دو سے زیادہ معنی نکل سکتے تھے عام استعمال ہونے لگے۔ اس کا تاریخی ثبوت اس واقعے سے بھی ملتا ہے کہ 1734ء میں جب نواب خان دوران خاں میر بخشی مرہٹوں سے شکست کھا کر واپس آئے تو نواب عمدۃ الملک امیر خان نے برجستہ یہ جملہ کہا’نواب آئے ، ہمارے بھاگ آئے۔اس میں’بھاگ‘ کا لفظ فرار اور قسمت دونوں معنوں میں برتا گیا۔ اس سے یہ ثابت ہوتا ہے کہ مغلوں کی درباری سازشوں اور نادر شاہ کے حملے سے پھیلنے والے خوف و ہراس نے لوگوں کو ذومعنی الفاظ استعمال کرنے کی جانب مائل کیا۔اس لیے وہ اپنی مجلسوں میں پوشیدہ معانی لفظوں میں گفتگو کرنے لگے۔ اس سلسلے میں جن شعرا نے ایہام گوئی کے میدان میں اپنا نام پیدا کیا ان کی تفصیل کچھ یوں ہے۔

ایہام گوئی کے نمائندہ شعرا

ایہام کو خان آرزو اور بالخصوص ان کے شاگردوں نے فراوانی سے استعمال کیا۔ خان آرزو کا یقین تھا کہ مستقبل میں فارسی کے بجائے ریختہ ہی اس ملک کی زبان بننے والی ہے۔ اس لیے انھوں نے فارسی سے توجہ ہٹا کر اردو کومتمول بنانے پر توجہ دینا شروع کی اور کئی شعرا کو فارسی کے بجائے اردو میں شعر کہنے پر مائل کیا۔

ایہام گوئی کے قابل ذکر شعرا میں حاتم ، آبرو ، مضمون اور شاکر ناجی جیسے شعرا کا ذکر ہوتا ہے۔ اس دور میں ایہام گوئی کو فروغ ملا۔مغلیہ سلطنت کے آخری دور میں مغلوں کے پاس اختیارات محدود ہونے کی وجہ سے کوئی کام نہ تھا۔ اس عہد میں شعرا بجائے اس کے کہ اپنے کلام میں گہرائی اور معنویت پیدا کرتے انھوں نے ظاہری بناوٹ اور لفظی صنعت گری پر توجہ دی۔اس طرح ایہام گوئی کا آغاز ہوا۔

شاہ حاتم پیشے کے اعتبار سے سپاہی اور ایک رنگین مزاج شاعر تھا مگر اس کی زندگی میں ایک موڑ آیا جب یہ رنگین مزاجی سے تصوف کی جانب مائل ہوا۔ایہام گوئی کے آغاز میں اس ردعمل کو قبول کرتے ہوئے حاتم نے دیوان زادہ کے نام سے اپنا دیوان مرتب کیا۔اس دور میں انھوں نے ولی کی زمین میں شاعری کی۔دوسرے دور میں خود کو ایہام گوئی کے لیے وقف کیا جبکہ تیسرے ہی دور میں لسانی تبدیلیوں کا آغاز کر دیا۔زبان کی ہیت کو درست کرنے کے لیے حاتم نے نامانوس الفاظ نکالنے پر کام کیا۔ زبان کو اس قابل بنایا کہ اس میں اسالیب کے کئی تجربات کیے جا سکتے تھے۔

کہتا ہے صاف و شستہ سخن بسکہ ہے تلاش
حاتم کو اس سبب نہیں ایہام پر نگاہ
کئی دیوان کہہ چکا حاتم
اب تلک پر زبان نہیں ہے درست

شاہ مبارک آبرو بھی ایہام گوئی کے حوالے سے اہم شاعر ہے۔ان کی شاعری مغلوں کے آخری دور کی تہذیب ، ثقافت ،معاشرت ،اخلاقیات اور شعری رجحانات کی مثال ہے۔آبرو کی شاعری کا وصف ہے کہ ان کی غزل میں سوز و گداز ملتا ہے جو باقی شعرا کے ہاں بہت کم نظر آتا ہے۔

جدائی کے زمانے کی سخن کیا زیادتی کہیے
کہ اس ظالم کی ہم پر جو گھڑی بیتی سو جگ بیتا

آبرو کی شاعری بے رنگ نہیں اس میں جذبے اور خیالات کا احساس ملتا ہے۔ایہام سے پرہیز کرکے سادہ اسلوب میں بات کی تو میر کے رنگ کی جھلک دکھائی دی۔

پھرتے تھے دشت دشت دوانے کدھر گئے
وہ عاشقی کے ہائے زمانے کدھر گئے

ایہام گوئی کے شعرا میں شاکر ناجی عامیانہ ذوق کا شاعر کہلایا۔مجموعی طور پر ان ایہام گو شعرا کا اسلوب ثقیل اور بوجھل تھا۔جلد ہی اس کا ردعمل ظاہر ہوا۔

نہ ٹوکو یار کو کہ خط رکھاتا یا منڈاتا ہے
مرے نشہ کی خاطر لطف سے سبزی بناتا ہے

ناجی کی ایہام گوئی فکری آزمائش سے دو چار نظر آتی ہے جس میں تخلیقی لطافت نمایاں نہیں ہوتی۔ان کی تیز مزاجی نے لفظ کی دھار بھی تیز کر دی جس کی وجہ سے ان کا ایہام مصنوعی نظر آتا ہے۔

تحریک ایہام گوئی کا اہم شاعر جس نے ولی کے دیوان کا گہرا اثر لیا تھا وہ شیخ ظہور الدین حاتم ہے۔ شیخ ظہور الدین حاتم ، شاہ حاتم ، آبرو اور ناجی کا ہم عصر تھا۔حاتم نے کئی شعرا کا زمانہ اور تحریک ایہام کی ابتدا و عروج و زوال دیکھے۔ابتدائی دورمیں وہ بھی روشِ زمانہ سے دامن نہ بچا سکے اور ایہام سے متاثر ہوئے۔ان کے قدیم دیوان پر ایہام کے اثرات نمایاں ہیں۔

مثالِ بحر موجیں مارتا ہے
لیا ہے جس نے اس جگ کا کنارا

آہستہ آہستہ شعر میں تک بندی کا انداز غالب ہونے لگا تو شاعری الہامی کیفیت سے عاری ہونے لگی۔ نتیجتاً بہت جلد ایہام گوئی کے خلاف ردعمل کا آغاز ہو گیا۔ مرزا مظہر جان جاناں ، انعام اللہ یقین اور اس تحریک کے نمائندہ شاعر شاہ حاتم نے اس تحریک کے خلاف ردعمل ظاہر کیا۔مرزا مظہر جان جاناں پہلے خود ایہام گو شاعر تھا مگر جلد ہی اس کے خاتمے کے لیے آواز بلند کی کہ اس سے شاعروں کی صلاحیتیں ضائع ہو رہی تھیں۔ جان جاناں نے ردعمل کے طور پر ایک نئے شعری اور لسانی اسلوب کی بنیاد ڈالی۔آپ کی کوششوں سے زبان کا صوتی آہنگ ایک نئے سلیقے سے متعارف ہوا۔

یہ حسرت رہ گئی کس کس مزے سے زندگی کرتے
اگر ہوتا چمن اپنا ، گل اپنا ، باغباں اپنا

مرزا مظہر جانِ جاناں کی کوششوں سے ہی شمالی ہند کا شعری منظر نامہ تبدیل ہوا۔ان کی کوششوں سے یہ تحریک تھوڑے ہی عرصے بعد ہنگامہ برپا کرنے کے بعد تقریباً ختم ہو گئی۔

مختصر یہ کہ ایک طرف تو اس تحریک نے نہ صرف فارسی کے لسانی غلبے کے خلاف بغاوت کی بلکہ ریختہ کے پر سکون مزاج کو بھی متحرک کیا۔ تحریک ایہام معنی کی بجائے الفاظ کی تحریک تھی۔ نس میں جذبہ رفعت حاصل کرنے کی بجائے لفظوں کے ساتھ پیوست ہو جاتا تھا۔اس تحریک کا خمیر خالصتاً ہندوستانی مٹی سے اٹھا تھا۔اس کے خلاف اٹھنے والی تحریک اصلاح زبان کی تحریک تھی۔

سوالات:

  • ایہام گوئی سے کیا مراد ہے؟
  • انگریزی اور سنسکرت میں ایہام گوئی کس نام سے موجود ہے؟
  • ایہام گوئی کا مختصر سیاسی پسِ منظر بیان کریں؟
  • ایہام گوئی کے نمائندہ شعراء کے نام لکھیں؟
  • ایہام گوئی کے خلاف سب سے پہلے ردعمل ظاہر کرنے والے شاعر کون تھے؟
  • ایہام گوئی کے خلاف اٹھنے والی تحریک کون سی تھی؟