سر شمع ساں کٹائیے پر دم نہ ماریے

0
سر شمع ساں کٹائیے پر دم نہ ماریے
منزل ہزار سخت ہو ہمت نہ ہاریے
مقسوم کا جو ہے سو وہ پہنچے گا آپ سے
پھیلائیے نہ ہاتھ نہ دامن پساریے
طالب کو اپنے رکھتی ہے دنیا ذلیل و خوار
زر کی طمع سے چھانتے ہیں خاک نیاریے
تنہائی ہے غریبی ہے صحرا ہے خار ہے
کون آشنائے حال ہے کس کو پکاریے
تم فاتحہ بھی پڑھ چکے ہم دفن بھی ہوئے
بس خاک میں ملا چکے چلئے سدھاریے
نازُک دلوں کو شرط ہے آتش! خیالِ یار
شیشہ خُدا جو دے تو پری کو اتاریے

تشریح

سر شمع ساں کٹائیے پر دم نہ ماریے
منزل ہزار سخت ہو ہمت نہ ہاریے

شمع کا گل، بتی جب کٹتی ہے تو وہ آواز نہیں کرتی بلکہ اس کی لو بڑھ جاتی ہے۔اسی طرح جب کوئی حل مُشکل کاٹ جاتی ہے تو حوصلہ بڑھ جاتا ہے۔بس شاعر کہتا ہے کہ شمع کی طرح سر کٹا دیجئے مگر اُف نہ کیجیے اور منزل مقصود کتنی ہی مشکل کیوں نہ ہو،ہمت مت ہاریے۔اگر ایسا ہو سکا پھر منظر آسان ہو جائے گی۔

مقسوم کا جو ہے سو وہ پہنچے گا آپ سے
پھیلائیے نہ ہاتھ نہ دامن پساریے

شاعر کہتا ہے کہ جو کچھ مقدر میں ہوگا وہ خود بخود مل جائے گا لہذا سوال کے لئے ہاتھ پھیلانا اچھی بات نہیں ہے کہ مُقدر میں اگر نہیں ہو تو کہاں ملتا ہے۔ البتہ سُبکی ضُرور ہوتی ہے۔

طالب کو اپنے رکھتی ہے دنیا ذلیل و خوار
زر کی طمع سے چھانتے ہیں خاک نیاریے

شاعر کہتا ہے کہ طالب کو یعنی امید رکھنے والے کو دنیا ہمیشہ ہی ذلیل رکھتی ہے۔طلب گار کو بھی عزت نہیں ملتی۔لہذا یہ طلب ہی ہے، ہوس ہی ہے کہ وہ نالیوں سے خاک چھاننے پر مجبور کر دیتی ہے۔

تنہائی ہے غریبی ہے صحرا ہے خار ہے
کون آشنائے حال ہے کس کو پکاریے

شاعر کہتا ہے کہ جذبہ شوق میں اب ہم اس مقام پر آگئے جہاں غریب اُلوطنی،تنہائی،جنگل اور کانٹوں کے سِوا کچھ نہیں ہے۔اب ان میں سے کون ہمارے حال سے واقف ہے کہ جس کو آوازدیں،پُکاریں۔

نازُک دلوں کو شرط ہے آتش! خیالِ یار
شیشہ خُدا جو دے تو پری کو اتاریے

غزل کے مقطعے میں شاعر کہتا ہے کہ آتش محبوب کا خیال رکھنا کچھ بُری بات نہیں ہے بلکہ ضروری ہے کہ اگر خدا نے یہ نرم و نازُک آئینے جیسا دل دیا ہے تو پھر اس میں محبوب کی تمثال اتارنا لازم ہے۔