سُن تو سہی جہاں میں ہے تیرا فسانہ کیا

0

غزل

سُن تو سہی جہاں میں ہے تیرا فسانہ کیا
کہتی ہے تجھ کو خلقِ خُدا غائبانہ کیا
چاروں طرف سے صورتِ جاناں ہو جلوہ گر
دل صاف ہو ترا تو ہے آئینہ خانہ کیا
طبل و علم ہی پاس ہے اپنے، نہ ملک و مال
ہم سے خلاف ہو کے کرے گا زمانہ کیا
آتی ہے کس طرح سے مرے قبض روح کو
دیکھوں تو موت ڈھونڈ رہی ہے بہانہ کیا
یوں مُدعی حسد سے نہ دے داد تو نہ دے
آتشؔ! غزل یہ تُو نے کہی عاشقانہ کیا

تشریح

پہلا شعر

سُن تو سہی جہاں میں ہے تیرا فسانہ کیا
کہتی ہے تجھ کو خلقِ خُدا غائبانہ کیا

اس شعر میں غالباً حاکمِ وقت کی طرف اِشارہ ہےکہ تو اس خوش فہمی میں ہے کہ جو تو سوچتا ہے درست، جو کرتا ہے بجا ہے لیکن تجھے معلوم نہیں کہ لوگ تیرے حوالے سے کیا سوچتے ہیں۔اب شاعر کہتا ہے کہ دنیا میں جو کہانیاں تیرے متعلق بنی ہیں انہیں بھی سن اور یہ بھی سن کہ یہ خُدا کی مخلوق تیری پیٹھ پیچھے تجھ کو کیا کہتی ہے۔کس طرح یاد کرتی ہے۔

دوسرا شعر

چاروں طرف سے صورتِ جاناں ہو جلوہ گر
دل صاف ہو ترا تو ہے آئینہ خانہ کیا

شاعر کہتا ہے کہ اگر دل زنگ کُدورت سے پاک ہوا اور ہر طرح سے صاف ہو تو پھر دل ایک شیش محل کی طرح ہو جاتا ہے کہ جس میں چاروں طرف محبوب حقیقی کی صورتیں ہی صورتیں جلواہ گر نظر آئیں گی۔

تیسرا شعر

طبل و علم ہی پاس ہے اپنے، نہ ملک و مال
ہم سے خلاف ہو کے کرے گا زمانہ کیا

شاعر کہتا ہے کہ زمانے کی گردش اسے ہی نقصان پہنچا سکتی ہے جس کے پاس کچھ ہو۔ ہمارے پاس چوں کہ نہ ہی مال و دولت ہے اور نہ ہی بادشاہت ہے یا دوسرا کوئی سامان ہے تو پھر اگر زمانہ ہمارے خلاف ہو بھی گیا تو ہمارا کیا بِگاڑ لے گا۔

چوتھا شعر

آتی ہے کس طرح سے مرے قبض روح کو
دیکھوں تو موت ڈھونڈ رہی ہے بہانہ کیا

موت آتی ہے تو کوئی نہ کوئی بہانہ ساتھ لاتی ہے کہ فلاں ایک حادثے میں مر گیا، فلاں حرکتِ قلب بند ہونے سے مر گیا۔اب شاعر کہتا ہے کہ ہماری روح نِکالنے گویا ہماری موت کے لیے کون سا بہانہ ڈھونڈ رہی ہے۔یعنی دیکھتے ہیں کہ ہماری موت کا سبب کیا بنتا ہے۔

پانچواں شعر

یوں مُدعی حسد سے نہ دے داد تو نہ دے
آتشؔ! غزل یہ تُو نے کہی عاشقانہ کیا

شاعر کہتا ہے کہ اے آتش تم نے نہایت پاکیزہ اور بُلند مضامین کی بہت بڑھیا غزل کہی ہے۔اب اگر حریف حسد سے اس کی داد نہ دے تو دوسری بات ہے۔مگر تمھاری یہ عاشقانہ غزل لاجواب ہے، بہت خوب ہے۔