چمن میں رہنے دے کون آشیاں نہیں معلوم

0

غزل

چمن میں رہنے دے کون آشیاں نہیں معلوم
نہال کس کو کرے باغباں نہیں معلوم
کیا ہے کس نے طریق سلوک سے آگاہ
مرید کس کا ہے پیر مغاں نہیں معلوم
اخیر ہو گئے غفلت میں دن جوانی کے
بہار عمر ہوئی کب خزاں نہیں معلوم
یہ اشتیاق شہادت میں محو تھا دم قتل
لگے ہیں زخم بدن پر کہاں نہیں معلوم
جہان و کار جہاں سے ہوں بے خبر میں مست
زمیں کدھر ہے کہاں آسماں نہیں معلوم
سپرد کس کے مرے بعد ہو امانت عشق
اٹھائے کون یہ نار گراں نہیں معلوم
کس آئینہ میں نہیں جلوہ گر تری تمثال
تجھے سمجھتے ہیں ہم این و آں نہیں معلوم

تشریح

پہلا شعر

چمن میں رہنے دے کون آشیاں نہیں معلوم
نہال کس کو کرے باغباں نہیں معلوم

اس شعر میں شاعر نے دنیا کو چمن اور زمانے کو باغبان کہا ہے۔زمانے کی گردش کیا کیا رنگ نہیں دِکھاتی۔کبھی خوشی تو کبھی غم،سب کچھ زمانے ہی کی گردش کا نتیجہ ہے۔اب شاعر کہتا ہے کہ زمانے کی گردش کس آشیاں پر بجلی بن کر گِرے گی اور کس آشیاں کو سلامت رکھے گی،کس کو غم زیادہ کردے اور کسے خوش حال کر دے کوئی نہیں جانتا۔

دوسرا شعر

کیا ہے کس نے طریق سلوک سے آگاہ
مرید کس کا ہے پیر مغاں نہیں معلوم

پیرِ مُغاں سے مراد حضرت یعقوب علیہ السلام۔اب شاعر کہتا ہے کہ آخر کس نے خضرت یعقوب علیہ السلام کو نیکی کی تلاشِ حق کی روش سے آگاہ کیا تھا۔وہ کس کے دینی شاگرد تھے کہ جو تلاش حق کے راستے پر اس طرح ثابت قدم رہے۔

تیسرا شعر

اخیر ہو گئے غفلت میں دن جوانی کے
بہار عمر ہوئی کب خزاں نہیں معلوم

شاعر کہتا ہے کہ آخر غفلت ہی میں جوانی گُزر گئی۔یہ بھی نہ سُوجھا کہ آخرت بھی کوئی چیز ہے۔نہ اس جہان کے کوئی کام انجام دیے اور نہ آخرت سنوارنے کی فکر کی۔جوانی کی اُمنگ میں ایسے محو ہو گئے کہ پتہ ہی نہیں چلا کہ عمر کی بہار کب خزاں میں تبدیل ہوگئی۔یعنی جوانی بڑھاپے کی صورت میں بدل گئی ہے۔

چوتھا شعر

یہ اشتیاق شہادت میں محو تھا دم قتل
لگے ہیں زخم بدن پر کہاں نہیں معلوم

محبت میں قتل ہونے کو شاعر نے راہِ خُدا میں شہید ہونے کی مُترادف قرار دیا ہے۔اور شاعر کہتا ہے کہ محبوب کے ہاتھوں قتل ہوتے وقت میری شہادت کے شوق کی حد یہ تھی اور میں اس خواہش میں اس قدر محو ہو گیا تھا کہ معلوم نہیں ہوا کہ جسم پر کہاں وارد ہوا ہے، کہاں زخم ہوا ہے اور کتنا گہرا ہے۔

پانچواں شعر

جہان و کار جہاں سے ہوں بے خبر میں مست
زمیں کدھر ہے کہاں آسماں نہیں معلوم

شاعر کہتا ہے کہ میں دیوانہ، بے خود اس دنیا سے اور اس کے کام کاج سے اس قدر بے گانہ اور بے خبر ہوں کہ مجھے اس زمین و آسمان کا کچھ علم ہی نہیں ہے۔مجھے اس زمین و آسمان کا کچھ علم ہی نہیں۔میں محبت کے نشے میں اس طرح مست رہتا ہوں کہ دنیا میں کیا ہو رہا ہے مجھے کچھ پتہ ہی نہیں چلتا۔

چھٹا شعر

سپرد کس کے مرے بعد ہو امانت عشق
اٹھائے کون یہ نار گراں نہیں معلوم

عشق کی امانت ہر کسی کے سُپرد نہیں کی جاسکتی۔شاعر کہتا ہے کہ میرے بعد یہ امانت عشق کس کے سُپرد ہوگی،کچھ کہا نہیں جاسکتا۔کیونکہ یہ بھاری بوجھ ہر کوئی نہیں اُٹھا سکتا۔کچھ خاص لوگ ہی اس کے لئے مخصوص ہوتے ہیں۔بقول شعر؀

محبت کے لیے کچھ خاص دل مخصوص ہوتے ہیں
یہ وہ نغمہ ہے جو ہر ساز پہ گایا نہیں جاتا