فریبِ حسن سے گبر و مسلماں کا چلن بِگڑا

0

غزل

فریبِ حسن سے گبر و مسلماں کا چلن بِگڑا
خدا کی یاد بھولا شیخ، بُت سے برہمن بِگڑا
تکلّف کیا؟ جو کوئی جان شیریں پھوڑ کر سر کو
جو تھی غیرت تو پھر خسرو سے ہوتا کوہ کُن بِگڑا
تری تقلید سے کبک دری نے ٹھوکریں کھائیں
چلا جب جانور انساں کی چال اس کا چلن بگڑا
امانت کی طرح رکھا زمیں نے روز محشر تک
نہ اک مو کم ہوا اپنا نہ اک تار کفن بگڑا
لگے منہ بھی چڑھانے دیتے دیتے گالیاں صاحب
زباں بگڑی تو بگڑی تھی خبر لیجے دہن بگڑا

تشریح

فریبِ حسن سے گبر و مسلماں کا چلن بِگڑا
خدا کی یاد بھولا شیخ، بُت سے برہمن بِگڑا

گبر آتش پرست کو کہتے ہیں اور چلن بِگڑنا،عادات واطوار خراب ہونا ہوتا ہے۔حُسن کا فریب سر چڑھ کر بولتا ہے۔اب شاعر کہتا ہے کہ حسن کی عیّاری نے گبر و مسلمان دونوں کے چلن بِگاڑ کے رکھ دیے ہیں شیخ اس کے دھوکے میں خدا کی یاد دل سے بُھلا بیٹھا اور مورتی یعنی بگوان سے برہمن برہم ہوگیا ہے۔

تکلّف کیا؟ جو کوئی جان شیریں پھوڑ کر سر کو
جو تھی غیرت تو پھر خسرو سے ہوتا کوہ کُن بِگڑا

فرہاد شیریں سے محبت کرتا تھا۔اس کو پانے کے لئے پہاڑ کھود کر دودھ کی نہر لانے کی شرط رکھی گئی۔جب وہ اس میں کامیاب ہوگیا تو اسے معلوم ہوا کہ شیریں یعنی اس کی محبوبہ مر چُکی ہے تو اس نے تیشہ سر پر مار کر خود کو ختم کر دیا۔اب شاعر کہتا ہے کہ فرہاد نے اپنی عزیز جان کھو کر کون سی غیرت کا کام کیا۔اگر اس میں غیرت ہوتی تو وہ بادشاہ سے بِگڑا ہوتا جس نے یہ شرط رکھی تھی۔

تری تقلید سے کبک دری نے ٹھوکریں کھائیں
چلا جب جانور انساں کی چال اس کا چلن بگڑا

چوکری کی چال بہت دل کش ہوتی ہے۔لیکن وہ اکثر ٹھوکریں بھی کھاتا ہے۔اب شاعر محبوب کی مست چال کو دلکش بتانے کے لئے صنعتِ حُسن تعلیل سے کام لیتے ہوئے کہتا ہے کہ اے محبوب تمہاری چال اس قدر حسین ہے کہ جانور بھی اس کی نقل کرتے ہیں۔لہذا چکور نے تقلید کی مگر کہاں کر پاتا۔ایک جانور کی کیا بساط کہ وہ تمھاری چال کی نقل اُتارے۔وہ اپنی چال، اپنی وضع خراب کر بیٹھا اور ٹھوکریں کھاتا پھرتا ہے۔

امانت کی طرح رکھا زمیں نے روز محشر تک
نہ اک مو کم ہوا اپنا نہ اک تار کفن بگڑا

مرنے کے بعد قبر آخری منزل ہوتی ہے۔عقیدہ کہ حشر کے دن سب مُردے قبر سے اٹھ کھڑے ہوں گے۔اب شاعر کہتا ہے کہ اس زمین میں محشر یعنی قیامت کے دن تک ہمیں امانت کی طرح سنبھال کر رکھا اور اسی طرح سنبھال کر رکھا نہ ایک بال تک ہمارا کم ہوا اور نہ ہی کفن کا کوئی دھاگہ ہی بِگڑا۔

لگے منہ بھی چڑھانے دیتے دیتے گالیاں صاحب
زباں بگڑی تو بگڑی تھی خبر لیجے دہن بگڑا

شاعر کہتا ہے کہ ہمارا معشوق ہمیں گالیاں دیتا تھا‌۔اب اس نے گالیوں کے ساتھ ساتھ مُنہ بھی چِڑانا شروع کردیا ہے۔گویا ہمیں چڑانے کے لئے مُنہ بھی ٹیٹرھا بناتا ہے۔زبان تو اس کی خیر خراب تھی ہی مگر اب اس کی خیریت دریافت کرنی چاہیے کہ اس کا منہ بھی بگڑ گیا۔