حباب آسا میں دم بھرتا ہوں تیری آشنائی کا

0

غزل

حباب آسا میں دم بھرتا ہوں تیری آشنائی کا
نہایت غم ہے اس قطرے کو دریا کی جدائی کا
ہوئی منظور محتاجی نہ تجھ کو اپنی سائل کے
بنایا کاسۂ سر واژگوں کاسہ گدائی کا
نظر آتی ہیں ہر سو صورتیں ہی صورتیں مجھ کو
کوئی آئینہ خانہ کارخانہ ہے جدائی کا
نکل اے جان! بتن سے تا وصال یار حاصل ہو
چمن کی سیر ہے انجام بُلبُل رہائی ہے
شکست خاطر احباب ہوتی ہے درست اس سے
توجہ میں تری اے یار اثر ہے مومیائی کا
دل اپنا آئینہ سے صاف عشق پاک رکھتا ہے
تماشا دیکھتا ہے حسن اس میں خود نمائی کا
نہیں دیکھا ہے لیکن تجھ کو پہچانا ہے آتشؔ نے
بجا ہے اے صنم جو تجھ کو دعویٰ ہے خدائی کا

تشریح

حباب آسا میں دم بھرتا ہوں تیری آشنائی کا
نہایت غم ہے اس قطرے کو دریا کی جدائی کا

بُلبُلا دریا میں ہوتے ہوئے بھی الگ حیثیت رکھتا ہے اور جب تک اس کی الگ حیثیت بنی رہتی ہے وہ دریا نہیں ہوسکتا۔گویا اس کی الگ حیثیت ہی اس کے دریا ہونے میں مانع آتی ہے۔یہی معاملہ انسان کا ہے کہ اس کا وجود ہی اس کو محبوب حقیقی سے جُدا کرتا ہے۔اب شاعر خود کو بُلبُلا اور محبوب حقیقی کو سمندر قرار دیتا ہے اور کہتا ہے کہ میں تمہاری محبت پر ایمان لاتا ہوں اور مجھے تم سے جُدا ہونے کا بڑا رنج ہے۔

ہوئی منظور محتاجی نہ تجھ کو اپنی سائل کے
بنایا کاسۂ سر واژگوں کاسہ گدائی کا

شاعر کہتا ہے کہ اے خُدا چونکہ تجھے اپنے بندوں کی محتاجی قبول نہیں تھی اس لیے تو نے اس بھکاری کے ٹھیکاری نُماں کاسئہ سر کو انسانی کھوپڑی کی طرح اوندھا رکھا ہے، الٹا رکھا ہے۔

نظر آتی ہیں ہر سو صورتیں ہی صورتیں مجھ کو
کوئی آئینہ خانہ کارخانہ ہے جدائی کا

شاعر کہتا ہے کہ جس طرف کو نظر اٹھائیے اسی کا جلوہ دِکھائی دیتا ہے۔اس کی تمثال نظر آ جاتی ہے۔گویا یہ کائنات قُدرت خُدا کا کوئی آئینہ خانہ ہے کہ جس میں صورتیں ہی صورتیں نظر آتی ہیں۔

نکل اے جان! بتن سے تا وصال یار حاصل ہو
چمن کی سیر ہے انجام بُلبُل رہائی ہے

شاعر کہتا ہے کہ میری موجودگی نے مجھے میرے محبوب حقیقی سے دور رکھا ہے۔ لہٰذا موت آئے کہ مجھے اس کا وصال حاصل ہوجائے۔جس طرح بُلبُل رہا ہونے پر سیدھا اپنے محبوب گُل کے پاس جاتا ہے اسی طرح شاعر کہتا ہے کہ زندگی کی قید نے مجھے میرے محبوب سے دُور رکھا ہے۔یہ جان نکلے تو مجھے وصال ہو۔

نہیں دیکھا ہے لیکن تجھ کو پہچانا ہے آتشؔ نے
بجا ہے اے صنم جو تجھ کو دعویٰ ہے خدائی کا

شاعر کہتا ہے کہ اے خُدا آتش نے اگرچہ تجھے دیکھا نہیں ہے لیکن اس دنیا اور اس کی موجودات کو دیکھ کر اس نے تجھے پہچان لیا ہے کہ یہ سب تیری قدرت کے بغیر ممکن ہی نہیں تھا۔لہذا اے میرے محبوب حقیقی اگر تجھے خُدائی کا دعوىٰ ہے تو دُرست ہے،بجا ہے۔