وحشی تھے بُوئے گُل کی طرح سے جہاں میں ہم

0

غزل

وحشی تھے بُوئے گُل کی طرح سے جہاں میں ہم
نکلے، تو پھر کے آئے نہ اپنے مکاں میں ہم
ساقی ہے، یارِ ماہ لقا ہے،شراب ہے
اب بادشاہ وقت ہی اپنے مکاں میں ہم
کیا حال ہے؟ کسی نے نہ پوچھا ہزار حیف
نالاں رہے جرس کی طرح کارواں میں ہم
شاگرد ہیں طرز خندہ زنی میں ہے گُل ترا
استادِ عندلیب ہیں، شور و فغاں میں
دُنیا و آخرت میں طلب گار ہیں ترے
حاصل تجھے سمجھتے ہیں دونوں جہاں میں ہم
آتش! سُخن کی قدر زمانے سے اٹھ گئی
مقدُور ہو تو قفل لگا لیں وہاں میں ہم

تشریح

پہلا شعر

وحشی تھے بُوئے گُل کی طرح سے جہاں میں ہم
نکلے، تو پھر کے آئے نہ اپنے مکاں میں ہم

شاعر کہتا ہے کہ ہم بُوئے گُل یعنی پھول کی خوشبوُ کی طرح آوارہ تھے،بھٹکنے والے تھے۔خوشبو بھی ایک بار گُل سے نِکل جاتی ہے تو واپس لوٹ کر نہیں آتی اور نہ کہیں ٹھہرتی ہے۔اُسی طرح ہم بھی محبت میں ایسے آوارہ ہیں کہ ایک بار گھر سے نکلے ہیں تو لوٹ کر نہیں آئے ہیں اور نہ کہیں قیام کیا ہے۔

دوسرا شعر

ساقی ہے، یارِ ماہ لقا ہے،شراب ہے
اب بادشاہ وقت ہی اپنے مکاں میں ہم

شاعر کہتا ہے کہ ہمارے پاس ہمارا خوب رُو معشوق ہے،شراب اور شراب پلانے والا ساقی ہے جب یہ تمام چیزیں میسر ہیں تو پھر ہم جیسے عشاق کو اور کیا چاہیے۔لہذا اس وقت اگر ہم یہ کہیں کہ ہم حاکمِ وقت ہیں تو کیا قباحت ہوگی۔

تیسرا شعر

کیا حال ہے؟ کسی نے نہ پوچھا ہزار حیف
نالاں رہے جرس کی طرح کارواں میں ہم

شاعر کہتا ہے کہ ہم نے محبت کے میدان میں قدم کیا رکھا کہ سب نے ہم سے لاتعلقی اِختیار کرلی۔محبت میں ہم گھڑیوں فریاد کرتے رہے مگر افسوس صد افسوس کہ کسی اپنے پرائے نے یہ نہ پوچھا کہ تُم کیوں نالہ کر رہے ہو۔تُمھارے دل کی صورت، حالت کیسی ہے۔

چوتھا شعر

شاگرد ہیں طرز خندہ زنی میں ہے گُل ترا
استادِ عندلیب ہیں، شور و فغاں میں

شاعر محبوب کی خندہ زنی اور اپنے شورفغاں کا تذکرہ کر رہا ہے۔ محبوب ہنس ہنس کر عاشق کو رُلاتا ہے اور عاشق نالہ و فریاد کرتا ہے۔اب شاعر کہتا ہے کہ مسکرانے میں پھول تم سے کم تر ہے۔پھول کے کھلنے کو پھول کے ہنسنے سے تعبیر کیا ہے۔تم گویا ہنسنے میں پھول کے استاد ہو۔خود اپنے لیے کہتا ہے کہ بُلبُل بھی نالہ کرتا ہے مگر اس میں وہ تاثیر نہیں ہے جو ہمارے نالے میں ہے۔لہذا فریاد کرنے میں وہ ہمارا شاگرد ہے۔

پانچواں شعر

دُنیا و آخرت میں طلب گار ہیں ترے
حاصل تجھے سمجھتے ہیں دونوں جہاں میں ہم

شاعر کہتا ہے کہ اے محبوب ہمیں اس دنیا میں بھی تمہاری طلب ہے،خواہش ہےاور آخرت کے جہاں مرنے کے بعد روح جائے گی وہاں بھی تمہاری ہی طلب رہے گی۔گویا ہم دونوں جہانوں میں تجھے ہی سب کچھ خیال کرتے ہیں، حاصل خیال کرتے ہیں۔

چھٹا شعر

آتش! سُخن کی قدر زمانے سے اٹھ گئی
مقدُور ہو تو قفل لگا لیں وہاں میں ہم

شاعر زمانے سے سُخن کی بے قدری کا گِلا کر رہا ہے۔کہتا ہے کہ اس زمانے میں شاعری کی کوئی قدر و قیمت نہیں ہے اور ایسی بے قدری ہے کہ اگر ہمارے اختیار میں ہو تو ہم اپنے منہ کو تالا لگا دیں،خاموش ہو جائیں۔ایک شعر تک نہ کہیں۔مگر کہتے ہیں کیوں کہ مجبور ہیں۔