نظم نانک

0

علامہ اقبال کی نظم نانک کی تشریح

علامہ اقبال کی یہ نظم (نانک) ان کے پہلے شعری مجموعے “بانگ درا” میں شامل ہے۔ اس نظم میں علامہ اقبال نے سکھ مت کے بانی اور دس سکھ گروؤں میں سے پہلے گرو، گرونانک کی خدمت میں خراجِ تحسین پیش کیا ہے۔ کیونکہ گرونانک بھی ایک خدا کو ماننے والے تھے اور انہوں نے ساری عمر توحید ہی کی تبلیغ و اشاعت میں زندگی بسر کی۔گرو نانک لاہور، پنجاب( پاکستان) میں 15 اپریل 1469ء کو پیدا ہوئے اور ان کی وفات 22 ستمبر 1539ء کو شہر کرتارپور میں ہوئی۔ یہاں اس قدر لکھنا کافی ہے کہ گرو نانک مسلمان تھے اور ان کے اسلام پر انکا کُرتا جسے سکھ ‘چولا صاحب’ کہتے ہیں آج بھی گواہی دے رہا ہے۔

سدھارتھ گوتم جو دنیا میں مہاتمہ بدھ کے لقب سے مشہور ہے غالباً 567 (ق م) میں شمالی ہند (بہار) کے ایک راجہ کے یہاں پیدا ہوا تھا جو کپل وستو میں راج کرتا تھا۔30 سال کی عمر میں اس نے دنیا ترک کر دی اور دس سال کی ریاضت اور دماغی کاوش کے بعد اس نے یہ اعلان کیا کہ مجھے صحیح علم حاصل ہو گیا ہے۔ چنانچہ اس نے اپنے خیالات کی تبلیغ شروع کی اور بہت جلد لاکھوں آدمی اس کے حلقہ بگوش ہو گئے جنہوں نے اس کو بدھ کا لقب دیا۔

یعنی وہ شخص جس کی روح منور ہو چکی ہے اس نے ہندو دھرم کی کامل طورسے تردید کردی اور انسانوں کو مساوات اور اعلیٰ درجے کی اخلاقی زندگی بسر کرنے کا پیغام دیا۔ اس کا اخلاقی نظام آٹھ اصولوں پر مشتمل ہے جس کو “اسٹنگ مارگ” کہتے ہیں یعنی ١ صحیح خیال، ٢ صحیح عقیدہ، ٣ صحیح عمل، ٤ صحیح قول، ٥ صحیح کوشش، ٦ صحیح طریق معاش، ٧ صحیح گیان اور ٨ صحیح یاداشت۔ اس کے پیغام کا خلاصہ یہ ہے کہ انسان کو ایسی پاکیزہ زندگی بسر کرنی چاہیے کہ کسی کو اس کی ذات سے کسی قسم کی تکلیف نہ پہنچے۔ اسی ضمن میں علامہ اقبال نے یہ نظم لکھی ہے اور گوتم بدھ کی سوچ اور ان کی تعلیمات کو خراجِ تحسین پیش کیا ہے۔ علامہ اقبال کی یہ نظم 8 اشعار پر مشتمل ہے جن کی اشعار با اشعار تشریح درج ذیل ہے۔

  • ١ علامہ اقبال افسوس کے ساتھ فرماتے ہیں کہ ہندؤں نے گوتم بدھ کے پیغام کو رد کردیا یعنی انہوں نے اپنی کم فہمی اور چھوٹی سوچ کی بنا پر اپنی قوم کے بہترین فرد کی کوئی قدر نہیں کی۔
  • ٢ افسوس ہے کہ ہندو اس بڑی سچائی سے غافل رہے جو بدھؔ نے ان کے سامنے پیش کی تھی۔ ان کا حال اس میوادار درخت کی مانند ہے کہ دوسرے اس کا پھل کھاتے ہیں لیکن خود درخت اپنے پھل سے محروم رہتا ہے۔
  • ٣ اگرچہ گوتم بدھؔ نے ہندوؤں کو زندگی کی حقیقت سے آگاہ کیا کہ برہمنؔ اور شودرؔ دونوں بھائی بھائی ہیں، دونوں ایک آدم کی اولاد ہیں۔ ذات پات کا امتیاز بنی آدم کے حق میں سب سے بڑی لعنت ہے اور نیک وہ ہے جو نیکی کرے اور پاکیزہ زندگی بسر کرے نہ کہ وہ جو نیکوں کے گھر میں پیدا ہو ،لیکن افسوس کہ ہندو قوم اپنے خیالی فلسفہ یعنی ذات پات کے چھوٹے امتیاز میں ہی مبتلا رہی اور گوتم بدھ کے پیغامات کو نہ سمجھ سکی۔
  • ٤ افسوس کہ ہندو قوم میں حق کو قبول کرنے کی صلاحیت ہی نہ تھی۔
  • ٥ افسوس کہ ہندوستان شودروںؔ (چھوٹی ذات کے ہندو) کے لیے مدتوں سے رنج و مصیبت کا گھر ہے کیونکہ ہندو دھرم کی رُو سے ایک شودرؔ خواہ وہ کتنا ہی نیک کیوں نہ ہو برہمن کا ہم پلہ ہونا تو کجا، وہ اس کے ساتھ ایک چارپائی پر بھی بیٹھ نہیں سکتا اور اگر وہ دید کا کوئی منتر سن پائے تو بقول منوجیؔ اس کے کان میں سیسہ پگھلا کر ڈال دینا چاہیے۔
  • ٦ برہمن ابھی تک اس خام خیالی میں مبتلا ہے کہ میں سب سے افضل ہوں یہی وجہ ہے کہ گوتمؔ کی تعلیمات دوسرے ملکوں میں تو مروج ہیں لیکن ہندوستان اس نعمت سے محروم ہے۔ بات یہ ہے کہ گوتم بدھؔ نے مساواتِ نسل انسانی کا درس دیا تھا اور یہ عقیدہ چونکہ براہمنوں کے اقتدار پر ایک کاری ضرب تھا ، اس لئے انہوں نے بادشاہوں کو ترغیب دے کر اس مذہب کو تلوار کے زور سے ختم کرا دیا چنانچہ آج ہندوستان میں بدھ دھرم کا کوئی پیرو موجود نہیں ہے۔
  • ٧ -٨ لیکن صدیوں کے بعد ہندوستان میں پھر ایک شخص پیدا ہوا جس نے توحید کا عَلم بلند کیا اور ہندوؤں کو خوابِ غفلت سے بیدار کیا۔ علامہ اقبالؔ کا یہ اشارہ گرونانک کی طرف ہے۔