Impact Of Sufism on Urdu Poetry | اردو شعرا پر تصوف کے اثرات ( ولی، میر تقی میر، میر درد، آتش)

0

اردو شعرا پر تصوف کے اثرات ( ولی، میر تقی میر، میر درد، آتش)

  • 1.1 تمہید
  • 1.2مقاصد
  • 1.3 اردو شعرا پر تصوف کے اثرات
  • 1.4 عمومی جائزہ
  • 1.5 سوالات
  • 1.6 امدادی کتب

1.1 تمہید

تصوف اور فلسفہ کے باریک اور نازک مسائل و مراتب کے بیان یا اظہار کے لیے انتہائی موزوں ڈسکشن کی ضرورت ہوتی ہے۔ اس لئے فلسفیانہ اور صوفیانہ شاعری میں صورت گری کی خاص اہمیت ہے۔فلسفہ وتصوف علمی و عملی موضوعات ہیں، شاعری جمالیاتی احساسات کا فن ہے جس کا تعلق راست طور پر روحانیت و داخلیت سے ہے۔ حقیقی اور اچھی صوفیانہ شاعری خواب اور حقیقت کی حسین آمیزش سے وجود میں آتی ہے۔ یہ اور بات ہے کہ اردو شاعری میں ہندوستانی عناصر موجود ہیں لیکن اس حقیقت سے بھی انکار نہیں کیا جاسکتا کہ اردو شاعری اور خاص طور پر غزل فارسی شاعری اور غزل کا عکس ہے۔اردو کے تین شاعروں کے بارے میں کسی قدر کہا جا سکتا ہے کہ وہ صوفی بھی ہیں اور شاعر بھی۔ وہ شعرا ہیں مرزا مظہر جان جاناں، خواجہ میر درد اور آسی غازی پوری۔ غالب کے یہاں صوفیانہ اور وادانتی افکار کے شعری پیکر میں اور شوخیانہ پہلو زیادہ ہیں۔ آتش و میر بھی سامنے کی باتوں سے زیادہ کچھ نہ کہہ سکے۔ ولی اور میر بھی اس مقام پر تہی دامن نظر آتے ہیں۔ بہرحال اس کے باوجود ہمیں فی المقدور ولی، میر تقی میر، میر درد اور آتش کی صوفیانہ شاعری کا خاص طور پر جائزہ لینا ہے۔

1.2 مقاصد

اس سبق کو پڑھنے کا مقصد یہ ہے کہ طلبا بخوبی جان لیں کہ اردو شاعری اور خاص طور پر میر تقی میر، ولی، میر درد اور خواجہ حیدر علی آتش کے یہاں تصوف کے کیا مسائل ہیں اور انہوں نے تصوف کے مسائل اور مراتب کو کس طرح اپنی شاعری میں بیان کرنے کی شعری کوشش کی ہے۔

1.3 اردو شعرا پر تصوف کے اثرات (ولی، میر تقی میر، میر درد اور آتش)

تصوف اور فلسفے کے باریک اور نازک مسائل کے بیان کے لئے نہایت ہی موزوں الفاظ کی ضرورت ہوتی ہے۔ اس لیے فلسفیانہ اور صوفیانہ شاعری میں پیکر اور جذبات و کیفیات کی صورت گری اہم کام ہے۔ تصوف اور فلسفہ علمی و عملی موضوع ہیں، شاعری جمالیاتی احساس کا فن ہے، جس کا تعلق راست طور پر روحانیت اور داخلیت سے ہوتا ہے۔ حقیقی اور اچھی صوفیانہ شاعری خواب اور حقیقت کے حسین امتزاج سے وجود میں آتی ہے۔یہ اور بات ہے کہ اردو شاعری اور خاص طور پر غزل میں ہندوستانی عناصر موجود ہیں لیکن اس بات سے بھی انکار ممکن نہیں کہ اردو شاعری اور بالخصوص غزل فارسی غزل کا حسین عکس ہے۔ایران کی طرح ہندوستان کا ذہن بھی فلسفیانہ اور روحانی مزاج کا حامل ہے۔ یہاں پر تغزل و تصوف کے ہندوستانی سماج نے ویدانت اور اسلامی تصوف کا کافی اثر قبول کیا ہے، یہی وجہ ہے کہ شعر و ادب پر بھی اس کا اثر فطری امر ہے۔ اس لیے تصوف اور تغزل کا پودا ہندوستان کی آب و ہوا میں ایک مضبوط تناور درخت بن گیا۔ اردو شاعری اور خاص طور پر غزل اپنے اندر تصوف و تغزل کے حسین ومتین عناصر جذب کرتی آئی ہے۔یہاں پر ہندو جوگیوں اور مسلمان صوفیوں نے اپنے پیرائے میں فکروفن سے تصوف کے عناصر کو اور بڑھاوا دیا، اس لئے اردو کے تقریباً تمام چھوٹے بڑے شاعروں نے شعوری اور لاشعوری طور پر روایت کے گہرے اثرات قبول کیے اور عوامی رجحانات کا شکار بھی ہوتے گئے۔

اگر حقیقی اور سچے تصوف کو دیکھا جائے تو وہ اردو کے تین شاعروں کے یہاں ملتا ہے۔ وہ صوفی بھی ہیں اور شاعر بھی۔ان کے اسمائے گرامی اس طرح ہیں: مرزا مظہر جان جاناں، خواجہ میر درد اور آسی غازی پوری۔ مرزا مظہر جان جاناں کا اردو کلام کلام کمیاب ہے، صرف چند شعر اردو تذکروں میں ملتے ہیں ان میں مجازی رنگ بہت گہرا ہے اور حقیقت کا رنگ ذرا ہلکا ہے۔ خواجہ میر درد کے یہاں اس کی جھلک ضرور ملتی ہے۔ کہیں کہیں صوفیانہ پن جمالیاتی کیفیت کے ساتھ محسوس کیا جا سکتا ہے، لیکن ان کی شاعری میں بھی ایسے اشعار کم ہیں۔ آسی غازی پوری نے غزل کے اسلوب بیان اور فطری زبان کو اظہار کا ذریعہ بنایا ہے۔ اس لیے کلاسیکل ڈکشن، مانوس ماحول اور دلکش انداز بیان کے سبب باطنی تجربات کی آنچ ذرا مدھم سی ہو گئی ہے مگر محسوس ضرور ہوتی ہے۔ آسی تو ہماری اس بحث کا حصہ نہیں ہیں ہم اصل موضوع پر آتے ہیں۔

تصوف کے مسائل آتش و میر تقی میر کے زیادہ گہرے نہیں ہیں بلکہ سامنے کی باتوں سے زیادہ کچھ نہ کہہ سکے۔ ولی بھی اس مقام پر تہی دامن نظر آتے ہیں۔ دوسرے شعرا کو تو تصوف کے عملی و کشفی پہلو سے کوئی سروکار ہی نہیں تھا۔ اب ہم نصاب میں شامل شعرا کے کلام میں تصوف کے اثرات کس طرح شامل ہوئے، ان پر بات کرتے ہیں۔

ولی ( ولادت: ١٦٦٨ء اورنگآباد، وفات ١٧٤١ء)

ولی کی شاعری میں دو نمایاں عناصر مجاز اور حقیقت موجود ہیں جو کبھی الگ الگ اور کہیں ملے جلے ادب میں ملتے ہیں۔ حقیقی عنصر کے دو پہلو ہیں ۔ایک نظام تصوف کی مختلف منزلوں اور اس کے طریقے کی ہدایات سے متعلق ہے اور دوسرا جذب و عشق سے تعلق رکھتا ہے۔

ولی کے زمانے میں تصوف کے تصورات عام ہورہے تھے۔ ولی دکنی خود ایک صوفی تھے۔ نصیر الدین ہاشمی کے مطابق ”تحصیل علم کے لئے گجرات کا سفر کیا اور ایک مدت تک وہاں اقامت اختیار کی، نہ صرف علوم ظاہری کا احتساب کیا بلکہ حضرت شاہ وجیہ الدین گجراتی سے فیض باطنی بھی پایا“

ولی کے کلام میں سراپا تصوف ہے اور ان کے اشعار میں رنگِ تصوف فطری طور نہیں بلکہ عملی طور پر نظر آتا ہے۔ اتنی بات ضرور ہے کہ ولی کے یہاں بھی ہمیں وحدت الوجود کے عناصر ملتے ہیں۔ ولی کی غزلوں کے مطالعے سے اندازہ ہوتا ہے کہ وہ غزل کے علاوہ اخلاقی مضامین میں دلچسپی رکھتے تھے۔ گو کہ باتیں عام طور پر سیدھی سادی ہوتی ہیں مگر جب مضمون آفرینی کی کوشش کرتے ہیں وہاں تخیل کی گہرائی خاصے کی چیز ہے۔خاص طور پر ان مقامات پر جہاں تصوف کے مسائل و نکات کا اظہار کرتے ہیں اس لیے کہ وہ خود صوفی تھے اور کئی برسوں تک خانقاہوں میں رہ کر معرفت کی تعلیم لے چکے تھے۔ یہی سبب ہے کہ معنویت کے ساتھ پر لطف طریقے سے رموز تصوف و حقائق کو بیان کرتے ہیں۔

ولی کی علمی، ادبی اور مذہبی صلاحیت سے انکار نہیں کیا جاسکتا۔ ان کے کلام میں قرآنی آیات اور احادیث کی تلمیحات وافر مقدار میں ملتی ہیں۔ مذہبی علوم اور تصوف کی اصطلاحوں کو کمالِ خوبی کے ساتھ اپنے کلام میں شامل کیا ہے۔ ان کے کلام سے فارسی اساتذہ کے طرز کلام کا اثر بھی واضح ہوتا ہے۔ان کے کلام میں ان عناصر کی شمولیت اس بات کا ثبوت ہے کہ وہ اپنے زمانے کے دینی علوم اور دنیاوی علوم سے پوری طرح آگاہی رکھتے تھے۔ ڈاکٹر سید عبداللہ کا کہنا ہے کہ:
” ولی کے تنزیہی رجحان کی ایک صورت مشابہتوں میں مبالغہ کے ذریعے لاانتہائیت اور ماورائیت کا احساس پیدا کرنا ہے، یہ خصوصیت عام صوفی شعرا کے کلام میں ملتی ہے۔ولی بھی اس خصوصیت میں شریک ہیں۔ ولی کو دریا کی وسعتوں اور آفتاب کی آنکھوں کو خیرہ کردینے والی تابانیوں کے تصور سے بڑی ہوتی ہے۔“

ولی کی شاعری سے چند متصوفانہ اشعار یہاں درج ہیں جن سے ولی کی شاعری میں تصوف کے عناصر کی واقفیت ہو سکتی ہے؀

ہر ایک سوں متواضع ہو سروری یہ ہے
سنبھال کشتی دل کو قلندری یہ ہے
مجھ کو پہنچتی ہے آرسی سے یہ بات
صاف دل وقت کا سکندر ہے
موسیٰ جو آکے دیکھے تجھ نور کا تماشا
اس کو پہاڑ ہو وے پھر طور کا تماشا
جلوہ گر جب سوں دو جمال ہوا
نور خورشید پامال ہوا
شغل بہتر ہے عشق بازی کا
کیا حقیقی و کیا مجازی کا
خودی سے اصلاً گر خالی ہو اے دل
اگر اس شمع روشن کی لگن ہے
در وادی حقیقت جن نے قدم رکھا ہے
اول قدم ہے اس کا عشق مجاز کرنا

میر تقی میر (ولادت: ١٧٢٤ء وفات: ١٨١٠ء)

میر تقی میر غزل کے معتبر و مستند شاعر اور استاد مانے گئے ہیں۔ ان کے کلام کی خصوصیت یہ ہے کہ اس میں سوزوگداز، درد و محبت اور عشق کی گرمی بڑے ہی والہانہ انداز میں ملتی ہے۔عاشقانہ جذبات کے علاوہ ان کی شاعری میں تصوف اور اخلاق کے مسائل پائے جاتے ہیں۔ میر تقی میر کی شاعری کے متعلق ڈاکٹر عبادت بریلوی لکھتے ہیں:

” میر کے احساس کی شدت اور اس کے ساتھ گہرے انسانی شعور نے ان میں ایک آفاقی اور کائناتی رنگ پیدا کر دیا ہے۔ اس لیے ان کا اثر ہمہ گیر ولازوال ہے، عشق و عاشقی کی مختلف کیفیات اور جذبات و احساسات کی ترجمانی کے ساتھ ساتھ میر کی غزل میں تصوف اور اس کے مسائل کی ترجمانی بھی کم نہیں ہے۔“

میر کا حقیقی کمال وفن غزل گوئی میں ظاہر ہوتا ہے۔ وہ ایک خوددار اور حساس طبیعت کے مالک تھے۔ اپنے تجربات میں ڈوبے ہوئے انسان تھے اور تصوف کی تعلیم نے طبعیت کے اس رنگ کو اور بھی دوبالا کر دیا تھا۔مولوی عبدالحق لکھتے ہیں:
” ان کی زبان کی وضاحت اور سادگی، سوزوگداز مضامین کی جدت اور تاثیر یہ ایسی خوبیاں ہیں جو اردو کے کسی دوسرے شاعر میں نہیں پائی جاتیں۔ ان کی شاعری عاشقانہ شاعری ہے لیکن کہیں کہیں وہ اخلاقی اور حکیمانہ مضامین کو اپنے رنگ میں ایسی سادگی اور صفائی اور خوبی سے ادا کر جاتے ہیں جن پر ہزار بلند پروازیاں اور نازک خیالیاں قربان ہیں۔“

اس میں کوئی شبہ نہیں کہ میر کی محبت کا اثر ان کے شعروں سے عیاں ہے جو شاعرانہ مزاج کے سبب تھا، مگر ان کی شاعری سے فکروفاقہ، ضبط نفس، تزکیۂ فلب، زہدوتقوی، صفائی باطن اور صوفیانہ مزاج کی اور دیگر بہت ساری علامتیں بھی ظاہر ہوتی ہیں جن سے ان کے سوز و گداز، درد و غم، رنج و پریشانی، مصائب و آلام، بیزاریِ دنیا ، بے قراری اور دیگر مادی الجھنوں کا رابطہ درویشی کے پیرائے کا معلوم ہوتا ہے۔

میر کے اشعار سے چند متصوفانہ شعر یہاں ملاحظہ کیجیے؀

تھا مستعار حسن سے اس کے جو نور تھا
خورشید میں بھی اس ہی کا ذرہ ظہور تھا
سراپا آرزو ہونے نے بندہ کر دیا ہم کو
وگرنہ ہم خدا تھے گر دل بے مدعا ہوتے
سب پہ جس بار نے گرانی کی
اس کو یہ ناتواں اٹھا لایا
عشق ہی عشق ہے جہاں دیکھو
سارے عالم میں بھر رہا ہے عشق
ہستی اپنی حباب کی سی ہے
یہ نمائش سراب کی سی ہے
ہم لوگ ہمیں عشق میں کیا کیا نہ کہیں گے
عشق ہمارا آہ نہ پوچھو کیا کیا رنگ بدلتا ہے
نہیں عشق کا درد لذت سے خالی
جسے ذوق ہے وہ مزا جانتا ہے

یہ اشعار عشق حقیقی کی ترجمانی کرتے ہیں۔ میر بھی وحدت الوجود کے قائل تھے، ان کے تصوف کی روح عشق حقیقی ہے۔ جذبات عشق کی وجہ سے سلوک کی راہ میں کئی مقامات کی سیر ہوتی ہے۔ اگر کوئی دل ان مراتب کی صلاحیت نہیں رکھتا تو اس کو سالہا سال تک سخت ترین مجاہدہ کی آزمائشوں سے گزرنا پڑتا ہے اور اپنے باطن میں سوز و گداز کی کیفیات کو پیدا کرنا ہوتا ہے، تب عشق حقیقی کا لطف مل سکتا ہے اور سلوک کی منزلوں کی سیر حاصل ہوتی ہے۔

خواجہ میر درد (ولادت: ١٧١٩ء ،وفات:١٨٧٥ء)

خواجہ میر درد نہ صرف خود صوفی تھے بلکہ ایک اچھے شاعر بھی تھے۔ ان کے والد گرامی خواجہ محمد ناصر عندلیبؔ بھی صوفی اور شاعر تھے۔ درد نے اپنے والد گرامی کی آغوش تربیت میں پرورش پائی۔ درویشانہ تعلیم نے روحانیت کو آب و تاب دی۔ پھر تصوف کے رنگ میں ڈوب گئے۔ والد کے انتقال کے بعد 22 برس کی عمر میں فقر و تصوف میں تشریف فرما ہوئے۔ تصوف و شاعری، صبر و توکل، قناعت و استغنا کو ورثے میں پایا تھا۔ذاتی تقدس، ریاضت و عبادت کے سبب مفلس و شاہ، ہندو مسلمان تمام ہی ان کی عزت کیا کرتے تھے۔

دہلی کئی بار اجڑی بسی، مرہٹوں نے غارت گری کی، لوٹ کھسوٹ کے سبب درد کی معاشی حالت بگڑ چکی تھی۔ زیادہ تر ارباب علم و فن زندگی کے ہنگاموں کے خوف سے تنگ آکر لکھنؤ یا دیگر علاقوں کی طرف ہجرت کر گئے تھے لیکن ایک خواجہ میر درد ہیں جنہوں نے اللہ پر بھروسہ کرتے ہوئے دہلی کو نہیں چھوڑا۔ آپ سلسلۂ نقشبندیہ سے بیعت تھے۔

درد وحدت شہود کے قائل تھے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے متبع تھے۔ ان کو عام صوفیوں کے غالبانہ افکار سے کوئی واسطہ نہیں تھا۔ درد کے عقائد وہی رہے ہیں جو کتاب و سنت سے ثابت ہیں۔ انہوں نے اپنی تصنیف ”علم الکتاب“ میں اس کی وضاحت کی ہے کہ وہ توحید مطلق کے قائل ہیں جس میں وجودی اور شہودی قید نہیں۔ توحید وجودی و شہودی سے متعلق ان کا مسلک یہ رہا ہے کہ اگرچہ دونوں حق پر ہیں اور دونوں کا مآل و انجام (ماسوا حقیقی وجود نہیں) ایک ہی ہے۔ مگر توحید شہودی کے مطابق یہ شریعت زیادہ ہے۔اسی نقطۂ نظر کی جھلک مختلف رنگوں کے ساتھ ان کے کلام میں دیکھی جا سکتی ہے۔

دونوں جہاں کو روشن کرتا ہے نور تیرا
اعیاں ہے مظاہر ظاہر ظہور تیرا
جلوہ گاہ تیرا کیا غیب کیا شہادت
یاں بھی شہود تیرا واں بھی شہود تیرا
مٹ جائیں ایک آن میں کثرت نمائیاں
ہم آئینے کے سامنے جب آ کے ہو کریں
ہوئے کب وحدت سے کثرت میں خلل
جسم و جان گو دو ہیں پر ہم ایک ہیں
متفق آپس میں ہیں اہل شہود
درد آنکھیں دیکھ باہم ایک ہیں

دنیا میں جو مظاہر نظر آتے ہیں یہ درحقیقت عدم کے آئینے ہیں جن میں حقیقت نے اپنا جلوہ ظاہر کیا ہے۔’ہو’ کرنے میں شاعر نے کئی باتوں کا خیال رکھا ہے۔ دیوانہ عاشق و معشوق کے سوا کسی سے ربط نہیں رکھتا یہی سبب ہے کہ وہ آئینہ کے سامنے ‘ہو’ کرتا ہے۔ دوسرا یہ کہ آئینہ کے سامنے جب کوئی شخص ‘ہو’ کی آواز کرے گا تو آئینہ دھندلا جائے گا۔ یہی دیوانہ کا مقصد ہے کہ کثرت کے جو غلط نقوش نظر آرہے ہیں معدوم ہو جائیں۔ علاوہ ازیں ‘ھو’ کی ضمیر اللہ سبحانہ تعالی کے لئے استعمال ہوئی ہے۔ نتیجہ صاف ہے کہ جب اس کی ہستی کا اظہار ہو گا تو یہ سہت نمائشی خود ہی مٹ جائے گی۔درد نے آئنہ کے مضمون کو کئی طرح سے باندہ ہے۔

درد مثل آئینہ ڈھونڈ اس کو آپ میں
بیرون در تو اپنی قدم گاہ ہی نہیں
وحدت میں تیری صرف دوئی کا نہ آسکے
آئینہ کیا مجال مجھے منہ دکھا سکے
حیران آئینہ وار ہیں ہم
کس سے یارب دو چار ہو گئے ہم

اس خطۂ ارض کو ہم روشن کہہ دے سکتے ہیں لیکن درحقیقت وہ روشنی اس کی اپنی نہیں بلکہ آفتاب کی ہے۔ ہاں ہمارے باطن میں جو صفات ہیں وہ ہماری ذاتی ہیں۔ جن کا حق سبحانہ تعالیٰ سے کوئی تعلق نہیں، جیسے ہماری موت، ہمارا عجز، عیب وغیرہ اس مضمون کو خواجہ میر درد نے شعری پیکر میں اس طرح ڈھالا ہے؀

تعقید گاہ امکاں میں ہے وہ کچھ بخشش مطلق
کہ ہر واحد کو لاکھوں دام یہاں تنخواہ ہوتے ہیں

مشرقی شاعروں اور باشندوں کے مطابق دنیا کانٹوں کا جہاں ہے، آدمی اس جہاں میں اس لیے نہیں پیدا کیا گیا کہ وہ عیش و عشرت کرے۔ ان کا ماننا ہے کہ دنیا ایک دھوکا ہے یہ پرانی ضعیفہ روز بروز نئے نئے روپ میں نئی نویلی دلہن بن کر انسانوں کو دھوکا دیتی ہے۔ اس لیے ہر شاعر اپنے لیے یہ ضروری سمجھتا ہے کہ وہ اس کے مکر و فریب سے اہل جہاں کو آزاد کرے۔خواجہ میر درد نے بھی اس فریضہ کو انجام دیا ہے۔

عالم ہو قدیم خواہ حادیث
جس دم نہیں ہم جہاں نہیں ہے
تہمتیں چند اپنے ذمے دھر چلے
جس لیے آئے تھے سو ہم کر چلے
کیا ہمیں کام ان گلوں سے اے صبا
ایک دم آئے اِدھر اُدھر چلے
شمع کی مانند ہم اس بزم میں
چشم تر آئے تھے دامن تر چلے

اس طرح اگر دیوان خواجہ میر درد کا غوروفکر سے مطالعہ کیا جائے تو واضح ہو جاتا ہے کہ ان کے کلام میں تصوف کے بہت سارے مسائل بیان ہوئے ہیں اور ان کی زندگی عملی تصوف کی سچی تصویر ہے۔

خواجہ حیدر علی آتش (ولادت: ١٧٧٨ء وفات:١٨٤٧ء)

خواجہ حیدر علی آتش والد خواجہ علی بخش دہلوی ایک معزز خاندان سے تعلق رکھتے تھے۔ دہلی چھوڑ کر فیض آباد ان کے والد آئے، فیض آباد میں ١٧٧٨ میں ولادت ہوئی۔ صغر سنی میں ہی والد کا انتقال ہوگیا۔ جب لکھنؤ دارالحکومت بنا تو آتش لکھنؤ چلے مصطفی کی شاگردی اختیار کی۔ آخری عمر میں بصارت سے محروم ہوگئی اور ١٨٤٧ میں انتقال کر گئے۔

خواجہ حیدر علی آتش کا طرز خیال قلندرانہ فقیرانہ تھا۔ وہ زندگی کو ایک الگ طریقے سے سوچتے تھے، زندگی کی بلندی کو سمجھتے تھے۔ اسی طرح ان کے خیالات بھی بلند درجے کے تھے۔اپنی بلند خیالی کی مناسبت سے ان کو مناسب الفاظ بھی مل جاتے تھے جن میں وہ بہتر طریقے سے اظہار کر لیتے تھے۔ ان کا کلام اصابت و سلاست، سادگی اور صفائی کے ساتھ ساتھ فکر کی بلند مؤثر کیفیت لیے ہوئے ہے۔قاری اور سامع کو اشعار پڑھنے اور سننے کے بعد عالم موجودگی طاری ہو جاتا ہے۔ اس کا اندازہ ذیل کے اشعار سے لگایا جاسکتا ہے۔

حباب آس میں دم بھرتا ہوں تیری آشنائی کا
نہایت غم ہے اس قطرے کو دریا کی جدائی کا
دل اپنا آئینے سے صاف عشق پاک رکھتا ہے
تماشہ دیکھتا ہے حسن اس میں خود نمائی کا

آتش کی شاعری میں تصوف نے ایسی کیفیات اور سرمستیاں پیدا کر دی ہیں جو بہت کم شعرا میں نظر آتی ہیں۔ ان کی افتاد طبع اور طرز تخیل نے ایسے اشعار میں ایک خاص رنگ، عزم اور ایک بے نیازی پیدا کر دی ہے جو ان کی شاعری کے لیے انفراد کی حیثیت رکھتا ہے۔ مسائل تصوف نے ان کی شاعری میں ایک دل آویز معنویت پیدا کر دی ہے جو اس دور کے دبستان شاعری میں خال خال ہی نظر آتی ہے۔ آتش مضمون آفرینی کے لیے بال کی کھال نہیں نکالتے بلکہ زندگی میں جدوجہد اور رجائیت کی لہر دوڑاتے ہیں۔ ذیل کے اشعار میں مضامین تصوف کے مختلف رنگ دیکھے جا سکتے ہیں۔

گل آتے ہیں ہستی میں عدم سے ہمہ تن گوش
بلبل کا یہ نالہ نہیں افسانہ ہے اس کا
کم نہ شوق ہو درگاہ عشق کی رہبر
یہ آستانہ بلندی میں بام ہو جاتا ہے
اٹھا نقاب چہرہ زیبائے یار سے
دیوار درمیان جو تھی ہم اس کو ڈھا چکے
نفس امارہ سا رکھتا ہے یہ سرکش دشمن
آدمی کے لئے غافل نہیں رہنا بہتر
کون عالم میں ہے ایسا جو نہیں سر بسجود
کس کی گردن کو جھکاتا نہیں احساس تیرا
ایک سجدہ نیاز میں ہے فرض عشق ادا
میں مقتدی ہوں اور میرا دل امام ہے

آتش کے یہاں تصوف کے سبب ان کے انداز تخیل میں ایک ایسا عنصر پیدا ہوگیا جو عموماً ان کی شاعری میں شگفتگی اور امنگ کی لہر دوڑتی ہوئی محسوس ہوتی ہے۔ غالباً یہی سبب ہے کہ ان کے اظہار عشق میں لذت اور شباب کی سی کیفیت پیدا ہو جاتی ہیں۔ آتش کے اشعار کی خصوصیت یہ ہے کہ وہ ہر حال میں خوش رہنے کی ترغیب دیتے ہیں۔ آتش کی شاعری میں مسائل تصوف پر مستقل گفتگو نہیں ملتی۔ ان کی شاعری میں فنا و بقا، ترک دنیا، رضا، معرفت، توکل وغیرہ پر جستہ جستہ خیالات ملتے ہیں۔

فقیری جس نے کی گویا کہ اس نے بادشاہی کی
جسے ظل ہما کہتے ہیں درویشوں کا کمبل ہے
یہ حال ہوا اس کے فقیروں سے ہویدا
آلودہ دنیا جو ہے بیگانہ ہے اس کا

خواجہ حیدر علی آتش کے ذہن و دل میں تصوف رچا بسا تھا جس کے سبب ان کی شاعری میں بے نیازی، فقیری ، قلندری اور رجائیت کی شان پیدا ہوگئی ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ لکھنؤ کے تمام غزل گو شعرا میں صرف اور صرف انہی کا کلام ہے جس میں زیادہ رعنائی و توانائی پائی جاتی ہے۔

1.4 عمومی جائزہ

تصوف اور فلسفے کے مسائل کے اظہار کے لئے نہایت ہی موزوں ڈسکشن کی ضرورت ہوتی ہے کیونکہ فلسفیانہ اور صوفیانہ شاعری میں کیفیات اور جذبات کو پیکروں میں لانا نہایت کی فنکاری درکار ہوتی ہے۔فلسفہ اور تصوف علمی و عملی موضوعات میں سے ہیں اور شاعری جمالیاتی احساس کا فن ہے۔ فکر و فن کو ایک کر دینا خون جگر کا کام ہے۔

اردو شاعری میں ابتدا ہی سے تصوف کے اسرار و رموز بیان کئے جاتے رہے ہیں لیکن جب شاعری ولی اور میر کے ہاتھ لگی تو فکر و فن کو یکجا ہونے کا موقع ملا۔ اس طرح ولی اور میر تقی میر نے محبت و عشق کے پردے میں مسائل تصوف کو بیان کرنے کی کوشش کی ہے، جس کی تفصیل ہم نے ماسبق میں دیکھی ہے۔

ان کے بعد جو ہمارے نصاب میں شامل ہیں وہ خواجہ میر درد اور خواجہ حیدر علی آتش ہیں۔ خواجہ میر درد عہد طفلی سے ہی تصوف کی طرف مائل تھے۔ وہ دین محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے سچے پیروکار تھے، توحید مطلق کے قائل تھے، توحید وجودی اور شہودی کو حق مانتے تھے لیکن ان کا کہنا تھا کہ توحید شہودی شریعت کے زیادہ قریب ہے۔ ان کی شاعری میں دونوں نظریات کے رنگ نظر آتے ہیں۔ اپنے زمانے میں وہ ایسے صوفی شاعر تھے کہ جب دہلی اجڑی تو قریب تمام اہل علم و فن دہلی سے ہجرت کرکے لکھنؤ، فرح آباد، رامپور کی طرف نکل گئے لیکن ایک خواجہ میر درد تھے کہ وہ اللہ تعالی پر بھروسہ کرکے دہلی میں ہی توکل کرکے بیٹھے رہے اور اپنی خانقاہ سے دور دراز نہ گئے۔ اس توکل اور درویشانہ شان کو ہم درد کی شاعری میں خوب پاتے ہیں۔

رہے خواجہ حیدر علی آتش تو ان کو بھی قدرت کی طرف سے قلندرانہ، فقیرانہ اور آزاد منش طبیعت ملی تھی۔ اپنی افتاد طبع کی مناسبت سے تصوف کی طرف مائل رہے۔ دبستان لکھنو کی شاعری میں جہاں محبوب مجازی کے خدوخال ظاہر نظر آتے ہیں وہیں آتش کی شاعری ہے جس میں محبوب حقیقی سے محبت و عشق کی کیفیت محسوس ہوتی ہے۔ ان کی شاعری میں بلند قیمتی، رجائیت اور بے نیازی اپنی طرف متوجہ کرتی ہے۔

1.5 سوالات

  • 1. اردو شاعری میں تصوف کی صورتحال کیا ہے؟
  • 2. ولی اور میر تقی میر کی شاعری میں تصوف کس قدر نظر آتا ہے؟
  • 3. خواجہ میر درد کی شاعری میں تصوف کا جائزہ لیجئے۔
  • 4. خواجہ حیدر علی آتش کی شاعری میں تصوف کے کون سے عناصر ملتے ہیں؟

1.6 امدادی کتب

  • 1. تصوف اور اردو شاعری۔۔ پروفیسر صفی حیدر دانش
  • 2. دیوان خواجہ میر درد۔۔۔۔ خواجہ میر درد
  • 3. ولی سے اقبال تک۔۔ ڈاکٹر سید عبداللہ
  • 4. غزل اور مطالعہ غزل۔۔۔ ڈاکٹر عبادت بریلوی
  • 5. اردو شاعری اور تصوف۔۔۔ پروفیسر عبدالقادر فاروقی
از تحریر ڈاکٹر محمد آصف ملک اسسٹنٹ پروفیسر بابا غلام شاہ بادشاہ یونیورسٹی راجوری جموں و کشمیر