Main Features Of Mysticism | تصوف کی خصوصیات

0

تصوف کی خصوصیات

  • 3.1 تمہید
  • 3.2مقاصد
  • 3.3 تصوف کی خصوصیات
  • 3.4 عمومی جائزہ
  • 3.5 سوالات
  • 3.6 امدادی کتب

3.1 تمہید

تصوف کی روایت تقریباً چودہ سو برس پرانی ہے۔ تاریخ تصوف کا دوسرا دور 61 ہجری سے شروع ہو جاتا ہے پھر تیسری صدی ہجری میں تصوف کے باضابطہ اصول تیار ہو جاتے ہیں۔ اس طرح تصوف کا یہ سفر ابتدا سے تاحال چھ ادوار پر منقسم ہے۔ اس میں تصوف نے مختلف شہروں اور ملکوں میں سفر کیا جس کے سبب تصوف میں بنیادی خصوصیات کے علاوہ بعض علاقائی عناصر بھی شامل ہوگئے۔

3.2 مقاصد

اس سبق کا مقصد یہ ہے کہ طلبا تصوف کے بنیادی اوصاف سے واقف ہوں اور تصوف کے مختلف شہروں اور ملکوں کے سفر کے سبب، اس میں کون کون سے علاقائی عناصر شامل ہوئے جو اس کی خصوصیات کا حصہ بن گئے۔ اس سبق کے پڑھنے کے بعد طلبا اس سے بھی واقف ہوں گے کہ تصوف کی بنیادی و ثانوی خصوصیات کیا ہیں۔

3.3 تصوف کی خصوصیات

تصوف اپنے باطن کی اصلاح اور ظاہر شریعت پر مکمل عمل پیرا ہونے کا نام ہے۔ تصوف کا ارتقاء ایک باضابطہ فن کی حیثیت سے ہوا تھا اس لئے تصوف کی کچھ بنیادی خصوصیات ہیں اور کچھ ایسے اوصاف ہیں جن کی بنا پر تصوف کو ہر زمانے میں امتیاز حاصل رہا ہے۔صوفیا نے تصوف کی حقیقت اور اس کے اوصاف مختلف طریقوں سے بیان کئے ہیں۔ رویم بن احمد نے کہا ہے:


” تصوف کی بنیاد تین عناصر پر کھڑی ہوئی ہے۔ فکر و افتقار کو مضبوط پکڑ نا، بذل و ایثار کے ساتھ متصف ہونا، اور کسی چیز سے تعرض کرنے یا کسی چیز کے اختیار کرنے کو ترک کر دینا۔“ بشر بن الحارث کا کہنا ہے:” صوفی وہ ہے جس کا دل خدا کے لئے بالکل صاف ہو “ سہیل بن عبداللہ تستری کا ماننا ہے کہ صوفی وہ ہے جو کدورت سے پاک ہو، فکر سے پر ہو، لوگوں سے منقطع ہو کر خدا سے وابستہ ہو جائے یہاں تک کہ اس کی نظر میں سونا اور مٹی کی قیمت برابر ہو جائے “ ابو الحسین نوری نے ایک عمدہ بات کی ہے کہ:“ تصوف نہ تو رسوم و اعمال کا نام ہے نہ علم کا، یہ تو حسن خلق کا نام ہے۔“ حضرت شیخ جنید بغدادی نے فرمایا ہے کہ: ” تصوف اللہ تعالی سے بے غرض محبت کا نام ہے “

ان مختلف اقوال کے مطالعہ کے بعد یہ اندازہ ہوجاتا ہے کہ تصوف صوفیا کے ایک عمل اور ایک منہاج کا نام ہے، اس کا تعلق زیادہ فکر و خیال نہیں ہے بلکہ تصوف کا تعلق عمل اور نیت سے ہے۔ یہ بات بھی صحیح ہے ایک منزل پر فکر و تصورات بھی تصوف کا موضوع ہو سکتے ہیں یا ہوتے ہیں یہاں تک کہ صوفیا کے کچھ حلقوں میں عرفان، مشاہدہ اور غیبی حقائق کے اظہار کی بات بھی کہی جاتی رہی ہے۔ بہرحال یہ تصوف کا عمومی میں رنگ نہیں ہے بلکہ تصوف کا عمومی رنگ عمل ہے اور عمل کے ساتھ ساتھ باطنی کیفیات مثلاً خلوص نیت کی اس میں خاص اہمیت تسلیم کی جاتی ہے۔


نامی گرامی صوفیائے کرام کے یہاں صوفیا کے مکاشفات اور مشاہدات کا ذکر بہت کم ہے بلکہ ان کا پورا زور اس بات پر ہے کہ تصوف دراصل انسان کی تربیت اور اس کے اندر باطنی صفات پیدا کرنے کا نام ہے جو روحانیت سے پر ہوں،تصوف ایسے ذکر کا نام ہے جس کے ساتھ فکر وابستہ رہے، ایسے عمل خالص کا نام ہے جس میں ریا یا دکھلاوے کا شائبہ بھی نہ ہو، ایسی عبادت و بندگی کا نام ہے جس میں نفسانی خواہشوں سے کلی طور پر پرہیز ہو، یعنی بندہ مکمل طور پر اپنے خالق کا مطیع و فرمانبردار ہو جائے اور اس کی تمام حیات باقی اس طریقے کی پیرو رہے جو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے بتایا تھا دراصل یہی تصوف کی بنیادی خصوصیات ہیں جن سے آج بھی تصوف کو پہچانا جانا چاہیے۔حضرت شیخ جنید بغدادی نے تصوف کے ذریعے حاصل ہونے والے فائدے کا ذکر کرتے ہوئے خلوص عمل اور پیروی شریعت کو خاص اہمیت دی ہے۔

صوفیائے کرام کے یہاں اتباع رسول کی بنیادی اور کلیدی اہمیت ہے یہاں تک کہ شریعت محمدیہ کو چھوڑ کر کوئی شخص راہ سلوک پر قائم نہیں رہ سکتا، بلکہ تصوف کی شرط اول اتباع شریعت ہے اور صوفیا نے نہایت ہی تفصیل سے بتایا ہے کہ زندگی کے ہر پہلو میں سب سے زیادہ اہم شریعت کی پیروی یعنی اتباع شریعت ہے۔ عبادات سے لے کر اکل حلال تک تمام چیزیں بنیادی اہمیت رکھتی ہیں ان کو ترک کرکے کوئی اور راستہ قابل قبول نہیں ہو سکتا۔

صوفیائے کرام اپنے افکار و خیالات کو واضح کرنے کے لیے پہلے نبیوں اور رسولوں کی نمایاں صفتوں کو بھی استعارے کے طور پر استعمال کرتے آرہے ہیں، مثلاً صبر ایوب، سیاحت عیسی وغیرہ حضرت شیخ جنید بغدادی نے بھی ان تلمیحات کو اپنے خیالات و تصورات تصوف کی وضاحت کے لئے برتا ہے۔انہوں نے لکھا ہے کہ تصوف آٹھ خصلتوں پر مبنی ہے اور یہ آٹھ خصلتیں آٹھ انبیاء اکرم کے امتیازی اوصاف رہے ہیں۔ اس لیے سالک کو چاہیے کہ ان خصلتوں کو پانے کے لئے ان کے اعلی ترین نمونے کو اپنا مشعل راہ اور نمونہ عمل بنائے۔ اگر سالک ان خصائل کا حامل ہو جائے تو وہ سلوک کی اعلیٰ اور ارفع منزل کو پا سکتا ہے۔ حضرت شیخ جنید بغدادی رقمطراز ہیں:
” تصوف آٹھ سال پر مبنی ہے۔ سخاوت، رضا،صبر، اشارہ، قربت، اون پہننا، سیاحت اور فقر۔ سخاوت حضرت ابراہیم جیسی، رضا حضرت اسحاق جیسی، صبر حضرت ایوب جیسا، اشارہ حضرت زکریا جیسا، قربت حضرت یحییٰ جیسی، پہننا حضرت موسی جیسا، سیاحت حضرت عیسی جیسی اور فقر حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم جیسا “

اس بحث کے بعد مختصر تصوف کی خصوصیات یا بنیادی اوصاف کے متعلق یہ کہا جاسکتا ہے کہ صوفی ایسا شخص ہے جو نہ صرف پورا کا پورا خوبیوں کا مجموعہ بن جائے بلکہ اس کی کیفیت ایسی ہو جائے کہ اگر برائیاں بھی اس سے منسوب کی جائیں تو وہ خوش نصیب خوبیوں کے ساتھ ہی پیش آئے، اگر اس کو برا بھلا کہا جائے تو وہ تو بھی اس کی طرف سے بھلائی کا رویہ ہی سامنے آئے۔حضرت شیخ جنید بغدادی نے فرمایا کہ: ”صوفی کی مثال زمین جیسی ہے کہ اس میں قبیح ( بری)چیزیں ڈالی جاتی ہیں لیکن اس سے جو کچھ برآمد ہوتا ہے وہ بہترین غذا ہوتی ہے، یا پھر اس کی مثال اس زمین کی سی ہے جس کو نیک اور بد سب روندتے ہیں لیکن وہ سب کی خواہشات کو پورا کرتی ہے یا اس کی مثال بادل کی سی ہے جس کا پانی سب کو سیراب کرتا ہے۔ مذکورہ صفات اگر کسی مرد مومن میں پائی جاتی ہیں تو وہ صوفی ہے اگر وہ ان وصفوں سے عاری ہے تو سمجھ لیا جائے کہ وہ اور تو سب کچھ ہو سکتا ہے لیکن کم سے کم صوفی نہیں ہو سکتا۔

3.4 عمومی جائزہ

ہر فن یا علم کے کچھ اصول یا اوصاف ہوتے ہیں جن سے اس کی شناخت ہوتی ہے اسی طرح تصوف کے بھی کچھ بنیادی اور کلیدی اوصاف ہیں جن کی بنیاد پر ہم تصوف کو پہچان سکتے ہیں، جس کی بنیاد پر ہم یہ طے کر سکتے ہیں کہ وہ صوفی ہے یا نہیں یا پھر ان اوصاف کو بھی مدنظر رکھتے ہوئے ایک سالک سلوک کی منزلوں کو طے کرتے ہوئے ایک اعلی و ارفع صوفی کی منزل تک پہنچتا ہے۔ان وصفوں میں اہم ترین فقر کو مضبوطی کے ساتھ پکڑنا، ایثار کے ساتھ متصف ہونا اور کسی چیز سے تعرض کرنے یا کسی چیز کے اختیار کرنے کو ترک کر دینا ہے۔صوفی وہ ہے جس کا دل اللہ کے لئے بالکل صاف ہو، جو کدورت سے پاک ہو، فکر سے پر ہو، لوگوں سے منقطع ہو کر اللہ سے وابستہ ہو جائے۔

اس کی نظر میں سونا اور مٹی ایک سے ہوجائیں۔ تصوف حسن اخلاق کا نام ہے، تصوف اللہ سے بے غرض محبت کا نام ہے۔ تصوف دراصل انسان کی تربیت اور اندر روحانی وصفوں کو پیدا کرنے کا نام ہے جس کے ساتھ فکر وابستہ ہو، ایسے عمل و عبادت کا نام ہے جس میں ریا یا دکھلاوے کا شائبہ تک نہ ہو۔ تصوف اللہ تعالی کی مکمل اتباع کا نام ہے۔ تصوف اتباع شریعت کا نام ہے بلکہ تصوف کی شرط اول اتباع شریعت محمدیہ ہے۔ شیخ جنید بغدادی فرماتے ہیں کہ تصوف دراصل اعمال شریعت کو ان کے مطلوبہ معیار کے مطابق انجام دینے کو کہا جاتا ہے۔ اس طرح صوفی راہ سلوک کی منزلیں طے کر کے ایسے مقام تک پہنچ جاتا ہے جہاں وہ سراپا خیز بن جاتا ہے۔اس کے اخلاق حق بلند ترین اخلاق بن جاتے ہیں، اس کا دل آئینہ کی طرح صاف اور شفاف ہو جاتا ہے۔ صوفی کا باطن یہ ہے کہ نفس تمام تر عیوب سے پاک ہوجائے اور ظاہر یہ ہے کہ اخلاق خوب سے خوب تر ہو جائیں۔

3.5 سوالات

  • 1. تصوف کی بنیادی خصوصیات کیا ہیں؟
  • 2. شیخ جنید بغدادی کے نزدیک تصوف کتنی خصلتوں پر مبنی ہے؟
  • 3. فقر اور ایثار کا تصوف میں کیا مقام ہے؟
  • 4. اشارہ کس نبی کے ساتھ خاص ہے؟

3.6 امدادی کتب

  • 1. کشف المحجوب۔۔ عثمان بن علی ہجویری (اردو ترجمہ)
  • 2. حقائق التصوف۔۔ الشیخ عیسی عبد القادر حلبی
  • 3. تاریخ التصوف الاسلامی۔۔ عبد الرحمن بدوی
  • 4. غالب اور تصوف۔۔ سید محمد مصطفی صابری
  • 5. امام احمد رضا اور معارف تصوف۔۔ محمد عیسیٰ رضوی
از تحریر ڈاکٹر محمد آصف ملک اسسٹنٹ پروفیسر بابا غلام شاہ بادشاہ یونیورسٹی راجوری جموں و کشمیر