Impact of Mysticism On Indian Culture | ہندوستانی تہذیب پر تصوف کے اثرات

0

ہندوستانی تہذیب پر تصوف کے اثرات

  • 3.1 تمہید
  • 3.2 مقاصد
  • 3.3 تصوف اور ہندوستانی فلاسفی
  • 3.4 عمومی جائزہ
  • 3.5 سوالات
  • 3.6 امدادی کتب

3.1 تمہید

گیارہویں صدی عیسوی میں جب باضابطہ طور پر مسلمان دہلی پر متمکن ہوگئے، بعد ازیں ہندوستان میں علما فضلا اور صوفیا آئے اور ہندوستان کی مختلف ریاستوں میں پھیل گئے، وحدانیت کے عقیدے کو پیش کیا، مساوی اصول و ضوابط کے نظریات کی اشاعت کی اور اپنے اخلاق حسنہ کو اپنی عملی زندگی میں جاری و ساری رکھا جس سے ہندوستانی عوام متاثر ہوئی۔ بالخصوص ویدک دھرم والے اور روحانیت کے پیاسوں کو یہ بات بہت بھائی کہ کائنات کا ایک ہی معبود حقیقی ہے، وہ بنا شرکتِ غیر کے تنہا ہر چیز کو پیدا کرنے والا ہے۔وہی پیدا کرنے والا اور وہی موت دینے والا واحد خالق و مالک ہے، سارے بندے اس کے دربار میں مساوی درجہ رکھتے ہیں۔ ذات پات اور بھید بھاؤ کی اس کے نزدیک کوئی اہمیت نہیں ہے۔ ان نظریات کے سبب ہندوستانی عوام جوق در جوق صوفیا کے حلقے میں داخل ہوگئے۔ بہت سارے ہندوستانی نظریات کو متاثر کیا اور ہندوستانی روحانی فلاسفی اور تہذیب پر صوفیا کے نظریات اثرانداز ہوئے جن کے سبب ہندوستان میں ایک مشترکہ تہذیب وجود میں آئی۔

3.2 مقاصد

اس وقت کو پڑھنے کے بعد طلبا کے اندر اتنی استعداد پیدا ہو جائے کہ وہ عہد در عہد ہندوستانی خالص تہذیب کو سمجھ سکیں۔ اسی طرح اسلام اور تصوفِ اسلامی کے بعد ہندوستانی کلچر اور تہذیب پر کیا اثرات مرتب ہوئے ان سے واقف ہو جائیں۔ نیز اس بات کا بھی ادراک ہو جائے کہ ہندوستان میں کس طرح مشترکہ تہذیب وجود میں آئی اور اس کے مثبت اثرات مختلف المذاہب لوگوں پر کس طرح پڑے۔

3.3 ہندوستانی تہذیب پر تصوف کے اثرات

یہ حقیقت ہے کہ مذہب کی بنیاد اعمال، علم اور عقیدہ پر ہی قائم ہے۔ ان تینوں میں سے ایک عنصر کی بھی کمی ہو تو اس دور کی روحانی اور مذہبی فضا کمال طریقے پر قائم نہیں رہ سکتی۔مذہبی علم تو صرف بعض دانشوروں اور عالموں کو حاصل ہوتا ہے۔ اعمال اور عقیدہ ہی مذہب کو رائج رکھتے ہیں۔یہ خیال کہ اعمال میں مذہبی رسومات کی ادائیگی بھی شامل ہے۔ مسلمانوں کی آمد اور اثر و رسوخ کے بعد بجریانی سدھو اور ناتھ پنتھی فقرا مذہبی اور رائج رسموں یعنی بعض تہذیبی عناصر اور عبادات کی مخالفت میں آواز بلند کر رہے تھے۔ یہاں تک ان کی آواز کافی مقبول ہو چکی تھی۔ اس بات کو بھی یاد رکھنے کی ضرورت ہے کہ ہندی ادبیات کی روایت اپ بھرنش کی دو الگ الگ شاخوں سے مل کر تیار ہوئی ہے۔ ایک مشرقی شاخ ہے جس میں فلسفیانہ فکر اور جذباتی وفور کے عناصر زیادہ ملتے ہیں اور جو مذہبی اور متصوفانہ لہجے میں تبدیل ہوجاتے ہیں۔

یہ روایت کومثال اور مگدھ میں زیادہ مقبول ہوئی۔ دوسری شاخ مغربی ہے، وہ اعلی خیالات اور گہرے جذبات کے بجائے عمل اور مادی شان و شوکت سے زیادہ وابستہ ہے، جس پر ہمیں یہاں کلام نہیں کرنا۔ جن ہندوستانی دو گروہوں کی بات ہوئی ہے وہ مذہب کی ظاہری شکل کے قائل نہیں تھے۔تیرتھ یاترا، اشنان، بت پرستی، مندروں کی زیارت وغیرہ سبھی رسموں کو انہوں نے فروعی اور غیر ضروری قرار دے دیا تھا۔ صوفیوں کی طرح یہ لوگ بھی خارجی اور ظاہر پرستی کے مخالف تھے اور دھرم کو رسوم و عبادات سے بلند تر سمجھنے لگے تھے۔

اسلامی تعلیمات و تصوف کا اثر ان کی تہذیب پر اس قدر پڑا کہ انہوں نے ویشنو دھرم کے بنائے ہوئے تمام اصول و ضوابط اور رسوم ختم کرنے کا مشورہ دیا۔ کیونکہ ان کے خیال کے مطابق انسان کی روح کو صحیح انبساط یا نجات )نروان( مذہبی رسوم اور فرائض کی ظاہری ادائیگی سے حاصل نہیں ہو سکتی بلکہ انہوں نے اس بات پر اصرار کیا کہ اپنے باطن کی صفائی اور دل میں معبودِ حقیقی سے لو لگانے ہی سے مل سکتی ہے اور وہ اس اندرونی اور روحانی صفائی اور دل سے لو لگانے کے کئی راستے ہو سکتے ہیں اور ہر کوئی شخص ان پر عمل بھی کر سکتا ہے۔ یہ تصوف ہی کا اثر تھا کہ ہر شخص کے لئے نجات کے یہ باطنی راستے کھول کر انہوں نے ذات پات کے خلاف بھی ایک ضرب کاری لگائی تھی۔

پنڈت رام چندر شکل اور گوپی ناتھ کوپراج وغیرہ مؤرخین برابر اس بات پر اصرار کرتے آئے ہیں کہ ناتھ پنتھی اور بجرانی سدھوں کا اثر تمام تر عوام کے نچلے طبقے تک محدود تھا۔ برہمن اور دانشور طبقے اس سے محفوظ رہے۔ ان میں ویدانت کا اثر عام تھا اور گیتا اور اپنشد اور دیگر مذہبی تصانیف کی شرحیں لکھی جاتیں اور مطالعہ کی جاتی تھیں لیکن ان لوگوں کے بیان کو اگر صحیح تسلیم کرلیا جائے تو اس دور کی عام مایوسی نے عوام اور دانشوروں کے درمیان بڑی خلیج پیدا کردی تھی اور علم و یقین کا یہ جزیرہ بے یقینی اور تشکیک کا شکار ہو چکا تھا۔

یہ اور بات ہے کہ علما اور عوام پر اس دور کا اثر مختلف طریقے پر ہوا اور انہوں نے اس کے تدارک کے لئے بھگتی تحریک کا سہارا لیا جن میں بعض عناصر تصوف کے شامل کر اس کو عوام و خواص کے لیے درمیانی صورت نکالنے کی کوشش کی۔لیکن تصوف کا بھرپور اثر نرگن وادی سنتوں پر ہوا اور وہ عوام میں زیادہ مقبول بھی ہوا جس کے سبب عوام میں روحانی ہم آہنگی کے مواقع پیدا ہوئے۔نرگن واد پر تصوف کے جو اثرات مرتب ہوئے وہ اثرات سنتوں اور صوفیوں کے قربت کے سبب عوام میں پھیلے جس سے ہندوستانی اور اسلامی تہذیب کی ہم آہنگی قائم ہوئی اور پھر نتیجتاً مشترکہ ہندوستانی تہذیب وجود میں آئی، جس کو کئی ناموں سے پکارا جاتا ہے جس کا ایک نام گنگا جمنی تہذیب بھی ہے۔

نرگن واد کا سلسلہ کبیر سے شروع ہوا۔ یہ ١٤٥٦ میں پیدا ہوئے۔ ان کی ولادت کے متعلق کئی دلچسپ روایتیں مشہور ہیں۔ کہا جاتا ہے کہ ایک بار سوامی رامانند نے کاشی میں ایک بھگت برہمن کی بیوہ کو بھول کر یہ دعا دی تھی کہ اس کے یہاں لڑکا پیدا ہوگا اور اس کے یہاں کبیر داس کی ولادت ہوئی۔ اس نے بچہ کو لہر تارا کے تالاب کے پاس چھوڑ دیا جہاں سے نیرو نامی ایک مسلم جولاہا اس بچے کو اپنے گھر اٹھا لایا اور اس کی پرورش کرتا رہا۔

بیان کیا جاتا ہے کہ کبیر کا بچپن مگہر میں گزرا اور بچپن ہی سے ان کا رجحان مذہبی باتوں کی طرف ہو گیا تھا۔ اس کے بعد وہ کاشی جا کر سوامی رامانند کے چیلے ہو گئے تھے۔ ان کے چیلے ہونے کا قصہ بھی کافی دلچسپ ہے۔کبیر ایک رات پنج گنگا گھاٹ کی سیڑھیوں پر جا کر لیٹ رہے جہاں سے ہر صبح کو سوامی رامانند اشنان کے لئے اتر کر آتے تھے۔ رات کا کچھ حصہ ابھی باقی تھا کہ سوامی رامانند اترے اور ان کا پیر کبیر پر پڑ گیا۔ ان کے منہ سے نکلا ”رام رام کہہ“ اس کو کبیر نے اپنا وظیفہ قرار دیا اور سوامی رامانند کو اپنا گرو کہنے لگے۔کبیر کے چاہنے والوں میں مسلمان بھی شامل تھے اور انکے مسلمان پیروکاروں کے نزدیک ایک روایت ہے کہ کبیر ایک صوفی بزرگ شیخ تقی کے مرید تھے۔ ان بزرگ محترم کا ذکر کبیر نے جگہ جگہ نہایت ادب سے کیا ہے۔ یہ بات پایۂ ثبوت کو پہنچی ہوئی ہے کہ کبیر شیخ تقی سے کافی قریب رہے اور دیگر مسلم فقرا اور صوفیا سے بھی مسلسل ملتے رہے ہیں، یہاں تک کہ ان کا خوب اثر بھی قبول کیا ہے۔ اس کا ثبوت خالق باری کی وحدانیت کے نظریے میں ہے۔اب یہاں دیکھنے کی بات یہ ہے کہ ایک طرف ان کا رابطہ سوامی رامانند سے رہا اور دوسری طرف شیخ تقی اور دیگر صوفیا سے متعلق رہے۔ اب ان کے یہاں ایک ایسی تہذیب ملتی ہے جو ہندو اور مسلم بسنتوں اور صوفیوں کی روحانی ہم آہنگی کی منزل ہے جن کے سبب یہ تہذیب پورے ہندوستان میں عام ہو گئی۔

عام طور پر یہ مانا جاتا ہے کہ کبیر نے ‘رام رام’ کا وظیفہ راما نند جی ہی سے حاصل کیا تھا اور ان کی شاگردگی اختیار کی تھی لیکن اس کے بعد اس پر بھی غور و فکر کرنا پڑے گا کہ ان کے یہاں رام کا تصور راما نند جی سے منفرد ہے۔ راما نند جی نے خدا کو رام چندر جی کے پیکر میں تجسیمی شکل دی تھی اور رام چندر جی کی پوری روایتی داستان کو ایک جدید رنگ سے اجاگر کیا تھا۔ اس کے برعکس کبیر کے نزدیک رام بھی دوسرے ناموں کی طرح جلوۂ حقیقی کا ایک نام ہے اور یہ جلوۂ حقیقی اگرچہ الگ الگ نام رکھتا ہے لیکن کسی پیکر میں مجسم نہیں ہوتا۔

اس لیے کبیر کے یہاں رام سے مراد رام چندر جی سے نہیں بلکہ وہ ایک نور بے نام ہے جس کو انہوں نے کہیں اللہ کہا ہے، کہیں رحمٰن، کہیں رحیم، کہیں ہری اور کہیں گووند۔ کبیر صوفیا کی طرح وحدت کے قائل ہیں اور پیکر و تجسیم سے آزاد خدا کا تصور رکھتے ہیں۔ اس کے علاوہ ہندو مذہب کی بہت سی تعلیمات پر انہیں اعتقاد نہیں۔ آواگون یا تناسخ کہ وہ سخت مخالف ہیں، ذات پات کو بیکار سمجھتے ہیں، تیرتھ یاترا، اشنان اور مورتی پوجا کو مذہب کے اجزا تسلیم نہیں کرتے۔ دوسری جانب اسلامی رسوم کو بھی ایرانی صوفیوں کی طرح لغو جانتے ہیں۔ نماز، روزہ، حج، قربانی اور زکوٰۃ ان کے نزدیک ایمان کے اجزا نہیں بلکہ خدا تک پہنچنے کا ایک ذریعہ اور محض عرفان نفس ہے۔

کبیر کی تعلیمات میں تصوف ناتھ پنتھیوں اور ویدک اصولوں کا اثر صاف جھلکتا ہوا معلوم ہوتا ہے۔ درحقیقت کبیر اس عظیم تہذیبی اختلاط کے سنگم کی حیثیت رکھتے ہیں جو مسلمانوں کے ہندوستان میں آنے کے بعد شروع ہوا تھا۔ کبیر کی بانی اس نئی تہذیب اور وسیع تر مشرب کا اشاریہ ہے جس کا مقصد فروعات کو چھوڑ کر مذہبوں کی وحدت تک پہنچنے کی کوشش کرنا ہے۔ اس روایت کو کبیر کے چیلوں نے آگے بڑھایا جن میں رےؔ داس، یاروی داس اور دھرم داس خاص طور پر قابل ذکر ہیں۔ ان لوگوں نے ہندی یا ہندوستانی ادب میں ان عناصر کو شامل کرکے اس نئی تہذیب کو مشہور و مقبول بنایا۔

اسی طرح تصوف کا اثر ایک اور بڑی اہم شخصیت پر ہوا جن کو گرو نانک کے نام سے جانا جاتا ہے۔ گرو نانک) وفات: ١٥٩٦( کو بھی نرگن واد کے ان ہی مبلغین میں شامل کیا جاتا ہے۔ گرونانک جی ١٥٢٦ء میں تلونڈی ضلع لاہور میں پیدا ہوئے۔ والد کا نام بوچند کھتری تھا۔ بچپن سے ہی ترکِ دنیا کی طرف مائل تھے جسے روکنے کے لیے والدین نے ان کی جلدی شادی گورداسپور کے مول چند کھتری کی بیٹی شلکشنی سے کرا دی تھی۔اس کے باوجود ترک دنیا کا رجحان کم نہیں ہوا اور بالآخر گھر بار چھوڑ کر چلے گئے۔ کہا جاتا ہے کہ اس اثنا میں ان کی ملاقات کبیر سے ہوئی تھی۔

یہ بات یاد رکھنے کی ہے کہ کبیر کے بعد ہندو مسلمان تفرقہ کو مٹانے اور ایک مشترک تہذیبی اور مذہبی سرمائے کو فراہم کرنے میں گرونانک جی کا بڑا کردار رہا ہے۔پنجاب مسلمانوں کا مرکز بن گیا اور اسلام کی تعلیمات کا اثر بہت پھیل چکا تھا۔ ان کی تعلیمات میں بھی مذہبی ظاہر پرستی اور رسوم و عبادات کے برعکس مذہب کی اصل روح پر زور دیا گیا ہے جو انسانوں کو مختلف گروہوں یا جماعتوں میں تقسیم کرنے کے بجائے انہیں آپس میں ملاتی ہے اور ایک کر دیتی ہے۔ بنیادی طور پر نانک کا پیغام بھی انسانوں کو ایک برادری سمجھنے کا پیغام ہے۔ اس کے لیے گرونانک جی روحانی ہم آہنگی کے علمبردار مانے جاتے ہیں جو ایک خدا کی پرستش اور محبت سے حاصل ہو سکتی ہے۔ یہ بات الگ ہے کہ اس کے نام اور روپ مختلف ہو سکتے ہیں مگر اس کا جلوہ ایک ہے اور پیکر کوئی نہیں۔ گرو نانک کی تعلیمات آدی گرنتھ یا گرنتھ صاحب میں ہیں جو سکھوں کی مذہبی کتاب ہے۔

ان کے علاوہ دادو دیال احمد آباد میں پیدا ہوئے۔دادو پنتھی بھی غیر مجسم خدا کے قائل ہیں اور بت پرستی اور دوسری ظاہری رسومات عبادت کو تسلیم نہیں کرتے۔بنیادی طور پر ان کا فلسفہ بھی وحدت کا فلسفہ ہے لیکن یہ کبیر کے چیلے نہیں تھے ہاں ان پر کبیر کی تعلیمات کے اثرات ہیں۔ ساتھ ہی ساتھ ان پر مسلم صوفیا کے اثرات زیادہ ہیں۔ اس سلسلے کو آگے بڑھانے والو میں مہندر داس، ملوک داس وغیرہ خاص اہمیت کے حامل ہیں۔

آخر میں نتیجتاً یہ کہا گیا جاسکتا ہے کہ ان شعرا اور صوفیوں کا اصل کارنامہ یہ ہے کہ انہوں نے ہندو اور مسلم کو تہذیبی اور فکری اعتبار سے ایک دوسرے سے قریب تر کر دیا اور ایک ایسے تمدن اور تہذیب کے نشوونما میں مدد کی جو دونوں قوموں کے اثرات کو خوشگوار طریقہ پر سمو سکے۔صرف تعلیمات کے اعتبار سے ہی نہیں بلکہ لسانی اور شاعرانہ کوششوں کے لحاظ سے بھی ان کا یہ اقدام ایک نئی تہذیب، نئی منزل اور نادر روحانی ہم آہنگی کا پتہ دیتا ہے۔یہ وہ اثرات ہیں جو تصوف کی راہ سے ہندوستانی تہذیب پر پڑے اور جس کی پاداش میں ایک مشترکہ تہذیب کی بنیادیں مستحکم ہوئیں۔

3.4 عمومی جائزہ

ہندوستانی تہذیب اور کلچر پر تصوف کے اثرات کا اگر جائزہ لیا جائے تو یہ بات نکل کر سامنے آتی ہے کہ جب اسلام ہندوستان میں آیا، ان کے ساتھ علما، فضلا اور صوفیا کی آمد ہوئی تو انہوں نے وحدانیت کے تصور کو پیش کیا۔ مساوی اصول و ضوابط کی خوبصورتی کو پیش کیا، ذات پات اور نسلی تعصب سے پاک ایک معاشرے کا تصور پیش کیا تو ہندوستانی عوام اور خاص طور پر ویدک عالم و فاضل اس کی طرف متوجہ ہوئے۔بعض نے ویدیک وحدانیت اور اسلام تصور وحدت کا تانہ بانہ جوڑا، بعض نے اس کو خدا، ایشور کو رام چندر جی کے روپ میں دیکھا اور بعض نے کرشن چندر جی کے روپ میں۔ لیکن انہیں ہندوستانیوں میں بعض ایسے بھی تھے جنہوں نے معبود حقیقی کو ایک ایسا نور مانا جس کی کوئی تجسیم یا شکل ممکن نہیں وہ گروہ نرگن وادی کہلایا۔ صوفیوں کی تعلیمات اور سنتوں کی غور و فکر کے بعد ایک درمیانی عناصر پر بنی تہذیب وجود میں آئی جس میں بڑا حصہ کبیر داس، گرو نانک اور ان کے پیروکاروں کا ہے۔ان صوفی سنتوں اور رشیوں کے سبب ہندوستان میں ایک روحانی ہم آہنگی کے سبب مشترکہ ہندوستانی تہذیب وجود میں آئی۔ جس کے سبب ہندو مسلمان تہذیبی سطح پر ایک دوسرے کے قریب آئے‌۔

3.5 سوالات

  • 1. کبیر کا تصور معبودِ حقیقی کیا ہے؟
  • 2. گرو نانک کا تصور معبودِ حقیقی کیا ہے؟
  • 3. تصوف کے اثرات ہندوستانی تہذیب پر کیا پڑے؟
  • 4. صوفیوں اور نرگن وادیوں کی ہم آہنگی سے کیسا معاشرہ تشکیل پایا؟

3.6 امدادی کتب

  • 1. ہندی ادب کی تاریخ۔۔ محمد حسن
  • 2. اسلام کا ہندوستانی تہذیب پر اثر (اردو)۔۔ڈاکٹر تارا چند
  • 3. اردو غزل اور ہندوستانی ذہن و تہذیب۔۔ ڈاکٹر گوپی چند نارنگ
  • 4. تصوف اور بھگتی۔۔۔ شمیم طارق
از تحریر ڈاکٹر محمد آصف ملک اسسٹنٹ پروفیسر بابا غلام شاہ بادشاہ یونیورسٹی راجوری جموں و کشمیر