Definition Of Mysticism, Origin and Source | تصوف کا معنی و مفہوم اور اس کے سرچشمے

0

تصوف کا معنی و مفہوم اور اس کے سرچشمے

  • ساخت
  • 1.1 تمہید
  • 1.2 مقاصد
  • 1.3 تصوف کی تعریف، معنی و مفہوم اور اس کے سرچشمے
  • 1.4 عمومی جائزہ
  • 1.5 سوالات
  • 1.6 امدادی کتب

1.1 تمہید

تصوف کی ابتدا ایک تحریک کے طور پر ہوئی تھی۔ عہد بنی امیہ میں جب دولت کی فراوانی ہوئی اسی کے ساتھ اقتدار کے لئے کشمکش شروع ہوئی تو بہت سے نیک دل ایسے تھے جنہوں نے شعوری طور پر خود کو معرکہ آرائی سے بالکل الگ کرلیا اور ذکر و فکر اور عبادات میں یکسوئی کے ساتھ لگ گئے۔ اس طرح تصوف کا پودا لگا اور تصوف کا ارتقاء شروع ہوا۔ آگے کے صفحات میں تصوف کے معنی و مفہوم کے ساتھ ساتھ اس کے سر چشمے کے متعلق گفتگو کی جائے گی اور طلبہ کی سہولت کے لئے اسے سادہ طریقے سے پیش کیا جائے گا۔

1.2 مقاصد

اس اکائی کا بنیادی مقصد یہ ہے کہ اس کو پڑھنے کے بعد طلبہ تصوف کے معنی و مفہوم یعنی اس کی تعریف مختلف صوفیا کی آرا کی روشنی میں سمجھ لیں۔ تصوف کا آغاز و ارتقاء اور تصوف کی اہمیت و افادیت سے بھی واقف ہوجائیں۔ تصوف کی خصوصیات کے ساتھ ساتھ تصوف کے خارجی عناصر سے بھی واقفیت حاصل کریں۔ مذکورہ بالا عناصر کو اجاگر کرنا ہی اس اکائی کا مقصد ہے۔

1.3 تصوف کا معنی و مفہوم اور اس کے سرچشمے

تصوف کی اصل کے متعلق صوفیا کے الگ الگ قول ہیں۔ بعض کا کہنا ہے کہ صوفی ”صفا“ سے نکلا ہے۔ بعض کے نزدیک ہے کہ یہ لفظ ”اصحاب صفہ“ سے لیا گیا ہے۔ بعض کا خیال ہے کہ یہ ”صف اول“ سے ماخوذ ہے۔ اس لیے کہ صوفیا پہلی صف کا اہتمام کرتے ہیں اس لئے ان کو صوفیا کہا جاتا ہے۔

بعض کا کہنا ہے کہ صوفیا کا باطن صاف ستھرا ہوتا ہے اس لئے وہ صوفی کہلاتے ہیں۔ بعض کا ماننا ہے کہ صوفی وہ شخص ہے جس کا دل غیر اللہ سے پاک ہو، اس لیے صفائی کی نسبت کے سبب اسے صوفی کہا جاتا ہے۔ بعض کا خیال یہ ہے کہ صوفی خدا کی صفات سے متصف ہوتا ہے اس کے سبب اسے صوفی کہا جاتا ہے۔

بڑے بڑے صوفیا نے صوفی کی توجیہات و تعبیرات اس طرح کی ہیں؛ مثلاً شیخ عبدالقادر جیلانی کا کہنا ہے کہ صوفی مصافات سے ماخوذ ہے اس کا مفہوم یہ ہوا کہ وہ بندا جسے خدا نے صاف کیا۔شیخ ابوالقاسم قیصری نے کہا ہے کہ تصوف صفائی سے ماخوذ ہے، اس کی تائید میں انہوں نے ایک روایت نقل کی ہے کہ:
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ایک بار باہر نکل کر آئے تو آپ کا رنگ بدلا ہوا تھا، فرمایا دنیا کی صفائی جاتی رہی اور کدورت باقی رہ گئی، اس لیے اب ہر مسلمان کے لئے موت ایک تحفہ ہے۔ اسی سے ملتی جلتی بات شیخ علی ہجویری نے بھی لکھی ہے۔ لیکن حقیقت یہ ہے کہ یہ معانی سے زیادہ حسن تعلیل معلوم ہوتی ہے۔ ورنہ لفظ ”تصوف“ صف اول یا صفا یا صفہ سے بطور لغت مشتق نہیں ہو سکتا بلکہ خود صوفیا نے اس اشتقاق کو قیاس دور اور خلاف لغت قرار دیا ہے۔ ہاں وہ یہ کہتے ہیں کہ معناً ان تمام الفاظ یا اصطلاح کا اطلاق صوفیا پر ہو سکتا ہے۔

امام قشیری نے اس کا ذکر کیا ہے اور شیخ شہاب الدین سہروردی نے اس کو تحریر کیا ہے کہ لغوی اعتبار سے صوفی ”صفہ“ سے مشتق نہیں ہوسکتا ، ہاں معناً درست ہے اس لئے کہ صوفیا کا حال بھی اہل صفا کی ہے ان کے علاوہ شیخ ابوبکر قلابازی نے بھی ان کو توجہات و تعبیرات کو معنوی طور پر تسلیم کیا ہے۔

لفظ صوفی کے لیے جس طرح یہ معنوی نسبتیں تلاش کرنے کی کوشش کی گئی ہے، اسی طرح ان کے ظاہری احوال کی وجہ سے ان کے دیگر نام بھی رکھے گئے تھے۔ مثال کے طور پر ان کو گوشہ نشینی اور غاروں میں رہنے کے سبب ” شکفتجہ“ کہا گیا ہے اس لیے کہ” شکفت“ غار کو کہا جاتا ہے۔ یعنی غار والے، اپنے وطن سے دور رہنے کی وجہ سے ان کو غربا کی کہا جاتا ہے۔ کثرت سفر کی وجہ سے ان کو سیاح بھی کہا گیا ہے۔ شام والے ان کو بھوکا رہنے کی وجہ سے ان کو ”جوعیہ“ بھی کہتے ہیں۔ اسی طرح ان کے دل کی نورانیت کے سبب ان کو ” نوریہ“ کہا گیا ہے۔

تصوف کیا ہے؟

مختصراً یہ کہا جاسکتا ہے کہ اب ہر متحقق ہے کہ تصوف کا لغوی ترجمہ اُون ہے یا اونی کپڑا پہننا ہے اور اس کے علاوہ دیگر تاویلات و توجہات درحقیقت حسن تعلیل پر مبنی ہیں، لیکن اصطلاح کے طور پر تصوف کے معنی اس کی لغوی بحث سے واضح نہیں ہو پاتے۔ رنگارنگ مسلکوں کے صوفیا نے مختلف انداز میں اس کی تشریح کی کوشش کی ہے۔ ان سے تصوف کے کسی ایک پہلو یا ایک سے زائد جہات کی نشاندہی تو ہوتی ہے لیکن نفس تصوف کی نہیں۔ چند بڑے صوفیا کے حوالے تصوف کے مختلف وصفوں کو ہم ذیل میں دیکھتے ہیں۔

شیخ جنید بغدادی بیان فرماتے ہیں:
1. تصوف یہ ہے کہ اللہ تعالی کے ہوتے ہوئے کسی اور چیز سے تعلق نہ ہو۔
2. تصوف دراصل دنیا اور اسباب دنیا سے دور رہنے کا نام ہے۔
3. تصوف یہ ہے کہ خدا تجھے تیری ذات کے ساتھ فنا کردے اور اپنی ذات کے ساتھ رکھے۔

ابو حفص فرماتے ہیں ”تصوف ادب کا نام“ ہے۔
شبلی کہتے ہیں:
1. خدا کے ساتھ بغیر غم کے بیٹھنا تصوف ہے۔
2. مخلوق سے کٹ کر خدا کے ساتھ متصل ہونے کا نام تصوف ہے۔

ابوالحسن نوری کہتے ہیں:
1. تصوف اسم یا عَلَم کا نام نہیں بلکہ یہ اخلاق ہیں۔
2. تصوف، جو کچھ بھی پاس ہو اس کو خرچ کر دینے کا نام ہے۔

سہیل بن عبداللہ تستری کا کہنا ہے کہ: صوفی وہ شخص ہے جو گدلے پن سے صاف ہو، فکر سے پُر ہو اور بصیرت سے الگ ہو کر خدا کے ساتھ متصف ہوجائے، یہاں تک کہ اس کے نزدیک سونا اور مٹی برابر ہوجائیں۔

یہ ایک اہم مسئلہ ہے کہ تصوف کا سرچشمہ کیا ہے؟ بعض علمائے ظاہر اور کچھ مستشرقین کا نظریہ ہے کہ تصوف روح اسلامی کے لئے اجنبی اور کلی طور پر ایک درآمد شدہ شئے ہے، وہ اس کی اصل یا بنیادیں یہودیت، عیسائیت، یونان، ہندومت اور قدیم ایرانی افکار میں تلاش کرتے ہیں۔

بعض دیگر مصنفین اور کچھ مستشرقین ایسے ہیں جو تصوف کی ہمہ جہتی اور آفاقیت کے قائل ہیں کہ وہ دین و دنیا تمام کو محیط ہے۔
بعض علما، صوفی ازم یا تصوف کو ہی حقیقی اسلام قرار دیتے ہیں اور دین اسلام کی روح کا معتبر اظہار خیال کرتے ہیں۔ ان کے نظریے میں تصوف ہی حقیقی اسلام ہے اور تصوف ہی اسلام کا اصل مغز ہے، اس کے علاوہ شریعت کی حیثیت صرف پوست کی ہے۔

بعض ارباب علم و ادب ایسے بھی ہیں جنہوں نے تصوف اور اسلام میں مطابقت پیدا کرنے کی کوشش کی ہے اور انہوں نے یہ نقطۂ نظر اختیار کیا ہے کہ جو کچھ قرآن و حدیث کے موافق ہو اسے مان لیا جائے اور جو خلاف ہو، اسے چھوڑ دیا جائے یا رد کر دیا جائے۔

تصوف کا معرکۃالآرا مسئلہ جس پر تصوف سے متعلق تمام مباحث کی بنیاد ہے، وہ ہے صوفیا کا خدا کے بارے میں تصور، اسی تصوف کی بنیاد پر علما کے ایک گروہ نے صوفیا پر کڑی تنقید کی ہے۔

1.4 عمومی جائزہ

تصوف کے لغوی معنی ہیں صوف پہننا۔ لیکن اصطلاح میں یہ ایک وسیع مفہوم میں پھیلا ہوا ہے۔ صوفی مصنفین و مؤلفین اور تصوف کے تاریخ نویسوں نے اس موضوع پر بہت ہی تفصیل سے کلام فرمایا ہے اور اس کے معنی و مفہوم واضح کرنے کی کوشش کی ہے۔ ساتھ ہی ساتھ اس کے مدلول و مصداق کو بھی بہت محنت سے بیان کیا ہے۔

لفظ تصوف کے اشتقاق کے متعلق مختلف اقوال ہیں۔ صفا، اصحاب صفہ، صف اول وغیرہ سے تصوف و صوفی سے مشتق مانا گیا ہے۔ لیکن حقیقت یہ ہے کہ ساری تاویلیں اور توجیہیں صرف اور صرف حسن تعلیل پر مبنی ہیں۔ان الفاظ و اصطلاحات کے جتنے بھی معنی بیان کئے گئے ہیں وہ صوفیا کے حال سے مطابقت رکھتے ہیں لیکن لغوی طور پر لفظ صوفی یا تصوف پر منطبق نہیں ہو پاتے۔ اس لیے تصوف کو بلند اخلاق کا مجموعہ مانا گیا ہے۔ اللہ تعالی کی عبادات اور اس کی مخلوق سے پیش آنے والے معاملات تصوف میں اخلاص نیت کا تقاضا کرتے ہیں۔

اگر بات کی جائے تصوف کے سرچشمے کی تو اس حوالے سے جیسے ابھی تفصیل سے گفتگو ہو چکی ہے کہ بعض علما اس کو اسلام میں میں اجنبی پودا بتاتے ہیں، بعض اسلام کی روح اور بعض دونوں میں مطابقت کے قائل ہیں۔ یعنی علمائے باطن اور صوفیا اس کا سرچشمہ قرآن وحدیث کو مانتے ہیں۔

1.5 سوالات

  • 1. تصوف کا لفظی معنی کیا ہے؟
  • 2. تصوف کے وصفی معنی کیا ہو سکتے ہیں؟
  • 3. تصوف کا سرچشمہ کیا ہے؟
  • 4. ”تصوف ادب کا نام“ یہ قول کس کا ہے؟

1.6 امدادی کتب

  • 1. کشف المحجوب۔۔ علی ہجویری لاہوری (اردو ترجمہ)
  • 2. حقائق التصوف۔۔ شیخ عیسیٰ عبدالقادر جلبی
  • 3. تاریخ التصوف الاسلامی۔۔عبد الرحمن بدوی
  • 4. تصوف اور شریعت۔۔ پروفیسر عبدالحق انصاری اردو ترجمہ مفتی محمد مشتاق تجاروی
از تحریر ڈاکٹر محمد آصف ملک اسسٹنٹ پروفیسر بابا غلام شاہ بادشاہ یونیورسٹی راجوری جموں و کشمیر