External Elements In Mysticism | تصوف میں خارجی عناصر (عیسائیت، ویدک اور بدھ ازم کے حوالے سے)

0

تصوف میں خارجی عناصر (عیسائیت، ویدک اور بدھ ازم کے حوالے سے)

  • 4.1 تمہید
  • 4.2 مقاصد
  • 4.3 تصوف میں خارجی عناصر
  • 4.4 سوالات
  • 4.5 امدادی کتب

4.1 تمہید

اسلامی تصوف جب اپنے اصل وطن کو چھوڑ کر دنیا کے دوسرے ملکوں اور شہروں میں پہنچا،صوفیا کے دنیا کے اطراف واکناف میں جب سیاحت شروع ہوئی اور حلقے وجود میں آگئے تو دنیا کے دوسرے مذاہب کے افراد بھی ان کے حلقوں میں مستفیض ہونے لگے۔تو ان مذاہب کے سخت گیر افراد نے اسلامی تصوف کوبدنام کرنے کے لیے کچھ ایسے عناصر شامل کرنے کی کوشش کی ہے جس سے وہ کسی حد تک کامیاب بھی ہوئے جیسے عیسائیوں کی مشہور جماعت مستشرقین اور یہود کی مشدد جماعت صہونیت، لیکن زیادہ تر افراد نے تصوف کی خوبیوں کو قبول کیا۔یورپی ممالک میں بھی اور خاص طور پر ہندوستان میں اس لیے اس میں کچھ خارجی عناصر وید ، بدھ مت اور عیسائیت بھی شامل ہوئے۔

4.2 مقاصد

اس سبق کے پڑھانے کا مقصد یہ ہے کہ اس سبق کو پڑھنے کے بعد طلبا اس لائق ہو جائیں کہ تصوف میں جو خارجی عناصر شامل ہوئے ہیں ان کی شناخت کر سکیں۔ اصلی تصوف و جعلی تصوف کا فرق سمجھ سکیں۔ دوسرا مقصد یہ ہے کہ عیسائیت، ویدک اور بدھ مت میں تصوف کے عناصر تلاش کر سکیں جس سے معلوم ہو سکے کہ اسلامی تصوف اور مذاہب کے مابین تصوف اور رہبانیت کے تصور میں کیا مشترک ہے۔اور ان مذاہب میں پائے جانے والے مثبت تصوف کے عناصر سے ایک انسانوں میں اعتدالی کیفیت تیار ہوسکے۔

4.3 تصوف میں خارجی عناصر (عیسائیت، ویدک اور بدھ ازم کے حوالے سے)

اسلامی تصوف جب اپنے اصلی مقام سے دنیا کے دیگر حصوں میں پھیلنے لگا اس سے لوگ متاثر ہونے لگے کیونکہ اس کی بنیادی تعلیم خدا کے ایک ہونے اور اس سے محبت اور محبت میں شدت عشق کی ہے اپنے خالق سے صرف اس کی رضا کے لئے محبت کی جائے اور اس کے تمام بندوں یعنی ساری کی ساری مخلوقات کے ساتھ ہمدردی کا روّیہ اختیار کیا جائے۔ انسان کو خود کم تر اور دوسرے کو اپنے سے بہتر مانے، جو اپنے لیے پسند کیا جائے وہ دوسرے کے لیے بھی پسند کرے۔ انسانوں میں مساوات ہیں کوئی کم تر اور اعلی نہیں، جو کچھ حاصل ہو جائے اس پر قناعت کر لی جائے اور صرف اور صرف اپنے رب پر بھروسا کیا جائے۔ وحدانیت کا جو تصور صوفی ازم تھا اس میں عیسائی پادریوں کے ذریعے ملاوٹ کی گئی کیونکہ تصوف اسلامی میں وحدانیت کا تصور خالص ہے۔اس کا کوئی جسم نہیں نہ اس کا بیٹا نہ باپ، وہ ازل سے ہے اور ابد تک وہی ہے۔ لیکن عیسائیوں کے بعض فرقوں میں خدا کا تصور اس سے برعکس تھا اس کو تصوف میں شامل کرنے کی کوشش کی گئی۔ عیسائیوں کا یہ عقیدہ ہے کہ عیسیٰ نجات دہندہ ہیں اور روح مقدس نجات کی تکمیلیت کی طرف رہنمائی کرتی ہے۔

اس سے باپ بیٹا اور روح مقدس کی تتلیث کے راز کو سمجھنے میں مدد ملتی ہے۔یہ واقعی ایک بڑا اور مشکل ترین نظریہ ہے نہ تو یہ آسانی سے سمجھ میں آتا ہے اور نہ اس کی تعبیر کی جا سکتی ہے۔ خیال رہے کہ یہ ذہن نشین کرنا بے حد اہم ہے کہ اس میں توحید کے اصول سے بظاہر کوئی انحراف نظر نہیں آتا لیکن ساتھ ہی کائنات کی نجات کے لئے ظہور حق کے سلسلے میں انسان کو اس راز کے گوناگوں پہلوؤں کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ حضرت عیسی کا وجود ظہور حق کا کلیدی واقع ہے۔ ان کی ذات ان کے نزدیک انسان اور خدا دونوں کی صفات کا مظہر ہے۔ اس لئے ان کے ماننے والوں کا یہ عقیدہ ہے کہ وہ واقعی انسان بھی تھے اور خدا بھی۔

انجیل میں بعض عیسائیوں نے ان کو انسان کا بیٹا اور خدا کا بیٹا کہا ہے۔ مسیحی دینیات کے ایک عالم نے یہ کہا ہے کہ عیسی مسیح میں انسان کی حقیقت خدا کی حقیقت کی جلوہ نمائی کرتی ہے۔ ان خیالات کو جب مستشرقین نے اسلامی تصوف میں شامل کیا تو بعض وہ صوفیا جو اسلامی تصوف کے پوری طرح واقف نہیں تھے انہوں نے ”ہمہ اوست“ کا قول کیا یعنی سب وہی خدا ہے، یعنی مخلوق خدا کا امتیاز مبہم ہوگیا۔ قطرہ دریا میں ملنے کا دعوی کرنے لگا۔دوسرا اہم عنصر جو عیسائیت کے ذریعے بعد میں کے صوفیا کے نظریات میں شامل ہوا وہ ہے طویل گوشہ نشینی یا صحرانوردی، اس سے عیسائیت کا مقصد تھا کہ ایک بڑی امت سے دنیاوی حکومت دور رہے اور یہ امت گوشہ نشینی اور ترک دنیا میں گم رہے۔ تنہائی میں بیٹھنا لوگوں سے اپنا سلسلہ منقطع کرکے جب ایک انسان اللہ اللہ کی صدائیں لگائے گا تو اسے اپنے رب کا جلوہ حاصل ہو جائے گا۔یہ گوشہ نشینی بعد کے صوفیا کو بڑی پسند آئی اور وہ بیابانوں، صحراؤں اور جنگلوں میں چلے کرنے لگے۔

تصوف میں ویدک عناصر

’ ہندو ‘ سندھو لفظ کا دوسرا نام ہے۔ سندھو اس دریا کا نام ہے جو ہندوستان کے شمال مغرب میں بہتا ہے۔ ہندوستان کو مغربی ممالک سے الگ کرتا ہے۔ مغربی مسلمانوں نے اس ملک کو سندھو کہنا شروع کیا۔اہل ایران اس سندھو کو ہندو کہنے لگے۔ یونانیوں نے اس سندھو کے بجائے اندوس کہا۔ اس سے بعد میں انڈین بن گیا۔ دریائے سندھ کے مشرق کی جانب رہنے والے لوگ ہندو کے نام سے جانے جانے لگے اور ان کا مذہب ہندو دھرم ہوگیا۔ درحقیقت زمانہ قدیم میں یہ لوگ آریہ کہلاتے تھے اور ان کا مذہب آریہ دھرم کا دوسرا نام ویدک دھرم بھی تھا۔ اسی کو سناتن دھرم بھی کہا جاتا ہے، اسی ہندو یا آریہ دھرم کو ویدک مذہب بھی کہتے ہیں۔ وید ہندوؤں کی سب سے قدیم اور مقدس کتابیں ہیں جن کا الہام رشیوں کو ہوا تھا اور جو انہوں نے دوسروں کو سنائے تھے یہی وجہ ہے کہ ویدوں کو شروتی یعنی سنتا ہوا کلام بھی کہتے ہیں۔ ویدوں میں ایسے بہت سے خیالات موجود ہیں جن کو ہندو آج بھی مانتے ہیں۔

وید چار ہیں: رگ وید، یجر وید، سام وید، اتھر وید۔ ان ویدوں کے چار خاص حصے ہیں، سنگھا یعنی منتر، براہمن آرنیک اور اپنشد۔ ان میں سے ہم جس پر گفتگو کریں گے وہ ہے آرنیک۔آرنیک وہ حصہ ہے جس میں ان خیالات و تصورات کا ذکر ہے جن پر لوگ جنگل میں جا کر زندگی گزارتے ہیں اور وہاں غوروفکر کیا کرتے ہیں۔ اپنشد وہ آخری حصہ ہے جس میں آریہ افراد کے گہرے اور اعلی ترین روحانی تجربات اور خیالات کا ذکر ملتا ہے جو گروہ اور چپلوں کے درمیان مکالموں کے ذریعے حاصل ہوتا ہے۔ وید کے یہ وہ حصے ہیں جو ایک انسان کو پیدا کرنے والے کے بارے میں غوروفکر سکھاتے ہیں اور دنیا سے ترک تعلق کر کے ‘برہمہ’ کی طرف مائل کرتے ہیں۔ یہ وہ حصہ ہے جو تصوف میں ترک دنیا کر کے رب حقیقی کی طرف مائل کرنے کے مماثل ہے۔

اپنشدوں کی تعلیمات کے مطابق کائنات کی تہہ میں ایک روحانی وجود ہے جس وجود سے یہ تمام کائنات پیدا ہوئی ہے اور جس میں یہ سب کائنات موجود رہتی ہے اور جس میں فنا ہوجاتی ہے۔ اس کو برہمہ کہتے ہیں۔ دنیا کی سب چیزیں اور روحیں اسی کا ظہور ہیں اور وہ سب کا مالک حاکم اور پروردگار ہے۔ اس لئے ویدک دھرم کا ماننا ہے کہ تمام کائنات روحانی ہے اور اس کا چلانے والا ایک وجود یعنی خدا ہے جو خالق ہے اور اس نے بغیر کسی شرکت کے کائنات کو پیدا کیا ہے اور اسے چلا رہا ہے۔ اس میں بے انتہا طاقتیں موجود ہیں۔ ان میں سے قوت تخلیق کو ”مایا“ یا ”پرکرتی“ کہتے ہیں۔ اسی قوت سے وہ اپنے آپ کو برہمہ( خالق) وشنو (پرورش اور قائم رکھنے والا ) اور شیو یعنی فنا کرنے والے کی شکل میں ظاہر کرتا ہے۔

اس لئے برہمہ، وشنو اور شیو یہ تینوں شکلیں ایک ہی برہمہ کی ہیں جو اس نے تین عظیم کام انجام دینے کے لئے اختیار کر رکھی ہیں۔ہندو دہرم کے ماننے والے برہمہ کو تو آخری اور سب جگہ موجود رہنے والی طاقت مانتے ہیں لیکن تین بڑے دیوتا برہمہ، وشنو اور شیو کو بھی اس طرح مانتے ہیں کہ ان کی پوجا اور حمد و ثنا کرتے ہیں، بلکہ ان کے الگ الگ ناموں سے الگ الگ فرقوں میں بٹ گئے۔اس طرح تصور برہمہ اور تصوف میں وحدانیت کے تصور کو لے کر بہت سارا لین دین بھی ہوا۔ہندو دھرم والے ان کو الگ الگ طاقیں اور دیوتا مانتے ہیں جبکہ اہل تصوف ان کو ایک ہی خدا کی صفتیں مانتے ہیں۔ ہندو دھرم کے گوشہ نشین ’برہمہ‘ کو مختلف دیوتاؤں کے روپ میں مجسم مان کر پوجا کرتے ہیں جبکہ اہل تصوف اس کو نور مانتے ہیں اور ظاہری جسم و شکل سے پاک مانتے ہیں۔

تصوف اور بدھ مت

بدھ مت کے بانی گوتم بدھ ہوئے ہیں جن کا زمانہ 563 ق م 483 ق م ہے۔ گوتم بدھ ایک راجہ کے بیٹے تھے اور ان کا نام سدھارتھ تھا۔

ایک بار کا واقعہ ہے کہ یہ لڑکا اپنے باپ راجہ کے حکم سے سیغ کے لیے نکلا۔ اس کو سب سے پہلے ایک بوڑھا شخص دکھائی دیا جو جسمانی کمزوری کے سبب چلنے پھرنے سے معذور تھا اور اس شخص کا جسم خراب اور بہت ہی خستہ حالت میں تھا۔ سدھارتھ نے اس سے پہلے اس قسم کا کوئی آدمی نہیں دیکھا تھا۔اس نے رتھ بان سے پوچھا یہ کون ہے؟ رتھ بان نے جواب میں کہا یہ ایک بوڑھا آدمی ہے۔ بوڑھا کب ہوتا ہے؟ یہ پوچھنے پر جواب ملا کہ جب آدمی کی عمر بہت زیادہ ہو جاتی ہے تو وہ اس حال کو پہنچ جاتا ہے اور اس کی شکل وہئیت اس طرح کی ہو جاتی ہے۔یہ پوچھنے پر کہ کیا سب ہی بوڑھے ہو جاتے ہیں اور آپ بھی ایک روز بوڑھے ہوجائیں گے۔۔۔۔کچھ آگے چل کر ایک بیمار آدمی ملا جو تکلیف کے سبب بے قرار تھا اور ہائے ہائے کرتا زمین پر گرا پڑا تھا۔ سدھارتھ نے اس کو دیکھ کر دریافت کیا یہ کون ہے اور کیوں ایسی حرکتیں کر رہا ہے؟

جواب ملا یہ بیمار ہے۔جب جسم میں کوئی خرابی ہو جاتی ہے تو لوگ بیمار پڑجاتے ہیں اور اسی طرح تکلیف برداشت کرتے رہتے ہیں۔ کچھ آگے چل کر ایک مرد کو دیکھ کر پوچھا یہ کیا ہے؟ جواب ملا یہ آدمی مر گیا ہے اس کے مردہ جسم کو جلانے کے لئے اس کے رشتہ دار شمشان گھاٹ کو لیے جا رہے ہیں کیونکہ اب اس کا بدن کسی کام کا نہیں رہا، وہ اب کچھ بھی نہیں کر سکتا اس کی تمام طاقت ختم ہوگئی ہیں۔ پھر سدھارتھ نے دریافت کیا ، کیا سب زندہ لوگوں کو مرنا ہی پڑتا ہے؟ جواب ملا ہاں سرکار سب کو ایک دن مرنا پڑتا ہے۔ کیونکہ کوئی بھی ہمیشہ زندہ نہیں رہ سکتا، ہم اور آپ بھی ایک دن ضرور مر جائیں گے۔ سدھارتھ کو بوڑھے بیمار اور مرد کے مناظر کو دیکھ کر سخت دکھ اور تکلیف ہوئی۔وہ سوچنے لگا کہ ایسی زندگی سے کیا فائدہ جس میں بڑھاپا، بیماری اور موت ضروری ہو۔ وہ سوچنے لگا کہ زندگی کس قدر اور ناپائیدار اور حقیر چیز ہے۔ یہ خیالات اس کو بے چین کر رہے تھے کہ آگے چل کر ایک ایسا شخص نظر آیا جو خوش اور مست دکھائی دیتا تھا۔ اس کے چہرے سے بجائے فکر کے ہنسی ٹپک پڑی۔کوچوان سے دریافت کیا یہ کون ہے؟ معلوم ہوا یہ ایک سنیاسی ہے جس نے دنیاوی زندگی کو ترک کر دیا ہے اور بے فکری سے زندگی گزارتا ہے، بغیر کسی زحمت کے گھومتا پھرتا ہے۔ زندگی کے مسائل پر غور و فکر کرتا ہے، اسی طرح دھیان اور بھجن میں اپنا وقت گزارتا ہے۔

سدھارتھ کو اس سنیاسی کی زندگی بہت پسند آئی اور اسی وقت اس نے پکا ارادہ کرلیا کہ وہ بھی اس دنیاوی زندگی کو چھوڑ کر سنیاسی بن جائے گا۔ آخر کار سدھارتھ کی شادی ہوگئی اور اس سے اس کی بیوی کے یہاں ایک بچہ بھی ہوگیا۔ زندگی کی زنجیر کی کڑیوں کے بڑھنے سے اس کی گھبراہٹ بڑھنے لگی۔ ایک رات کو وہ گھر سے باہر نکل گیا اس بات پر غور کرنے کے لیے کہ کیا بڑھاپے، بیماری اور موت سے بچنے کا کوئی طریقہ ہے؟۔۔۔۔گھر سے نکل کر اس نے ایک سنیاسی کی زندگی اختیار کر لی۔ ایسے لوگوں کی جستجو میں گھومنے لگا جو زندگی کے مسائل کو حل کر سکیں اور اس کو زندہ رہنے کا صحیح راستہ بتا سکیں۔ جو طور طریقے اسے بتائے جاتے وہ ان کی خوب مشق کرتا لیکن کچھ حاصل نہ ہوتا۔ بالآخر چلتے چلتے وہ ایک دن ”گیا“ (بہار) پہنچ گیا وہاں ایک پیپل کے گنے سایہ دار پیڑ کے نیچے بیٹھ کر سوچنے لگا کہ یہ زندگی کیا ہے اور اس میں یہ سب کچھ کیوں ہوتا ہے؟

ان سب حالتوں سے آزاد ہونے کا کیا طریقہ ہے جس کو اختیار کرنے سے مکمل آزادی حاصل ہوسکے۔ وہیں بیٹھ کر وہ گہری فکر میں ڈوب گیا۔ وہیں اسے اپنے اندر سے ایسا نور حاصل ہوا جس سے زندگی اور اس سے نجات پانے کا راز اس پر عیاں ہوگیا۔ اس نے یہ احساس کیا کہ وہ زندگی کے راز سے واقف ہو چکا ہے اور بدھ یا عقلمند ہو گیا ہے۔ اسی وقت سے اس کا نام بدھ پڑ گیا۔ پھر اس نے اپنے خیالات کا اظہار شروع کر دیا۔سدھارتھ یعنی بدھ ”گیا“ سے چل کر بنارس آیا اور بنارس کے نزدیک سارناتھ میں تعلیم و تلقین کا سلسلہ شروع کیا۔ بدھ نے جہاں اپنے خیالات کے اظہار اور اس کو باضابطہ ایک مسلک بنانے کے اصول بنائے، انہی میں ایک اس کا تصور ”نروان“ ہے۔ نروان سے ان کی مراد ہے کہ جتنی بھی تکلیفیں اور اذیتیں ہیں ان سے آزاد ہونے کا نام نروان ہے۔ اس کے لئے آٹھ اصول بنائے جس کے اپنانے سے آدمی کو پیدائش اور موت کا چکر باقی نہیں رہتا اور خواہش اور اگیان یا جہالت فنا ہوجاتی ہے۔ نتیجہ یہ نکلا کہ پہلے تو انہوں نے اعتدال کا راستہ اختیار کیا اور اس سے متعلق نصیحت کی کہ انسان نہ حد سے زیادہ دنیاوی لذت و عیش و آرام میں گر جائے اور نہ ضرورت سے زیادہ جسم کو دکھ دے کر نا قابل برداشت یوگ اور ریاضت میں لگ جائے۔ دونوں قسم کی انتہا پسندی کو ترک کر کے درمیان کا راستہ اختیار کرنا چاہئے۔ مراد یہ ہے کہ اپنے جسم ، حواس اور من سے مناسبت کا کام لینا بہتر ہے جس میں کسی قسم کا غیر معمولی پن نہ ہو، مثلاً نہ زیادہ کھانا، نہ زیادہ بھوکا رہنا ، نہ زیادہ سونا اور نہ زیادہ جاگنا، غرض کہ ہر ایک کام اعتدال سے کرنا چاہیے۔

یہ آخری چند عناصر ایسے ہیں جو تصوف سے میل کھاتے ہیں لیکن ترک دنیا کا تصور جو بدھ کا ہے یہ اہل تصوف کے لئے مناسب نہیں ہے۔ دوم یہ کہ بدھ مت میں کسی خالق کا تصور نہیں ہے۔ ان کے نزدیک دنیا میں یا دنیا سے باہر اس کا خالق کوئی خدا یا ہمیشہ قائم رہنے والا وجود نہیں ہے جبکہ یہ اہل تصوف کے منافی ہے۔ اس کے علاوہ روح سے متعلق جو بدھ مت کا تصور ہے اس کا ظاہری حصہ تو صوفیا کے تصور سے میل کھاتا ہے لیکن حقیقت میں اہل تصوف سے مختلف ہے۔

4.4 عمومی جائزہ

تصوف جب اپنے اصل وطن سے نکل کر دنیا کے اطراف و اکناف کی طرف پھیل گیا تو اسی مقبولیت کے پیش نظر دوسرے مذاہب کے صاحب عقل نے اس کے بعد چیزوں کو لے کر غور و فکر کیا۔ بعضوں نے تو اپنے مذاہب کو بچانے کے لیے تصوف کے بنیادی عناصر کو تباہ کر دیا اور اس کی تعلیمات کو بگاڑ کر پیش کیا جس میں عیسائیت اور یہودیت پیش پیش رہی ہے۔ لیکن بعض ایسے مذاہب بھی ہیں جن کی اصل کتابوں سے ان کی تعلیمات میل کھاتی تھی اور تصوف کے عناصر کی شمولیت کے سبب وہ دنیا تک زیادہ مؤثر طریقے سے رسائی حاصل کر سکتے تھے لہذا انہوں نے تصوف سے اخذ و استفادہ کیا اور بعض نے اپنے نظریات کو بھی تصوف کے عناصر میں شامل کرنے کی کوشش کی ہے۔ اور بعض صوفیا نے دیگر مذاہب کے وہ عناصر جو ان کے بنیادی عقیدے کے منافی نہیں تھے انھیں قبول کیا اور جو کسی حد تک منافی تھے پورے طریقے سے ان نظریات سے میل نہیں کھاتے تھے ان پر خاموشی اختیار کی۔ جیسے بدھ مت میں ترک دنیا کا تصور ہے اسلامی تصوف میں گوشہ نشینی کے ساتھ گریلو زندگی کی بھی اہمیت رہی ہے۔

جب بدھ مت اور جو تصوف عیسائیت کے ذریعے منظر عام پر آیا وہ ترک دنیا اور گوشہ نشینی پر زیادہ اصرار کرتا تھا، اس کو رہبانیت کہا جاتا ہے۔ لہذا بعض درویشوں نے کسی حد تک اس کو اختیار کر لیا اور زیادہ تر نے اس تصور کو مکمل طور پر قبول نہیں کیا۔ اسی طرح ویدک دھرم میں وحدانیت کا جو تصور ہے وہ تصوف سے میل کھاتا ہے لیکن بعد میں جب برہمہ کے مختلف جسم مان لیے گئے اور اب ان کے ماننے والوں میں تصور الہ بے جسم نہیں رہا تو اہل تصوف نے ان کو قبول نہیں کیا۔ ہاں ایک عجمی تصور پھر بھی اہل تصوف میں شامل ہوگیا ہے اور وہ ہے کہ دنیا کی تمام چیزین اس خالق کا پرتو ہیں یعنی عکس ہیں۔ اس میں بھی دو گروہ بن گئے بعض اس تصور سے میل کھاتے ہوئے ” ہمہ اوست“ کے خیال میں رنگے اور بعض اس کو تسلیم نہ کر کے ”ہمہ از اوست“ کے قائل رہے۔

4.5 سوالات

  • 1. عیسائی مذہب میں خدا کا تصور کیا ہے؟
  • 2. سدھارتھ کے حالات و کوائف کی وضاحت کریں۔
  • 3. ویدک دھرم کے کون کون سے نام تاریخ میں موجود ہیں؟
  • 4. ویدوں میں وحدانیت کا تصور کیا ہے؟

4.6 امدادی کتب

  • 1. اردو انسائیکلوپیڈیا۔ ۔ جلد سوم (فضل الرحمن)
  • 2. اسلامی تصوف میں غیر اسلامی نظریات کی آمیزش۔۔۔ پروفیسر یوسف سلیم چشتی
  • 3. اسلامی تصوف اور صوفی۔۔‌۔ ف- س اعجاز
  • 4. ہندی ادب کی تاریخ۔۔۔۔محمد حسن
از تحریر ڈاکٹر محمد آصف ملک اسسٹنٹ پروفیسر بابا غلام شاہ بادشاہ یونیورسٹی راجوری جموں و کشمیر