Mysticism And Bhagti Movement | تصوف اور بھگتی تحریک

0

تصوف اور بھگتی تحریک

  • 1.1 تمہید
  • 1.2 مقاصد
  • 1.3 تصوف اور بھگتی تحریک
  • 1.4 عمومی جائزہ
  • 1.5 سوالات
  • 1.6 امدادی کتب

1.1 تمہید:

پیغمبر اسلام کو جب حکم خداوندی ملا کہ آپ اعلان نبوت و رسالت کریں، جو مذہب انہیں ملا تھا اورجس مذہب کی انہوں نے تبلیغ کی وہ بہت ہی سادہ تھا۔ اس مذہب میں عقائد اور ارکانِ عبادت کم سے کم تھے اس لئے کہ قرآن کے مطابق خدا انسان کا بوجھ ہلکا اور ان کی قوت برداشت کے مطابق بنانا چاہتا تھا۔ توحید کے نظریے کو انہوں نے اپنا مرکزی نقطہ یا اصول بنایا اور نماز، روزہ، زکوٰۃ اور حج کو سب سے زیادہ اہم عبادت قرار دیا۔ آپ کے وصال کے بعد خلفا کی زندگیوں میں امت میں فرقے پیدا ہو گئے۔ ابتدائی فرقوں میں خارجیہ، شیعہ، مرحیہ اور قدریہ وغیرہ پیدا ہوا۔ حکومتوں کی خاطر مسلمانوں کی جانیں ضائع ہونے لگیں۔ اس صورتحال کو دیکھ کر بعض خداترس مسلمان گوشہ نشین ہوگئے اور عبادت کے ہر رکن اور ہر عمل کی تجاوری کے لیے انہوں نے نام و نمود اور ریا سے پاک اپنی زندگی کو نبانا چاہا، یہی تصوف کہلایا۔ بعد میں اہل شیعہ لوگوں کے جو عقائد تھے وہ ایران اور ہندوستان تک پھیل گئے۔ یہاں ہندوستان میں بھی اصل تصوف موجود تھا لیکن شیعہ عقائد زیادہ ہندو دھرم سے میل کھاتے تھے، اس لئے بھگتی تحریک میں ان کے عقائد کا زیادہ اثر پڑا اور بھگتی تحریک میں اصل تصوف اور ویدک دھرم سے ہٹ کر فلاسفی پیش کی گئی۔

1.2 مقاصد

اس سبق کو پڑھنے پڑھانے کا مقصد یہ ہے کہ طلبا اصل تصوف کو جانیں، تصوف میں ملاوٹ کیا ہوئی اس سے واقف ہوں، بھگتی تحریک پر تصوف کے کیا اثرات پڑے اور تصوف اور بھگتی تحریک کے مشترک عناصر کیا ہیں اس سے مکمل جانکاری حاصل کریں۔

1.3 تصوف اور بھگتی تحریک

جس سرزمین پر دین محمد صلی اللہ علیہ وسلم کا سورج طلوع ہوا وہ خطۂ زمین سب سے کم متواضع ہے۔ عرب کے وسیع و عریض علاقوں میں محض اڑتی ہوئی بالو کے خشک ترین میدان ہیں۔ صرف ساحلی علاقوں میں یہ امکان ہے کہ انسان کسی قدر آرام کی زندگی بسر کر سکے اور تمدنی ادارے قائم کر سکے۔ یہی وہ علاقے ہیں جہاں زمانۂ قدیم میں سلطنتیں ابھریں۔ لیکن چھٹی صدی عیسوی تک آتے آتے قدیم زمانے کے افسانے لوگوں کے دماغ سے مٹ گئے تھے اور عرب بربریت کی زندگی میں ڈوب چکے تھے۔

مکہ جس شہر کا شمار اہم ترین مقامات میں تھا ، مادہ پرست شہر بن چکا تھا۔ جہاں نفع کی لالچ اور سود خوری کا دور دورہ تھا۔ عیاشی، شراب اور جوا فرصت کے مشاغل بن چکے تھے۔ بیواؤں، یتیموں اور کمزوروں کی کوئی حیثیت نہیں سمجھی جاتی تھی۔ یہاں تک کہ یہ سب ایک بے کار کی بھرتی سمجھے جاتے تھے۔ مذہب صرف اور صرف ایک بے معنی رسم پرستی کا نام تھا۔ ستاروں، پتھروں اور دیوتاؤں کی پرستش کی جاتی تھی جس پر کسی کو اعتقاد نہ تھا۔ حق و ناحق کے تصورات بالکل ایک کھیل سے بنے ہوئے تھے۔قتل کوئی اخلاقی جرم نہیں تھا اور شادی کا احترام برائے نام ہی تھا۔ عورتوں کے کوئی حقوق نہیں تھے۔ جائیداد، وفاداری اور عزت کی کوئی قدر نہیں تھی۔ ہوس پرستی عام تھی۔ اس اخلاقی اور مادی صحرا میں کہیں بھی کوئی سبزہ نظر نہیں آتا تھا۔

ان حالات میں پیغمبر اسلام حضرت محمد بن عبداللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی ولادت ہوئی۔ عہد شباب تک ان کی پرورش بغیر کسی تربیت اور نگہداشت کے سخت افلاس اور مشکل حالات میں ہوئی۔ اپنی قوم کے شرمناک حالات کی ذلت و خواری نے ان کی حساس روح کو بے حد مضطرب کر رکھا تھا۔ حنفا کی تعلیمات، درویشانہ اعمال اور غار حرا کی گوشہ نشینی میں غور و فکر کے سبب ان کے مضطرب اور بے چین دل و دماغ اور انسانی فطرت میں ایک مذہبی بحران پیدا ہوا اور وہ اس حالت میں ان وجدانی مذہبی احساسات سے گزرے جنہوں نے ان کا سارا نظریہ حیات و ممات ہی بدل کر رکھ دیا۔

ایسے وقت میں وحی الہی نے وہم وجہل کا پردہ چاک کیا اور انہیں وہ علم عطا کیا جس نے صرف عرب نہیں بلکہ پوری کائنات کی جہالت کو دور کیا۔ حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم پر اپنے خالق و مالک اللہ کے احکام نازل ہوئے اور وہ ساری دنیا کے اللہ کے رسول اور عرب قوم کے لئے ہادی و مصلح بن کر ابھرے۔

حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم نے جس مذہب کی تبلیغ کی وہ انتہائی سادہ تھا۔ اس مذہب میں عقائد کم سے کم تھے، ارکانِ عبادت کی بھی کثرت نہیں تھی۔ اس لیے قرآن کے مطابق خدا انسان کا بوجھ ہلکا اور اس کی قوت کے مطابق بنانا چاہتا تھا۔ توحید کے نظریے کو انہوں نے اپنے پیغام کا مرکزی اصول بنایا اور عبادات میں نماز، روزہ، زکوۃ اور حج کو اہم قرار دیا۔ ان کے ساتھ حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی رسالت کا اقرار اس مذہب کا خاص رکن تھا۔سماجی حیثیت سے اس مذہب کی سب سے زیادہ موثر اور نمایاں تعلیم یہ تھی کہ تمام مسلمان بھائی بھائی ہیں اور اس حیثیت سے سب برابر ہیں، مساوی درجہ رکھتے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ اس میں پروہتوں کا کوئی طبقہ نہیں ہے۔ توحید کا مطلب یہ تھا کہ دیوتاؤں اور بتوں کی پرستش سے بالکل ہاتھ اٹھا لیا جائے۔ مسلمانوں کے مذہبی شعور کی نمایاں خصوصیت یہ تھی کہ واضح طور پر ہر وقت اس کا احساس رہے کہ خدا موجود ہے، وہ اپنے بندے سے قریب ہے، اس کی قدرت تمام کائنات کو گھیرے ہوئے ہے اور اس کی نافرمانی کا انجام کار خوفناک ہوگا۔ انسان کی بہتری اس میں ہے کہ اس کی عبادت خلوص نیت سے کرے اور اس کی اطاعت اس کی رضا اور خوشنودی حاصل کرنے کے لیے کرے۔

پیغمبر اسلام کے انتقال کو ابھی زیادہ عرصہ نہیں گزرا تھا کہ زندگی کی پیچیدگیوں اور تاریخی تقاضوں کے اثر سے ان کے اس مذہب میں نئے نئے فرقے بننے لگے۔ ابتدائی تفرقوں کی بنیاد زیادہ تر سیاسی تھی۔ خارجیہ، شیعہ، مرجیہ اور قدریہ فرقے سب سے پہلے نمودار ہوئے۔ جب خلافت و حکومت کے حصول کے لیے مسلمان آپس میں قتل و غارت کرنے لگے تو بعض اہل حق مسلمان ایسے بھی تھے جو کسی بھی مقابل گروہ کی طرف جانا پسند نہیں کرتے تھے۔ لہذا انہوں نے تنہائی اختیار کرکے عبادات میں مصروف ہو گئے۔ انہوں نے اپنی اور جو لوگ ان کے ساتھ منسلک ہو گئے ان کی اصلاح میں وقت صرف کیا۔

حدیث کے اندر ‘احسان’ لفظ موجود ہے اسی کا دوسرا نام تصوف نکلا، اس کا مطلب یہ تھا کہ خدا کی عبادت اس اخلاص اور حضور قلب سے کی جائے کہ نمازی اپنے خدا کا دیدار کرے اور اگر اس منزل تک نہیں پہنچ پاتا تو پھر یہ خیال رکھے کہ اس کو اس کا خدا دیکھ رہا ہے۔ اس کی مثال ابتدائے اسلام میں اصحاب صفہ کی ان کے پاس موجود تھی۔ ابتدا میں جب تصوف کے اصول و ضوابط بنے تو ان کی بنیاد قرآن و حدیث اور سنت رسول اور طریقۂ صحابہ کرام پر تھی۔ لیکن جب یہودیوں نے اس کو نقصان پہنچانا چاہا تو شیعہ کی شکل میں تصوف کے عناصر میں کچھ غیر اسلامی عناصر کی شمولیت کر دی، جس کی تفصیل آگے آرہی ہے۔ لیکن جو اصل اور قرآن وحدیث کے جانکار صوفیا ہیں ان کے پاس آج بھی اصل تصوف موجود ہے۔

شیعہ فرقہ بہت ہی جلد ایران میں پھیل گیا۔ ان میں انوکھے اور بہت ہی دلچسپ فرقوں کی سب سے زیادہ بہتات ہوئی۔انتہاپسند شیعوں کے عقائد جو غلاۃ کہلاتے تھے، حیرت انگیز طور پر ہندوؤں کے اصول سے ملتے جلتے تھے۔ مثلاً ان کا عقیدہ غلو اور تقصیر پر تھا۔ غلو سے ان کا مطلب یہ تھا کہ انسان خدا کے درجے تک پہنچ سکتا ہے اور تقصیر سے مراد یہ ہے کہ خدا انسان کے درجے تک نیچے اتر سکتا ہے۔ ان اصولوں کی بنا پر انہوں نے پیشوا کو الوہیت کا درجہ دے دیا۔

یہ بھی ان کا عقیدہ تھاکہ خدا انسانی شکل (حلول) میں آ سکتا ہے۔ اس کے علاوہ ان کا عقیدہ مسلہ تناسخ پر، ایک تشبیہی خدا پر، خدا کے ادارے میں تبدیلی(بدأ) پر اور امام کی دوبارہ واپسی(رجع) پر تھا۔ ان انتہا پسند فرقوں کے مختلف نام تھے: حرامیہ اصفہان میں، قدریہ رے میں، مزدقیہ اور سندبادیہ آذربائیجان میں اور محمدہ (لال کپڑوں والے) بیفہ (سفید کپڑوں والے) ماورا النہر میں۔لیکن ان میں غیر معمولی طور پر دلچسپ فرقہ علی الٰہیہ تھا جو غالباً اسلام کے ابتدائی دور ہی میں پیدا ہو گیا تھا۔ اس کے ماننے والے ایران اور ہندوستان میں آباد ہوئے اور دبستان مذاہب کے مصنف نے ان کا ذکر کیا ہے۔ ان عقائد نے بھگتی تحریک پر بھی اثر کیا۔

بھگتی تحریک سے قبل بجرانی سدھو اور ناتھ پنتھی فقرا مذہبی رسومات اور عبادات کی مخالفت میں آواز بلند کر رہے تھے۔ ان کی یہ تحریک کافی مقبول ہو چکی تھی۔ یہ لوگ دھرم اور مذہب کی ظاہری شکل کے قائل نہیں تھے۔تیرتھ یاترا، اشنان، بت پرستی ، مندروں کی زیارت وغیرہ سبھی رسومات کو انہوں نے فروعی اور غیر ضروری قرار دیا تھا۔ ایرانی صوفیوں کی طرح یہ لوگ بھی ظاہر پرستی کے مخالف تھے اور مذہب کو رسوم و عبادات سے بلند تر سمجھتے تھے اور مذہب کو رسوم و عبادات سے اوپر خیال کرتے تھے۔ انہوں نے ویشنو دھرم کے بنائے ہوئے سارے اصول و ضوابط اور رسومات کے ختم کرنے کا مشورہ دیا کیونکہ ان کے نزدیک انسان کی روح کو صحیح انبساط یا نروان مذہبی رسوم اور فرائض کی ظاہری ادائیگی سے حاصل نہیں ہو سکتی بلکہ اپنے اندر یعنی باطن کی صفائی اور دل میں معبودِ حقیقی سے لو لگانے سے مل سکتی ہے اور اس باطنی صفائی اور لو لگانے کے مختلف راستے ہو سکتے ہیں اور ہر شخص آسانی سے اس پر چل بھی سکتا ہے۔

ان کے ان خیالات سے یہ صورتحال پیدا ہوئی کہ ہر شخص کے لئے نجات کے یہ موہوم باطنی راستے کھول کر انہوں نے ذات پات کے خلاف بھی ایک کاری ضرب لگائی۔

پنڈت رام چندر شکل اور گوپی ناتھ کوپراج وغیرہ مورخین برابر اس بات پر زور دیتے ہیں کہ ناتھ پنتھی اور بجرانی سدھوں کا اثر تمام تر عوام کے نچلے طبقوں تک محدود تھا۔ برہمن اور دانشور طبقہ اس سے محفوظ تھے۔ان میں ویدانت کا اثر عام تھا اور گیتا ، اپنشد اور دوسری مذہبی تصانیف کی شرحیں لکھی جاتیں اور مطالعہ کی جاتی تھیں لیکن ان لوگوں کے بیان کو اگر صحیح مانا جائے تو اس دور کی عام مایوسی نے عوام اور دانشوروں کے درمیان بڑی دوری بنا دی تھی اور علم اور یقین کا یہ جزیرہ بے یقینی اور تشکیک کے اس دور میں صرف روایت کے آسرے پر قائم تھا۔ یہ اور بات ہے کہ علما اور عوام پر اس دور کا اثر مختلف طریقے پر ہوا اور ان پر اس کے اثر انداز ہونے کے زاویوں میں فرق رہا۔

بہرحال جلد ہی وشنوی علما کو یہ محسوس ھو گیا کہ اگر اس وقت عوام میں عقیدت اور بھگتی کے ذریعہ حوصلہ پیدا نہ کیا گیا تو مادی حالات کی ہمت شکنی دھرم سے بد دل کر دے گی۔ بھگتی نے ان حالات کے مقابلے کی دعوت نہیں دی اور نہ اس نے طاقت سے مخالف قوموں کو للکارنے کی ہمت دی، ہاں ان حالات اور مصائب کو برداشت کرنے کی طاقت اور حوصلہ ضرور دیا۔ یہ ایک طریقے پر روحانی گریز اور فرار کی تحریک تھی جو حالات کا مقابلہ کرنا نہیں سکھاتی تھی۔ اس نے مایوسی کو نکالنے کے لیے فلسفیانہ رخ اختیار کیا اور مصیبتوں کو کسی حد تک ہلکا کر دیا۔ باطنی آسودگی پر زور دیا اور عقیدت کی نئی راہیں نکالیں۔

بھگتی کا فلسفہ ویسے تو رامانج چاریہ (١٠٧٣) ہی کی تعلیمات سے شروع ہوتا ہے لیکن گجرات کے سوامی مدھو آچاریہ (١٢٥٤-١٣٣٣) اور مشرقی ہندوستان کے جے دیو کے بغیر یہ فلسفہ ہمہ گیر نہ ہوسکتا تھا۔ پھر پندرہویں صدی میں رامانج چاریہ کے چیلوں میں سوامی رامانند ہوئے جنہوں نے ویشنو تعلیمات کے احیا کی تحریک از سر نو کھڑی کر دی۔ دوسری طرف بلبھ آچاریہ نے کرشن چندر جی کو عوام کا نجات دہندہ قرار دیا اور ان کی تعلیمات اور شخصیت کو نیا روپ دیا۔ اس طرح ویشنوی احیا کے ساتھ کرشن بھگتی اور رام بھگتی کی دو شاخیں وجود میں آئیں جنہوں نے ایشور کی دو صفات ” حق“ اور ”انبساط مکمل“ کو ان دو شخصیات کے ذریعے ظاہر کیا، اس کو بھگتی تحریک کہتے ہیں۔ اس طرح بھگتی تحریک کے بارے میں ہم کچھ بنیادی نتیجوں پر پہنچتے ہیں۔

بھگتی کا مقصد عوام میں روحانیت اور دھرم کے بارے میں اس سوئی عقیدت کو جگانا تھا جو اس زمانے میں بہت کچھ بے رنگ اور مردہ ہوتی جا رہی تھی۔دوسرے مادی حالات کے مقابلے میں کوئی عملی اور جنگجو فلسفہ ڈھالنے کے بجائے اس کا مقصد ایک ایک روحانی فرار اور داخلی تسکین کا سامان مہیا کرنا تھا۔ تیسرے بھگتی کی تحریک برہمنیت کی ظاہر پرستی، بے روح اصولوں اور خشک فلسفہ کے خلاف جرم کو زیادہ جذباتی، رنگین اور عوام پسند بنیادوں پر استوار کرنے کی تحریک تھی۔ وہ صرف رام چندر جی اور کرشن جی کو دیوتاؤں کی طرح دور سے پوجتی نہیں بلکہ انہیں اپنی روزمرہ زندگی میں اپنے افسانے کے کرداروں اور عظیم انسانوں کی طرح شامل کر لیتی ہے۔

بھگتی تحریک ایک ایسے خدا کا تصور پیش کرتی ہے جو انسانوں سے باوقار دوری اور فاصلہ قائم کرنے کے بجائے ان ہی میں شامل ہوتا ہے، ان سے محبت کرتا ہے، ان کی زندگی کا ایک جز بن جاتا ہے۔ بھگتی تحریک دھرم میں زبان سے اقرار اور رسوم عبادت کی ادائیگی سے زیادہ عقیدت اور عشق خداوندی پر زور دیتی ہے۔گو کہ اس کی شکلیں مختلف ہیں۔ اس طرح بنیادی طور پر بھگتی تحریک مذہب کو عوام سے قریب لانے کی تحریک ہے، اس لیے اس کی زبان بھی سنسکرت کے بجائے عام بول چال کی زبان ہے۔

1.4 عمومی جائزہ

تصوف اپنی ابتدا میں وحدانیت پر قائم ہوا۔ اس میں بنیادی تعلیمات ، مساوات، خدا کی عبادت کی بجا آوری خدا تعالی کی رضا اور اس کی خوشنودی حاصل کرنے کے لیے تھی، انسانوں کے ساتھ نرمی اور رحم دلی سے پیش آنے کی تھی۔ لیکن جب تصوف عرب میں بعض ظاہری نما مسلمان یہودی کے ہاتھ چڑھا اور پھر ایران پہنچا تو تصوف کے پردے میں بہت سارے غیراسلامی تصورات جیسے حلول، تناسخ ارواح، بندے میں الوہیت کا پیدا ہونا شا مل ہو گئے۔

ان صوفی نما اسلام دشمنوں نے اصل تصوف اور خاص طور پر صوفیا کی معرکۃالآرا تصانیف تدریس کے طور پر شامل کرلیا۔ ایران میں شیعہ عناصر سے مغلوب تصوف ہندوستان آیا۔ مذکورہ عقائد ہندوستانی سادھو سنتوں کے نظریات سے قریب تر تھے لہذا ان کو اپنی مایوسی اور اسلام کی آمد کے سبب عقائد کی لرزیت ستانے لگی تو انہوں نے شیعہ پیداوار عناصر تصوف سے استفادہ کیا۔ بھگتی تحریک جو ہندوستان میں ہندو دھرم کے احیا کی صورت میں سامنے آئی انہوں نے اسی طرح اسی تناسخ ارواح اور حلول سے فائدہ اٹھاتے ہوئے، ایشور کے روپ کو دو لوگوں یعنی رام چندر جی اور کرشن چندر جی جیسی شخصیات میں دیکھنے کا دعویٰ کیا۔ آواگون کی اصطلاح ایرانی تصوف تناسخ ارواح سے پیداہوئی۔

بھگتی تحریک کے سادھو اور عالم ایشور، خدا کی تجسیم ان دونوں کے روپ میں ماننے لگے۔ لیکن بعض سادھو سنت خدا کی تجسیم کے قائل نہیں، وہ خدا کو ایک نور بے جسم مانتے تھے اور اس کی ذات کو کسی بھی پیکر و شکل سے آزاد مانتے تھے ان کو نرگن واد کہا گیا۔ شنکراچاریہ اور رامانج چاریہ ایشور کی تجسیم و شکل کے قائل رہے اور کبیر داس گرو نانک جی وغیرہ نور غیر جسم کے قائل ہوئے۔ دراصل بھگتی تحریک کا وجود اس مقصد کے تحت ہوا تھا کہ ناتھ پنتھی اور بجرانی سدھوں نے جب مذہب کی ظاہری رسومات و عبادات سے انکار کیا اور کہا کہ ایشوریا خدا کی بس دل میں لو لگنی چاہیے، اسی کی محبت و عشق میں بندہ محور ہے تو یہی کافی ہے کہ اس دنیا کی مصیبتوں اور دکھوں سے نجات یا نروان حاصل ہوجائے۔ لہذا ہندوستانی عوام مذہب کے متعلق شک و شہبات میں مبتلا ہو گئے۔ ان شک و شہبات اور مایوسانہ فکر سے فرار کی خاطر بھگتی تحریک کا وجود عمل میں آیا۔

1.5 سوالات

  • 1. اصل تصوف کیا ہے؟
  • 2. ایرانی تصوف کیا ہے؟
  • 3. بھگتی تحریک کیوں وجود میں آئی؟
  • 4. نرگن واد کا عقیدہ کیا تھا؟

1.6 امدادی کتب

  • 1. ایرانی تصوف۔۔ کبیر احمد جائسی
  • 2. اسلام کا ہندوستانی تہذیب پر اثر۔۔۔داکٹر تاراچند (اردو ترجمہ)
  • 3. ہندی ادب کی تاریخ۔۔ محمد حسن
  • 4. تاریخ تصوف۔۔۔پروفیسر یوسف سلیم چشتی
از تحریر ڈاکٹر محمد آصف ملک اسسٹنٹ پروفیسر بابا غلام شاہ بادشاہ یونیورسٹی راجوری جموں و کشمیر