Impact Of Iran On Mysticism | تصوف پر ایران کے اثرات

0

تصوف پر ایران کے اثرات

  • 4.1 تمہید
  • 4.2 مقاصد
  • 4.3 تصوف پر ایران کے اثرات
  • 4.4 عمومی جائزہ
  • 4.5 سوالات
  • 4.6 امدادی کتب

4.1 تمہید

تصوف جب عرب سے نکل کر ایران کی طرف بڑھا تو وہاں بعض تو تصوف کے وہی عقائد رہے جو اصل میں تھے، لیکن بعض ایسے عناصر ایران میں شامل ہوئے جو دراصل تصوف کے بنیادی عقیدے کے خلاف تھے۔ لیکن انہیں ایسے لبادے میں لایا گیا کہ اصل صوفیا کو اس کا احساس تک نہ ہوا۔ بعض لوگ ایسے تھے جو دراصل یہودی تھے انہوں نے ظاہری طور پر مسلمان ہونے کا اعلان کیا۔ پھر صوفیوں جیسے لباس اور وضع قطع اختیار کی تو اسلام کا جو وحدانیت کا تصور تھا اسے خلط ملط کیا۔یہاں تک کہ بعض حقیقی صوفیا کے کلام میں ایسے اشعار شامل کیے یا نثری جملے شامل کر دیے کہ امت ان کو جلدی پہچان نہیں پائی اور مسلمانوں میں خاص طور پر ایرانیوں میں اس طرح رائج ہو گئے اب انہیں الگ کرنا ایک مشکل ترین مسئلہ بن گیا۔ یہی تدریس شدہ تصوف ایران سے ہندوستان آیا اور اس کے اثرات ہندوستانی سادھو سنتوں پر پڑے۔

4.2 مقاصد

اس سبق کا مقصد یہ ہے کہ طلبا اس کے پڑھنے کے بعد اس لائق ہو جائیں کہ ایرانی تصوف میں کون کون سے عناصر خوارج سے آئے۔ یہ تصوف جب ہندوستان میں آیا تو ایرانی تصوف میں خارجی عناصر کی شمولیت سے تصوف پر کیا اثرات پڑے، ان تمام باتوں سے واقفیت حاصل کریں۔

4.3 تصوف پر ایران کے اثرات

در اصل اسلامی تصوف، قرآن و سنتِ نبوی سے ماخوذ ہے اور اس کے اجزائے ترکیبی اس طرح ہیں۔ ١-توحید خالص ٢- تبلیغ دین ٣- اتباع شریعت ٤- جدوجہد۔ اس میں شبہ نہیں کہ چوتھی صدی ہجری کے بعد مسلمانوں میں غیر اسلامی تصوف بھی در آیا اور تصوف چونکہ غیر اسلامی یا عجمی تھا اس لیے اس کے اجزائے ترکیبی اسلامی تصوف کے برعکس یا ضد تھے۔ ان غیر اسلامی عناصر میں سے چند یہ ہیں۔ ١- شرک (حلول و اتحاد انسان پرستی تجسیم اور تناسخ ارواح) ٢- رہبانیت ٣- تخریب دین ٤- اباحت مطلقہ ٥- نفاق و مدانیت

در حقیقت مسلمانوں کے ذریعے یہود کو جو ذلت محسوس ہوئی اس کی خلش ان کے دل سے کبھی مٹ نہیں سکی۔ چنانچہ مسلمانوں کی طاقت کو کمزور کرنے کے لئے اور اسلامی تعلیمات کو مسخ کرنے کے لیے حضرت عثمان غنی رضی اللہ تعالی عنہ کی خلافت کے آخری دور میں یمن کے ایک یہودی عبداللہ ابن سبا نے مدینے میں آکر منافقانہ طور پر قبول کر لیا تھا۔ مہدی توحید پوری (پیرو مذہب شیعہ) جامی کی کتاب نفحات الانس کے مقدمے میں لکھتا ہے:

” پہلا شخص جس نے حضرت امیر کو الوہیت سے نسیت دی عبداللہ ابن سبا تھا جس نے آنحضرت کے زمانے میں زندگی بسر کی “
ڈاکٹر مکین ( KLEIN) الابانہ عن اصول الدنیانہ کے انگریزی ترجمے کے مقدمے میں لکھتا ہے:
” عبداللہ ابن سبا یہودی نو مسلم نے جب حضرت علی رضی اللہ عنہ سے ملاقات کی تو ان سے یہ کہہ کر مخاطب ہوا ”انت انت“ اس جملے سے اس کا مطلب یہ تھا کہ تو خدا ہے۔ یہ سن کر حضرت علی رضی اللہ عنہ نے اسے جلا وطن کر دیا کیونکہ ان کی رائے میں یہ جملہ کفر صریح تھا۔ لیکن عبداللہ ابن سبا کے پیروکاروں کے دلوں میں یہ عقیدہ جاگزین ہو چکا تھا کہ حضرت علی رضی اللہ عنہ اس دنیا میں دوبارہ تشریف لائیں گے۔ نیز یہ کہ ان کے اندر الوہیت کا ایک جزو حلول کر گیا اور یہ جزو الوہیت بصورت تناسخ ارواح، ان کے جانشینوں میں درجہ بدرجہ منتقل ہوتا رہا۔“

عبداللہ ابن سبا کے ماننے والوں کو سبائیہ کہا جاتا ہے۔ ان سبائیوں نے تصوف میں صوفیوں کے لبادے میں بہت کچھ غیر اسلامی شامل کرکے تصوف کے ماننے والوں کا نقصان کیا ہے۔ ان کے علاوہ اسماعیلی اور باطنیہ فرقوں نے بھی اسلامی تصوف میں بہت سارے غیر اسلامی عناصر شامل کیے ہیں اس کی مکمل تفصیل تو یہاں بیان نہیں کی جاسکتی البتہ کچھ عناصر کی طرف اشارے کیے جا سکتے ہیں جن کی طرف آپ رجوع کر سکتے ہیں۔

ان اسلام دشمن عناصر نے قرآن میں بھی تحریف کرنے کی کوشش کی ہے۔ انہیں اسلامی تصوف میں کفر و غیر اسلامی عناصر کے شامل کرنے میں کیا تامل تھا۔ دراصل ان یہودی مسلم نما صوفیوں نے ایران میں رہ کر حضرت علی کی مدح کو بیانیہ بناکر تصوف میں غیر اسلامی عناصر شامل کیے ہیں۔ ان میں سبائیہ اور قرامطہ گروہوں نے صوفیوں کی تصانیف میں تدریس کے علاوہ اپنی تصانیف نظم و نثر میں، ان میں سے بعض کو اپنی جماعت کا فرد ظاہر کر کے اہل سنت والجماعت کی نظروں میں ان کی دینی حیسیت و مرتبے کو مشکوک بنا دیا۔ اس کی ایک مثال پروفیسر یوسف سلیم چشتی کی تصنیف ”اسلامی تصوف میں غیر اسلامی نظریات کی آمیزش“ سے یہاں درج کی جاتی ہے۔

خواجہ عبداللہ انصاری ہروی جو منازل السائرین کے مؤلف ہیں۔ پانچویں صدی کے مشہور صوفیا میں سے ہیں لیکن ایک اسماعیلی شاعر نے اپنے دیوان میں ان کی مدح کی ہے۔ اس کی تفصیل یہ ہے کہ ادارہ نشریات اسماعیلیہ بمبئی نے غالبا ١٩٣٥ میں خراسانی اسماعیلی کا دیوان شائع کیا تھا جسے پروفیسر آئی ویناف (IVANOV) نے مرتب کیا ہے۔ پروفیسر مذکور اپنے مقدمے میں لکھتے ہیں:
” اگر اسماعیلی دعاۃ کو بہت ستایا گیا مگر ان کی دعوت کا تصوف پر بہت اثر مرتب ہوا اور تصوف عرصہ دراز تک ان کے خیالات سے فیض یاب ہوتا رہا “

اس کی وجہ یہ ہے کہ اسماعیلی دعاۃ ( یعنی شیعوں میں شامل ہو کر یہ ایک گروہ کی حیثیت رکھتا ہے) نے اپنے خیالات کی اشاعت کے لئے تصوف کو آلۂ کار بنایا یعنی صوفیوں کے لباس میں اپنے عقائد کی اشاعت کی۔ یہی پروفیسر مذکور اپنے ایک رسالہ میں جو رائل ایشیاٹک سوسائٹی بمبئی کے جنرل ١٩٣٢ میں شائع ہوا تھا، اس کے صفحہ نمبر ٤٩ پر لکھتا ہے:
” اسماعیلیہ نے اپنے شیعی تصوف کی خصوصیات کو بہرحال برقرار رکھا۔انہوں نے ادبیات تصوف کا بڑے ذوق سے مطالعہ کیا مگر اس کی شرح اپنے مخصوص عقائد کی روشنی میں لکھی۔“

اس کا مطلب یہ ہوا کہ باطنیہ فرقے نے اہل سنت وجماعت کی تصانیف کی شرح اپنے زاویہ نگاہ سے لکھ کر اہل سنت کو ورطۂ ضلالت یعنی گمراہی میں ڈبو دیا۔ اس طرح باطنیہ، قرامطہ اور اسماعیلیہ حضرات نے تصوف کا لبادہ اوڑھ کر اپنے عقائد مسلمانوں میں شائع کر دئیے۔ چونکہ بعد میں آنے والے صوفیوں نے اسلاف پر تنقید کو سوء ادب خیال کیا اس لئے قرامطہ کے عقائد کو جوں کا توں صحیح تسلیم کر لیا اور آہستہ آہستہ ان باطنیہ کے کسی حد تک ہم خیال ہوتے گئے۔ اور غیر اسلامی عقائد چوتھی صدی ہجری سے ایران کی وساطت سے تصوف میں مقبول ہو گئے۔ چنانچہ ابو نصر سراج اپنی کتاب” کتاب اللمع “ میں لکھتے ہیں:
” بغداد کے بعض صوفیا یہ عقیدہ رکھتے ہیں کہ جب سالک کی ذاتی صفات فنا ہو جاتی ہیں تو وہ صفات ایزدی میں داخل ہوجاتا ہے۔ لیکن یہ عقیدہ صحیح نہیں ہے کیونکہ اس سے حلول کا دروازہ کھل جاتا ہے اور یہ عقیدہ کفر ہے “

گمراہی کے دروازوں میں سے سب سے زیادہ خطرناک اور نقصان دے دروازہ جو کھلا وہ باطنیہ کا تھا۔ انہوں نے نہایت ہی ساحرانہ، پر لطف اور منطقیانہ پیرائے میں یہ نظریہ پیش کیا کہ ہر لفظ کے ایک ظاہری معنی ہوتے ہیں اور ایک باطنی یا حقیق معنی۔انہوں نے الفاظ کے اس باطنی پہلو پر اس قدر اصرار کیا کہ ان کا اصلی نام اسماعیلیہ غیر معروف ہو گیا اور وہ باطنیہ کے نام سے شہرت پا گئے۔ ان کا کہنا تھا کہ قرآن و حدیث کے الفاظ کے بھی دو معنی ہوتے ہیں، ایک ظاہری دوسرے باطنی اور وہ ان کو آپس میں وہی نسبت ہے جو پوست (ظاہر) کو مغز سے ہے۔جاھل لوگ صرف ظاہری معنی سے آگاہ ہیں۔ حقائق یا باطنی معنی کو صرف صاحب اسرار جانتے ہیں۔ جو شخص صرف ظاہری معنی میں گرفتار ہے وہ شریعت کی پابندیوں میں پھنسا ہوا ہے اور دین کی نہایت ہی نچلی سطح پر ہے اور جو شخص اہل باطن کی صحبت میں رہ کر حقائق سے آشنا ہو جاتا ہے وہ شریعت کی پابندیوں سے آزاد ہو جاتا ہے۔ یعنی اس کو ظاہری عبادات یا مذہبی رسومات روزہ، زکوٰۃ، حج وغیرہ کی ادائیگی کی کوئی ضرورت نہیں۔ یہی تصور بعض اصل سے ناواقف صوفیا کا بھی بن گیا۔ اس کا اثر کبیر داس اور گرو نانک کے ساتھ ساتھ نرگن وادی گروہوں اور بھگتی تحریک کے سنتوں پر بھی دکھائی دیتا ہے۔

باطنیہ نے اپنی اس بنیادی تعلیم کو عوام کے سامنے صوفی بن کر پیش کیا۔ رفتہ رفتہ بعض جاھل صوفیوں نے پہلے ظاہر اور باطن کی تقسیم کا اصول وضع کر لیا پھر اس کے منطقی نتیجے کو بھی قبول کرلیا۔یعنی انہوں نے شریعت اور طریقت میں تفریق پیدا کردی اور کہنے لگے کہ شریعت کا حکم کچھ اور ہے اور طریقت کا حکم کچھ اور۔ آخر کار انہوں نے باطنیہ کی اس تعلیم کو بھی تسلیم کر لیا کہ جب سالک کو معرفت حاصل ہوجاتی ہے تو وہ قید شریعت سے آزاد ہو جاتا ہے اور انھوں نے اپنے اس باطل عقیدے پر قران کی آیت سے استدلال بھی کیا۔ فرقہ باطنیہ نے اس طرح صوفی لبادے میں لاکھوں اہل تصوف کو گمراہ کیا۔ عوام کے پاس کوئی معیار نہیں تھا کہ جس کی مدد سے وہ یہ معلوم کر سکتے کہ یہ شخص جو ظاہر میں صوفیوں کا لباس پہنے ہوئے بیٹھا ہے تصوف کے اسرار و رموز بیان کر رہا ہے، حقیقت صوفی کیا مسلمان بھی نہیں ہے؟ اگر کسی عام آدمی نے ان عقائد پر اعتراض بھی کیا کہ یہ قول قرآن و حدیث کے خلاف ہے تو مریدوں یا معتقدین نے اسے گستاخ قرار دے کر مجلس سے باہر کردیا۔

تصوف میں غیر اسلامی عناصر کے شامل ہونے کی ایک بڑی وجہ یہ تھی کہ ان صوفیوں میں نہ کوئی محدث تھے نہ مؤرخ اور نہ محقق۔ اس پر المیہ یہ تھا کہ ان لوگوں کے نزدیک تحقیق و تدقیق اور تنقید سوءِ ادب میں داخل تھیں۔ حضرت جنید بغدادی رحمۃ اللہ علیہ کا تصوف یہ تھا کہ ہم ہر بات کو قرآن وسنت کی کسوٹی پر آزما کر دیکھیں گے اگر کوئی بات کتاب و سنت کے خلاف ہو گی ”فہو مردود“ اگرچہ وہ کسی کی زبان سے نکلی ہو، لیکن نویں صدی ہجری میں باطنیہ کی بری کوششوں سے بعض اہل سنت و جماعت صوفیوں کی ذہنیت یہ ہوگئی تھی کہ وہ کسی قول کے حسن و قبح کے بجائے قائل (کہنے والے) کو دیکھنے لگے تھے۔ مثلاً ایک روایت چاہے کتنی ہی خلاف عقل و نقل کیوں نہ ہو اگر وہ کسی بزرگ سے منسوب ہے تو محض اس سے نسبت کی وجہ سے قابل اعتماد قرار پا جائے گی اور اس پر تحقیق و تنقید ادب کے خلاف سمجھا جائے گا۔یہی وجہ ہے کہ تصوف میں اس ایرانی وساطت سے غیر اسلامی عناصر شامل ہوگئے۔

4.4 عمومی جائزہ

تصوف کی بنیاد عرب سے وحدانیت پر پڑی، یعنی خدا کو ایک ماننے کے ساتھ ساتھ اس کی عبادات کو اخلاص اور اس کی رضا مندی اور خوشنودی حاصل کرنے کے لئے ادا کی جائے۔ نام و نمود اور ریا سے پاک نیک اعمال کی بجائے صرف خدا کی رضا کے لئے ہو۔ مساوی اصولوں کو مدنظر رکھتے ہوئے ذات پات اور ادنیٰ اعلیٰ کے فرق کو مٹا کر اس کے حضور پیش ہوا جائے اور یہ تمام کی تمام اسلامی تعلیمات ہیں یعنی تصوف کو ’احسان’ کا مترادف قرار دیا گیا۔ یعنی خدا تعالی کے لیے نماز ایسے ادا کی جائے کہ بندہ اپنے خدا کا دیدار کرے یا اگر اس درجہ پر نہیں پہنچ سکتا تو کم از کم نماز ادا کرتے وقت اس بات کا خیال رکھے کہ خدا اس کو دیکھ رہا ہے لیکن حضرت عثمان غنی رضی اللہ عنہ کے دور میں ایک یمن کا یہودی عبداللہ ابن سبا ظاہری طور پر اسلام قبول کرتا ہے اور اپنے عقیدے کے مطابق بعض اور افراد بھی تیار کرتا ہے۔

اس نے سب سے پہلے حضرت علی رضی اللہ عنہ کے متعلق یہ کہا کہ ان میں الوہی صفات حلول کیے ہوئے ہیں۔ الوہی صفات پہلے محمد بن عبداللہ (صلی اللہ علیہ وسلم) میں حلول کیے ہوئے تھیں۔ جب ان کی وفات ہوگئی تو یہ الوہی صفات حضرت علی میں حلول کر گئیں۔ حضرت علی کو جب یہ معلوم ہوا تو انہوں نے اسے جلا وطن کر دیا۔پھر اس کے چیلوں کے ذریعے ایران میں سبیا فرقہ پیدا ہوا۔ اس کے اثر و رسوخ سے قرامطہ اور اسماعیلیہ فرقہ پیدا ہوا جس کو باطنیہ بھی کہا جاتا ہے بلکہ وہ اسی نام سے مشہور ہوئے۔انہوں نے یہ عقائد اہل تصوف کی کتابوں میں داخل کر دیئے جسے تدسیس کہا جاتا ہے۔ یہ لوگ صوفیا کے لبادے میں مسلمانوں میں داخل ہوئے جو حقیقت میں مسلمان نہیں تھے۔ انہوں نے یہ عقیدے تصوف میں شامل کر دیے۔باطنیہ کے بقول ہر لفظ کے دو معنی ہوتے ہیں ظاہری اور باطنی۔

قرآن کے الفاظ کے بھی دو دو معنی ہیں جو عوام ہیں وہ ظاہری تک پہنچتے ہیں اور باطنی معنی تک صرف اہل باطن یعنی صوفیا ہی پہنچ پاتے ہیں۔ اس طرح انہوں نے اسلامی اعمال کی تقسیم کردی جو اہل ظاہر ہیں وہ نماز، روزہ، زکوۃ، حج وغیرہ ادا کرتے ہیں اور جو اہل باطن ہیں ان کو ان چیزوں کے ادا کرنے کی ضرورت نہیں بلکہ وہ تو ہمیشہ خدا کے حضور میں رہتے ہیں، انہیں ان ظاہری رسوم کی ضرورت نہیں۔ اس طرح ان لوگوں نے تصوف کو اپنی بنیاد سے ہٹا دیا۔جہلا صوفیا کو یہ عقیدہ پسند آیا کیونکہ اس میں محنت نہیں تھی۔ مذکورہ فرقوں نے حلول، تناسخ ارواح، اہل ظاہر و باطن وغیرہ مسائل کو تصوف میں الجھا دیا۔ یہی وہ عناصر ہیں جو ایران کی وساطت سے تصوف میں شامل ہوئے۔ ان کے اثرات ہندوستانی بعض صوفیوں، سنتوں اور رشیوں پر بھی پڑے۔

4.5 سوالات

  • 1. عبداللہ ابن سبا کون تھا؟
  • 2. بندے کے اندر الوہیت اور حلول کو کس نے پھیلایا؟
  • 3. باطنی فرقہ کے عقائد کیا ہیں اور وہ کس طرح مسلمانوں میں شامل ہوئے؟
  • 4. مجموعی طور پر ایران کے تصوف پر اثرات کا جائزہ لیجیے۔

4.6 امدادی کتب

  • 1. تاریخ تصوف۔۔ پروفیسر یوسف سلیم چشتی
  • 2. اسلامی تصوف میں غیر اسلامی نظریات کی آمیزش۔۔ پروفیسر یوسف سلیم چشتی
  • 3. ہندی ادب کی تاریخ۔۔ محمد حسن
  • 4. ایرانی تصوف۔۔ کبیر احمد جائسی
از تحریر ڈاکٹر محمد آصف ملک اسسٹنٹ پروفیسر بابا غلام شاہ بادشاہ یونیورسٹی راجوری جموں و کشمیر