تحقیق اور تحقیق کے طریقہ کار

0

تحقیق عربی لفظ باب تفعیل سے مصدر ہے جس کا مادہ ح-ق-ق ہے۔ تحقیق کے معنی ہیں چھان بین، تلاش و جستجو اور دریافت کے، اس کی وضاحت یوں ہوسکتی ہے کہ ”حقائق کو دریافت کرنے اور ان کی تصدیق کرنے کا نام تحقیق ہے۔ اردو کے اہم محققین عبدالودود کے مطابق ”تحقیق کسی امر کو اس کی اصلی شکل میں دیکھنے کی کوشش ہے “ پروفیسر گیان چند کے مطابق یہ تعریف مانع نہیں وہ کہتے ہیں کہ قاضی صاحب کو تحقیق کی تعریف دو چند الفاظ میں اس طرح پڑھانے چاہیے تھے کہ ”جب کسی امر کی اصل شکل پوشیدہ یا مبہم ہو تو اس کی اصلی شکل کو دریافت کرنے کا عمل تحقیق ہے“ جمیل جالبی کا کہنا ہے کہ ”تحقیق در اصل تلاش اور جستجو کے ذریعے حقائق معلوم کرنے اور ان کی تصدیق کرنے کا نام ہے “

جمیل جالبی مزید ترقی کرتے ہوئے یہ بھی کہتے ہیں کہ ”تحقیق ایک ایسا عمل ہے جس سے آپ صحیح اور غلط میں امتیاز کرتے ہیں اور پھر صحیح کی مدد سے اپنی منزل کی طرف بڑھتے ہیں “ ڈاکٹر سید عبداللہ کے مطابق ”تحقیق کے لغوی معنی کسی شے کی حقیقت کا اثبات ہے۔ اصطلاحاً یہ ایک ایسے طرز مطالعہ کا نام ہے جس میں موجود مواد کے صحیح یاغلط کو بعض مسلمات کی روشنی میں پرکھا جاتا ہے “ اسی طرح جدید تحقیق کی تعریفات میں پروفیسر عبدالستار دلوی کا کہنا ہے کہ ”تحقیق کسی مسئلہ کے قابل اعتماد حل اور صحیح نتائج تک پہنچنے کا وہ عمل ہے جس میں ایک ایک منظم طریقۂ کار، حقائق کی تلاش و تجزیہ اور تفصیل کاری پوشیدہ ہوتی ہے “

تحقیق کی مذکورہ تعریفات سے ایک بات واضح ہوجاتی ہے کہ اصل تحقیق وہ ہے جو انسان کے اندر سے سوال بن کر ابھرے،غیر شعوری یا غیر ارادی کوئی ادبی شے یا ادب پارہ مل گیا تو وہ تحقیق کے مفہوم کے ضمن میں آنا ذرا کار دارد ہے۔کسی نئی دریافت میں یا پہلے سے دریافت شدہ حقائق میں مزید اضافہ ارادی اور شعوری طور پر ہونا چاہیے۔ جدید محققین کا یہ بھی ماننا ہے کہ حقیقت ایک ہی ہے، اس کی تعبیر مختلف ہے اور حقیقت تعبیر طلب ہوتی ہے اور تفسیر طلب ہوتی ہے۔ لہٰذا اپنے موضوع کی مناسبت سے تحقیق کا طریقہ کار طے ہوتا ہے۔

اب ہم بات کرتے ہیں کہ تحقیق کا بنیادی طریقہ کار کیا ہے اور وہ کس طرح اپنے سفر نظریات سے عملیات کی جانب شروع کرتی ہے۔ اس حوالے سے قاضی عبدالودود نے تحقیق کے لازمی اجزاء کو چار حصوں میں تقسیم کیا ہے؛

  • 1. موضوع کا انتخاب
  • 2. مواد کی فراہمی
  • 3. پیرایہ اظہار
  • 4. اخلاقیات

لیکن جدید محققین کے مطابق تحقیقی مراحل جو بہت ہی اہم ہیں جن کے وسیلہ سے ایک معیاری تحقیق وجود میں آ سکتی ہے وہ اس طرح ہیں:

  • 1. تحقیق کا موضوع
  • 2. خاکہ
  • 3. مواد کی فراہمی
  • 4. مطالعہ اور نوٹ لینا
  • 5. مواد کی پرکھ اور حزم و اختیاط
  • 6. مقالہ کی تصویر
  • 7. زبان اور بیان

(1)تحقیق کا موضوع:

(1) تحقیق میں اہم شے یا مرکزی نقطہ موضوع کا انتخاب ہے۔اس میں سندی اور غیر سندی تحقیق کے لحاظ سے خیال رکھا جانا چاہیے۔ انتخابِ موضوع کے حوالے سے تین پہلوؤں پر غور کیا جانا چاہیے۔
اول: موضوع کیسا ہو۔
دوم: موضوع کیسا نہ ہو۔
سوم: موضوع کیوں کر تلاش کیا جائے۔

(١) سب سے پہلی بات تو یہ ہے کہ محقق کو موضوع سے دلچسپی ہونی چاہیے۔ موضوع محقق کے رجحان اور اس کے اختصاصی میدان کے مطابق ہو۔ مثلاً فکشن، شاعری، (شاعری میں عروض، بیان و معانی، یا صنائع، جدید ادب / بین العلومی وغیرہ وغیرہ۔
(٢) دوسری اہم بات یہ ہے کہ موضوع ایسا ہو کہ جس پر تحقیق کی جا سکے۔ نہ زیادہ وسیع ہو کہ سمیٹا نہ جا سکے اور نہ اتنا تنگ ہو کہ کھولا نہ جا سکے۔
(٣) تیسری ضروری بات یہ ہے کہ موضوع ایسا ہونا چاہئے کہ جس سے علم میں کچھ نہ کچھ اضافہ ہو۔ آجکل جامعات اور کلیات میں تعلقاتی تحقیق زیادہ ہو رہی ہے۔تحقیق کرنے والوں کو یہ اندیشہ رہتا ہے کہ ہمارے دنیا سے گزرنے کے بعد کہیں ہم ادبی طور پر واقع مر نہ جائیں، کیونکہ ان کی تخلیقات یا ادبی خدمات برائے نام ہوتی ہیں جو ان کے راہی عدم ہونے کے بعد ان کو کوئی نہ دیکھے گا اس لیے وہ اپنی زندگی میں ہی چاپلوسی وغیرہ کرکے خود پر تحقیق کے نام کا ایک غیر معتبر کام کروا لیتے ہیں۔ ایسے موضوعات ادبی تحقیق میں زہر ہلاہل کا کام کرتے ہیں۔

(2). خاکہ:

موضوع کے بعد اس کا عارضی خاکہ تحقیقی کام کو منظم طریقے سے اپنے اختتام تک لے جاتا ہے۔ خاکے سے مراد ہے” خاکہ مختلف تصورات کی تقسیم ترتیب اور باہمی رشتے کا نام ہے“ ڈاکٹر عندلیب شادانی کے مطابق ”خاکہ بنانے کے بعد ذہنی طور پر مقالہ کی ایک ہئیت متعین ہو جاتی ہے۔ اس نقش پر عمارت بنانا آسان ہے۔ اس سے فائدہ یہ ہوتا ہے کہ جب ابواب بندی ہو جاتی ہے تو موضوع کی حدود متعین ہو جاتی ہے اور موضوع کی مناسبت مواد اس میں شامل ہوجاتا ہے اور غیر ضروری، غیر اہم اور ربط و یاس سے تحقیق پاک ہو جاتی ہے۔

(3). مواد کی فراہمی:

ادبی مواد کئی قسم کا ہوتا ہے۔ بنیادی طور پر مواد کی دو قسمیں ہوتی ہیں۔
(١) اولین(Primary) اور ثانوی (Secondary)
(١) داخلی اور خارجی

مفرد ادیب پر اگر تحقیق کی جائے تو اولین مواد زیرتحقیق ادیب کی جملہ تخلیقات اور دوسری تحریروں مثلاً مسودوں، ڈائری، خطوط وغیرہ پر مشتمل ہوتا ہے۔ ان کے علاوہ تاریخی دستاویزات، قانونی دستاویزات، طبی ریکارڈ، تعلیمی ریکارڈ، ملازمت کا ریکارڈ، ٹیپ ریکارڈ وغیرہ بھی اولین ماخذ ہے۔ بقیہ مواد ثانوی ہے۔داخلی اور خارجی مواد یا شہادت کا تعلق کسی متن سے ہوتا ہے۔داخلی مواد کسی مصنف کی نگارشات کے مشمولات ہوا کرتے ہیں بقیہ سب خارجی مواد ہے۔ ماخذی مواد کو بھی کئی قسموں میں بانٹا جا سکتا ہے جس کی تفصیل یہاں نہیں لکھی جا سکتی۔

(4). مطالعہ اور لوٹ لینا:

اس ضمن میں فراہم مواد کا مطالعہ کرنا ہے اور اپنے موضوع کی مناسبت سے نوٹ لینا ہے۔ لیکن کتابوں سے نوٹ لیتے وقت یہ خیال رکھنا ضروری ہے کہ آپ کو ایک نیا مقالہ، نئی کتاب لکھنی ہے۔اس لیے کہیں تحقیق دیگر کتابوں کی تلخیص نہ بن جائے۔

(5). مواد کی پرکھ اور حزم و احتیاط:

پروفیسر گیان چند جین لکھتے ہیں کہ ”یونان میں فلسفے کا ایک دبستان تحقیق کا تھا جس کا عقیدہ تھا کہ حقیقت تک پہنچنا ممکن نہیں۔ ایلٹک نے کہا ہے کہ اچھا محقق ہونے کے لئے اچھا مشکک ہونا ضروری ہے یعنی جب ہم مواد کو لیں تو خوب پر رکھ کر اور غیر جانبداری، تعصب، عقیدت سے اوپر اٹھ کر مواد کو دیکھیں اور پھر معروضی پیرائے میں اس سے نتیجے اخذ کریں۔ہر بات کو شک سے دیکھا جائے اور صرف تحقیقی اصولوں کی کسوٹی پر ہی اسے پر رکھ کر اپنے دلائل میں شامل کیا جانا چاہیے۔ گیان چند جین کے مطابق ”مواد کی فراہمی اور تسوید کے درمیان کی منزل ہے مواد کا جائزہ لینا یعنی تحقیق کا مرکزی کام یہی ہے، معتبر اور غیر معتبر کو الگ کرکے حقیقت تک رسائی حاصل کی جائے۔

(6). مقالے کی تسوید

مقالہ کو لکھنے کے جو تحقیق کا مقصود ہے، اس آخری عمل کی دو منزلیں ہوتی ہیں۔
(١) تسوید یعنی مقالے کا پہلا مسودہ تیار کرنا۔
(٢) تبئیض یعنی پہلے مسودے کی ضروری ترمیم و اصلاح کے ساتھ صاف نقل۔ اس کو نقل مبیضہ کہتے ہیں۔ مقالہ کن خطوط پر لکھا جائے یہ مقالہ نگار کی کی صواب دید پر منحصر ہے۔

(7). زبان اور بیان:

زبان ہمارے اظہار کا وسیلہ ہے۔ تحقیق میں جو ہمارا مفروضہ ہوتا ہے اور ٹھوس دلائل کے ذریعے تھیس (Thesis) کی منزل طے کرتا ہوا حقائق کی آخری دریافت تک آتا ہے۔ لہذا اس مفروضے، تھیسز اور دلائل کو واضح اور قطعی زبان میں ہونا چاہیے۔تحقیق میں تخلیقی زبان کی گنجائش نہیں ہے۔ اس میں محقق کی جو منشا ہے وہ بالکل صاف اور قطعی طور پر قارئین تک پہنچنی چاہیے۔یہاں اگر استعارتی رمزیہ یا مبہم زبان اور مبالغات کی زبان کا برتاؤ ہوا ہوگا تو تحقیق اپنا مقصد کھو دے گی کیونکہ کوئی واضح اور قطعی چیز قارئین پر واضح نہیں ہو گی بلکہ یہاں علمی، استدلالی اور معروضی زبان ہونا چاہیے تاکہ حقائق پوری طرح روشن ہو سکیں۔تحقیق کی ان منزلوں کو اگر دیانتداری کے ساتھ اپنایا جائے تو یقیناً ایک معیاری تحقیق وجود میں آسکتی ہے اور تحقیق اپنے ان مقاصد کو پورا کر سکتی ہے کہ کسی بات کی تہہ تک پہنچے، حقائق کو صحیح تناظر میں پیش کرے، مفروضے کو حقیقی جامہ پہنائے۔بکھرے ہوئے خیالات اور تجربات ترتیب دے، کسی حقیقت کو اس کے صحیح حوالے اور ماخذ تک لائے۔ اس طرح معیاری تحقیق وجود میں آ سکتی ہے۔

تحریر ڈاکٹر محمد آصف ملک