نظم کرکٹ اور مشاعرہ

0

تعارفِ نظم

یہ شعر ہماری درسی کتاب کی نظم ”کرکٹ اور مشاعرہ“ سے لیا گیا ہے۔ اس نظم کے شاعر کا نام دلاور فگار ہے۔ یہ نظم کلیاتِ دلاور فگار سے ماخوذ کی گئی ہے۔

تعارفِ شاعر

آپ کا نام دلاور حسین تھا۔ آپ نے شعر گوئی کا آغاز 14 سال کی عمر میں کیا۔ دلاور فگار ایک شاعر ، مزاح نگار اور نقاد تھے۔ آپ کی غزلوں کا مجموعہ “حادثے” اور ایک طویل نظم “ابو قلموں کی مصری” بہت مقبول ہوئی۔ آپ کی مزاحیہ شاعری میں قطعوں اور رباعیوں کا مجموعہ”ستم ظریفیاں” بہت دل چسپ ہے۔

نظم کی تشریح

مشاعرہ کا بھی تفریح ایم ہوتا ہے
مشاعرہ میں بھی کرکٹ کا گیم ہوتا ہے

اس نظم میں شاعر کرکٹ اور مشاعرے کا موازنہ کرتے ہوئے دونوں کو ایک جیسا بیان کررہے ہیں۔ نظم کے پہلے شعر میں شاعر لکھتے ہیں کہ چاہے مشاعرہ ہو چاہے کرکٹ ہو، ان دونوں کے لیے جمائی جانے والی محفل کا مقصد تفریح ہی ہوتا ہے۔ اس لیے مشاعرہ بھی کرکٹ کا کھیل ہی ہوتا ہے۔

وہاں جو لوگ کھلاڑی ہیں وہ یہاں شاعر
یہاں جو صدر نشیں ہے وہاں ہے امپائر

اس نظم میں شاعر کرکٹ اور مشاعرے کا موازنہ کرتے ہوئے دونوں کو ایک جیسا بیان کررہے ہیں۔ نظم کے اس شعر میں شاعر کہتے ہیں کہ جیسے کرکٹ میں میدان میں کھلاڑی ہوتے ہیں، ویسے ہی مشاعرے میں شاعر ہوتے ہیں اور مشاعرے کا صدر نشیں بالکل کرکٹ کے میدان میں موجود امپائر کی طرح ہوتا ہے۔

وہاں ریاض مسلسل سے کام چلتا ہے
یہاں گلے کے سہارے کلام چلتا ہے

اس نظم میں شاعر کرکٹ اور مشاعرے کا موازنہ کرتے ہوئے دونوں کو ایک جیسا بیان کررہے ہیں۔ نظم کے تیسرے شعر میں شاعر کہتے ہیں کہ جیسے کرکٹ میں ریاضِ مسلسل کرنا پڑتا ہے ویسے ہی مشاعرے میں گلے کا کردار بہت اہم ہوتا ہے کیوں کہ مشاعرے میں شاعر کو شعر خود پڑھ کر سنانے پڑتے ہیں تو اس میں گلا ایک اہم کردار ادا کرتا ہے۔

وہاں بھی کھیل میں نوبال ہو تو فاؤل ہے
یہاں بھی شعر میں اہمال ہو تو فاؤل ہے

اس نظم میں شاعر کرکٹ اور مشاعرے کا موازنہ کرتے ہوئے دونوں کو ایک جیسا بیان کررہے ہیں۔ اس شعر میں شاعر کہتے ہیں جیسے کرکٹ میں بالر اگر نو بال کرواتا ہے تو اسے فاؤل مانا جاتا ہے بالکل اسی طرح اگر مشاعرے میں شاعر کے اشعار اچھے نہ ہوں تو اسے بھی فاؤل ہی سمجھا جاتا ہے۔

وہاں ہے ایک ہی کپتان پوری ٹیم کی جان
یہاں ہر ایک پلیئر بہ جائے خود کپتان

اس نظم میں شاعر کرکٹ اور مشاعرے کا موازنہ کرتے ہوئے دونوں کو ایک جیسا بیان کررہے ہیں۔ نظم کے اس شعر میں شاعر کہتے ہیں کہ کرکٹ میں تو پوری ٹیم کا ایک کپتان ہوتا ہے جو پوری ٹیم کو چلاتا ہے اور ٹیم کی جان ہوتا ہے، جب کہ مشاعرے میں ہر پلئیر یعنی ہر شاعر اپنا کپتان خود ہوتا ہے۔

وہاں جو لوگ اناڑی ہیں وقت کاٹتے ہیں
یہاں بھی کچھ متشاعر دماغ چاٹتے ہیں

اس نظم میں شاعر کرکٹ اور مشاعرے کا موازنہ کرتے ہوئے دونوں کو ایک جیسا بیان کررہے ہیں۔ نظم کے اس شعر میں شاعر کہتے ہیں کہ جو لوگ کرکٹ کے کھیل میں اناڑی ہوتے ہیں وہ گراؤنڈ میں صرف وقت ضائع کرنے آتے ہیں اسی طرح مشاعرے میں بھی کچھ شاعر صرف دماغ چاٹنے آتے ہیں یعنی وہ شاعر سے واقف ہی نہیں ہوتے۔

مرے خیال کو اہل نظر کریں گے کیچ
مشاعرہ بھی ہے اک طرح کا کرکٹ میچ

اس نظم میں شاعر کرکٹ اور مشاعرے کا موازنہ کرتے ہوئے دونوں کو ایک جیسا بیان کررہے ہیں۔ نظم کے آخری شعر میں شاعر کہتے ہیں کہ ان کے خیال کو اہلِ نظر سمجھیں گے اور اس بات کو مانیں گے کہ مشاعرہ بھی ایک طرح کا کرکٹ میچ ہی ہوتا ہے اور دونوں بالکل ایک ہی طرح کے ہوتے ہیں۔

سوال نمبر 2 : شاعر نے “شاعر”اور “امپائر” کے الفاظ کس کے لیے استعمال کیے ہیں؟

جواب : شاعر نے شاعر کا لفظ ان لوگوں کے لیے استعمال کیا ہے جو کرکٹ میچ کے کھلاڑی ہوتے ہیں اور مشاعرے میں موجود صدر نشیں کے لیے امپائر کا لفظ استعمال کیا ہے۔

سوال نمبر 3 : اس نظم کا خلاصہ اپنے الفاظ میں لکھیے۔

جواب : اس نظم میں شاعر دراصل مشاعرے اور کرکٹ کو ایک دوسرے سے ملا کر ایک مزاحیہ ماحول پیدا کرنا چاہ رہے ہیں۔ وہ لکھتے ہیں کہ مشاعرے اور کرکٹ دونوں کا مقصد تو تفریح حاصل کرنا ہی ہوتا ہے۔ کرکٹ کے میدان میں جیسے کھلاڑی اور امپائر ہوتے ہیں ویسے ہی مشاعرے میں شاعر اور صدر نشیں ہوتا ہے۔ کرکٹ کی پوری ٹیم ہوتی ہے جس کا ایک کپتان بھی ہوتا ہے لیکن یہاں پر ہر شاعر اپنا کپتان خود ہوتا ہے۔ کرکٹ کے میدان میں ریاضِ مسلسل کی ضرورت ہوتی ہے جب کہ مشاعرے میں گلے کی ضرورت پڑتی ہے۔ وہاں کچھ کھلاڑی جیسے فقط ٹائم پاس کرتے ہیں ویسے ہی یہاں بھی کچھ شاعر صرف دماغ چاٹتے ہیں۔ غرض شاعر یہاں پر مشاعرے اور کرکٹ کی مماثلت کو بیان کرنا چاہتے ہیں۔

سوال نمبر 4 : درج ذیل الفاظ و تراکیب کے معنی لکھیے :

الفاظ معنی
تفریح مزہ
صدر نشیں صدر یا بڑا بن کر بیٹھنے والا
ریاضِ مسلسل مسلسل عشق
ابہام واضح نہ ہونا
متشاعر جھوٹا شاعر

سوال نمبر 5 : درج ذیل جوابات میں سے درست جواب پر (درست) کا نشان لگائیے :

(الف) اس نظم میں لفظ “مشاعرہ” سے مراد ہے۔

  • (۱)شعر سننے سنانے کی محفل ✔
  • (۲)کرکٹ کا کھیل
  • (۳)صرف تفریح
  • (۴)مصروفیت

(ب) کرکٹ کی طرح مشاعرے میں بھی ہوتا ہے :

  • (۱)امپائر ✔
  • (۲)کپتان
  • (۳)صدر نشیں
  • (۴)پلیئر

(ج) یہ نظم مضمون کے لحاظ سے ہے۔

  • (۱)سنجیدہ
  • (۲)علمی
  • (۳)مزاحیہ ✔
  • (۴)سیاسی

(د) اس نظم میں پلیئر سے مراد ہے :

  • (۱)کھلاڑی
  • (۲)شاعر ✔
  • (۳)کپتان
  • (۴)امپائر

سوال نمبر 6 : “آپ کا پسندیدہ کھیل” کون سا ہے؟ پانچ سو الفاظ کا مضمون لکھیے۔

میرا پسندیدہ کھیل کرکٹ

میرا پسندیدہ کھیل کرکٹ ہے۔ میں بچپن سے اپنے دوستوں کے ساتھ روزانہ کرکٹ کھیلتا ہوں۔ کرکٹ ایک ایسا کھیل ہے جو گیارہ کھلاڑیوں پر مشتمل دو ٹیموں کے درمیان کھیلا جاتا ہے۔ یہ کھیل گیند اور بلے کے ذریعے کھیلا جاتا ہے۔ جس میں میدان بیضوی شکل کا ہوتا ہے۔ میدان کے درمیان میں 20 میٹر کا مستقر بنا ہوتا ہے جسے پچ کہا جاتا ہے۔ پچ کے دونوں جانب تین تین لکڑیاں نصب کی جاتی ہیں جنہیں وکٹ کہا جاتا ہے۔ میدان میں موجود ٹیم کا ایک رکن چمڑے سے بنی ایک گیند کو پچ کی ایک جانب سے ہاتھ گھما کر دوسری ٹیم کے بلے باز رکن کی جانب پھینکتا ہے۔ عام طور پر گیند بلے باز تک پہنچنے سے قبل ایک بار اچھلتی ہے اور بلے باز وکٹوں کا دفاع کرتا ہے۔

بلے بازی کرنے والی ٹیم کا ہدف ہوتا ہے زیادہ سے زیادہ دوڑیں یا رنز بنانا۔ ایک دوڑ اس وقت پوری ہوتی ہے جب بلے باز اپنے سے دوسری جانب والی وکٹ پر اپنی کریز تک پہنچے یا اپنا بلا لگالے۔ بلے باز گیند کرائے جانے کے بعد کسی بھی وقت دوڑ بنا سکتا ہے۔ دوڑیں اس وقت بھی بنتی ہیں جب بلے باز گیند کو دائرے کی حد (باؤنڈری) سے باہر پہنچاتا ہے۔

چار دوڑیں اس وقت ملتی ہیں جب گیند دائرے کی حد کے باہر اچھلنے کے بعد پہنچتی ہے، اور چھ دوڑیں اس وقت ملتی ہیں جب گیند دائرے کی حد کے باہر اچھلے بغیر پہنچتی ہے۔ بلے بازی کرنے والی ٹیم کی مجموعی دوڑیں ایک حدف ہوتا ہے جس کو دوسری ٹیم کو سر کرنا ہوتا ہے۔

کرکٹ برطانیہ میں ایجاد ہوا اور اس لیے نو آبادیاتی دور میں برطانیہ کے زیرِ قبضہ تمام علاقوں میں پہنچا۔ جنوبی ایشیا کے ممالک بھارت، پاکستان، بنگلہ دیش اور سری لنکا میں کرکٹ عموماً عوام الناس کا سب سے پسندیدہ کھیل مانا جاتا ہے۔ اس کے علاوہ یہ انگلینڈ، آسٹریلیا، نیوزی لینڈ، جنوبی افریقہ، زمبابوے اور جزائر کیریبیئن میں بھی مقبولیت رکھتا ہے۔ جزائر کیریبیئن کی مشترکہ ٹیم کو ویسٹ انڈیز کہا جاتا ہے۔ اس کے علاوہ یہ کھیل نیدرلینڈز، کینیا، نیپال اور ارجنٹائن میں بھی مقبولیت اختیار کر رہا ہے۔

پاکستان میں کرکٹ کی تاریخ ۱۹۴۷ء میں پاکستان کے معرض وجود آنے سے شروع ہوتی ہے۔ موجودہ پاکستان میں شامل علاقوں میں سب سے پہلا میچ ۲۲ نومبر ۱۹۳۵ کو کراچی میں سندھ اور آسٹریلیا کرکٹ ٹیموں کے درمیان میں ہوا۔ اس میچ کو دیکھنے کے لیے کراچی سے ۵۰۰۰ لوگ آئے۔ یہ میچ برطانوی ہندوستان کے دور میں برطانیہ کے زیرِ انتظام کھیلا گیا۔

کرکٹ پاکستان میں سب سے مقبول کھیل ہے۔پاکستان نے بین الاقوامی کرکٹ میں بہت سے قابلِ ذکر بلے باز اور گیند باز کھلاڑی پیدا کیے ہیں۔ ہمارے ملک میں اس کھیل کو ایک غیر معمولی سی مقبولیت حاصل ہے۔ ملک میں بہت مدت بعد کرکٹ واپس آئی ہے، جس پر ہر لب خوش اور پر مسرت ہے۔ اب ہمیں اپنے شہر اور دیہات آباد و شاداب دیکھنے کا موقع ملے گا۔ وطن کا سرمایہ نوجوان بچے اس ملک کو عظیم تر بنانے کے لیے اپنی تمام صلاحیتیں بروئے کار لائیں گے جب ہی پاکستان بڑھے گا۔ اس لیے میرا پسندیدہ کھیل بھی کرکٹ ہے۔