نظم تصویر درد کی تشریح

0

یہ نظم علامہ اقبال نے 1904 کے آغاز میں لکھی تھی جب ان کی عمر 30 سال کے آس پاس تھی۔ 1857 کے بعد ہندوستان کے اندر جو حالات پیدا ہوئے، کہ ہندوستانی انگریزوں کے غلام بن گئے، برطانوی حکومت کا ظلم واستبداد مسلسل ہندوستانیوں پر جاری رہا، یہاں تک کہ لوگ ذلت و خواری کی زندگی میں مبتلا ہو گئے۔ یہاں کے باشندے جب کبھی متحد ہوکر آزادی کی مہم شروع کرتے تو برطانوی حکومت اور ان کے ہاتھوں بکے ہوئے لوگ ہندوستانیوں کو ذات، برادری، رنگ ونسل اور مذہبوں کی لڑائی میں بانٹنے کی کوشش کرتے، ہندوستانی بعض اوقات ان سازشوں کا شکار ہو جاتے اس طرح آزادی کی مہم ذرا کمزور پڑنے لگتی۔ ان سب کو اقبال کے دل نے محسوس کیا، اس کا مشاہدہ کیا، اپنی دانش کا استعمال کیا، ان تمام حالات کو اپنی نظم ”تصویر درد“ میں کامیابی سے ڈھالنے کی کوشش کی۔ اقبال ابھی یورپ نہیں گئے تھے اس وقت اقبال وطن دوستی کے جذبات سے سرشار تھے، وہ ہندوستان کی مختلف اقوام اور مذاہب کے ماننے والوں کو متحد دیکھنا چاہتے تھے۔اسی میں ہندوستان کی آزادی اور اس کی ترقی مضمر تھی، اس پر ہر ہندوستانی کو وہ متنبہ کر رہے تھے کہ وہ سازشوں کا شکار نہ ہوں اور متحد ہوکر اپنے مقصد کی طرف بڑھیں۔ اس نظم میں اقبال ایک وطن پرور (نیشنلسٹ) بن کر قوم ہندوستان کے سامنے آتے ہیں۔ جو رنگ ان کی نظموں ہمالہ، نیا شوالہ، ترانۂ ہندی میں موجود ہے وہی رنگ و جذبہ پوری شدت کے ساتھ اس نظم تصویر درد میں بھی نظر آتا ہے۔ انہوں نے دلی جذبات کی پوری شدت کے ساتھ اہل وطن کو نفاق انگیز روش پر نوحہ خوانی کی ہے اور انہیں نہایت بے باکی کے پیرائے میں بیدار اور متنبہ کیا ہے کہ اہل ہند اگر تم نے آنے والی مصیبتوں کا اندازہ کرکے آپس میں اتحاد نہ کیا تو تم مٹ جاو گے، تمہارا نام بھی باقی نہیں ہوگا۔

نہ سمجھو گے تو مٹ جاؤ گے اے ہندوستان والو
تمہاری داستاں تک بھی نہ ہوگی داستانوں میں

اس نظم کے پہلے بند میں اقبال نے تمہیدیہ کلام اور اپنے درد کو بیان کیا ہے کہ میری داستان اس قدر المناک ہے کہ کوئی بھی اس کے سننے کی تاب نہیں لا سکتا، اس لیے میں نے خاموشی اختیار کرلی ہے، قوم کے افراد اس قدر بے حس و بے شعور ہیں کہ وہ میری فریاد، میرا درد سننا ہی نہیں چاہتے۔ میری بات کوئی سننے والا نہیں ہے۔ اے خدا ان حالات میں اس دنیا میں زندہ رہنے کا کوئی مطلب نہیں رہ جاتا ہے لیکن نہ زندگی میرے اختیار میں ہے اور نہ ہی موت، اگر زندگی میرے اختیار میں ہوتی تو میں ہمیشگی کی صفات پیدا کر لیتا اور اگر موت اختیار میں ہوتی تو دنیا سے چل بستا۔ میری آہ و فغاں اور بربادی صرف میری ہی بربادی نہیں بلکہ ساری کائنات کی بربادی ہے۔ اس بند کے آخری شعر کو وہ فارسی میں اس طرح تخلیق کرتے ہیں:

دریں حسرت سرا عمریست افسون جرس دارم
زفیض دل تپیدن ہا خروش بے نفس دارم

مطلب یہ کہ اس دنیا میں ایک عرصہ دراز سے میری کیفیت وہی ہے جیسی جرس کی ہے، یعنی بظاہر وہ خاموش ہے لیکن اس کے باطن میں ایک شور پوشیدہ ہے۔ عشق سے دل میں تپش پیدا ہوتی ہے اور اس تپش دل کا نتیجہ یہ ہے کہ میری ذات خروش بے نفس کا خزینہ بن چکی ہے یعنی میرے سینے میں آہ و فغاں کا ایک طوفان پوشیدہ ہے لیکن بظاہر میں خاموش ہوں۔

نظم کے دوسرے بند میں راست طور پر شخصی رنگ موجود ہے اس میں شاعر اپنی شخصیت اور اپنے مقام کی وضاحت کرتا ہے۔ شاعر کا کہنا ہے کہ مجھے دنیا کی خوشیوں سے کوئی حصہ نصیب نہیں ہوا بلکہ خوشی بھی میری محرومی پر آنسو بہاتی ہے۔ اسی طرح گویائی میری کم نصیبی پر کناں ہے کہ کوئی فرد میری درد بھری داستان سننے کے لئے تیار نہیں، میں بہت ہی سنجیدہ ہوں لیکن اس مشکل کو حل نہیں کر سکتا کہ میں کون ہوں؟ سکندر ہوں یا آئینہ یا گرد کدورت ہوں؟ لیکن میں اتنا ضرور جانتا ہوں کہ محورِ موجدات اور مرکز کائنات ہوں، میری ہستی قدرت کا مقصد ہے اگر میں نہ ہوں تو یہ ساری فطرت بے کار ہو کر رہ جاتی:

پریشاں ہوں میں مشت خاک لیکن کچھ نہیں کھلتا
سکندر ہوں کہ آئینہ ہوں یا گرد کدورت ہوں
یہ سب کچھ ہے مگر ہستی مری مقصد ہے قدرت کا
سراپا نور ہو جس کی حقیقت میں وہ ظلمت ہوں

اقبال انسان کی عظمت واضح کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ میں وہ چھوٹی سی دنیا ہوں کہ آپ اپنی ولایت ہوں۔ اگر اس کائنات کو میخانہ فرض کیا جائے تو انسان نہ تو شراب ہے نہ ساقی نہ مستی ہے نہ پیمانہ ہے بلکہ اس مے خانے میں جس قدر اشیا نظر آرہی ہیں انسان ان سب اشیا کی حقیقت ہے۔ اس بند میں اقبال انسان کو اس کی معرفت دیتے ہوئے کہتے ہیں:

نہ صہبا ہوں نہ ساقی ہوں نہ مستی ہوں نہ پیمانہ
میں اس میخانۂ ہستی میں ہر شے کی حقیقت ہوں

تیسرے بندے اقبال نے اہل وطن ہندوستانیوں کو باخبر کیا ہے کہ وہ اگر دور حاضر کے تقاضوں سے اسی طرح بے خبر رہے تو بربادیوں کا نزول یقینی ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ خدا نے مجھ کو صف شعرا میں وہ بلند مقام عنایت کیا ہے کہ میں فرشتوں کا ہم زبان ہوں اور میرا دل قضاو قدر کے بھیدوں کا آئینہ ہو چکا ہے۔ اس کے بعد وہ ہندوستان سے مخاطب ہوتے ہیں کہ تیرے باشندوں کا طرز عمل وقت کی مصلحت کے خلاف ہے بلکہ اس قدر خوفناک ہے کہ میں آئندہ کے مصائب کا تصور کرکے کانپ اٹھتا ہوں اور بے ساختہ میری آنکھوں سے آنسو جاری ہوجاتے ہیں۔ اگر باغبان (ہندو مسلم) اسی طرح آپس میں دست و گریباں رہے تو گلچیں (انگریز) اس باغ ( ہندوستان) کو ضرور تباہ کر دے گا۔ اس کے بعد اہل وطن سے خطاب کرتے ہیں کہ دشمن تمہیں تباہ و برباد کرنے کی سازش میں مصروف ہے۔ اس لئے عہد کہن کی داستانوں کو بھلا دو جو فرضی ہیں، صرف اور صرف فساد کے لیے گڑھی گئی ہیں تاکہ رنگ و نسل اور مذاہب میں کے مابین منافرت پیدا ہو سکے۔

اے اہل وطن (ہندوستانیو) ایسے ناپاک ارادے رکھنے والے لوگوں کے خلاف صدائے احتجاج بلند کرو جو ہندوستان کی رنگا رنگ عوام میں منافرت پیدا کر رہے ہیں۔ اگر تم نے ایسا نہ کیا تو یقین جانیے تم مٹ جاو گے کیونکہ آئین فطرت و قدرت یہی ہے کہ خدا اس کی فرد کی مدد نہیں کرتا جو امن و امان قائم کرنے کے لیے جدوجہد نہیں کرتا:

یہ خاموشی کہاں تک لذت فریاد پیدا کر
زمیں پر تو ہو اور تیری صدا ہو آسمانوں میں
نہ سمجھو گے تو مٹ جاؤ گے اے ہندوستاں والو
تمہاری داستاں تک بھی نہ ہوگی داستانوں میں
یہی آئین قدرت ہے یہی اسلوب فطرت ہے
جو ہے راہ عمل میں گامزن محبوب فطرت ہے

چوتھے بند میں اقبال نے اپنے عزم مصمم کا اظہار کیا ہے کہ میری بات کوئی سنے یا نہ سنے میں پھر بھی سنانا سناتا رہوں گا، اس ملک ہندوستان سے نفرت اور عداوت کی تاریکی کو ضرور دور کروں گا، اپنی تمام قوتوں سے اہل وطن کو بیدار اور باخبر کرنے میں صرف کرودں گا۔ اس میں شبہ نہیں کہ منتشر افراد کو متحد کرنا ایک پلیٹ فارم پر جمع کرنا مشکل ترین عمل ہے لیکن میں کوشش کروں گا کہ مشکل کام کو آسان بنا سکوں اور اقوام ہند میں اتحاد و اتفاق پیدا ہوجائے۔ میں تمام ہندوستانیوں کو وطن سے محبت کرنے کا سبق پڑھاوں گا اور جو راز مجھ پر کھل چکے ہیں ان کو میں نظر انداز نہیں کرسکتا کہ اتحاد ہی سے ہم کامیاب ہو سکتے ہیں اس کو سب اہل وطن پر ظاہر کروں گا:

ہویدا آج اپنے زخم پنہاں کر کے چھوڑوں گا
لہو رو رو کے محفل کو گلستاں کر کے چھوڑوں گا
پرونا ایک ہی تسبیح میں ان بکھرے دانوں کو
جو مشکل ہے تو اس مشکل کو آساں کر کے چھوڑوں گا
دکھا دوں گا جہاں کو جو میری آنکھوں نے دیکھا ہے
تجھے بھی صورت آئینہ حیراں کر کے چھوڑوں گا

پانچویں بند میں اقبال نے تمام ہندوستانیوں خواہ وہ کسی بھی ذات برادری یا مذہب و دھرم سے تعلق رکھتے ہوں، مخاطب کیا اور محبت کے جذبے کو عام کرنے کی تلقین کی ہے کہ اپنے خیالات اور اپنی نگاہ میں وسعت پیدا کریں، بلند مقاصد کے لیے آگے بڑھیں اور تعصب، فرقہ واریت کو بالکل اکھاڑ پھینکیں۔ کہتے ہیں کہ میری بات سننے پڑھنے والے! مجھے افسوس ہے کہ تونے اپنے خیالات میں بلندی پیدا نہیں کی، تمام عمر رذلیل اور پست خیالات میں گزار دی ہے، تو اپنی جماعت، مذہب اور فرقہ کے تنگ حلقے میں محصور ہو گیا۔دیگر قوموں اور دیگر ممالک کی طرز زندگی کا مطالعہ نہیں اور نہ ہی تو نے کبھی اپنی حقیقت پر غور و فکر کیا کہ خدا نے تجھے کس بلند مقصد کے لئے پیدا کیا ہے، اگر تو دنیا میں عزت و عظمت کا متمنی ہے تو تعصب کو اپنے دل سے نکال دے۔ جن لوگوں کو تو برا سمجھتا ہے وہ لوگ درحقیقت تیرے بھائی ہیں، تو محض دنیا کی لالچ میں پھنسا ہے تیرا خیال ہے کہ اس طرح تجھے دل کی صفائی نصیب ہوگی، ہرگز نہیں۔ تیرا یہ عمل ایسا ہی بے سود ہے جیسے کوئی فرد آئینے پر مہندی لگائے اور اسے رنگین کرنے کی کوشش کرے۔ دانشمند انسان جانتا ہے کہ اس آئینہ پر مہندی کا رنگ کبھی نہیں آ سکتا اسی طرح وہ وعظ سے مخاطب ہوکر کہتے ہیں کہ تو ممبر پر بیٹھ کر اگر واعظ و نصیحت کرتا ہے تو تیری ذمہ داری ہے کہ تو ساری قوم کو دنیا عالم کی محبت کا درس دے لیکن تیرا حال یہ ہے کہ تیری نصیحت میں بھی افسانوی رنگ ہی ہوتا ہے۔ اقبال اس طرح گویا ہیں:

تعصب چھوڑ ناداں دہر کے آئینہ خانے میں
یہ تصویریں ہیں تیری جن کو سمجھا ہے برا تو نے
صفائے دل کو کیا آرائش رنگ تعلق سے
کف آئینہ پر باندھی ہے او ناداں حنا تو نے
ہوس بالائے منبر ہے تجھے رنگیں بیانی کی
نصیحت بھی تری صورت ہے اک افسانہ خوانی کی

چھٹے بند میں اقبال نے پانچویں بند کے خیالات مزید تاکید اور وضاحت سے بیان کئے ہیں اور دلیل کے ساتھ اپنی بات کو ثابت کرنے کی کوشش کی ہے کہ اے مخاطب اپنی فکر و نظر میں وسعت پیدا کر اور پروانے کی طرح ہو جا کہ یہ پروانہ کسی مخصوص شمع سے محبت نہیں کرتا بلکہ وہ تو روشنی سے محبت کرتا ہے خواہ وہ روشنی دیر میں ہو یا حرم میں:

دکھا وہ حسن عالم سوز اپنی چشم پُر نم کو
جو تڑپاتا ہے پروانے کو رولاتا ہے شبنم کو
شجر ہے فرقہ آرای تعصب ہے ثمر اس کا
یہ وہ پھل ہے کہ جنت سے نکلواتا ہے آدم کو

ساتویں بند میں اقبال نے اس بات کی طرف متوجہ کیا ہے کہ دوسروں کے ساتھ مہربانی کا معاملا کرو لیکن اس کے صلے اور عوض کی تمنا مت رکھو ۔محبت کرو لیکن اس کا اجر صرف اور صرف مالک حقیقی طلب کرو ، اگر تم دوسروں سے محبت سے پیش آو گے تو تمہاری تمام تکلیفیں اور زحمتیں خود بہ خود دور ہو جایں گی اگر اس سلسلے میں کوئی تکلیف پہنچے تو کسی سے شکایت مت کرو۔

اے سننے والے اگر تجھے دنیا میں عزت و عظمت کی خواہش ہے تو اپنی قوم سے بے پروائی اختیار نہ کر، نوع انسان کی محبت ایسی شراب ہے کہ آدمی ساغر و صراحی کے بنا بھی سرمست رہ سکتا ہے، اگر آپ دنیا کی تاریخ کا مطالعہ کریں تو آپ پر یہ واضح ہو جائے گا کہ ان کی ترقی کا راز یہ ہے کہ ان کے افراد ایک دوسرے سے محبت کرتے ہیں:

جو تو سمجھے تو آزادی ہے پوشیدہ محبت میں
غلامی ہے اسیر امتیاز ماو تو رہنا
نہ رہ اپنوں سے بے پرواہ اسی میں خیر ہے تیری
اگر منظور ہے دنیا میں او بیگانہ خو رہنا

اس نظم تصویر درد کے آخری اور آٹھویں بند میں اقبال نے محبت کی حقیقت اور فلسفۂ محبت کو بیان کیا ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ محبت مجموعۂ اضداد ہے، اس کے رموز و اسرار انسان کی فہم سے بالاتر ہیں۔ یہاں تک کہ اگر فرد قوم کی محبت ترکِ وطن بھی کر دے تو پردیس میں بھی اپنے وطن حسین کیفیات سے لطف اٹھا سکتا ہے، قفس میں رہ کر بھی وہ چمن کی لطافتوں سے بہرہ مند ہو سکتا ہے۔ جو لوگ اپنے وطن کی ترقی کے سلسلے میں قید و بند کی سختیاں برداشت کرتے ہیں وہ تمام تکالیف کے باوجود بھی راحت محسوس کرتے ہیں۔

آگے وہ کہتے ہیں کہ عام تاثر یہ ہے کہ لوگ محبت کو مرض خیال کرتے ہیں لیکن حقیقت میں یہ ایک ایسا مرض ہے جو قوم کے تمام امراض کا مداوا کر دیتا ہے۔ اس محبت کے سبب تمام مصیبتوں کا ازالہ ہوجاتا ہے۔ اگر کوئی شخص محبت کی آگ میں اپنے دل کو کباب کرتا ہے تو اس کا دل نور ہو جاتا ہے۔ جس شخص کا دل محبت کی آگ سے جل اٹھتا ہے تو وہ شمع انجمن محفل ہو جاتا ہے، یہی سبب ہے کہ پھر سارا جہان اس پر پروانے کی طرح جان نچھاور کرنے کے لیے تیار رہتا ہے۔

اے انسان تمام کائنات خدا کا مظہر ہے، ہر شے میں اسی کا حسن نمایاں ہے، شیریں بھی اسی کے حسن کا مظہر ہے اور فرہاد بھی۔لیکن یہ خیال رہے کہ جن قوموں کے افراد نے آپس میں نفرت کو روا رکھا ہے وہ صفحہ ہستی سے مٹ گئی ہیں۔ خدا کرے کہ میرے ہم وطن اس راز سے واقف ہو جائیں، میری یہ دردناک داستان بہت طویل ہے لیکن یہاں آکر میں خاموشی کو مناسب خیال کرتا ہوں:

مرض کہتے ہیں سب اس کو یہ ہے لیکن مرض ایسا
چھپا جس میں علاج گردش چرخ کہیں بھی ہے
جلانا دل کا ہے گویا سراپا نور ہو جانا
یہ پروانہ جو موزدں ہو تو شمع انجمن بھی ہے
وہی اک حسن ہے لیکن نظر آتا ہے ہر شے میں
یہ شریں بھی ہے گویا بے ستون بھی کوہکن بھی ہے

آخر میں نظیر کے ایک شعر پر اقبال اس نظم کو تمام کرتے ہیں جس کا مفہوم یہ ہے کہ میری داستان درد چونکہ بہت طویل تھی، اس قدر طویل ہے کہ اس کی کوئی انتہا ہی نہیں، اس لیے میں نے خاموشی اختیار کرنا مناسب سمجھا ہے:

نمی گردید کوتہ رشتۂ معنی رہا کردم
حکایت بودے پایاں بخاموشی ادا کردم

عمومی جائزہ:

نظم ”تصویر درد“ اقبال نے 1904 میں اس وقت لکھی جب وہ 1857 کے بعد ہندوستان اور ہندوستانیوں کے ساتھ انگریزوں نے جو سلوک کیا، اس سے متاثر ہوئے۔ ہندوستانی غلامی کی کرخت المناک سانسیں لے رہے تھے، یہ ہندوستانی قوم جو سارے عالم میں قدر کی نگاہ سے دیکھی جاتی تھی وہ انگریزوں کے ہاتھوں ذلیل و خوار ہو رہی تھی۔ ہندوستانی جو افراد اس غلامی سے آزاد ہونے کی تدبیریں کر رہے تھے ان کو انگریز اور بعض انگریزوں کے ہاتھوں بکے ہوئے لوگ نقصان پہنچا رہے تھے۔ کبھی ذات پات کا مسئلہ کھڑا کر کے ہندوستانیوں کو منتشر کر دیتے تھے، کبھی فرقوں میں بانٹ کر نفرت کی دیوار کھڑی کردیتے تھے۔ اقبال کو ہندوستانی قوم کا یہ رویہ اور عمل پسند نہیں آیا، لہذا انہوں نے تمام ذات، پات، اقوام، مذاہب اور علاقائی نفرتیں ہٹانے پر زور دیا۔ ایک دوسرے کے ساتھ محبت کا درس دیا اور ایک ہندوستانی قوم بن کر آگے بڑھنے کی تلقین کی۔ اقبال ایک وطن پرور اور وطن دوست انسان و شاعر تھے۔ ان کی نگاہ بصیرت یہ دیکھ رہی تھی کہ اگر ہندوستانی الگ الگ قوموں میں بٹ گئے تو ہندوستان کی نیا بھی ڈوب جائے گی اور ہندوستان بھی۔ لہذا انہوں نے نظمیہ شعری پیرائے میں اپنی قوم ہند کو بیدار اور باخبر کرنے کی کوشش کی اور کہا:

نہ سمجھو گے تو مٹ جاؤ گے اے ہندوستاں والو
تمہاری داستاں تک بھی نہ ہوگی داستانوں میں

اقبال نے اس نظم کو ماثریں بنانے کے لیے ترکیب بند کی ہیئت میں تخلیق کیا ہے۔ یہ نظم اگرچہ 8 بندوں پر مشتمل ہے لیکن ان آٹھ بندوں کے اندر آٹھ غزلوں کا آہنگ موجود ہے، اقبال کی نظموں کی یہ محبوب ہئیت ترکیب بند ہے، اسی ترکیب بند ہئیت میں انہوں نے اپنے ان خیالات کو ڈالنے کی کامیاب کوشش کی ہے۔ چونکہ یہ نظم اقبال نے قریب 30 سال کی عمر میں لکھی ہے اس لئے اس میں عالم شباب کے جذبات اور رنگ موجود ہیں۔ لیکن یہ بھی حیرت ہوتی ہے کہ اس عمر میں ہمارا شاعر اتنا بلند بالغ النظر تھا کہ اس نے مستقبل کے فسادات کو اپنی نگاہ بصیرت سے بھانپ لیا اور اس کا سدباب کرنے کی پوری کوشش کی۔ اس نظم میں کہیں کہیں خطابانہ اور راست لہجہ اپنایا گیا ہے، لیکن شعریات کا لحاظ کرتے ہوئے زیادہ تر اقبال نے استعارات و تشبیہات تلمیحات، تعبیرات و تراکیب میں اپنی بات اور نظریات کو معتبر اور مؤثر بنایا ہے، بعض جگہوں پر علامات سے بھی کام لیا گیا ہے۔ ایسی چند تعبیرات و ترکیبات ذیل میں دیکھی جا سکتی ہیں۔

”اٹھائے کچھ ورق لالے نے“، ”کچھ نرگس نے“، ”کچھ گل نے“، ”قمریوں نے“، ”طوطیوں نے“ ، ” عندلیبوں نے“ ، ” افسون جرس“ ، ”زفیض دل طپیدہ“ ، ”ریاض دہر“ ”گرد کدورت“ ”خزینہ ہوں “ ”مشت خاک صحرا“ ”نہ صہباہوں“ ”نہ ساقی ہوں“ ”نہ مستی ہوں“ ”عنادل باغ کے “ ” آشیانوں میں“ ”طائر بوستانوں میں“ ”عہد کہن کی داستانوں میں“ ”شمع دل“ ”پروانہ ایک ہی تسبیح میں ان بکھرے دانوں کو“ ”شغل سینہ کاوی“ ”صورت آئینہ حیراں“ ”دل بستۂ محفل“ ” صفائے دل کو کیا“ ” آرائش رنگ تعلق“ ”کف آئینہ پر حنا باندھنا “ ” شجر ہے فرقہ آرائی“ ”تعصب ہے ثمر“ ”محبت ہی وہ منزل ہے کہ منزل بھی ہے صحرا بھی، جرس بھی کارواں بھی، راہبر بھی، راہزن بھی ہے“ ”علاج گردش چرخ کہن“ ”شمع انجمن شیریں“ ”بے ستوں“ ”کوہکن“ ”آدم“ ”سکندر“ یہ اور اس طرح کی کئی ایسی تراکیب اور تعبیرات و تلمیحات ہیں جن میں اقبال نے نہایت ہی ہنر مندی کے ساتھ اپنے خیالات ادبی اور شعری پیرائے میں شعریت کے ساتھ ڈھالے ہیں۔ اس طرح یہ نظم اپنے موضوع، ہئیت اور تکنیک کے اعتبار سے بانگ درا کی اہم نظم ہے۔

از تحریر ڈاکٹر محمد آصف ملک
اسسٹنٹ پروفیسر بابا غلام شاہ بادشاہ یونیورسٹی راجوری