تشبیہ کی تعریف اور اقسام

0

تشبیہ عربی زبان کا لفظ ہے اور اس کے لغوی معنی مشابہت، تمثیل اور کسی چیز کو دوسری چیز کی مانند قرار دینا ہیں۔ علم بیان کی رو سے جب کسی ایک چیز کو کسی خاص صفت کے اعتبار سے یا مشترک خصوصیت کی بنا پر دوسری کی مانند قرار دے دیا جائے تو اسے تشبیہ کہتے ہیں۔

بنیادی طور پر تشبیہ کے معنی ہیں مثال دینا۔ چنانچہ کسی شخص یا چیز کو اس کی کسی خاص خوبی یا صفت کی بنا پر کسی ایسے شخص یا چیز کی طرح قرار دینا، جس کی وہ خوبی سب کے ہاں معروف اور مانی ہوئی ہو، تشبیہ کہلاتا ہے۔ مثلاً ہم یہ کہیں کہ بچہ چاند کی مانند حسین ہے، تو یہ تشبیہ کہلائے گی کیونکہ چاند کا حسن مسلمہ ہے۔ اگر چہ یہ مفہوم بچے کو چاند سے تشبیہ دیے بغیر بھی ادا کیا جا سکتا تھا کہ بچہ تو حسین ہے، لیکن تشبیہ کی بدولت اس کلام میں فصاحت و بلاغت پیدا ہو گئی ہے۔

اسی طرح یہ کہنا کہ عبداللہ شیر کی طرح بہادر ہے، بھی تشبیہ کی ایک مثال ہے کیونکہ شیر کی بہادری مسلمہ ہے اور مقصد عبداللہ کی بہادری کو واضح کرنا ہے جو عبداللہ اور شیر دونوں میں پائی جائے۔ تشبیہ کا مقصد یہ ہوتا ہے کہ مشبہ کی کسی خاص خوبی یا خامی مثلاً بہادری، خوب صورتی، سخاوت، بزدلی یا کنجوسی کو بیان کرنے کے ساتھ ساتھ اس وصف کی شدت کو بھی بیان کیا جائے۔ اس سے مشبہ کی تعریف یا تذلیل مقصود ہوتی ہے۔

ارکانِ تشبیہ

تشبیہ کے مندرجہ ذیل پانچ ارکان ہیں۔

1. مشبّہ

جس چیز کو دوسری چیز کے مانند قرار دیا جائے وہ مشبّہ کہلاتی ہے۔ جیسا کہ اوپر کی مثالوں میں بچہ اور عبداللہ مشبہ ہیں۔

2. مشبّہ ِبہ

وہ چیز جس کے ساتھ کسی دوسری چیز کو تشبیہ دی جائے یا مشبہ کو جس چیز سے تشبیہ دی جائے، وہ مشبہ ِبہ کہلاتی ہے۔ مثلاً چاند اور شیر مشبہ بہ ہیں۔ ان دونوں یعنی مشبہ اور مشبہ بہ کو طرفین تشبیہ بھی کہتے ہیں۔

3. حرفِ تشبیہ

وہ لفظ جو ایک چیز کو دوسری چیز جیسا ظاہر کرنے کے لیے استعمال ہوتا ہے حرف تشبیہ کہلاتا ہے۔ مثلاً اوپر کے جملوں میں مانند اور طرح حروف تشبیہ ہیں۔ اس کے علاوہ اور بھی کئی حروف تشبیہ ہیں جیسا کہ مثل، ہو بہو، صورت، گویا، جوں، سا، سی، سے، جیسا، جیسے، جیسی، بعینہ، مثال، یا، کہ وغیرہ، انہیں اداتِ تشبیہ بھی کہتے ہیں۔

4. وجہِ شبہ

وجہ شبہ سے مراد وہ خوبی ہے جس کی بنا پر مشبہ کو مشبہ بہ سے تشبیہ دی جا رہی ہے۔ مثلاً: چاند کی مانند حسین میں وجہ شبہ حُسن ہے۔ اسی طرح شیر کی طرح بہادر میں وجہ شبہ بہادری ہے۔

5. غرضِ تشبیہ

وہ مقصد یا غرض جس کے لیے تشبیہ دی جائے، غرض تشبیہ کہلاتا ہے۔ اس کا تشبیہ میں ذکر نہیں ‌ہوتا۔ صرف قرائن سے ہی معلوم ہوتا ہے کہ تشبیہ کس غرض یا مقصد سے دی گئی ہے۔ مثلاً بچے کے حسن کو واضح کرنا غرض تشبیہ ہے۔ اسی طرح عبداللہ کی بہادری کو واضح کرنا بھی غرضِ تشبیہ ہے۔

قرآن سے مثالیں

قرآن مجید اپنے انداز بیان اور اسلوب کے لحاظ سے ایک معجزہ ہے۔ اللہ تعالیٰ نے اس میں بکثرت علوم بلاغت کا استعمال کیا ہے۔ مثلاً: كَمَثَلِ الْحِمَارِ يَحْمِلُ أَسْفَارًا۔ (الجمعہ۶۲:۵)( اُن کی مثال اُس گدھے کی سی ہے جس پر کتابیں لدی ہوئی ہوں۔ ) اس آیت میں اللہ تعالیٰ نے حاملین تورات کو اس گدھے سے تشبیہ دی ہے جس پر کتابیں لدی ہوں۔ گویا جس طرح کتابیں لادنے سے گدھے کے حالات میں کوئی تبدیلی نہیں آ سکتی اسی طرح یہود بھی عمل کے بغیر، محض حامل کتاب ہونے کے باعث کوئی فائدہ حاصل نہیں کرسکتے۔

اسی طرح قرآن مجید میں ارشاد ہے:
مَثَلُهُمْ كَمَثَلِ الَّذِي اسْتَوْقَدَ نَارًا فَلَمَّا أَضَاء َتْ مَا حَوْلَهُ ذَهَبَ اللَّهُ بِنُورِهِمْ وَتَرَكَهُمْ فِي ظُلُمَاتٍ لَّا يُبْصِرُونَ۔ (البقرۃ۲:۱۷)
’’اِن کی مثال ایسی ہے جیسے ایک شخص نے آگ روشن کی اور جب اُس نے سارے ماحول کو روشن کر دیا تو اللہ نے اِن کا نور بصارت سلب کر لیا اور انہیں اس حال میں چھوڑ دیا کہ تاریکیوں میں انہیں کچھ نظر نہیں آتا۔ ‘‘

اس آیت میں وہ منافقین مشبہ ہیں جو یہاں زیر بحث ہیں۔ آگ جلانے والا مشبہ بہ، آگ جلانے والے کی آگ کا بجھنا وجہ شبہ ہے کہ اس طرح منافقین کے اعمال ضائع ہو گئے۔ اور كَمَثَلِ حرف تشبیہ ہے۔

اشعار سے مثالیں

زندگی ہے یا کوئی طوفان ہے
ہم تو اس جینے کے ہاتھوں مر چلے
  • اس شعر میں زندگی کو طوفان سے تشبیہ دی گئی ہے۔
  • مشبہ:زندگی،
  • مشبہ بہ:طوفان،
  • وجہ تشبیہ: زندگی کے مصائب وآلام کا طوفان،
  • غرض تشبیہ: زندگی کے مصائب و آلام کا تذکرہ اور
  • حرف تشبیہ : یا ہے۔
جہاں میں اہل ایماں صورت خورشید جیتے ہیں
ادھر ڈوبے ادھر نکلے، ادھر ڈوبے ادھر نکلے
  • اس شعر میں مشبہ: اہل ایمان،
  • مشبہ بہ: خورشید،
  • حرف تشبیہ: صورت،
  • وجہ شبہ :عروج و زوال اور
  • غرض تشبیہ: مومن کی متحرک اور انقلابی شخصیت کو پیش کرنا ہے۔
ہائے کیا فرط طرب میں جھومتا ہے ابر فیل
بے زنجیر کی صورت اڑا جاتا ہے ابر
  • اس شعر میں مشبہ: ابر یعنی بادل ہے،
  • مشبہ بہ :فیل بے زنجیر،
  • حرف تشبیہ :صورت،
  • وجہ شبہ: مستی میں جھومنا اور
  • غرض تشبیہ :مستی کی کیفیت کو واضح کرنا ہے۔

مزید مثالیں

۱۔ کمرہ آئینے جیسا چمک رہا ہے،

۲۔ پانی کو چھو رہی ہو جھک جھک کے گل کی ٹہنی
جیسے حسین کوئی آئینہ دیکھتا ہو

۳۔ نازک کلائیوں میں حنا بستہ مٹھیاں
شاخوں میں ‌جیسے منہ بندھی کلیاں گلاب کی

۴۔ ان کے عارض پہ دمکتے ہوئے آنسو، توبہ
ہم نے شعلوں پہ مچلتے ہوئے شبنم دیکھی

۵۔ غیر کو دیکھ کے غیرت سے پگھل جاؤں گا
صورت شمع تری بزم میں جل جاؤں گا

۶۔ عرق آلودہ ہونا، اس رُخِ رنگین کا ایسا ہے
کہ جیسے برگِ گل پہ ہو نمایاں بوند شبنم کی

۸۔ یہ آب و تابِ حسن، یہ عالم شباب کا
تم ہو، کہ ایک پھول کھلا ہے گلاب کا

تشبیہ کی اقسام

تشبیہ کی پانچ اقسام بیان کی جاتی ہیں۔ ان اقسام کی بنیاد اس کے ارکان کو حذف کرنے پر ہے۔ کیونکہ مخاطب کے علم کی بنیاد پر بعض اوقات اس کے بعض حصوں کو حذف کر دیا جاتا ہے۔

1. تشبیہ مرسل

تشبیہ مرسل وہ تشبیہ ہے جس میں حرف تشبیہ کو واضح طور پر بیان کیا گیا ہو۔ مثلاً: مثل نورہ کمشکاۃ (اس کے نور کی مثال ایسی ہے جیسے ایک چراغ) اس مثال میں حرف تشبیہ کی موجود ہے۔

2. تشبیہ موکد

تشبیہ کی اس قسم میں حرف تشبیہ کو حذف کر دیا جاتا ہے۔ اس حذف کی وجہ یہ ہوتی ہے کہ متکلم اس بات پر زور دے رہا ہوتا ہے مشبہ اور مشبہ بہ میں مشابہت بہت زیادہ ہے۔ جیسے : انت نجم فی الضیاء والرفعۃ۔ (تم روشنی اور بلندی میں ستارےہو) یعنی ستارے کی طرح نہیں، بلکہ خود ستارہ ہو، کہہ کر بات میں زور پیدا کیا ہے۔

3. تشبیہ مفصل

تشبیہ کی اس قسم میں تشبیہ کی وجہ کو بیان کیا جاتا ہے۔ جیسے :ھو کالاسد فی الشجاعۃ۔ (وہ بہادری میں شیر کی طرح ہے۔ ) یہاں تشبیہ کی وجہ بہادری کو واضح طور پر بیان کر دیا گیا ہے۔

4. تشبیہ مجمل

تشبیہ کی اس قسم میں وجہ تشبیہ کو حذف کر دیا جاتا ہے کیونکہ یہ وجہ مخاطب پہلے ہی سے جانتا ہوتا ہے۔ مثلاً کان الشمس دینار۔ (سورج گویا دینا رہے) یہاں وجہ تشبیہ کو اس لیے حذف کر دیا گیا ہے کہ یہ بات سب ہی جانتے ہیں کہ نیا سکہ چمک میں سورج کی طرح لگتا ہے۔

5. تشبیہ بلیغ

تشبیہ کی اس قسم میں تشبیہ میں زور پیدا کرنے کے لیے حرف تشبیہ اور وجہ تشبیہ دونوں کو حذف کر دیا جاتا ہے۔ اس سے یہ باور کرانا مقصود ہوتا ہے کہ مشبہ اور مشبہ بہ میں اتنی زیادہ مشابہت ہے کہ گویا دونوں ایک ہی ہیں۔ مثلاً الاسلام حیاتنا۔ (اسلام ہماری زندگی ہے۔ ) اس مثال میں اسلام کو زندگی سے تشبیہ دی گئی ہے۔ چونکہ اسلام کی ہدایت کے بغیر زندگی کا کوئی مقصد باقی نہیں رہتا اس لیے بات میں زور پیدا کرنے کے لیے تشبیہ کی علامت اور وجہ دونوں کو حذف کر دیا گیا ہے۔

تحریر محمد ذیشان اکرم