دیکھنا ہر صبح تجھ رخسار کا

0

غزل

دیکھنا ہر صبح تجھ رخسار کا
ہے مطلعہ مطلع انوار کا
بلبل و پروانہ کرنا دل کے تیں
کام ہے تجھ چہرۂ گُلنار کا
صُبح تیرا درس پایا تھا صنم
شوق دل محتاج ہے تکرار کا
ماں کے سینے کے اُپر اے شمع رو!
دماغ ہے تجھ حسن کی جھلکار کا
دل کوں دیتا ہے ہمارے پیچ و تاب
پیچ تیرے طرّہ طرار کا
چاہتا ہے اس جہاں میں گر بہشت
جا تماشہ دیکھ اس رُخسار کا
سرکشی،آتش مزاجی ہے سبب
ناصحوں کو گرمیٔ بازار کا
اے وؔلی! کیوں سُن سکے ناصح کی بات؟
جو دوانا ہے پری رخسار کا

تشریح

پہلا شعر

دیکھنا ہر صبح تجھ رخسار کا
ہے مطلعہ مطلع انوار کا

غزل کے مطلع میں شاعر فرماتا ہے کہ اے محبوب ہرصُبح تیرے رُخساروں کا نظارہ کرنا گویا خورشید کے طلوع ہونے کا نظارہ کرنا ہے۔ یہاں شاعر نے چہرے کو سورج اور صبح اس کا نظارہ کرنے کو، سورج طلوع ہونے کے منظر کا نظارہ کرنے کی تعبیر کیا ہے۔

دوسرا شعر

بلبل و پروانہ کرنا دل کے تیں
کام ہے تجھ چہرۂ گُلنار کا

بُلبُل کو پھول کا عاشق اور پروانہ آگ کا دیوانہ تصور کیا گیا ہے۔ شاعر نے رعایت لفظی سے کام لیا ہے۔ لہذا اس نے محبوب کے چہرے کے لئے لفظ گُلنار استعمال کیا ہے۔ گل اور نار،پھول اور آگ۔ بلبل اور پروانہ دونوں کا معشوق۔ ویسے چہرہ گلنار کے معنی سُرخ چہرے کے ہوتے ہیں۔ وہ کہتا ہے کہ دلوں کو بلبل کی طرح عاشق بنا لینا تیرے روشن چہرے کے لئے معمولی بات ہے۔

تیسرا شعر

صُبح تیرا درس پایا تھا صنم
شوق دل محتاج ہے تکرار کا

شاعر کہتا ہے کہ اے محبوب صبح تیرا دیدار کیا تھا، اب دل کا اشتیاق تم سے بات کرنے کا حاجت مند ہے، حاجت رکھتا ہے۔

چوتھا شعر

ماں کے سینے کے اُپر اے شمع رو!
دماغ ہے تجھ حسن کی جھلکار کا

اس شعر میں شاعر نے صنعتِ حُسن تعلیل سے کام لیا ہے۔کہتا ہے کہ چاند کے سینے پر جو داغ دکھائی دیتا ہے اس نے تمہارے حسن کی جھلک دیکھ لی تھی۔جبھی سے اس کا سینہ داغ دار ہوگیا۔

آٹھواں شعر

اے وؔلی! کیوں سُن سکے ناصح کی بات؟
جو دوانا ہے پری رخسار کا

غزل کے مقطع میں شاعر خود سے مخاطب ہو کر کہتا ہے کہ وؔلی اس کی خوب صورت گالوں کو جو ایک بار دیکھ لے وہ ان کا دیوانہ ہو جائے گا اور پھر دیوانے کو کون نصیحت کر سکتا ہے۔وہ نصیحت کرنے والے کی کیوں کر سُنے گا۔