دل کوں گر مرتبہ ہو در پن کا

0

غزل

دل کوں گر مرتبہ ہو در پن کا
مُفت ہے دیکھنا سری جن کا
جامہ زیبوں کو کیوں تجوں؟کہ مجھے
گھیر رکھتا ہے دور دامن کا
اے زباں! کر مدد کی آج صنم
مُثظر ہے بیان روشن کا
حکمتِ عشق،بوعلی سوں نہ پوچھ
نئیں وہ قدر شناس اس فن کا
آئینہ،ہوکے تجھ سے ہم زانو
غیرت افزا ہوا ہے گُلشن کا
ٹک وؔلی کی طرف نگاہ کرو
صُبح سوں مُثظر ہے روشن کا

تشریح

پہلا شعر

دل کوں گر مرتبہ ہو در پن کا
مُفت ہے دیکھنا سری جن کا

دل کو آئینے سے اکثر تشبیہ دی جاتی ہے کہ یہ بھی اسی طرح نرم و نازک و صاف ہوتا ہے۔شاعر اس کے برعکس بات کر رہا ہے وہ کہتا ہے کہ اگر دل کو درپن یعنی آئینے کا رُتبہ مل جائے،گویا وہ آئینہ ہو جائے تو پھر محبوب کا دیدار کرنا بہت آسان ہو جائے اور بہ قول شاعر یہ صُورت پیدا ہو جائے۔

دوسرا شعر

جامہ زیبوں کو کیوں تجوں؟کہ مجھے
گھیر رکھتا ہے دور دامن کا

شاعر کہتا ہے کہ میں جامہ زیب لوگوں کو وہ لوگ جن کو ہر لباس اچھا لگتا ہے یعنی کہ محبوب لوگوں کو کیوں کر چھوڑ سکتا ہوں کہ مجھے تو ان کے دامن کا گھیر ہی گھیرے رہتا ہے۔میں اس کی پکڑ سے باہر نکل ہی نہیں سکتا۔

تیسرا شعر

اے زباں! کر مدد کی آج صنم
مُثظر ہے بیان روشن کا

شاعر کہتا ہے کہ بہت کچھ کہنا ہوتا ہے مگر جب محبوب کے سامنے جاتا ہوں تو کچھ بیان نہیں کر سکتا۔شاعر اپنی زبان سے مخاطب ہے اور کہتا ہے کہ آج میرا محبوب میری روشن بیانی کا منتظر ہے لہذا وہ زبان سے کہتا ہے کہ آج میری مدد کرنا کہ میں آج اپنے دل کی بات اس کے سامنے کہہ سکوں۔

چوتھا شعر

حکمتِ عشق،بوعلی سوں نہ پوچھ
نئیں وہ قدر شناس اس فن کا

بوعلی سینا ایک بہت بڑے مُفکر کا نام ہے۔شاعر کہتا ہے کہ وہ بہت بڑا فلاسفر سہی،لیکن عشق حکمت،اس کے قانون سے وہ بالکل ناواقف ہے۔لہذا عشق کی حکمت اس سے پوچھنا بے سُود ہے۔وہ عشق کے قانون کا شناسا نہیں ہے۔

پانچواں شعر

ٹک وؔلی کی طرف نگاہ کرو
صُبح سوں مُثظر ہے روشن کا

شاعر کہتا ہے کہ ذرا وؔلی کی طرف نگاہ اٹھاؤ کہ وہ صبح سے تمھارے دیدار کا انتظار کر رہا ہے۔