وہ نازنیں ادا میں اعجاز ہے سراپا

0

غزل

وہ نازنیں ادا میں اعجاز ہے سراپا
خوبی میں گُل رُخاں سوں ممتاز ہے سراپا
اے شوخ! تجھ نین میں دیکھا نگاہ کر کر
عاشق کے مارنے کا انداز ہے سراپا
جگ کے ادا شناساں، ہیں جن کی فکر علی
تجھ قد کوں دیکھ بولے، یو ناز ہے سراپا
کیوں ہو سکیں جگت کے دِل بر ترے برابر
تو حسن ہور ادا میں اعجاز ہے سراپا
گاہے،اے عیسوی دم یک بات لطف سوں کر
ہرچند حسبِ ظاہر، طناز ہے سراپا

تشریح

پہلا شعر

وہ نازنیں ادا میں اعجاز ہے سراپا
خوبی میں گُل رُخاں سوں ممتاز ہے سراپا

وہ ناز نیں،وہ نازُوں سے بھرا خوب صورت محبوب بڑی سحر انگریز ادائیں رکھتا ہے۔گویا سر سے پاؤں تک ایک معجزہ ہے اور خوب صورتی میں وہ تمام خوبصورت حسیناؤں میں بلند مرتبہ رکھتا ہے۔

دوسرا شعر

اے شوخ! تجھ نین میں دیکھا نگاہ کر کر
عاشق کے مارنے کا انداز ہے سراپا

استعارتاً محبوب کو شوخ،شریر خطاب کرتے ہوئے شاعر کہتا ہے کہ اے شوخ محبوب میں نے تمھاری آنکھوں میں جھانک جھانک کر دیکھا ہے۔ان میں مکمل طور پر عاشق کو قتل کرنے کا انداز ہے۔

تیسرا شعر

جگ کے ادا شناساں، ہیں جن کی فکر علی
تجھ قد کوں دیکھ بولے، یو ناز ہے سراپا

اے محبوب اس دنیا کے جو ادا شناس، اداؤں کو پہچاننے والے لوگ ہیں اور یہی نہیں جن کی فکر بھی بلند ہے۔تیرا دراز قد دیکھ کر تجھے سر سے پاؤں تک مجسّم ناز قرار دیتے ہیں۔ گویا تو سراپا ناز ہے۔

چوتھا شعر

کیوں ہو سکیں جگت کے دِل بر ترے برابر
تو حسن ہور ادا میں اعجاز ہے سراپا

شاعر کہتا ہے کہ میرے محبوب دنیا کی دِلبر تیری برابری کیوں کر کرسکتے ہیں کہ تو خوب صورتی اور ناز و ادا میں کسی معجزے سے کم نہیں ہے۔

پانچواں شعر

گاہے،اے عیسوی دم یک بات لطف سوں کر
ہرچند حسبِ ظاہر، طناز ہے سراپا

مقطعے میں شاعر کہتا ہے کہ اے وؔلی میرا دل دار،میرا محبوب مجھ پر ہمیشہ مہربانی کرتا ہے۔اگرچہ بظاہر وہ بڑا شوخ ہے۔اشاروں، کنایوں میں بات کرنے والا ہے۔