کوچہ یار عین کاسی کا ہے

0

غزل

کوچہ یار عین کاسی کا ہے
جوگی دل وہاں کا باسی ہے
پی کے بیراگ کی اداسی سوں
دل پہ میرے سدا اداسی ہے
اے صنم! تجھ جبیں اپر یہ خال
ہندؤے ہر دوار باسی ہے
زلف تیری ہے موج جمنا کی
تل نازک اس کے جیون سناسی ہے
یہ سیہ زلف تجھ زخنداں پر
ناگنی جیوں کنوے پہ پیاسی ہے
جس کی گفتار میں نہیں ہیں مزا
سخن اس کا طعام باسی ہے
اے ولیؔ! جو لباس تن پہ رکھا
عاشقاں کے نزک لباسی ہے

تشریح

پہلا شعر

کوچہ یار عین کاسی کا ہے
جوگی دل وہاں کا باسی ہے

محبوب کا کوچہ عاشق کے لیے کسی تیرتھ استھان سے کم نہیں ہوتا ہے لہذا شاعر کہتا ہے کہ میرے محبوب کا کوچہ کاشی کی مانند ہے اور میرا دل وہاں کا رہنے والا ہے۔ کاشی ہندوؤں کا ایک تیرتھ استھان ہے۔ شاعر نے محبوب کے کوچے کو کاشی سے تشبیہ دی ہے۔

دوسرا شعر

پی کے بیراگ کی اداسی سوں
دل پہ میرے سدا اداسی ہے

شاعر کہتا ہے کہ محبوب کی جدائی کی مایوسی کے سبب سے میرے دل پر ہمیشہ اداسی چھائی رہتی ہے۔

تیسرا شعر

اے صنم! تجھ جبیں اپر یہ خال
ہندؤے ہر دوار باسی ہے

شاعر محبوب سے مخاطب ہو کر کہتا ہے کہ اے محبوب تمہارے ماتھے پر جو یہ سیاہ تِل ہے یہ ایسا لگتا ہے کہ کوئی ہندو ہردوار پر باس کر رہا ہو۔محبوب کی پیشانی کو شاعر نے ہردوار اور تِل کو ہندو سے تشبیہ دی ہے اور وہ اس لئے کہ ہندو کے معنی سیاہ کے بھی ہوتے ہیں۔

چوتھا شعر

زلف تیری ہے موج جمنا کی
تل نازک اس کے جیون سناسی ہے

زُلفوں میں چونکہ کے بل ہوتے ہیں اس لیے انہیں اکثر دریا کی لہروں سے بھی تشبیہ دیتے ہیں۔ اس شعر میں شاعر محبوب سے مخاطب ہو کر کہتا ہے کہ تمہاری زُلف دریاے جمنا کی موج کی طرح ہے اور اس کے نزدیک جو تِل ہے وہ جیسے کوئی جمنا کے کِنارے بیٹھا سنیاسی ہو۔(جمنا بھی ہندؤں میں مُتبرک دریا مانا جاتا ہے)

پانچواں شعر

یہ سیہ زلف تجھ زخنداں پر
ناگنی جیوں کنوے پہ پیاسی ہے

اس شعر میں شاعر محبوب سے مخاطب ہے اور کہتا ہے کہ تمہاری ٹھوڑی تک آئی یہ زلف ایسی بے قرار ہے جیسے کوئی ناگنی کنویں پر پیاسی ہو۔ سانپ میں ویسے ہی قرار نہیں ہوتا اس پر پیاسا ہو اور پانی سامنے ہو مگر اس تک پہنچ نہ پائے تو کیا حالت ہوگی اس کا اندازہ لگایا جاسکتا ہے۔ سانپ سے زلف کوتشبیہ دیتے ہیں مگر جس طرح ولیؔ نے پیا سے سانپ سے محبوب کی بے قرار زلف کوتشبیہ ہے۔ یہ بے مثال ہے۔

چھٹا شعر

جس کی گفتار میں نہیں ہیں مزا
سخن اس کا طعام باسی ہے

شاعر کہتا ہے کہ جس کے کلام میں تاثیر نہیں ہے، مزہ نہیں ہے۔ اس کا کلام باسی کھانے کی طرح ہے کہ وہ کہ جس طرح باسی کھانا بے مزہ ہوتا ہے اس طرح اس کا کام بھی مزہ نہیں دیتا۔

ساتواں شعر

اے ولیؔ! جو لباس تن پہ رکھا
عاشقاں کے نزک لباسی ہے

غزل کے مقطع میں شاعر خود سے مخاطب ہو کر کہتا ہے کہ عشق کو آرائش سے مطلب نہیں ہوتا۔ اس کی پہچان تو اس کا چاک گربیان ہوتا ہے۔لہذا جو شخص بہتر لباس کا خیال رکھتا ہے وہ عاشقوں کے نزدیک عاشق نہیں ہے بلکہ وہ تو دنیاوی، دنیا کا باشندہ ہے، جس کو عشق سے سروکار نہیں۔