Majrooh Sultanpuri Poetry | Biography

مجروح سلطان پوری

مجروح سلطان پوری 1 اکتوبر 1919ء کو یو-پی (اعظم گڑھ) سلطان پور علاقہ میں پیدا ہوئے۔ ان کا پورا نام اسرارالحسن خان تھا- مجروح کے والد کا نام محمد حسن خاں تھا- ان کے والد پولیس میں نوکری کرتے تھے- مجروح ایک کھاتے پیتے گھر کے فرد تھے- اور وہ اپنے گھر کے بہت زیادہ لاڈلے بیٹے تھے اور اکلوتی  اولاد ہونے کی وجہ سے سب ان کو بہت پیار کرتے تھے-

مجروح کے والد نے انہیں انگریزی نہیں پڑھائی اور ایک مقامی مکتب سے انہوں نے اردو، عربی اور فارسی کی تعلیم حاصل کی- لیکن کچھ وقت کے بعد ان کے کچھ غصہ کرنے کی وجہ سے مولوی صاحب نے انہیں مدرسہ سے نکال دیا- پھر انہوں نے کچھ عرصہ بعد لکھنؤ کے طبیہ کالج میں داخلہ لیا اور پڑھائی مکمل کی۔مجروح اپنی شاعری میں 1939ء تک اسرارؔ تخلص کرتے تھے۔ بعد میں دوستوں کی ایما پر مجروحؔ تخلص اختیار کیا۔

مجروح کو شروع سے ہی پڑھائی سے بہت لگاؤ تھا- انہوں نے طب کی تعلیم حاصل کی- 1938ء میں مجروح فیض آباد چلے گئے اور وہاں ان کو ایک لڑکی سے محبت ہوگئی- جب لوگوں کو پتہ چلنے لگا تو لڑکی کی بدنامی کے ڈر سے یہ فیض آباد چھوڑ کر سلطان پور آگئے۔ مجروح کی وفات 24 مئی 2000ء کو ممبئی میں ہوئی اور وہیں کے ایک قبرستان میں سپرد خاک کئے گئے۔

مجروح کو موسیقی کا بہت شوق تھا- انہوں نے سلطانپورکے ایک میوزک کالج میں داخلہ لے لیا لیکن پھر والد کے منع کرنے سے چھوڑ دیا۔ مجروح نے قریباً 1935ء میں شاعری شروع کر دی تھی- مجروح کو شاعری سے بہت زیادہ لگاؤ تھا۔ مجروح نے اپنی پہلی غزل سلطان پور کے آل انڈیا مشاعرے میں پڑھی۔

مجروح اپنی زندگی میں فلمی دنیا سے ایک عرصے تک منسلک رہے اور اس دوران انہوں نے تقریباً ساڑھے تین سو گانے اردو میں اور تین بوجپوری میں لکھے۔ 1945ء میں مجروح، جگر کے ساتھ ممبئی کے ایک مشاعرے میں شرکت کی غرض سے گئے جہاں فلم ڈائریکٹر کاردار مجروح کا کلام سن کر بہت متاثر ہوئے۔ مجروح پھر فلم کے لیے لکھنے لگے- انہوں نے “شاہ جہاں” فلم کے گانے لکھے اور اس طرح مجروح ممبئی آگئے اور گانے لکھنے لگے اور اپنا معیار اونچا کیا۔ 1945ء میں فلم “شاجہان” کے لئے اپنا پہلا نغمہ لکھا جس کا عنوان تھا ” جب دل ہی ٹوٹ گیا ہم جی کے کیا کریں”

مجروح کی ذہنی تربیت میں جگر مراد آبادی اور رشید احمد صدیقی نے ان کا بہت ساتھ دیا- رشید احمد صدیقی کی بدولت مجروح نے کلاسیکی ادب کا علم حاصل کیا- رشید احمد صدیقی نے مجروح کو تین سال تک اپنے گھر میں رکھا تھا۔

1945ء میں ایک فلم کے ڈائریکٹر نے مجروح کو گانے کے بول لکھنے کا موقع دیا اور 5000 روپے ملازمت پر رکھ لیا-مجروح کا پہلا غزل کا مجموعہ انجمن ترقی اردو (ہند) 1953ء میں شائع ہوا-

مجروح کو “گراں قدر دادا صاحب پھالکے ایوارڈ سے بھی نوازا گیا- 1992ء میں ان کو اقبال سمان ایوارڈ سے بھی نوازا گیا۔ مجروح کے شاہجہاں فلم کے گانے کے بول کچھ اس طرح سے ہیں-

غم دئیے مستقبل کتنا نازک ہے دل یہ نہ جانا 
ہائے ہائے یہ ظالم زمانہ

مجروح نے دوستی فلم کے لیے بھی گانے گائے جو بہت زیادہ مشہور ہوئے۔

مجروح ایک مشہور اور اعلیٰ درجے کے فنکار ہیں- ان کا نام آج بھی لوگ بڑی عزت کے ساتھ لیتے ہیں- مجروح ایک شاعر ہونے کے ساتھ ساتھ نغمہ نگار بھی ہیں- جن کا بیان کرنے کا انداز ہی بالکل جدا ہے- ان کی غزل گوئی بہت ہی بلند پایا کی ہے- مجروح کی غزل کے بہت مشہور شعر ملاخطہ ہوں۔

جب ہوا عرفاں تو غم آرام جاں بنتا گیا 
سوز جانا دل میں سوز دیگراں بنتا گیا

میں اکیلا ہی چلا تھا جانب منزل مگر
لوگ ساتھ آتے گئے اور کارواں بنتا گیا

دیکھ زنداں سے پرے رنگ چمن جوش بہار
رقص کرنا ہے تو پھر پاؤں کی زنجیر نہ دیکھ

مجروح ترقی پسند تحریک سے وابستہ تھے۔ ان کو ترقی پسند غزل کا نقیب بھی کہا جاتا ہے۔ مجروح کی شاعری میں سماجی اور سیاسی مسائل کے بارے میں بیان دیکھنے کو ملتے ہیں۔ ان کی آرزو تھی کہ ہندوستان پھر سے آزاد ہوجائے اور امن اور چین چھا جائے۔ان کی غزلوں کے دو شعری مجموعے شائع ہو چکے ہیں جن کے نام “غزل” اور ” مشعل جاں” ہیں۔ مجروح کے اس پہلے مجموعہ “غزل” میں 1942ء سے 1952ء کے درمیان لکھی گئی غزلیں شامل کی گئی ہیں۔ جبکہ ان کے دوسرے مجموعہ “مشعل جاں” میں 1942 سے 1988ء تک کا کلام شامل کیا گیا ہے جس میں 41 غزلیں، 5 نظمیں اور 32 متفرق اشعار شامل ہیں۔