اردو زبان کی نشوونما میں صوفیائے کرام کا حصہ

0

اردو زبان و ادب کے نشوونما سے متعلق ماہرین لسانیات کے فراہم کردہ مواد، اردو زبان کی اولین تخلیقات اور بزرگانِ دین کے ملفوظات کی روشنی میں یہ بات قطعیت کے ساتھ کہی جاسکتی ہے کہ اردو زبان کے فروغ اور اس کے نشوونما میں صوفیائے کرام نے نمایاں کردار ادا کیا ہے۔ یہ بے لوث اور مخلص لوگ خدا کے بندوں تک اس کا پیغام پہنچانے کے لیے بیتاب تھے۔ وہ لوگوں کے دروازے پر ہی نہیں، ان کے دلوں پر بھی دستک دینا چاہتے تھے۔ ظاہر ہے کہ اس کے لئے ضروری تھا کہ خدا کا پیغام عوام تک خود عوام کی زبان میں پہنچے۔

چنانچہ صوفیائے کرام نے خاص لوگوں کی ادبی زبان کے بجائے عوام میں رائج زبان کو اپنے پیغام کا وسیلہ اظہار بنایا اور انہیں کی بولی میں تعلیم و تلقین فرمائی۔ صوفیائے کرام جس خطے میں جاتے وہاں کی زبان سیکھ کر اس خطہ کے لوگوں تک انہیں کی زبان میں اپنا پیغام پہنچاتے۔اس طرح انہوں نے عوامی زبان کے دارے کو وسیع کیا اور اپنی ضرورت کے مطابق نئے نئے الفاظ استعمال کر کے اس زبان کے ذرخیز الفاظ میں قابل قدر اضافہ کیا۔

صوفیائے کرام سے پہلے اہل علم عوامی زبان (اردو )میں لکھنا اپنی شان کے منافی سمجھتے تھے۔یہ لوگ اپنی تصانیف اس عوامی اور بازاری زبان میں پیش کرنے کے بارے میں سوچ بھی نہیں سکتے تھے۔ صوفیائے کرام نے اس روایت سے بغاوت کرتے ہوئے عوام سے عوام کی زبان میں گفتگو کی۔ عوامی زبانوں کے الفاظ اور سنسکرت زبان میں رائج مذہبی اصطلاحات تک استعمال کیے۔ صوفیائے کرام کی ان کو شیشوں سے اس زبان کا دائرہ وسیع ہوا۔

بقول مولوی عبدالحق ” صوفیوں ہی کی جرات کا فیض تھا کہ ان کی دیکھا دیکھی دوسرے لوگوں نے بھی جو پہلے ہچکچاتے تھے اس کا استعمال شعر و سخن،مذہب و تعلیم اور علم و حکمت کے لئے شروع کر دیا۔یہی وجہ ہے کہ میں صوفیائے کرام کو اردو کا محسن خیال کرتا ہوں”۔
مولوی عبدالحق نے اپنے مقالہ”اردو کی ابتدائی نشوونما میں صوفیائے کرام کا حصہ” میں ان بزرگانِ دین کا تذکرہ تفصیل سے کیا ہے جنہوں نے اردو زبان کے وسیع کرنے میں گراں قدر خدمات انجام دیں۔ انہوں نے خواجہ معین الدین چشتی اور فریدالدین شکر گنج ہی کےعہد میں ان بزرگانِ دین کی سرگرمیوں کا سراغ لگایا ہے جن کی کوششوں سے اردو زبان کی تشکیل و ترویج میں مدد ملی۔

اردو زبان اور اردو نظم و نثر کو بنیاد فراہم کرنے والے اور اس کی اولین روایتوں کی تشکیل میں نمایاں کردار ادا کرنے والے صوفیائے کرام کی فہرست سے بہت طویل ہے۔ ان میں سے بعض کی خدمات کی نشاندہی جارہی ہے۔

  • امیر خسرو: ساتویں صدی ہجری کے اس بزرگ نے اردو زبان کو ادبی شان عطا کرنے میں گراں قدر خدمات انجام دیں۔ امیر خسرو نے باقاعدہ طور پر فارسی و ہندی کی آمیزش سے اُردو کا اوّلین روپ پیش کیا۔ ان کی طرف منسوب یہ شعر ملاحظہ ہو۔
گوری سووے سیج پر مکھ پر ڈارے کیس
چل خسرو گھر آنپے سانجھ بھئی چوالیس
  • شیخ شرف الدین منیری: شیخ صاحب پوربی اور ہندی زبانوں کے شاعر تھے۔ ان کی طرف جھاڑ پھونک کے منتر منسوب ہیں جو اسی ہندی زبان میں ہیں جس نے آگے چل کر اردو کی شکل اختیار کی۔
  • خواجہ بندہ نواز گیسو دراز: معراج العاشقین، ہدایت نامہ ،شکارنامہ، تلاوت وغیرہ ان کی مشہور تصانیف ہیں۔ ان کی نثری تحریر کا رنگ ملا خطہ ہو۔
نقاش جب تجھ دیکھیا صورت تری لکھنا سکیا
ان جسد کر جتنا جیا سب جنم اپنا کھویے کر
  • صدرالدین: حضرت بدرالدین چشتی کے مرید خلیفہ بمہمنی دور کے اس بزرگ کی تصوّف سے منصوب کتاب”کسب محوریت “کافی مشہور ہے۔ اس کتاب کے علاوہ انہوں نے کہی رسالے بھی لکھے ہیں۔ ان کا رنگ ملا خطہ ہو؀
ناوں لے اللہ محمد کا اول
کسب کا سب کو کہوں ورہر محل
صدرالدین پل پل میں یوں بیکل ہوا
وصل بھی یک پل منحبی میں حل ہوا
  • سید محمد اکبر حسینی: آپ حضرت بندہ نواز گیسو دراز کے صاحبزادے تھے۔ آپ اپنے عہد کے ایک مشہور عالم فاضل بزرگ تھے۔ آپ نے نظم و نثر دونوں میں اپنے آثار چھوڑے ہیں۔نظم کا ایک شعر بطور نمونہ پیش ہے۔
دھوکر زبان کو اپنی پہلے پیرسوں بیان پر
بولوں صفت خدا کی کر شکر میں زبان پر

ان بزرگان دین کے بعد سب سے ہم نام ملاوجہی کا ہے۔ ‌انہوں نے اپنی مثنوی “قطب مشتری”، مشہور تمشیلی داستان “سب رس” اور تصوف سے متعلق گران قدر تصنیف “تاج الحقائق” پیش کرکے اردو زبان کے میدان کو وسیع کرنے اور اس میں ادبی شان پیدا کرنے کا کارنامہ انجام دیا۔ان کے علاوہ حضرت قطب عالم، ہاشم حسنی علوی کی طرف منسوب نظم و نثر کے ایسے ٹکڑے ملتے ہیں جن سے پتہ چلتا ہے کہ قدیم ریختہ و دکنی کے نام سے جانی جانے والی عوامی زبان ادبی و تخلیقی زبان کا درجہ حاصل کر نے کی بھر پور صلاحیت رکھتی ہے۔