امید کی خوشی کا مرکزی خیال

0

امید پر دنیا قائم ہے۔ امید زندگی کا سہارا ہے۔ نا امیدی سے انسان کی زندگی کی خوشیاں کم ہوجاتی ہیں۔ سرسید احمد نے نہایت خوش اسلوبی سے امید کی اہمیت کو بتایا ہے۔ یہ چاند ستارے دور سے جس طرح بہت اچھے لگتے ہیں۔ اسی طرح امید نہایت خوشنما شے ہے۔مصیبت زدوں کا سہارا اور انسان کے آڑے وقتوں میں کام آنے والی چیز ہے۔

حضرت آدم علیہ السلام کو گندم کھانے کے جرم میں جنت سے نکال کر اس دنیا میں بھیج دیا گیا مگر امید نے ان کو ایک ایسی زندگی گزارنے پر مجبور کردیا جس کے ذریعہ وہ اس اعلی مقام تک پہنچ گئے کہ فرشتوں نے ان کو سجدہ کیا۔

امید آسمان میں چمکنے والی ایسی روشنی ہے جو کہ نا امیدوں لوگوں کی زندگی میں داخل ہو کر ان کو نئی زندگی بخشتی ہے۔ ماں کا ننھا سا بچہ جو کہ چڑیا جیسی ننھی جان رکھتا ہے۔ماں کو اس سے بھی امیدیں وابستہ ہوتی ہیں۔ تصور میں ہی بچے کا بچپن اور جوانی دیکھتی ہے۔ اس کا بیاہ رچا کر لطف اندوز ہوتی ہے۔

حضرت یعقوب علیہ السلام کو ان کے بھائیوں نے کنویں میں ڈال دیا اور ان کے والدین کو قلبی دلاسہ دیا۔حضرت یوسف علیہ السلام کو بھیڑیا کھا گیا۔اسی غم میں آنکھوں کی روشنی چلی گئی۔ مگر امید نے ان کو جتنے پر مجبور کر دیا۔ انہیں یقین تھا کہ میرا بیٹا زندہ ہے۔ یہ یہی حال حضرت یوسف علیہ السلام کا تھا۔ تاریک کنویں میں بندھے اکیلے بے سہارا مگر امید ان کا سہارا تھی۔ وہ جانتے تھے کہ ایک دن ضرور یہاں سے رہائی ہو گی۔

آج انسان نا امید ہے۔ وہ پریشان ہے۔ زمانے کی گردشوں نے اس کو پامال کر رکھا ہے ۔اس کو امید ہے کہ ہمارا امام حضرت آخرالزماں حضرت مہدی علیہ السلام آئیں گے۔ اور ہماری مشکل آسان ہوں گئی ۔اس طرح امید انسان کی زندگی کا سہارا ہے۔ وہ بیماروں کو شفاء اور ڈوبنے لوگوں کا کنارہ ہے۔ اگر امید نہ ہو تو انسان کی زندگی مشکل ہو جائے۔