سرسید احمد خان اور اردو لٹریچر

0

سید کے ادبی رفقاء میں شبلی ایک ممتاز درجہ رکھتے ہیں۔ شبلی نے سرسید کے مشن کو کامیاب بنانے میں اپنے قلم کا سہارا لیا۔ تیز ناقدین ،موخ انشاء پرواز شاعر اور سوانح نگار کی حیثیت سے اردو کی نادر تحقیقات پیش کر کے جدید اردو ادب میں گراں قدر اضافہ کیا۔ اس مضمون میں موصوف نے سرسید ادبی خدمات خصوصاً ان کی انشاء پردازی اور مقالہ نگاری پر اجمالآ روشنی ڈالی ہے۔ اپنی بات صداقت میں انہوں نے سرسید کے رسالہ تہذیب الاخلاق کے مضامین میں بطور نمونہ پیش کیے ہیں۔

سر سید مصلح قوم تھے اور کسی بھی قوم کی اصلاح اس وقت تک ممکن نہیں جب تک اس قوم کی مادری زبان کی درستگی اور بقاء کے لیے کوشش نہ کی جائے۔ سر سید سے پہلے اردو نثر میں فسانہ عجائب جیسی کتب کے نمونے تھے۔ تیز نثر میں بھی نظم کی طرح اور ان اور مقفٰی اور مسجع عبارت آرائی تیز عربی، فارسی کے دقیق اور مشکل الفاظ سے عبارت کا مفہوم زائل ہو جاتا تھا۔ سر سید نے تہزیب الا خلاق میں آسان اور عام فہم الفاظ میں اصلاحی مضامین لکھے۔شروع میں سر سید نے شاعری کی اور آہی تخلص رکھتا۔مگر شاعری ان کے مزاج کو پسند نہ آئی۔ اور نثر کی طرف توجہ کی۔ 1847ء میں ان کی کتاب” آثار الصنادید” نے کا فی ثہرت حاصل کی۔ اگرچہ اس کی نثر میں بیدل،اور ظہوری جیسے شعراء کا رنگ تھا۔ پھر بھی نثر اتنی مشکل نہ تھی۔

“آثار الصنادید” کے تقریبا تین سال کے بعد غالب نے نہایت آسان زبان میں خطوط لکھنا شروع کیے۔ سر سید کے اوپر کی عام فہمی اور سادہ نیز بے تکلف عبارت آرائی کا بہت بڑا اثر پڑا ۔سر سید نے قوم کی اصلاح کے لئے تہزیب الا خلاق رسالہ نکالا اور انشاء پردازی کو اعلی درجے تک پہنچایا۔ انہوں نے اپنے مضامین میں انشاءپردازی کا ایک سیدھا اور صاف طریقہ اختیار کیا۔ رنگین عبارت آرائی سے پر ہنر کیا۔ ان کے قلم کی ایک خوبی یہ بھی ہے کہ مشکل سے مشکل خشک سے خشک موضوع کو پیش کرنے میں پر تا ثیر اسلوب اپنایا۔اور اپنی سادہ اور دلکش زبان میں ہر مضمون کو نیا روپ دے دیا۔ اس ضمن شبلی نے سرسید کے موضوع” امید کی خوشی” کے اقتباسات میں پیش کیے ہیں۔

سرسید انگریزی انشاء پرواز اسٹیل اور ایڈیشن سے بے حد متاثر تھے ۔سر سید نے انگریزی کے موضوعات کو اردو کے قالب میں نہایت خوش اسلوبی سے پیش کیا ہے۔ “امید کی خوشی” جیسے مضامین اردو کا بہترین سرمایہ ہیں۔ سرسید نے عالمی مسائل پیش کرنے بھی مہارت فن کا ثبوت دیا ہے۔