نظم شہر آشوب کا خلاصہ

0

“شہر آشوب” نظیر اکبر آبادی کی مشہور نظم ہے۔ اس نظم میں آگرے کی تباہی و بربادی نیز پریشان حالی کا ذکر کیا ہے۔ کہتے ہیں کہ اب کوئی زندہ دلی سے بات تک نہیں کرتا اور زبان بار بار بند ہوجاتی ہے۔ کیونکہ آگرہ کا کاروبار یعنی روزگار بند ہے۔

جہاں پر بے کاری کی وجہ سے بہت پریشانی ہے۔یہ حالات ہیں کہ گھر گھر میں دیوار تو ہے لیکن چھت نہیں ہے۔ جس طرح پانی کا باندھ ٹوٹ جانے سے ہر طرف پانی ہی پانی ہو جاتا ہے، اسی طرح آگرے کے ہر گھر میں مفلسی ہوئی ہے۔

اب جتنے لوگ آگرے میں رہتے ہیں سب تباہ ہوگئے ہیں۔ اب یہاں پر ان کا رہنا مشکل نظر آتا ہے۔ شاعر کہتا ہے کہ عزیزو دعا کرو کہ ایسا برا وقت خدا کسی کو نہ دیکھاے۔ وہ لو گ جو ہنرجانتے ہیں وہ آج کوڑی کوڑی کے محتاج ہیں۔

صراف ،بنے جوہری اور سیٹھ جو کل تک سب نقد دیتے تھے، وہ آج خود ہی ادھار کھا رہے ہیں۔ بازار میں خاک اڑ رہی ہے۔ سارے بازار سنسان پڑے ہیں اور دکان دار اپنی دکانوں پر اسی طرح بیٹھے ہیں جس طرح قیدی قطار میں بیٹھے ہیں۔ لوہار آپنے آپ کو پیٹ رہا ہے۔ اور سنار اپنے آپ کو اپنا سر پیٹ رہا ہے۔ یہ ایک یا دو کے کام کا رونا نہیں ہے یہاں پر تو جتنے بھی ہیں سبھی لوگوں کے کاروبار بند ہیں۔

اب ہزاروں کے ڈر سے بیوپاری بھی نہیں آتے۔ کوتوال بھی دور ہے اور چوکیدار پر یشان ہیں اور ناؤ بھی اس پارے اس پار نہیں آجارہی ہے۔اس کی وجہ سے ملاحوں کا بھی کاروبار بند ہے۔

جو حسن کے پجاری ہیں، جو عاشق ہیں خوبصورتی کے، ان کے سامنے کوئی بھی بہار کی طرح نظر آتا ہے تو ان کو پیار بھری نظر سے نہیں دیکھتے۔ دلوں میں ایسی پریشانی چھائی ہوئی ہے۔

کتنی ہی محنت کرتے ہیں، لیکن کچھ بھی ہاتھ نہیں آتا۔ کب تک کوئی قرض لے اور کب تک کوئی روٹی ادھار کھائے۔جس کو دیکھو وہی رو رہا ہے۔ یہ حال دیکھ کر ہمیں بھی رونا آتا ہے۔ اے خدا دشمن کا بھی کاروبار ایسا بند نہ کر۔اب کوئی مقبروں میں اور کوئی مسجدوں میں نہیں جاتا اور پنڈت بھی مندروں میں سر پیٹتے ہیں۔ مدرسو ں میں پڑھنے والے بھی پریشان ہیں۔ پیرزادہ بھی پر یشان ہے۔حد یہ ہے کہ زندونیا بھی بند ہے۔