نظم حسن کوزہ گر کا خلاصہ

0

حسن کوزہ گر“ چار حصوں میں 28 صفحات پر محیط ن م راشد کی طویل ترین نظم ہے۔ راشد کے خاص انداز میں نظم ایک کہانی کی صورت ہے۔ ہم سے پہلے بھی لوگ اس کہانی کوکھول کھول کر بیان کر چکے ہیں۔ ہم نے ایک اور کوشش کی ہے کہ اس کہانی کو بغیر کسی مداخلت کے بلا کم و کاست بیان کریں۔ کوشش رہی کہ تمام نظم کو اس طرح نثر میں ڈھال دیا جائے کہ عام قاری اس سے مانوس ہو جائے۔

تو کہانی اس طرح سے ہے کہ حسن نام کا ایک کوزہ گر، صراحی و مینا و جام و سبو اور فانوس و گل دان بنانے میں اپنا تمام تر زورِ فن لگا دیا کرتا اور اس کے بدلے میں اس کی معمولی معیشت کا پہیا چلتا رہتا۔ اس نے کہیں جہاں زاد کو دیکھا تو اس کی آنکھوں کی تاب ناکی میں ہی کھو کر رہ گیا۔ جہاں زاد پر اس کی وارفتگی اس حد تک بڑھی کہ اُس کے بارے میں سوچتے ہوئے حسن کے ہاتھ کانپنے لگ جاتے، دست کار کے کانپتے ہاتھوں سے کوزے گرتے، اور ان میں درزیں پڑ جاتیں۔

خوش قسمتی سے اسے جہاں زاد کے ساتھ ایک رات گزارنے کا موقع ملا۔ حسن نے جہاں زاد کے ساتھ دریائے دجلہ کا ساحل عبور کیا، کسی ایسے وقت میں کہ ملاح بھی خوابیدہ تھا۔ اس سفر میں حسن جہاں زاد کے اس قدر قریب تھا کہ اس کے جسم کی خوش بو تک اس کے نتھنوں میں رچ بس گئی۔ دجلہ کے پار وہ ساکت و تاریک رات دونوں نے حلب کی کسی کارواں سرا کے حوض میں تیرتے ہوئے گزاری، ایک دوسرے کے جسم و جاں سے لگ کر۔ حسن تازہ محبت میں اپنی حد میں رہا۔

جہاں زاد نے البتہ ایک ایسے شخص کا ذکر کیا جو اسے ملا تو اس کے بال کھینچتا رہا اور ہونٹ نوچتا رہا۔ مگر حسن ایسا نہ کر سکا۔ اس نا کردہ گناہ کی حسرت اسے ہمیشہ رہی۔ یہ ایک شب ہمیشہ کے لئے حسن کے دل میں حسرت و تمنا بن کے رہ گئی۔ درزوں والے کچھ کوزے جہاں زاد کے گھر میں بھی رکھے تھے۔ اور اس شبِ نشاط بھی ہاتھ کی لرزش سے حسن سے ایک جام گرا اور ٹوٹ گیا۔

اس ملاقات کے بعد حسن اپنے کوزے چھوڑ چھاڑ کر بغداد چلا گیا۔ وہی دیوانگی، وہی وارفتگی، یہ اس سے کسی دم جدا نہ ہوتی تھی۔ حسن نے نَو سال ہجر میں گزارے۔ جب وہ بغداد سے کوزوں کی طرف لوٹا تو بھی اس کے دل میں خواہش تھی کہ کسی طرح پھر وہ شبِ نشاط میسر آئے۔

لوٹنے کے بعد ایک صبح اس نے عطار یوسف کی دکان پر جہاں زاد کو دوبارہ دیکھا اور جہاں زاد نے بھی ایک شوخ نظر اس کی طرف کی۔ اُن آنکھوں کی افسانوی چمک جوں کی توں برقرار تھی۔ یہ چمک اور سو طرح کی تمنائیں اسے جہاں زاد کے گھر کی طرف کھینچ لائیں۔ سرد رات کے اندھیرے میں پریشاں بال و سر کے ساتھ دریچے کی طرف جھانکتے ہوئے وہ اپنا تعارف کرا کے جہاں زاد کو پکارنے اور بلانے لگا اور اپنی وارفتگی اور ان نو سالوں میں اپنے اوپر بیتے ہجر کا قصہ سنانے لگا۔

بولا کہ ان نو سالوں میں میں نے مڑ کر اپنے کوزوں کی طرف نظر نہ کی، حالاں کہ میں اِس مٹی اور رنگ و روغن کی مخلوق، اِن کوزوں کا خلاق تھا۔ وہ بھی آپس میں سرگوشیاں کرتے تو ایک دوسرے سے میرا پتہ پوچھتے، شکوہ کرتے کہ حسن ہمارا خدا بنا تو اس نے ہم سے سلوک بھی خداؤں جیسا ہی کیا کہ ہمیں بنا کر ہم سے منہ پھیر لیا اور ہماری کوئی خیر خبر نہیں لیتا۔ اور حال تھا بھی ایسا ہی کہ جس مٹی کی خوشبو کا میں دیوانہ تھا، اب تغاروں میں پڑی پڑی سوکھ کر پتھر ہو گئی تھی۔

میرے بنائے ہوئے ”صراحی و مینا و جام و سبو اور فانوس و گل داں“ جو میرے فن کا اظہار اور روزی روٹی کمانے کا ذریعہ تھے، سب ٹوٹے پڑے تھے۔ اور میں خود خواب کی ایک عجیب کیفیت میں مبتلا تھا۔ اس عرصے میں اکثر میں چاک پر مٹی پر پاؤں رکھے، سر زانوؤں میں دبائے گھنٹوں بے سدھ سا پڑا رہتا تو میری بیوی آ کر شانوں سے ہلا کر مجھے جگاتی اور کہتی:

”حسن کوزہ گر، ہوش میں آ
حسن اپنے ویران گھر پر نظر کر
یہ بچوں کے تنور کیوں کر بھریں گے
حسن، اے محبت کے مارے
محبت امیروں کی بازی
حسن، اپنے در و دیوار پر نظر کر۔‘‘

لیکن مجھ حسن کو یہ آواز اتنی ہی مدھم سنائی دیتی جتنی کہ کوئی ڈوبتا شخص زیرِ آب سن سکتا ہے۔ وہ میرے لئے اشکوں کے انبار لگاتی جو حقیقت میں پھولوں کے انبار تھے مگر مجھ پر ان کا کوئی اثر نہ ہوتا۔ مجھے اپنے گرد و پیش کی کوئی خبر نہ تھی۔

وقت کا چاک انسان کو تبدیل کر کے کچھ سے کچھ بناتا بگاڑتا رہتا ہے۔ میرے ساتھ البتہ یہ ہوا کہ غم کے نو سالوں نے مجھے اک تودۂِ خاک بنا ڈالا، ایسا کہ جس میں نام کو بھی نمی نہیں۔ وقت کا چاک اس لئے مجھے کسی نئے سانچے میں نہیں ڈھال سکتا۔ مگر جس تابندہ شوخی سے تو نے مجھے آج دیکھا ہے، مجھے لگتا ہے کہ تیری نگاہوں کی یہ تاب ناکی میری حالت بدل سکتی ہے، وقت کا چاک پھر سے مجھے نم دار مٹی کی طرح ڈھال سکتا ہے۔

تمنا کی کوئی حد نہیں ہوتی، جہاں زاد۔ میری تمنا ہے کہ میں پھر سے وہی حسن کوزہ گر بن جاؤں جس کے کوزے ہر امیر و گدا کے گھر کی رونق تھے۔ میں چاہتا ہوں کہ میں پھر مٹی اور گارے کے تغاروں کی طرف لوٹ جاؤں۔ پھر رنگ و روغن سے وہ شرارے نکالوں کہ جن سے دلوں کے خرابے روشن ہوں۔ لیکن یہ سب تبھی ہو سکتا ہے، اے جہاں زاد، اگر تو چاہے۔

تمھاری تاب ناکی آئینے کی طرح میری آنکھوں میں نقش ہو گئی، بلکہ اس سے بھی بڑھ کر۔ تو ایک ایسے تاب ناک آئینے کی طرح میرے سامنے رہی جو میری آنکھوں کو یوں خیرہ کرتا کہ مجھے اور کچھ بھی سجھائی نہ دیتا۔ اگر کچھ سجھائی دیتا تھا تو تیرے آئینہ وجود کے ہم راہ اپنا وجود، تن تنہا۔ میں ہمیشہ تجھ کو اپنے سے جدا دیکھتا رہا۔ آج تجھے خط لکھ رہا ہوں، اور مجھے لکھنا بھی کہاں آتا ہے۔ بس دو چار اشک بہا لوں گا۔

اے جہاں زاد، وقت کا پہیا پھرتا رہتا ہے۔ روز و شب پھر لوٹ آتے ہیں۔ شاید میں بھی، میں حسن کوزہ گر بھی، کبھی لوٹ آؤں گا۔ اب جو لوٹا ہوں تو اپنے تاریک جھونپڑے میں پڑا ہر وقت محرومی کے جال بنتا رہتا ہوں۔ جھونپڑے میں بھی اب کچھ نہیں ہے۔ البتہ ایک محبت کا کھیل ہے جو ہم میاں بیوی کھیلتے رہتے ہیں۔ میری بیوی جو کسی وقت مجھے تکتی ہے تو تکتی ہی رہتی ہے۔ ایک دوسرے سے ہماری محبت کھوکھلی ہو گئی ہے۔ اور اسی کھوکھلے پن میں ہم کبھی ہنس لیتے ہیں، کبھی رو لیتے ہیں، کبھی گا لیتے ہیں۔ بس کسی بہانے زندگی گزار رہے ہیں۔

حرف و معانی، عشق و جوانی، اشک و تبسم کی روانی، ہر شے کی حد ہے۔ سوچتا ہوں کہ میری اس محرومی، اس تنہائی کی بھی کوئی حد ہے کیا؟میرے خالی جھونپڑے میں اگر کچھ ہے تو وہ ہے مٹی کی خوش بو، میرے افلاس کی خوش بو، تنہائی کی خوش بو، تمہاری یادوں اور میری نا کام تمناؤں کی خوش بو! اس سب سے میرا جھونپڑا نہ بھرتا ہے نہ روشن ہوتا ہے، بلکہ وہاں پراگندگی ہے۔ کبھی کبھی میرے جھونپڑے سے دور انجیر و زیتون کے باغوں سے ہوا خوش بو کھینچ لاتی ہے تو یہ سارا گھر مہک اٹھتا ہے۔ ان سب خوش بوؤں کے ساتھ ایک اُس رات کی خوش بو بھی ہے جو تیرے ساتھ گزری۔ اس کے علاوہ مگر میرے گھر میں نہ کوئی خوش بو، نہ پنکھا۔ کچھ بھی ایسا نہیں کہ تیرے لائق ہو۔