برسات کی بہاریں

0
  • نظم : برسات کی بہاریں
  • شاعر : نظیر اکبر آبادی

تعارفِ نظم

یہ شعر ہماری درسی کتاب کی نظم ”برسات کی بہاریں “ سے لیا گیا ہے۔ اس نظم کے شاعر کا نام نظیر اکبر آبادی ہے۔

تعارفِ شاعر

نظیر اکبر آبادی کا نام ولی محمد اور تخلص نظیر تھا۔ اردو، فارسی زبان پر انھیں دست رس حاصل تھی۔ نظیر اردو کے پہلے شاعر ہیں جنھوں نے نظمیہ شاعری کو فروغ دیا۔ وہ ایک خالص عوامی شاعر تھے۔ ”برسات کی بہاریں، آدمی نامہ، ہنس نامہ، اور بنجارہ نامہ“ وغیرہ آپ کی معروف نظمیں ہیں۔

ہیں اس ہوا میں کیا کیا برسات کی بہاریں
سبزوں کی لہلہاہٹ باغات کی بہاریں
بوندوں کی جھمجھماوٹ قطرات کی بہاریں
ہر بات کے تماشے ہر گھات کی بہاریں
کیا کیا مچی ہیں یارو برسات کی بہاریں

اس نظم میں شاعر برسات کے موسم کی بات کر رہے ہیں اور برسات کے دوران اور برسات کے بعد پیش آنے والے منظر کی منظر کشی کر رہے ہیں۔ اس شعر میں شاعر کہتے ہیں کہ برسات ہوتے وقت ہوا میں کتنی خوشگواریت کا احساس ہوتا ہے۔ برسات کے ہوتے ہی کھیت لہلہانے لگتے ہیں اور باغوں میں بھی ایک رونق کا سماں ہوتا ہے۔ بارش کی بوندوں کی رم جھم بھی ایک خوشگوار آواز پیدا کرتی ہے۔ اس شعر میں شاعر کہتے ہیں کہ برسات کے موسم میں ہر جانب ہی بہار نظر آتی ہے۔
پھر وہ اپنے دوستوں کو مخاطب کر کے کہتے ہیں کہ دیکھو یارو برسات کی کیا کیا بہاریں ہوتی ہیں۔

بادل ہوا کے اوپر ہو مست چھا رہے ہیں
جھڑیوں کی مستیوں سے دھومیں مچا رہے ہیں
پڑتے ہیں پانی ہر جا جل تھل بنا رہے ہیں
گلزار بھیگتے ہیں سبزے نہا رہے ہیں
کیا کیا مچی ہیں یارو برسات کی بہاریں

اس نظم میں شاعر برسات کے موسم کی بات کر رہے ہیں اور برسات کے دوران اور برسات کے بعد پیش آنے والے منظر کی منظر کشی کر رہے ہیں۔ اس شعر میں شاعر کہتے ہیں کہ جب برسات کا موسم ہوتا ہے تو بادل جمع ہونا شروع ہو جاتے ہیں اور ہوا کے اوپر چھا جاتے ہیں، یعنی پورا آسمان بادلوں سے ڈھک جاتا ہے اور پھر ان بادلوں سے پانی بہنے لگتا ہے اور ہر جانب برسات کا موسم شروع ہو جاتا ہے۔ اس شعر میں شاعر کہتے ہیں کہ پانی ہر جگہ پڑتے ہی ہر جان جل تھل بن جاتی ہے۔ پھول اور باغات بھیگ جاتے ہیں اور کھیت بھی نہا رہے ہوتے ہیں۔ پھر وہ اپنے دوستوں کو مخاطب کر کے کہتے ہیں کہ دیکھو یارو برسات کی کیا کیا بہاریں ہوتی ہیں۔

جنگل سب اپنے تن پر ہریالی سج رہے ہیں
گل پھول جھاڑ‌ بوٹے کر اپنی دھج رہے ہیں
بجلی چمک رہی ہے بادل گرج رہے ہیں
اللہ کے نقارے نوبت کے بج رہے ہیں

اس نظم میں شاعر برسات کے موسم کی بات کر رہے ہیں۔ اور برسات کے دوران اور برسات کے بعد پیش آنے والے منظر کی منظر کشی کر رہے ہیں۔ اس شعر میں شاعر کہتے ہیں کہ بارش کے ہوتے ہی جنگل بھی اپنے اوپر ہریالی سجا لیتا ہے اور پورا کا پورا جنگل بھی ہرا بھرا نظر آنے لگتا ہے۔ شاعر کہتے ہیں کہ پھول، پتے، جڑی بوٹی ہر چیز اپنے آپ کو بارش کے وقت دھو لیتی ہے اور صاف ستھری نظر آنے لگتی ہے۔ شاعر کہتے ہیں کہ بارش کے وقت بجلی چمکنے لگتی ہے اور بادل گرجتے ہیں اور یہ تمام چیزیں اللہ تعالی کی قدرت کے نقارہ بجا رہی ہوتی ہیں۔ پھر وہ اپنے دوستوں کو مخاطب کر کے کہتے ہیں کہ دیکھو یارو برسات کی کیا کیا بہاریں ہوتی ہیں۔

ہر جا بچھا رہا ہے سبزہ ہرے بچھونے
قدرت کے بچھ رہے ہیں ہر جا ہرے بچھونے
جنگلوں میں ہو رہے ہیں پیدا ہرے بچھونے
بچھوا دیے ہیں حق نے کیا کیا ہرے بچھونے
کیا کیا مچی ہیں یارو برسات کی بہاریں

اس نظم میں شاعر برسات کے موسم کی بات کر رہے ہیں۔ اور برسات کے دوران اور برسات کے بعد پیش آنے والے منظر کی منظر کشی کر رہے ہیں۔ اس شعر میں شاعر کہتے ہیں کہ ہر جانب سبزہ بچھا جا رہا ہے۔ اور قدرتی طور پر ہر طرف ہریالی چھا رہے ہیں۔ جنگل میں بھی ہر جانب بھاری بھاری چیزیں موجود ہیں، اور اللہ تعالی کی قدرت نے بارش کے بعد ہر جانب ہری بھری چیزیں آگا دی ہیں۔ پھر وہ اپنے دوستوں کو مخاطب کر کے کہتے ہیں کہ دیکھو یارو برسات کی کیا کیا بہاریں ہوتی ہیں۔

سبزوں کی لہلہاہٹ کچھ ابر کی سیاہی
اور چھا رہی گھٹائیں سرخ اور سفید کاہی
سب بھیگتے ہیں گھر گھر لے ماہ تا بماہی
یہ رنگ کون رنگے تیرے سوا الٰہی
کیا کیا مچی ہیں یارو برسات کی بہاریں

اس نظم میں شاعر برسات کے موسم کی بات کر رہے ہیں۔ اور برسات کے دوران اور برسات کے بعد پیش آنے والے منظر کی منظر کشی کر رہے ہیں۔ اس شعر میں شاعر کہتے ہیں کہ بارش کے دوران کھیت ہرے بھرے ہو جاتے ہیں اور بادل کالے ہو جاتے ہیں اور پھر بادلوں سے بارش کا پانی برسنے لگتا ہے۔ اور ہر جانب سرخ ، سفید اور کاہی رنگ کی گھٹائیں چھانے لگتی ہیں۔ اور پھر سب اس پانی میں بھیگتے ہیں ، شاعر کہتے ہیں کہ یہ تمام رنگ سوائے اللہ تعالی کے اور کون رنگ سکتا ہے، یعنی کہ یہ تمام رنگ اللہ تعالی کی قدرت کی نشانی ہے۔
پھر وہ اپنے دوستوں کو مخاطب کر کے کہتے ہیں کہ دیکھو یارو برسات کی کیا کیا بہاریں ہوتی ہیں۔

چھت گرنے کا کسی جا غل شور ہو رہا ہے
دیوار کا بھی دھڑکا کچھ ہوش کھو رہا ہے
در در حویلی والا ہر آن رو رہا ہے
مفلس سو جھوپڑے میں دل شاد سو رہا ہے
کیا کیا مچی ہیں یارو برسات کی بہاریں

اس نظم میں شاعر برسات کے موسم کی بات کر رہے ہیں۔ اور برسات کے دوران اور برسات کے بعد پیش آنے والے منظر کی منظر کشی کر رہے ہیں۔ اس شعر میں شاعر کہتے ہیں کہ بارش کی زیادتی کی وجہ سے چھت گرنے کا خطرہ بھی لاحق ہے اور کسی کو اس کے گھر کی دیوار گرنے کا خطرہ ہے۔ شاعر کہتا ہے کہ بارش کے ہوتے ہی امیر لوگوں کو یہ فکر لگ جاتی ہے کہ کہیں ان کا گھر اور ان کا سامان بارش کی وجہ سے خراب نہ ہو جائے، اور کہیں انہیں نقصان نہ اٹھانا پڑے۔ جبکہ اس کے برعکس وہ لوگ جو مفلس ہوتے ہیں، اپنے جھوپڑے میں آرام سے سوتے ہیں اور بارش کا مزہ لیتے ہیں۔ پھر شاعر اپنے دوستوں کو مخاطب کر کے کہتے ہیں کہ دیکھو یارو برسات کی کیا کیا بہاریں ہوتی ہیں۔

کیچڑ سے ہو رہی ہے جس جا زمیں پھسلنی
مشکل ہوئی ہے واں سے ہر اک کو راہ چلنی
پھسلا جو پاؤں پگڑی مشکل ہے پھر سنبھلنی
جوتی گری تو واں سے کیا تاب پھر نکلی
کیا کیا مچی ہیں یارو برسات کی بہاریں

اس نظم میں شاعر برسات کے موسم کی بات کر رہے ہیں۔ اور برسات کے دوران اور برسات کے بعد پیش آنے والے منظر کی منظر کشی کر رہے ہیں۔ اس شعر میں شاعر کہتے ہیں کہ بارش کی وجہ سے جو پانی کیچڑ میں تبدیل ہوگیا ہے وہاں سے زمین پھسل رہی ہے اور اس جگہ سے چلنے میں ہر انسان کو مشکل درپیش ہے۔ شاعر کہتے ہیں کہ اگر بارش کے پانی میں کسی کا پاؤں پھسل گیا اور وہ گر گیا تو اسے اپنی پگڑی سنبھالنا مشکل ہو جاتا ہے اور اس کا جوتا بھی وہیں کہیں گم ہو جاتا ہے۔
پھر شاعر اپنے دوستوں کو مخاطب کر کے کہتے ہیں کہ دیکھو یارو برسات کی کیا کیا بہاریں ہوتی ہیں۔

گر کر کسی کے کپڑے دلدل میں ہیں معطر
پھسلا کوئی کسی کا کیچڑ میں منہ گیا بھر
اک دو نہیں پھسلتے کچھ اس میں آن اکثر
ہوتے ہیں سیکڑوں کے سر نیچے پاؤں اوپر
کیا کیا مچی ہیں یارو برسات کی بہاریں

اس نظم میں شاعر برسات کے موسم کی بات کر رہے ہیں۔ اور برسات کے دوران اور برسات کے بعد پیش آنے والے منظر کی منظر کشی کر رہے ہیں۔ اس شعر میں شاعر کہتے ہیں کہ اگر کوئی بارش کے بعد گر جاتا ہے تو اس کے کپڑے پورے کیچڑ میں بھر جاتے ہیں اور کسی کا منہ کیچڑ والا ہو جاتا ہے۔ شاعر کہتے ہیں کہ بارش کے بعد لوگوں کے پھسلنے کا سلسلہ بہت بڑی تعداد میں نظر آتا ہے۔ اور ہزاروں لوگوں کے سر نیچے اور پاؤں اوپر نظر آتے ہیں یعنی وہ بارش کے پانی میں گر چکے ہوتے ہیں۔ پھر شاعر اپنے دوستوں کو مخاطب کر کے کہتے ہیں کہ دیکھو یارو برسات کی کیا کیا بہاریں ہوتی ہیں۔

سوال ۱ : نظم ” برسات کی بہاریں “ کے دوسرے اور پانچویں بند کی تشریح کیجیے :

بند نمبر ۲

بادل ہوا کے اوپر ہو مست چھا رہے ہیں
جھڑیوں کی مستیوں سے دھومیں مچا رہے ہیں
پڑتے ہیں پانی ہر جا جل تھل بنا رہے ہیں
گلزار بھیگتے ہیں سبزے نہا رہے ہیں
کیا کیا مچی ہیں یارو برسات کی بہاریں

اس نظم میں شاعر برسات کے موسم کی بات کر رہے ہیں اور برسات کے دوران اور برسات کے بعد پیش آنے والے منظر کی منظر کشی کر رہے ہیں۔ اس شعر میں شاعر کہتے ہیں کہ جب برسات کا موسم ہوتا ہے تو بادل جمع ہونا شروع ہو جاتے ہیں اور ہوا کے اوپر چھا جاتے ہیں، یعنی پورا آسمان بادلوں سے ڈھک جاتا ہے اور پھر ان بادلوں سے پانی بہنے لگتا ہے اور ہر جانب برسات کا موسم شروع ہو جاتا ہے۔ اس شعر میں شاعر کہتے ہیں کہ پانی ہر جگہ پڑتے ہی ہر جان جل تھل بن جاتی ہے۔ پھول اور باغات بھیگ جاتے ہیں اور کھیت بھی نہا رہے ہوتے ہیں۔ پھر وہ اپنے دوستوں کو مخاطب کر کے کہتے ہیں کہ دیکھو یارو برسات کی کیا کیا بہاریں ہوتی ہیں۔

بند نمبر ۵

سبزوں کی لہلہاہٹ کچھ ابر کی سیاہی
اور چھا رہی گھٹائیں سرخ اور سفید کاہی
سب بھیگتے ہیں گھر گھر لے ماہ تا بماہی
یہ رنگ کون رنگے تیرے سوا الٰہی
کیا کیا مچی ہیں یارو برسات کی بہاریں

اس نظم میں شاعر برسات کے موسم کی بات کر رہے ہیں۔ اور برسات کے دوران اور برسات کے بعد پیش آنے والے منظر کی منظر کشی کر رہے ہیں۔ اس شعر میں شاعر کہتے ہیں کہ بارش کے دوران کھیت ہرے بھرے ہو جاتے ہیں اور بادل کالے ہو جاتے ہیں اور پھر بادلوں سے بارش کا پانی برسنے لگتا ہے۔ اور ہر جانب سرخ ، سفید اور کاہی رنگ کی گھٹائیں چھانے لگتی ہیں۔ اور پھر سب اس پانی میں بھیگتے ہیں ، شاعر کہتے ہیں کہ یہ تمام رنگ سوائے اللہ تعالی کے اور کون رنگ سکتا ہے، یعنی کہ یہ تمام رنگ اللہ تعالی کی قدرت کی نشانی ہے۔
پھر وہ اپنے دوستوں کو مخاطب کر کے کہتے ہیں کہ دیکھو یارو برسات کی کیا کیا بہاریں ہوتی ہیں۔

سوال ۲ : مندرجہ ذیل کی وضاحت کیجیے :

جل تھل بنا رہے ہیں : بارش کا پانی جمع کررہے ہیں۔
اللہ کے نقارے نوبت کے : اللہ کی قدرت دکھا رہے ہیں۔
بوندوں کی جھمجھماوٹ : بوندوں کے گرنے کی آواز۔
دیوار کا بھی دھڑکا کچھ ہوش کھو رہا ہے : دیوار گرنے کا خطرہ لاحق ہورہا ہے۔
سر نیچے پاؤں اوپر : الٹا گر جانا۔

سوال ۳ : شاعر نے اس نظم میں برسات کی جو منظر کشی کی ہے وہ اپنے الفاظ میں لکھیے۔

جواب : اس نظم میں شاعر نے برسات کے موسم کی منظر کشی کی ہے کہ جب برسات کا موسم آتا ہے تو ہر جانب کالی گھٹائیں چھا جاتی ہیں اور ہر طرف خوشگوار فضا پھیل جاتی ہے۔ اس کے علاوہ بارش کے برستے ہی ہر جانب ہریالی پیدا ہوجاتی ہے۔ اور بارش کے پانی کی وجہ سے کہیں کہیں کیچڑ بھی بن جاتی ہے جہاں لوگوں کے گرنے کا سلسلہ جاری و ساری رہتا ہے۔ اس کے علاوہ شاعر یہ کہتے ہیں کہ بارش کی وجہ سے جنگل، پھول، جڑی بوٹیاں اور ہر شے دوبارہ ہری بھری اور خوبصورت ہو جاتی ہے۔

سوال ۴ : دو دوستوں کی باہمی گفتگو پر مکالمے کی شکل میں لکھیے جن میں سے ایک برسات کے موسم کو بہت پسند کرتا ہے اور دوسرا قطعی ناپسند۔

  • علی : السلام علیکم کیسے ہو؟
  • حماد : وعلیکم السلام ، الحمدللہ تم کیسے ہو؟ اندر آجاؤ ورنہ بارش میں بھیگ جاؤ گے اور بیمار ہوجاؤ گے۔
  • علی : میں بھی ٹھیک ہوں، اور میں اندر نہیں آرہا بلکہ میں تمھیں باہر بلانے آیا ہوں۔ دیکھو کتنی تیز بارش ہورہی ہے چلو ہم بھی سب کے ساتھ بارش میں بھیگتے ہیں۔
  • حماد : نہیں مجھے بارش نہیں پسند میں باہر نہیں آؤں گا۔
  • علی : تمھیں بارش نہیں پسند وہ کیوں؟
  • حماد : کیونکہ بارش کے پانی کی وجہ سے ہر طرف کیچڑ پھیل جاتی ہے اور پھر لوگوں کو اتنی مشکلات کا سامنا کرنا پڑتا ہے اور بجلی بھی بند ہوجاتی ہے۔
  • علی : لیکن بارش تو اللہ کی رحمت ہے اور یہ تمام مسائل تو انسانوں کی نااہلی کا نتیجہ ہیں۔
  • حماد : جو بھی ہے بس مجھے بارش نہیں پسند ہے۔
  • علی : لیکن بارش نہ ہو تو فصلیں کیسے اگیں گی اور ہمیں کھانے کو بھی پھر کچھ کیسے ملے گا۔
  • حماد : تمھاری بات بھی ٹھیک ہے لیکن اس پانی میں کرنٹ پھیلنے کی وجہ سے انسانی جانیں بھی چلی جاتی ہیں۔
  • علی : اس کا حل یہی ہے کہ انسان احتیاط سے کام لے اور اللہ کی رحمت سے لطف اندوز بھی ہو۔
  • حماد : بیشک۔

سوال ۵ : مخمس کس قسم کی نظم کو کہتے ہیں؟نظیر اکبر آبادی کی اس نظم کا شمار شاعری کی کس صنف میں ہوگا اور کیوں؟

جواب : مخمس نظم کو کہتے ہیں جس کے ایک بند میں 5 سطور موجود ہو۔ نظیر اکبر آبادی کی نظم کا شمار بھی صنف کے لحاظ سے مخمس میں ہو گا کیوں کہ اس نظم کے ہر بند میں ٥ سطور موجود ہیں۔

سوال ٦ : نظیر اکبر آبادی کی یہ نظم غور سے پڑھیے اور بتائیے کہ انھیں عوامی شاعر کہنا کہاں تک درست ہے؟

جواب : اس نظم کو پڑھنے کے بعد یہ بات واضح ہوجاتی ہے کہ نظیر اکبر آبادی کو عوامی شاعر کہنا بالکل درست ہے، کیونکہ انہوں نے اس نظم میں بالکل وہی منظر کشی کی ہے جو عام طور پر نظر آتی ہے۔ اور انہوں نے اس نظم میں ان مسائل کا ذکر بھی کیا ہے جو بارش برسنے کے بعد عام عوام کو درپیش ہوتے ہیں۔