نظم شکوہ کی تشریح

0

علامہ اقبال نے یہ نظم انجمن حمایت اسلام کے سالانہ جلسے میں پڑھی تھی جو اپریل 1909 میں منعقد ہوا تھا۔شفاء الملک حکیم محمد حسن صاحب قریشی جو اس جلسہ میں شریک تھے لکھتے ہیں کہ” جب ڈاکٹر صاحب نے اپنی سحر انگیز لے مین ندرت تخیل کے اس شاہکار کو پڑھنا شروع کیا تو سارا مجمع مسحور نظر آتا تھا۔ پروفیسر عبدالقادر سرحدی رقمطراز ہیں کہ شکوہ، جواب شکوہ، شمع اور شاعر، حضر راہ اور طلوع اسلام میں سے کسی نظم کا جواب اردو میں نہیں ہے۔

نظم شکوہ میں جس شاعرانہ انداز سے مسلمانوں کی پستی کا گلہ خدا سے کیا گیا ہے اور شکوہ میں ابھرنے کی جو ترکیب بتائی گئی ہے اس نے الہام ربانی کی شان نظر آتی ہے۔واضح ہو کہ نظم شکوہ اپنی نوعیت کے لحاظ سے اردو ادب میں ایک انوکھی چیز ہے۔ندرت تخیل کے علاوہ اس میں حقیقت نگاری اور شاعرانہ مصوری کی شان بھی بدرجہ اتم موجود ہے۔اس لفظ میں اقبال نے لفظوں کے ذریعے سے مسلمانوں کی تاریخ کی تصویر کھینچی ہے اور تخیل کے مو قلم سے اس میں ایسی رنگ آمیزی کی ہے کہ حقیقت مجسم سامنے آ جاتی ہے۔ان سب خوبیوں کے ساتھ شکوہ کی زبان اس قدر دلکش ہے اور اشعار کی سلاست اور روانی کا یہ عالم ہے کہ پڑھنے والے پر محویت کا عالم طاری ہو جاتا ہے۔استعارہ، تشبیہ اور رمز و کنایہ کا تذکرہ ضروری نہیں ہے کیونکہ یہ تو وہ خصوصیات ہیں جو بانگ درا کی تمام نظموں میں پائی جاتی ہیں۔اب اس نظم کی تشریح بترتیب بند ملاحظہ ہو۔

نظم شکوہ کی لیرکس پڑھنے کے لیے یہاں کلک کریں!

(١)پہلا بند


پہلے بند میں شاعر نے تمہید اٹھائی ہے کہ آخر میں کب تک یونہی خاموش بیٹھا ہوا اپنی بربادی کا تماشہ دیکھتا رہوں۔کب تک اپنے مستقبل سے غافل رہوں۔ جب تک مجھے گویائی کی قوت حاصل ہے تو پھر اللہ تعالی کو اپنی رودادِ غم کیوں نہ سناؤں۔

(٢) دوسرا بند


اے خدا! یہ سچ ہے کہ تسلیم و رضا ایک مسلمان کا شیوہ ہے لیکن میرے دل میں اس قدر شدید درد ہے کہ میں صبر نہیں کر سکتا اس لیے کہ اگر میں تیری بارگاہ میں اپنے درد کا قصہ بیان کرتا ہوں تو مجھے معذور سمجھ کر معاف کردے اور اپنے عاجز بندے سے جو حمد و ثنا کا عادی ہے تھوڑا سا گلہ بھی سن لے۔

(٣) تیسرا بند


یہ سچ ہے کہ تو اپنی ذات کے اعتبار سے قدیم ہے۔ یعنی ایک زمانہ ایسا بھی تھا جب تو موجود تھا،مگر تیری صفات کی جلوہ گری نہیں ہوئی تھی یعنی یہ کائنات نہ تھی۔اب تو خود انصاف کر کہ اگر مسلمان نہ ہوتے تو تیری صفات کا علم دنیا والوں کو کیسے ہوتا۔پس مسلمانوں نے دنیا والوں کو تیرے نام سے اور تیری صفات سے آگاہ کیا۔ ہم نے ساری دنیا میں تیرے نام کو بلند کیا اور اس سلسلہ میں ہم نے جس قدر کوشش کی یہ ہمارے لئے راحتِ خاطر کا باعث تھی ورنہ تیرے محبوب کی امت دیوانی تو نہیں تھی کہ اس نے بلاوجہ ساری دنیا کو اپنا دشمن بنایا۔
نوٹ: واضح ہو کے توحید اسلام دراصل دنیائے کفر کے خلاف اعلان جنگ ہے اس لئے جب مسلمانوں نے توحید کا علم بلند کیا تو ساری دنیا ان کی دشمن ہوگی،چناچہ سلطان نور الدین زنگی اور سلطان صلاح الدین ایوبی اور مولانا اسماعیل شہید کی زندگی میرے دعوے پر شاہد ہے۔

(٤) چوتھا بند


اب شاعر خود اپنے دعوے پر دلیل پیش کرتا ہے اور کہتا ہے کہ اے خدایا ہم (اسلام سے پہلے تیرے بندوں کی یہ حالت تھی کہ وہ) پتھروں اور درختوں کو خدا یقین کرتے تھے چونکہ انسان پیکر محسوس کی پرستش کا عادی ہوچکا تھا اس لئے وہ تجھ کو،کہ تو آنکھ سے نظر نہیں آتا، کیسے اپنا معبود بنا سکتا تھا تجھے خوب معلوم ہے کہ ہمارے وجود سے پہلے چین سے لے کر مراکو تک کوئی شخص تیرا نام لیا نہیں کرتا تھا، مسلمانوں نے اپنی جان ہتھیلی پر رکھ کر تیرے نام کو دنیا میں بلند کیا یعنی بنی آدم کو توحید سے روشناس کیا۔

(٥) پانچواں بند


ہم سے پہلے تیری دنیا میں بہت سی قومیں آباد تھیں۔سلجوقی، ایرانی، چینی، یونانی، یہودی، مجوسی اور نصرانی، لیکن ان میں سے کسی نے بھی تیرے نام کو بلند کرنے کے لئے اپنی جانیں قربان نہیں کیں،مسلمانوں نے ہی توحید کو دنیا میں قائم کیا ہے۔

(٦) چھٹا بند


وہ مسلمان ہی تھے جنھوں نے تیری عظمت دنیا میں قائم کرنے کے لیے ساری دنیا سے لڑائی مول لی۔ خوشکی میں بھی لڑے اور تری میں بھی، کبھی یورپ سے برسرپیکار ہوئے تو کبھی افریقہ سے۔ہم نے دنیا کے تمام بادشاہوں کا مقابلہ کیا اور ان کو زیر کرکے توحید کا پرچم بلند کیا۔

(٧) ساتواں بند


ہم اگر جیتے تھے تو تیری راہ میں جہاد کرنے کے لیے اور مرتے تھے تو تیرے نام کو دنیا میں بلند کرنے کے لیے۔ہم نے کبھی مال و دولت یا حکومت کے لئے جہاد نہیں کیا۔اگر مسلمان مال و دولت کے تمنائی ہوتے تو بت شکنی کے بجائے بت فروشی کرتے لیکن تاریخ گواہ ہے کہ محمود غزنوی بت شکن تھا بت فروش نہ تھا۔

(٨) آٹھواں بند


ہم جب میدان جنگ میں سر سے کفن باندھ کر آتے تھے تو دنیا کی کوئی طاقت ہمیں مغلوب یامرغوب نہیں کر سکتی تھی۔کیا یہ تاریخی واقعہ نہیں ہے کہ جنگ موتہ میں تین ہزار مسلمانوں نے ایک لاکھ رومیوں کا مقابلہ کیا تھا،ہم ہر اس قوم سے لڑنے کے لیے سربکف رہتے تھے جو تجھ سے سرکشی کرتی تھی، زیر خنجر بھی ہم نے توحید کا پیغام دنیا کو سنایا۔

(٩) نواں بند


وہ مسلمان ہی تھے جنھوں نے خیبر کا دروازہ اکھاڑ پھینکا تھا،قسطنطنیہ کو فتح کیا،بت خانوں کی اینٹ سے اینٹ بجادی اور کفار کے لشکر کاٹ کر رکھ دیے، ایران کے آتشکدہ کو ٹھنڈا کردیا اور تیرے نام کو زندہ کر دیا۔

(١٠) دسواں بند


مسلمانوں کے علاوہ اور کس قوم نے تجھ سے محبت کی؟ کس قوم نے تیرے اور تیرے رسولﷺ کی عزت کے لیے اپنا خون پانی کی طرح بہایا؟کس قوم کی تکبیروں سے دنیا میں توحید کا نور پھیلا؟ بتوں کے پوجنے والے کس قوم کی ہیبت سے لرزہ براندام رہتے تھے.؟

(١١) گیارہواں بند


عین جنگ کی حالت میں بھی جس وقت نماز کا وقت آجاتا تھا تو ہم قبلہ رح ہو کر تیری بارگاہ میں حاضر ہو جاتے تھے،اور ہماری مساوات کا یہ عالم تھا کہ اس وقت محمودوایاز یعنی آقا اور غلام ایک ہی صف میں کھڑے ہوتے تھے۔

(١٢) بارہواں بند


ہم نے دنیا میں مشرق سے لے کر مغرب تک تیرے نام کا ڈنکا بجا دیا،ہم نے ساری دنیا کو تیرا پیغام سنایا اور تو جانتا ہے کہ ہم کو اس مقصد میں کبھی ناکامی نہیں ہوئی، ہم کسی قوم سے مرعوب نہیں ہوئے،خوشکی کا تو ذکر ہی کیا ہے ہم نے سمندر عبور کرکے تیرا پیغام دنیا کو سنایا اور ہم عرب سے جو نکلے تو بحرظلمات تک توحید کا پرچم اڑاتے چلے گئے۔

(١٣) تیرہواں بند


ہم نے دنیا سے کفر کو مٹا دیا اور بنی آدم کو ہر قسم کی خامی سے آزادی عطا کی،ہم نے تیرے کعبہ کی حفاظت کی اسے آباد کیا اور تیرے پاک کلام کو ہمیشہ سینے سے لگایا،اس کے باوجود تو ہم سے ناراض ہے اور تجھے ہم سے یہ شکایت ہے کہ ہم بے وفا ہیں!

(١٤) چودہواں بند


ہمارے علاوہ اس دنیا میں دوسری قومیں بھی آباد ہیں۔ ان میں نیک بھی ہیں اور بد بھی،باعمل بھی ہیں اور بہت سے لوگ تیرے منکر بھی ہیں۔اس کے باوجود تو ان پر مہربان ہے لیکن مسلمان تیری نظر کرم سے محروم ہیں۔

(١٥) پندرہواں بند


آج مسلمانوں کی پستی کی یہ حالت ہے کہ بت خانوں میں بپ پرست خوشی کے لہجے میں یہ کہتے ہیں کہ مسلمان بہت جلد صفحۂ ہستی سے مٹ جائیں گے،اور ان کے بعد دنیا میں کوئی بھی شخص نہ مکہ جائے گا نہ مدینہ اور نہ دنیا میں کوئی قرآن مجید کا نام لے گا۔اے خدا! آج کافر ہم پر طنز کے تیر برسا رہے ہیں اور اسلام کی ہنسی اڑا رہے ہیں! کیا تجھے اپنی توحید کی بقاء کا اب کوئی خیال نہیں ہے؟ کیا تو یہ پسند کرے گا کہ کفر اسلام پر غالب آجائے؟

(١٦) سولہواں بند


مجھے یہ شکایت نہیں کہ غیرمسلم دولت مند کیوں ہیں؟افسوس صرف یہ ہے کہ ان کو ساری نعمتیں حاصل ہیں اور مسلمانوں سے صرف یہ وعدہ ہے کہ مرنے کے بعد جنت ملے گی، یہ بات کیا ہے کہ اب تو ہم پر زمانہ سابق کی طرح مہربان نہیں ہے۔

(١٧) سترہواں بند


آج مسلمان سب قوموں سے زیادہ مفلس اور نادار ہیں حالانکہ تو قادر مطلق ہے اور تیرے خزانے میں کسی چیز کی کمی نہیں۔ اگر تو چاہے تو ریگستان کو سمندر میں تبدیل کر سکتا ہے۔آج ہم غیروں کے طعنے سن رہے ہیں، رسوا ہیں، نادار ہیں۔ یا خدا! کیا مسلمان ہونے کا صلہ یہ ہے کہ ہم دنیا کی نظروں میں ذلیل ہو جائیں؟

(١٨) اٹھارہواں بند


اے خدا اس وقت حالت یہ ہے کہ دنیا اور اس کی دولت تو اغیار کے قبضہ میں ہے۔ مسلمان صرف خیالی دنیا میں رہتے ہیں تیری دنیا پر انہیں کوئی اقتدار حاصل نہیں ہے،اے خدا ہم تو اس لیے دنیا میں رہنا چاہتے ہیں کہ توحید قائم رہے اور تیرا نام زندہ رہے لیکن یہ تو نا ممکن ہے کہ مسلمانوں کے فنا ہوجانے کے بعد تیرا نام باقی رہے۔
نوٹ: اس میں اشارہ ہے کہ حضور اکرم صلی اللہ تعالی علیہ وسلم کے ان الفاظ کی طرف جو جنگ بدر کے موقع پر آپﷺ کی زبان مبارک سے نکلے تھے”اے خدا اگر یہ مٹھی بھر جماعت آج فنا ہوگی تو پھر تو قیامت تک نہ پوجا جا سکے گا”

(١٩) انیسواں بند


اے خدا آج یہ کیفیت ہے کہ مسلمان ہر جگہ ذلیل و خوار ہیں اور جو لوگ تیرے نام پر سر کٹانے کے لئے تیار رہتے تھے رفتہ رفتہ ختم ہو رہے ہیں،انہوں نے اگر تجھ سے محبت کی تو اسکا صلہ بھی انہیں مل گیا۔ انہوں نے تیرے نام پر سر کٹایا ،تو نے ان سے جنت کا وعدہ کیا اور ہنستے ہوئے رخصت ہوگئے لیکن اب ان لوگوں سے تیری محفل خالی ہوچکی ہے۔

(٢٠) بیسواں بند

اے خدا! اسلام کی خوبیاں بدستور موجود ہیں اور مسلمانوں کی اسلام سے محبت بھی برقرار ہے۔حج کعبہ کا سلسلہ بھی اسی طرح جاری ہے، مسلمانوں کے جذبات عاشقی اسی طرح زندہ ہیں، اسلام کی دلکشی بھی بدستور قائم ہے،ہم بھی وہی ہیں جو تھے اور تو بھی وہی ہے جو تھا،پھر یہ اس ناراضگی کا سبب کیا ہے؟

(٢١) اکیسواں بند


اے خدا! تو ہی بتا آخر ہم نے کیا قصور کیا ہے؟ تجھ کو بھلا دیا؟ تیرے رسولﷺ کو فراموش کر دیا؟ بت پرستی اختیارکرلی؟ سرور دو عالمﷺ سے محبت ترک کر دی؟حضرت سلیمان اور حضرت اویس کی تقلید ترک کردی؟ حقیقت یہ ہے کہ ہم تو اب بھی توحید کی آگ اپنے سینوں میں پوشیدہ رکھتے ہیں اور حضرت بلال کی طرح تیرے نام پر سختیاں جھیلنے کے لیے تیار ہیں۔

(٢٢) بائیسواں بند


یہ مانا کہ ہم عشق و محبت میں اسلاف یعنی اگلوں کا مقابلہ نہیں کرسکتے اور ہمارے اندر تسلیم ورضا بھی نہیں ہے جو ان بزرگوں میں پایا جاتا تھا اور ہم اس حد تک اسلام کے پابند اور شریعت کے وفادار نہیں۔لیکن گستاخی معاف ہو “کبھی ہم سے کبھی غیروں سے شناسائی ہے” یہ بات ہماری سمجھ میں تو آئی نہیں۔

(٢٣) تئیسواں بند


یہ حقیقت ہے کہ اسلام کا آفتاب کوہ فاراں کی چوٹیوں سے طلوع ہوا اور تو نے اس دین کو کامل کر دیا.چناچہ ہزاروں لاکھوں آدمی اسلام کی خوبیوں کو دیکھ کر حضور اکرمﷺ کی غلامی میں داخل ہوگئی اور حضور اقدس صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کے دل میں تیری محبت کی آگ روشن کردی۔چناچہ ان بزرگوں نے اس آگ کی بدولت اس دنیا کو اسلام کا گرویدہ بنا دیا لیکن ہم بھی تو انھیں مسلمانوں کی اولاد میں سے ہیں، پھر ہمارے اندر آگ کیوں سرد ہوگئی ہے؟

(٢٤) چوبیسواں بند


اب مسلمانوں میں عشق رسولﷺ کا وہ جذبہ نظر نہیں آتا، مسلمان اسلام پر دیوانہ وار نثار نہیں ہوتے، اب مسلمانوں کو اسلام سے وہ محبت باقی نہیں رہی۔حقیقت تو یہ ہے کہ اب نہ ہمارے اندر وہ حوصلہ ہے نہ ہمت ہے۔آخر کیا بات ہے؟ کاش تو پھر ہم پر ایک نگاہ کرم کرے اور پھر ہماری محفل میں تشریف فرما ہو۔

(٢٥) پچیسواں بند


اے خدا! آج یہ حالت ہے کہ اغیار عیش و عشرت کی زندگی بسر کر رہے ہیں، دنیا کی نعمتوں سے لطف اندوز ہو رہے ہیں، ان کی محفل عیش سے بہت دور سمٹے سمٹائے کچھ فاقہ مست مسلمان بیٹھے ہیں اور تیری نگاہِ کرم کے منتظر ہیں۔ اے خدا! تو ہم پر اپنا فضل نازل کر اور ہمارے دلوں میں پھر اپنی محبت کی آگ روشن کردے۔

(٢٦) چھبیسواں بند


اے خدا! مسلمان قوم اپنی غلطی پر نادم ہے. اب پھر تیری طرف جھک رہی ہے اگرچہ قوم ‘بے پر’ ‘بے زر’ ہے لیکن اس میں پرواز ترقی کا جذبہ موجود ہے۔قوم کے ہر فرد کے دل میں عشق رسولﷺ کا جذبہ کارفرما ہے۔ بس تیری اک نگاہِ کرم کی دیر ہے مسلمان پھر دنیا پر غالب آ سکتے ہیں،مسلمان پھر تیری راہ میں سر کٹانے کے لیے تیار ہوسکتے ہیں، پوری قوم تیری راہ میں سر فروشی کیلئے آمادہ ہے۔

(٢٧) ستائیسواں بند


اے خدا! ہماری مصیبتوں کو دور کردے! ہمیں جو کہ اس وقت بہت مفلس اور حقیر ہیں پھر سلیمان کا ہم مرتبہ بنا دے! ہمارے دلوں میں عشق رسولﷺ کی آگ بھڑکا دے! ہم ہندی مسلمانوں کو، جو کے نام کے مسلمان ہیں سچا مسلمان بنا دے۔

(٢٨) اٹھائیسواں بند


اب شاعر اپنے دل سے باتیں کرتا ہے کہ افسوس! مسلمانوں نے خود غیروں کو قوم کی کمزوریوں سے آگاہ کردیا،میر جعفر اور میر صادق نے مسلمان ہوکر اسلام کو ضعف پہنچایا ان غداروں اور منافقوں کی بدولت چمن برباد ہوگیا، سلطنت ختم ہوگئی، قوم غلام بن گئی اور اسلام کے شیدائی١٨٥٨ء میں ایک ایک کرکے قوم پر نثار ہو گئے۔بس سارے باغ میں ایک بلبل یعنی اقبال کی ذات رہ گئی ہے جو نغمہ پروازی کر رہی ہے اور اس کے سینے میں ابھی تک جذبات کی شدت موجود ہے۔

(٢٩) انتیسواں بند


اگرچہ قوم کے اکثر رہنماؤں نے خدمت قوم کے بجائے ‘خدمت سرکار’ کو اپنا شعار بنا لیا اور لیڈروں کی اس خودغرضی اور ضمیر فروشی کا نتیجہ یہ نکلا کہ قوم کے افراد تباہ ہوگئے. مسلمانوں کی تہذیب اور معاشرت سب ختم ہوگی (باغ کی پرانی روشیں وران ہوگئیں)

(٣٠) تیسواں بند


چونکہ قوم مردہ ہوچکی ہے یعنی احساس سے عاری ہو چکی ہے اس لیے نہ جینے میں لطف ہے نہ مرنے میں کوئی مزہ ہے۔ بس دن رات خون جگر پیتا ہوں اور قوم کی بے حسی پر نوحہ خوانی کرتا رہتا ہوں۔میرے سینہ میں سینکڑوں جذبات اور خیالات ہیں جو ظہور کے لئے بے تاب ہے لیکن افسوس! قوم میں ان کے قدر دان موجود ہی نہیں۔اگر قوم کے دل میں ملت کا درد ہوتا تو وہ کسی درد مند کے جذبات کو سمجھ سکتی تھی۔

(٣١) اکتیسواں بند


اے خدا! میں تجھ سے دعا کرتا ہوں کہ میرے کلام میں ایسی تاثیر پیدا کر دے کہ مسلمانوں کے قلوب اس کے مطالعہ سے متاثر ہو سکیں اور ان کے اندر احساس زیاں پیدا ہوجائے تاکہ وہ تجھ سے دوبارہ پیمان وفا باندھ سکیں اور پھر اسلام اور قرآن مجید کی محبت ان کے دلوں میں موجزن ہو اور انہی دونوں کو زندگی کا لائحہ عمل بنا لیں۔ آمین۔
اگر میں نے اپنا پیغام شعر کی صورت میں پیش کیا ہے تو کیا مضائقہ ہے۔ پیغام کی روح تو قرآن مجید سے ماخوذ ہے (عجمی خم ہے تو کیا مے تو حجازی ہے میری) اگر میں نے اردو زبان میں شاعری کی ہے تو کیا ہوا مضامین اور خیالات کو اسلامی ہیں (نغمہ ہندی ہے تو کیا لے تو حجازی ہے میری).