شمع اور شاعر

0

(١) پہلا بند

  • دوش می گفتم بہ شمع منزل ویران خویش
  • گیسوۓ تو از پر پروانہ دارد شانۂ
  • درجہاں مثل چراغ لالہ صحراستم
  • نے نصیب محفلے نے قسمت کاشانۂ
  • مدتے مانند تو من ہم نفس می سوختم
  • در طواف شعلہ ام بالے نہ رد پروانۂ
  • می طپد صد جلوہ در جان امل فرسود من
  • برن میں خیر دازیں محفل دل دیوانۂ
  • از کجا ایں آتش عالم فروز اندوختی
  • کرمک بے مایہ را سوز کلیم آموختی

(٢) دوسرا بند

  • مجھ کو جو موج نفس دیتی ہے پیغام اجل
  • لب اسی موج نفس سے ہے نوا پیرا ترا
  • میں تو جلتی ہوں کہ ہے مضمر مری فطرت میں سوز
  • تو فروزاں ہے کہ پروانوں کو ہو سودا ترا
  • گریہ ساماں میں کہ میرے دل میں ہے طوفان اشک
  • شبنم افشاں تو، کہ بزمِ گل میں ہو چرچا ترا
  • گل بداماں ہے مری شب کے لہو سے مری صبح
  • ہیں تیرے امروز سے نا آشنا فردا ترا
  • یوں تو روشن ہے مگر سوز دروں رکھتا نہیں
  • شعلۂ مثل چراغاں لال ۂ صحرا ترا
  • سوچ تو دل میں لقب ساقی کا ہے زیبا تجھے
  • انجمن پیاسی ہے اور پیمانہ بے صہبا ترا
  • اور ہے تیرا اشعار آئین ملت اور ہے
  • زشت روئی سے تری آئینہ ہے رسوا ترا
  • کعبہ پہلو میں ہے اور سودائی بت خانہ میں ہے
  • کس قدر شوریدہ سر ہے شوق بے پروا ترا
  • قیس پیدا ہوں تری محفل میں یہ ممکن نہیں
  • تنگ ہے صحرا ترا،مہمل ہے بے لیلا ترا
  • اے در تابندہ! اے پروردۂ آغوشِ موج
  • لذت طوفاں سے ہے نا آشنا دریا ترا
  • اب نوا پیرا ہے کیا؟ گلشن ہوا برہم ترا
  • بے محل تیرا ترنم، نغمہ بے موسم ترا

(٣) تیسرا بند

  • تھا جنہیں ذوق تماشا وہ تو رخصت ہو گئے
  • لے کے اب تو وعدۂ دیدار عام آیا تو کیا
  • انجمن سے وہ پرانے شعلہ آشام اٹھ گئے
  • ساقیا! محفل میں تو آتش بجام آیا تو کیا
  • آہ! جب گلشن کی جمعیت پریشاں ہو چکی
  • پھول کو باد بہاری کا پیام آیا تو کیا
  • آخر شب دید کے قابل تھی بسمل کی تڑپ
  • صبحدم کوئی اگر بالائے بام آیا تو کیا
  • بجھ گیا وہ شعلہ جو مقصودِ ہر پروانہ تھا
  • اب کوئی سودائی سوز ناتمام آیا تو کیا
  • پھول بے پروا ہیں، تو گرم نوا ہو یا نہ ہو
  • کارواں بے حس ہے، آواز درا ہو یا نہ ہو

(٤) چوتھا بند

  • شمعِ محفل ہو کے جب تو سوز سے خالی رہا
  • تیرے پروانے بھی اس لذت سے بیگانہ رہے
  • رشتۂ الفت میں جب ان کو پرو سکتا تھا تو
  • پر پریشان کیوں تری تسبیح کے دانے رہے
  • شوق بے پرواہ گیا، فکر فلک پیما گیا
  • تیری محفل میں نہ دیوانے نہ فرزانے رہے
  • وہ جگر سوزی نہیں وہ شعلہ آشامی نہیں
  • فائدہ پھر کیا جو گرد شمع پروانے رہے
  • خیر تو ساقی سہی، لیکن پلائے گا کسے
  • اب نہ وہ مے کش رہے باقی نہ مے خانے رہے
  • رو رہی ہے آج ایک ٹوٹی ہوئی مینا اسے
  • کل تلک گردش میں جس ساقی کے پیمانے رہے
  • آج ہیں خاموش وہ دشت جنوں پرور جہاں
  • رقص میں لیلا رہی، لیلا کے دیوانے رہے
  • کارواں کے دل سے احساسِ زیاں جاتا رہا
  • وائے ناکامی متاعِ کارواں جاتا رہا

(٥) پانچواں بند

  • جن کے ہنگاموں سے تھے آباد ویرانے کبھی
  • شہر ان کے مٹ گئے آبادیاں بن ہو گئیں
  • سطوت توحید قائم جن نمازوں سے ہوئی
  • وہ نمازیں ہند میں نذر برہمن ہو گئیں
  • دہر میں عیش دوام آئین کی پابندی سے ہے
  • موج کو آزادیاں سامانِ شیون ہو گئیں
  • خود تجلی کو تمنا جن کے نظاروں کی تھی
  • وہ نگاہیں نا امید نور ایمن ہوگئیں
  • اڑتی پھرتی تھیں ہزاروں بلبلیں گلزار میں
  • دل میں کیا آئی کہ پابند نشیمن ہو گئیں
  • وسعت گردوں میں تھی ان کی تڑپ نظارہ سوز
  • بجلیاں آسودۂ دامانِ خرمن ہوگئیں
  • دیدۂ خونبار ہو منت کشِ گلزار کیوں
  • اشک پیہم سے نگاہیں گل بدامن ہو گئیں
  • شام غم لیکن خبر دیتی ہے صبحِ عید کی
  • ظلمت شب میں نظر آئی کرن امید کی

(٦) چھٹا بند

  • مژدہ اے پیمانہ بردار خمستان حجاز
  • بعد مدت کے ترے رندوں کو پھر آیا ہے ہوش
  • نقد خودداری بہائے بادۂ اغیار تھی
  • پھر دکاں تیری ہے لبریز صدائے ناؤ نوش
  • ٹوٹنے کو ہے طلسم ماہ سیمایان ہند
  • پھر سلیمی کی نظر دیتی ہے پیغامِ خروش
  • پھر یہ غوغا ہے کہ لاساقی شراب خانہ ساز
  • دل کے ہنگامے مۓ مغرب نے کر ڈالے خموش
  • نغمہ پیرا ہو کہ یہ ہنگام خاموشی نہیں
  • ہے سحر کا آسماں خورشید سے مینا بدوش
  • “در غم دیگر بسوز و دیگراں را ہم بسوز
  • گفتمت روشن حدیثے گر توانی دار گوش”
  • کہہ گئے ہیں شاعری جزو یست از پیغمبری
  • ہاں سنا دے محفلِ ملت کو پیغام سروش
  • آنکھ کو بیدار کر دے وعدۂ دیدار سے
  • زندہ کر دے دل کو سوز جوہر گفتار سے

(٧) ساتواں بند

  • رہزن ہمت ہوا ذوق تن آسانی ترا
  • بحر تھا صحرا میں تو، گلشن میں مثل جو ہوا
  • اپنی اصلیت پہ قائم تھا تو جمعیت بھی تھی
  • چھوڑ کر گل کو پریشاں کاروان بو ہوا
  • زندگی قطرے کی سکھلاتی ہے اسرار حیات
  • یہ کبھی گوہر، کبھی شبنم، کبھی آنسو ہوا
  • پھر کہیں سے اس کو پیدا کر بڑی دولت ہے یہ
  • زندگی کیسی جو دل بیگانہء پہلو ہوا
  • آبرو باقی تری ملت کی جمعیت سے تھی
  • جب یہ جمعیت گئی دنیا میں رسوا تو ہوا
  • فرد قائم ربط ملت سے ہے تنہا کچھ نہیں
  • موج ہے دریا میں اور بیرونِ دریا کچھ نہیں

(٨) آٹھواں بند

  • پردۂ دل میں محبت کو ابھی مستور رکھ
  • یعنی اپنی مے کو رسوا صورت مینا نہ کر
  • خیمہ زن ہو وادئ سینا میں مانند کلیم
  • شعلہ تحقیق کو غارت گر کاشانہ کر
  • شمع کو بھی ہو ذرا معلوم انجام ستم
  • صرف تعمیر سحر خاکستر پروانہ کر
  • تو اگر خود دار ہے منت کشِ ساقی نہ ہو
  • عین دریا میں حباب آسا نگوں پیمانہ کر
  • کیفیت باقی پرانے کوہ و صحرا میں نہیں
  • ہے جنوں تیرا نیا پیدا نیا ویرانہ کر
  • خاک میں تجھ کو مقدر نے ملایا ہے اگر
  • تو عصا افتاد سے پیدا مثال دانہ کر
  • ہاں! اسی شاخ کہن پر پھر بنالے اشیاں
  • اہل گلشن کو شہید نغمہ مستانہ کر
  • اس چمن میں پیرو بلبل ہو یا تلمیذ گل
  • یا سراپا نالہ بن جاتا یا نوا پیدا نہ کر
  • کیوں چمن میں بے صدا مثل رم شبنم ہے تو
  • لب کشا ہوجا سرور سرود بربط عالم ہے تو

(٩) نواں بند

  • آشنا اپنی حقیقت سے ہو اے دہقاں ذرا
  • دان تو، کھیتی بھی تو، بارہ بھی تو،حاصل بھی تو
  • آہ کس کی جستجو آوارہ رکھتی ہے تجھے؟
  • راہ تو، رہرو بھی تو، رہبر بھی تو، منزل بھی تو
  • کانپتا ہے دل تیرا اندیشۂ طوفاں سے کیا
  • ناخدا تو، بحر تو، کشتی بھی تو، ساحل بھی تو
  • دیکھ آکر کوچۂ چاک گریباں میں کبھی
  • قیس تو لیلا بھی تو، صحرا بھی تو، محمل بھی تو
  • دائے نادانی کہ تو محتاج ساقی ہو گیا
  • مے بھی تو، مینا بھی تو، ساقی بھی تو، محفل بھی تو
  • شعلہ بن کر پھونک دے خاشاک غیر اللہ کو
  • خوف باطل کیا کہ ہے غارت گر باطل بھی تو
  • بے خبر تو جوہر آئینہ ایام ہے
  • تو زمانے میں خدا کا آخری پیغام ہے

(١٠) دسواں بند

  • اپنی اصلیت سے ہو آگاہ اے غافل کہ تو
  • قطرہ ہے، لیکن مثال ہجر بے پایاں بھی ہے
  • کیوں گرفتار طلسم ہیچ مقداری ہے تو
  • دیکھ تو پوشیدہ تجھ میں شوکتِ طوفاں بھی ہے
  • سینہ ہے تیرا امیں اس کے پیام ناز کا
  • جو نظامِ دہر میں پیدا بھی ہے پنہا بھی ہے
  • ہفت کشور جس سے ہو تسخیر بے تیغ و تفنگ
  • تو اگر سمجھے تو تیرے پاس وہ ساماں بھی ہے
  • اب تلک شاہد ہے جس پر کوہ فاراں کا سکوت
  • اے تغافل پیشہ! تجھ کو یاد وہ پیماں بھی ہے
  • تو ہی نادان چند کلیوں پر قناعت کر گیا
  • ورنہ گلشن میں علاجِ تنگی داماں بھی ہے
  • دل کی کیفیت ہے پیدا پردۂ تقریر میں
  • کسوت مینا میں مے مستور بھی عریاں بھی ہے
  • پھونک ڈالا ہے مری آتش نوائی نے مجھے
  • اورمیری زندگانی کا یہی ساماں بھی ہے
  • راز اس آتش نوائی کا مرے سینے میں دیکھ
  • جلوۂ تقدیر میرے دل کے آئینے میں دیکھ

(١١) گیارواں بند

  • آسماں ہوگا سحر کے نور سے آئینہ پوش
  • اور ظلمت رات کی سیماب پا ہو جائے گی
  • اس قدر ہوگی ترنم آفریں باد بہار
  • نکہت خوابیدہ غنچے کی نوا ہو جائے گی
  • آ ملیں گے سینہ چاکان چمن سے سینہ چاک
  • بزم گل کی ہم نفس باد صبا ہو جائے گی
  • شبنم افشانی مری پیدا کرے گی سوز و ساز
  • اس چمن کی ہر کلی درد آشنا ہو جائے گی
  • دیکھ لو گے سطوت رفتار دریا کا مآل
  • موج مضطر ہی اسے زنجیر پا ہو جائے گی
  • پھر دلوں کو یاد آ جائے گا پیغام سجود
  • پھر جبیں خاک حرم سے آشنا ہو جائے گی
  • نالہ اس صیاد سے ہوں گے نوا ساماں طیور
  • خون گلچیں سے کلی رنگیں قبا ہو جائے گی
  • آنکھ جو کچھ دیکھتی ہے لب پہ آ سکتا نہیں
  • محو حیرت ہوں کہ دنیا کیا سے کیا ہوجائے گی
  • شب گریزاں ہوگی آخر جلوہ خورشید سے
  • یہ چمن معمور ہوگا نغمۂ توحید سے