Back to: Allama Iqbal 2 Lines Poetry
(١) پہلا بند
- دوش می گفتم بہ شمع منزل ویران خویش
- گیسوۓ تو از پر پروانہ دارد شانۂ
- درجہاں مثل چراغ لالہ صحراستم
- نے نصیب محفلے نے قسمت کاشانۂ
- مدتے مانند تو من ہم نفس می سوختم
- در طواف شعلہ ام بالے نہ رد پروانۂ
- می طپد صد جلوہ در جان امل فرسود من
- برن میں خیر دازیں محفل دل دیوانۂ
- از کجا ایں آتش عالم فروز اندوختی
- کرمک بے مایہ را سوز کلیم آموختی
(٢) دوسرا بند
- مجھ کو جو موج نفس دیتی ہے پیغام اجل
- لب اسی موج نفس سے ہے نوا پیرا ترا
- میں تو جلتی ہوں کہ ہے مضمر مری فطرت میں سوز
- تو فروزاں ہے کہ پروانوں کو ہو سودا ترا
- گریہ ساماں میں کہ میرے دل میں ہے طوفان اشک
- شبنم افشاں تو، کہ بزمِ گل میں ہو چرچا ترا
- گل بداماں ہے مری شب کے لہو سے مری صبح
- ہیں تیرے امروز سے نا آشنا فردا ترا
- یوں تو روشن ہے مگر سوز دروں رکھتا نہیں
- شعلۂ مثل چراغاں لال ۂ صحرا ترا
- سوچ تو دل میں لقب ساقی کا ہے زیبا تجھے
- انجمن پیاسی ہے اور پیمانہ بے صہبا ترا
- اور ہے تیرا اشعار آئین ملت اور ہے
- زشت روئی سے تری آئینہ ہے رسوا ترا
- کعبہ پہلو میں ہے اور سودائی بت خانہ میں ہے
- کس قدر شوریدہ سر ہے شوق بے پروا ترا
- قیس پیدا ہوں تری محفل میں یہ ممکن نہیں
- تنگ ہے صحرا ترا،مہمل ہے بے لیلا ترا
- اے در تابندہ! اے پروردۂ آغوشِ موج
- لذت طوفاں سے ہے نا آشنا دریا ترا
- اب نوا پیرا ہے کیا؟ گلشن ہوا برہم ترا
- بے محل تیرا ترنم، نغمہ بے موسم ترا
(٣) تیسرا بند
- تھا جنہیں ذوق تماشا وہ تو رخصت ہو گئے
- لے کے اب تو وعدۂ دیدار عام آیا تو کیا
- انجمن سے وہ پرانے شعلہ آشام اٹھ گئے
- ساقیا! محفل میں تو آتش بجام آیا تو کیا
- آہ! جب گلشن کی جمعیت پریشاں ہو چکی
- پھول کو باد بہاری کا پیام آیا تو کیا
- آخر شب دید کے قابل تھی بسمل کی تڑپ
- صبحدم کوئی اگر بالائے بام آیا تو کیا
- بجھ گیا وہ شعلہ جو مقصودِ ہر پروانہ تھا
- اب کوئی سودائی سوز ناتمام آیا تو کیا
- پھول بے پروا ہیں، تو گرم نوا ہو یا نہ ہو
- کارواں بے حس ہے، آواز درا ہو یا نہ ہو
(٤) چوتھا بند
- شمعِ محفل ہو کے جب تو سوز سے خالی رہا
- تیرے پروانے بھی اس لذت سے بیگانہ رہے
- رشتۂ الفت میں جب ان کو پرو سکتا تھا تو
- پر پریشان کیوں تری تسبیح کے دانے رہے
- شوق بے پرواہ گیا، فکر فلک پیما گیا
- تیری محفل میں نہ دیوانے نہ فرزانے رہے
- وہ جگر سوزی نہیں وہ شعلہ آشامی نہیں
- فائدہ پھر کیا جو گرد شمع پروانے رہے
- خیر تو ساقی سہی، لیکن پلائے گا کسے
- اب نہ وہ مے کش رہے باقی نہ مے خانے رہے
- رو رہی ہے آج ایک ٹوٹی ہوئی مینا اسے
- کل تلک گردش میں جس ساقی کے پیمانے رہے
- آج ہیں خاموش وہ دشت جنوں پرور جہاں
- رقص میں لیلا رہی، لیلا کے دیوانے رہے
- کارواں کے دل سے احساسِ زیاں جاتا رہا
- وائے ناکامی متاعِ کارواں جاتا رہا
(٥) پانچواں بند
- جن کے ہنگاموں سے تھے آباد ویرانے کبھی
- شہر ان کے مٹ گئے آبادیاں بن ہو گئیں
- سطوت توحید قائم جن نمازوں سے ہوئی
- وہ نمازیں ہند میں نذر برہمن ہو گئیں
- دہر میں عیش دوام آئین کی پابندی سے ہے
- موج کو آزادیاں سامانِ شیون ہو گئیں
- خود تجلی کو تمنا جن کے نظاروں کی تھی
- وہ نگاہیں نا امید نور ایمن ہوگئیں
- اڑتی پھرتی تھیں ہزاروں بلبلیں گلزار میں
- دل میں کیا آئی کہ پابند نشیمن ہو گئیں
- وسعت گردوں میں تھی ان کی تڑپ نظارہ سوز
- بجلیاں آسودۂ دامانِ خرمن ہوگئیں
- دیدۂ خونبار ہو منت کشِ گلزار کیوں
- اشک پیہم سے نگاہیں گل بدامن ہو گئیں
- شام غم لیکن خبر دیتی ہے صبحِ عید کی
- ظلمت شب میں نظر آئی کرن امید کی
(٦) چھٹا بند
- مژدہ اے پیمانہ بردار خمستان حجاز
- بعد مدت کے ترے رندوں کو پھر آیا ہے ہوش
- نقد خودداری بہائے بادۂ اغیار تھی
- پھر دکاں تیری ہے لبریز صدائے ناؤ نوش
- ٹوٹنے کو ہے طلسم ماہ سیمایان ہند
- پھر سلیمی کی نظر دیتی ہے پیغامِ خروش
- پھر یہ غوغا ہے کہ لاساقی شراب خانہ ساز
- دل کے ہنگامے مۓ مغرب نے کر ڈالے خموش
- نغمہ پیرا ہو کہ یہ ہنگام خاموشی نہیں
- ہے سحر کا آسماں خورشید سے مینا بدوش
- “در غم دیگر بسوز و دیگراں را ہم بسوز
- گفتمت روشن حدیثے گر توانی دار گوش”
- کہہ گئے ہیں شاعری جزو یست از پیغمبری
- ہاں سنا دے محفلِ ملت کو پیغام سروش
- آنکھ کو بیدار کر دے وعدۂ دیدار سے
- زندہ کر دے دل کو سوز جوہر گفتار سے
(٧) ساتواں بند
- رہزن ہمت ہوا ذوق تن آسانی ترا
- بحر تھا صحرا میں تو، گلشن میں مثل جو ہوا
- اپنی اصلیت پہ قائم تھا تو جمعیت بھی تھی
- چھوڑ کر گل کو پریشاں کاروان بو ہوا
- زندگی قطرے کی سکھلاتی ہے اسرار حیات
- یہ کبھی گوہر، کبھی شبنم، کبھی آنسو ہوا
- پھر کہیں سے اس کو پیدا کر بڑی دولت ہے یہ
- زندگی کیسی جو دل بیگانہء پہلو ہوا
- آبرو باقی تری ملت کی جمعیت سے تھی
- جب یہ جمعیت گئی دنیا میں رسوا تو ہوا
- فرد قائم ربط ملت سے ہے تنہا کچھ نہیں
- موج ہے دریا میں اور بیرونِ دریا کچھ نہیں
(٨) آٹھواں بند
- پردۂ دل میں محبت کو ابھی مستور رکھ
- یعنی اپنی مے کو رسوا صورت مینا نہ کر
- خیمہ زن ہو وادئ سینا میں مانند کلیم
- شعلہ تحقیق کو غارت گر کاشانہ کر
- شمع کو بھی ہو ذرا معلوم انجام ستم
- صرف تعمیر سحر خاکستر پروانہ کر
- تو اگر خود دار ہے منت کشِ ساقی نہ ہو
- عین دریا میں حباب آسا نگوں پیمانہ کر
- کیفیت باقی پرانے کوہ و صحرا میں نہیں
- ہے جنوں تیرا نیا پیدا نیا ویرانہ کر
- خاک میں تجھ کو مقدر نے ملایا ہے اگر
- تو عصا افتاد سے پیدا مثال دانہ کر
- ہاں! اسی شاخ کہن پر پھر بنالے اشیاں
- اہل گلشن کو شہید نغمہ مستانہ کر
- اس چمن میں پیرو بلبل ہو یا تلمیذ گل
- یا سراپا نالہ بن جاتا یا نوا پیدا نہ کر
- کیوں چمن میں بے صدا مثل رم شبنم ہے تو
- لب کشا ہوجا سرور سرود بربط عالم ہے تو
(٩) نواں بند
- آشنا اپنی حقیقت سے ہو اے دہقاں ذرا
- دان تو، کھیتی بھی تو، بارہ بھی تو،حاصل بھی تو
- آہ کس کی جستجو آوارہ رکھتی ہے تجھے؟
- راہ تو، رہرو بھی تو، رہبر بھی تو، منزل بھی تو
- کانپتا ہے دل تیرا اندیشۂ طوفاں سے کیا
- ناخدا تو، بحر تو، کشتی بھی تو، ساحل بھی تو
- دیکھ آکر کوچۂ چاک گریباں میں کبھی
- قیس تو لیلا بھی تو، صحرا بھی تو، محمل بھی تو
- دائے نادانی کہ تو محتاج ساقی ہو گیا
- مے بھی تو، مینا بھی تو، ساقی بھی تو، محفل بھی تو
- شعلہ بن کر پھونک دے خاشاک غیر اللہ کو
- خوف باطل کیا کہ ہے غارت گر باطل بھی تو
- بے خبر تو جوہر آئینہ ایام ہے
- تو زمانے میں خدا کا آخری پیغام ہے
(١٠) دسواں بند
- اپنی اصلیت سے ہو آگاہ اے غافل کہ تو
- قطرہ ہے، لیکن مثال ہجر بے پایاں بھی ہے
- کیوں گرفتار طلسم ہیچ مقداری ہے تو
- دیکھ تو پوشیدہ تجھ میں شوکتِ طوفاں بھی ہے
- سینہ ہے تیرا امیں اس کے پیام ناز کا
- جو نظامِ دہر میں پیدا بھی ہے پنہا بھی ہے
- ہفت کشور جس سے ہو تسخیر بے تیغ و تفنگ
- تو اگر سمجھے تو تیرے پاس وہ ساماں بھی ہے
- اب تلک شاہد ہے جس پر کوہ فاراں کا سکوت
- اے تغافل پیشہ! تجھ کو یاد وہ پیماں بھی ہے
- تو ہی نادان چند کلیوں پر قناعت کر گیا
- ورنہ گلشن میں علاجِ تنگی داماں بھی ہے
- دل کی کیفیت ہے پیدا پردۂ تقریر میں
- کسوت مینا میں مے مستور بھی عریاں بھی ہے
- پھونک ڈالا ہے مری آتش نوائی نے مجھے
- اورمیری زندگانی کا یہی ساماں بھی ہے
- راز اس آتش نوائی کا مرے سینے میں دیکھ
- جلوۂ تقدیر میرے دل کے آئینے میں دیکھ
(١١) گیارواں بند
- آسماں ہوگا سحر کے نور سے آئینہ پوش
- اور ظلمت رات کی سیماب پا ہو جائے گی
- اس قدر ہوگی ترنم آفریں باد بہار
- نکہت خوابیدہ غنچے کی نوا ہو جائے گی
- آ ملیں گے سینہ چاکان چمن سے سینہ چاک
- بزم گل کی ہم نفس باد صبا ہو جائے گی
- شبنم افشانی مری پیدا کرے گی سوز و ساز
- اس چمن کی ہر کلی درد آشنا ہو جائے گی
- دیکھ لو گے سطوت رفتار دریا کا مآل
- موج مضطر ہی اسے زنجیر پا ہو جائے گی
- پھر دلوں کو یاد آ جائے گا پیغام سجود
- پھر جبیں خاک حرم سے آشنا ہو جائے گی
- نالہ اس صیاد سے ہوں گے نوا ساماں طیور
- خون گلچیں سے کلی رنگیں قبا ہو جائے گی
- آنکھ جو کچھ دیکھتی ہے لب پہ آ سکتا نہیں
- محو حیرت ہوں کہ دنیا کیا سے کیا ہوجائے گی
- شب گریزاں ہوگی آخر جلوہ خورشید سے
- یہ چمن معمور ہوگا نغمۂ توحید سے