نظم شکوہ

0

(١)پہلا بند


کیوں زیاں کار بنوں سود فراموش رہوں؟
فکر فردہ کروں محو غم دوش رہوں

نالے بلبل کے سنوں اور ہمہ تن گوش رہوں
ہم نوا میں بھی کوئی گل ہوں کہ خاموش رہوں

جرائت آموز مری تابِ سخن ہے مجھ کو
شکوہ اللہ سے خاکم بدہن ہے مجھ کو

(٢)دوسرا بند


ہے بجا شیوۂ تسلیم میں مشہور ہیں ہم
قصۂ درد سناتے ہیں کہ مجبور ہیں ہم

ساز خاموش ہیں فریاد سے معمور ہیں ہم
نالہ آتا ہے اگر لب پہ تو معذور ہیں ہم

اے خدا شکوۂ اربابِ وفا بھی سن لے
خوگرِ حمد سے تھوڑا سا گلہ بھی سن لے

(٣) تیسرا بند

 
تھی جو موجود ازل سے ہی تری ذاتِ قدیم
پھول تھا زیب چمن پر نہ پریشان تھی شمیم

شرط انصاف ہے اے صاحبِ الطاف عمیم
بوئے گل پھیلتی کس طرح جو ہوتی نہ نسیم

ہم کو جمعیتِ خاطر یہ پریشانی تھی
ورنہ امت ترے محبوب کی دیوانی تھی

(٤) چوتھا بند


ہم سے پہلے تھا عجب تیرے جہاں کا منظر
کہیں مسجود تھے پتھر کہیں معبود شجر

خوگرِ پیکر محسوس تھی انساں کی نظر
مانتا پھر کوئی ان دیکھے خدا کو کیونکر

تجھ کو معلوم ہے لیتا تھا کوئی نام ترا
قوت بازوئے مسلم نے کیا کام ترا

(٥) پانچواں بند


بس رہے تھے یہیں سلجوق بھی تورانی بھی
اہل چیں چین میں ایران میں ساسانی بھی

اسی معمورے میں آباد تھے یونانی بھی
اسی دنیا میں یہودی بھی تھے نصرانی بھی

پر ترے نام پہ تلوار اٹھائی کس نے؟
بات جو بگڑی ہوئی تھی وہ بنائی کس نے؟

(٦) چھٹا بند


تھے ہمیں ایک ترے معرکہ آراؤں میں
خشکیوں میں کبھی لڑتے کبھی دریاؤں میں

دس اذانیں کبھی یورپ کے کلیساؤں میں
کبھی افریقہ کے تپتے ہوئے صحراؤں میں

شان آنکھوں میں نہ جچتی تھی جہانداروں کی
کلمہ پڑھتے تھے ہم چھاؤں میں تلواروں کی

(٧) ساتواں بند


ہم جو جیتے تھے تو جنگوں کی مصیبت کے لیے
اور مرتے تھے ترے نام کی عظمت کے لیے

تھی نہ کچھ تیغ زنی اپنی حکومت کے لیے
سربکف پھرتے تھے کیا دہر میں دولت کے لیے

قوم اپنی جو زرومال جہاں پر مرتی
بت فروشی کے عوض بت شکنی کیوں کرتی

(٨) آٹھواں بند


ٹل نہ سکتے تھے اگر جنگ میں اڑ جاتے تھے
پاؤں شیروں کے بھی میداں سے اکھڑ جاتے تھے

تجھ سے سرکش ہوا کوئی تو بگڑ جاتے تھے
تیغ کیا چیز ہے؟ ہم توپ سے لڑ جاتے تھے

نقش توحید کا ہر دل پہ بٹھایا ہم نے
زیر خنجر بھی یہ پیغام سنایا ہم نے

(٩) نواں بند


تو ہی کہہ دے کہ اکھاڑا درِ خیبر کس نے؟
شہر قیصر کا جو تھا اس کو کیا سر کس نے؟

توڑے مخلوق خداوندوں کے پیکر کس نے؟
کاٹ کر رکھ دیئے کفار کے لشکر کس نے؟

کس نے ٹھنڈا کیا آتشکدۂ ایراں کو؟
کس نے پھر زندہ کیا تذکرۂ یزداں کو؟

(١٠) دسواں بند


کون سی قوم فقط تیری طلبگار ہوئی؟
اور تیرے لیے زحمت کش پیکار ہوئی؟

کس کی شمشیر جہانگیر جہاندار ہوئی؟
کس کی تکبیر سے دنیا تیری بیدار ہوئی؟

کس ہیبت سے صنم سہمے ہوئے رہتے تھے؟
منہ کے بل گر کے هو الله احد کہتے تھے؟

(١١) گیارہواں بند


آگیا عین لڑائی میں اگر وقت نماز
قبلہ رو ہو کے زمیں بوس ہوئی قومِ حجاز

ایک ہی صف میں کھڑے ہوگئے محمود و ایاز
نہ کوئی بندہ رہا اور نہ کوئی بندہ نواز

بندہ و صاحب و محتاج و غنی ایک ہوئے
تیری سرکار میں پہنچے تو سبھی ایک ہوئے

(١٢) بارہواں بند


محفلِ کون و مکاں میں سحر و شام پھرے
مئے توحید کو لے کر صفتِ جام پھرے

کوہ میں دشت میں لے کر ترا پیغام پھرے
اور معلوم ہے تجھ کو کبھی ناکام پھرے

دشت تو دشت ہیں دریا بھی نہ چھوڑے ہم نے
بحر ظلمات میں دوڑا دیے گھوڑے ہم نے

(١٣) تیرہواں بند


صفحۂ دہر سے باطل کو مٹایا ہم نے
نوع انساں کو غلامی سے چھڑایا ہم نے

تیرے کعبے کو جبینوں سے بسایا ہم نے
تیرے قرآن کو سینوں سے لگایا ہم نے

پھر بھی ہم سے یہ گلہ ہے کہ وفادار نہیں
ہم وفادار نہیں تو بھی تو دلدار نہیں

(١٤) چودہواں بند


امتیں اور بھی ہیں ان میں گنہگار بھی ہیں
عجز والے بھی ہیں مست مئے پندار بھی ہیں

ان میں کامل بھی ہیں غافل بھی ہیں ہشیار بھی ہیں
سینکڑوں ہیں کہ ترے نام سے بیزار بھی ہیں

رحمتیں ہیں تیری اغیار کے کاشانوں پر
برق گرتی ہے تو بیچارے مسلمانوں پر

(١٥) پندرہواں بند


بت صنم خانوں میں کہتے ہیں مسلمان گئے
ہے خوشی ان کو کہ کعبے کے نگہبان گئے

منزل دہر سے اونٹوں کے حدی خواں گئے
اپنی بغلوں میں دبائے ہوئے قرآن گئے

خندہ زن کفر ہے احساس تجھے ہے کہ نہیں
اپنی توحید کا کچھ پاس تجھے ہے کہ نہیں

(١٦) سولہواں بند


یہ شکایت نہیں ہیں ان کے خزانے معمور
نہیں محفل میں جنھیں بات بھی کرنے کا شعور

قہر تو یہ ہے کہ کافر کو ملیں حور و قصور
اور بچارے مسلمان کو فقط وعدۂ حور

اب وہ الطاف نہیں ہم پہ عنایات نہیں
بات یہ کیا ہے کہ پہلی سی مدارات نہیں

(١٧) سترہواں بند


کیوں مسلمانوں میں ہے دولتِ دنیا نایاب
تیری قدرت تو ہے وہ جس کی نہ حد ہے نہ حساب

تو جو چاہے تو اٹھے سینۂ صحرا سے حباب
رہرو دست ہو سیلی زدۂ موج سراب

طعن اغیار ہے رسوائی ہے ناداری ہے
کیا تیرے نام پہ مرنے کا عوض خواری ہے

(١٩) انیسواں بند


بنی اغیار کی اب چاہنے والی دنیا
رہ گئی اپنے لیے ایک خیالی دنیا

ہم تو رخصت ہوئے اوروں نے سنبھالی دنیا
پھر نہ کہنا ہوئی توحید سے خالی دنیا

ہم تو جیتے ہیں کہ دنیا میں ترا نام رہے
کہیں ممکن ہے کہ ساقی نہ رہے جام رہے

(٢٠) بیسواں بند


تیری محفل بھی گئی چاہنے والے بھی گئے
شب کی آہیں بھی گئیں صبح کے نالے بھی گئے

دل تجھے دے بھی گئے اپنا صلہ لے بھی گئے
آکے بیٹھے بھی نہ تھے اور نکالے بھی گئے

آئے عشاق گئے وعدۂ فردا لے کر
اب انہیں ڈھونڈ چراغِ رخِ زیبا لے کر

(٢١) اکیسواں بند


درد لیلی بھی وہی، قیس کا پہلو بھی وہی
بخود کے دشت و جبل میں رم آہو بھی وہی

عشق کا دل بھی وہی، حسن کا جادو بھی وہی
امت احمد مرسل بھی وہی تُو بھی وہی

پھر یہ آزردگئ غیر سبب کیا معنیٰ
اپنے شیداؤں پہ یہ چشمِ غضب کیا معنیٰ

(٢٢) بائیسواں بند


تجھ کو چھوڑا کہ رسولِ عربی کو چھوڑا
بت گری پیشہ کیا بت شکنی کو چھوڑا

عشق کو عشق کی آشفتہ سری کو چھوڑا
رسم سلمان و اویس قرنی کو چھوڑا

آگ تکبیر کی سینوں میں دبی رکھتے ہیں
زندگی مثل بلال حبشی رکھتے ہیں

(٢٣) تئیسواں بند


عشق کی خیر وہ پہلی سی ادا بھی نہ سہی
جادہ پیمائی تسلیم و رضا بھی نہ سہی

مضطرب دل صفتِ قبلہ نما بھی نہ سہی
اور پابندئ آئینِ وفا بھی نہ سہی

کبھی ہم سے کبھی غیروں سے شناسائی ہے
بات کہنے کی نہیں تو بھی تو ہرجائی ہے

(٢٤) چوبیسواں بند


سر فاراں پہ کیا دین کو کامل تو نے
ایک اشارے میں ہزاروں کے لیے دل تو نے

آتش اندوز کیا عشق کا حاصل تو نے
پھونک دی گرمئ رخسار سے محفل تو نے

آج کیوں سینے ہمارے شرر آباد نہیں
ہم وہی سوختہ ساماں ہیں تجھے یاد نہیں

(٢٥) پچیسواں بند


وادئ نجد میں وہ شورِ سلاسل نہ رہا
قیس دیوانۂ نظارۂ محمل نہ رہا

حوصلے وہ نہ رہے، ہم نہ رہے، دل نہ رہا
گھر یہ اجڑا ہے کہ تو رونقِ محفل نہ رہا

اے خوش آں روز کہ آئی و بصد ناز آئی
بے حجابانہ سوئے محفلِ ماباز آئی

(٢٦) چھبیسواں بند


بادہ کش غیر ہیں گلشن میں لب جو بیٹھے
سنتے ہیں جام بکف نغمۂ کو کو بیٹھے

درد ہنگامۂ گلزار سے یک سو بیٹھے
تیرے دیوانے بھی ہیں منتظر ھو بیٹھے

اپنے پروانوں کو پھر ذوقِ خود افروزی دے
برق دیرینہ کو فرمان جگر سوزی دے

(٢٧) ستائیسواں بند


قوم آوارہ عناں تاب ہے پھر سوئے حجاز
لے اڑا بلبل بے پر کو مذاقِ پرواز

مضطرب باغ کے ہر غنچے میں ہے بوئے نیاز
تو ذرا چھیڑ تو دے تشنۂ مضراب ہے ساز

نغمے بے تاب ہیں تاروں سے نکلنے کے لیے
طور مضطر ہے اسی آگ میں جلنے کے لئے

(٢٨) اٹھائیسواں بند


مشکلیں امت مرحوم کی آساں کر دے
مور بے مایہ کو ہمدوشِ سلیماں کر دے

جنس نایابِ محبت کو پھر ارزاں کر دے
ہند کے دیر نشینوں کو مسلماں کر دے

جوئے خوں می چکداز حسرتِ دیرینۂ ما
می تپد نالہ بہ نشتر کدۂ سینۂ ما

(٢٩) انتیسواں بند


بوئے گل لے گئی بیرونِ چمن راز چمن
کیا قیامت ہے کہ خود پھول ہیں غمّازِ چمن

عہدِ گل ختم ہوا ٹوٹ گیا ساز چمن
اڑ گئے ڈالیوں سے زمزمہ پرواز چمن

ایک بلبل ہے کہ ہے محو ترنم اب تک
اس کے سینے میں ہے نغموں کا تلاطم اب تک

(٣٠) تیسواں بند


قمریاں شاخِ صنوبر سے گریزاں بھی ہوئیں
پتّیاں پھول کی جھڑ جھڑ کے پریشاں بھی ہوئیں

وہ پرانی روشیں باغ کی ویراں بھی ہوئیں
ڈالیاں پیرہنِ برگ سے عریاں بھی ہوئیں

قید موسم سے طبیعت رہی آزاد اس کی
کاش گلشن میں سمجھتا کوئی فریاد اس کی

(٣١) اکتیسواں بند:
لطف مرنے میں ہے باقی نہ مزہ جینے میں
کچھ مزا ہے تو یہی خونِ جگر پینے میں

کتنے بے تاب ہیں جوہر مرے آئینے میں
کس قدر جلوے تڑپتے ہیں مرے سینے میں

اس گلستاں میں مگر دیکھنے والے ہی نہیں
داغ جو سینے میں رکھتے ہوں وہ لالے ہی نہیں

(٣٢) بتیسواں بند


چاک اس بلبل تنہا کی نوا سے دل ہوں
جاگنے والے اسی بانگِ درا سے دل ہوں

یعنی پھر زندہ نئے عہدِ وفا سے دل ہوں
پھر اسی بادۂ دیرینہ کے پیاسے دل ہوں

عجمی خم ہے تو کیا مے تو حجازی ہے مری
نغمہ ہندی ہے تو کیا لے تو حجازی ہے مری

اس نظم کی تشریح پڑھنے کے لیے یہاں کلک کریں!