نظم ہمالہ

0
  • اے ہمالہ! اے فصیل کشور ہندوستان
  • چومتا ہے تیری پیشانی کو جھک کر آسماں
  • تجھ میں کچھ پیدا نہیں دیرینہ روزی کے نشاں
  • تو جواں ہے گردش شام و سحر کے درمیاں
  • ایک جلوہ تھا کلیم طور سینا کے لیے
  • تو تجلی ہے سراپا چشم بینا کے لیے
  • امتحان دیدہ ظاہر میں کوہستاں ہے تو
  • پاسباں اپنا ہے تو دیوار ہندوستان ہے تو
  • مطلع اول فلک جس کا ہو وہ دیواں ہے تو
  • سوئے خلوت گاہ دل دامن کش انساں ہے تو
  • برف نے باندھی ہے دستار فضیلت تیرے سر
  • خندہ زن ہے جو کلاہ مہر عالم تاب پر
  • تیری عمر رفتہ کی اک آن ہے عہد کن
  • وادیوں میں ہیں تری کالی گھٹائیں خیمہ زن
  • چوٹیاں تیری ثریا سے ہیں سرگرم سخن
  • تو زمین پر اور پنہائے فلک تیرا وطن
  • چشمہ دامن ترا آئینہ سیال ہے
  • دامن موج ہوا جس کے لیے رومال ہے
  • ابر کے ہاتھوں رہوار ہوا کے واسطے
  • تازیانہ دے دیا برق سر کہسار نے
  • اے ہمالہ کوئی بازی گاہ ہے تو بھی جسے
  • دست قدرت نے بنایا ہے عناصر کے لیے
  • ہائے کیا فرط طرب میں جھومتا جاتا ہے ابر
  • فیل بے زنجیر کی صورت اڑا جاتا ہے ابر
  • جنبش موج صبح گہوارہ بنی
  • جھومتی ہے نشۂ ہستی میں ہر گل کی کلی
  • یوں زبان برگ سے گویا ہے اس کی خامشی
  • دست گلچیں کی جھٹک میں نے نہیں دیکھی کبھی
  • کہہ رہی ہے میری خاموشی ہے افسانہ میرا
  • کنج خلوت خانہ قدرت ہے کاشانہ مرا
  • آتی ہے ندی فراز کوہ سے گاتی ہوئی
  • کوثر و تسنیم کی موجوں کو شرماتی ہوئی
  • آئنہ سا شاہد قدرت کو دکھلاتی ہوئی
  • سنگ راہ سے گاہ بجتی گاہ ٹکراتی ہوئی
  • چھیڑتی جا اس عراق دل نشیں کے ساز کو
  • اے مسافر! دل سمجھتا ہے تری آواز کو
  • لیلی شب کھولتی ہے آ گے جب زلف رسا
  • دامن دل کھینچتی ہے آبشاروں کی صدا
  • وہ خموشی شام کی جس پر تکلم ہو فدا
  • وہ درختوں پر تفکر کا سماں چھایا ہوا
  • کانپتا پھرتا ہے کیا رنگ شفق کہسار پر
  • خوشنما لگتا ہے یہ غازہ ترے رخسار پر
  • اے ہمالہ! داستاں اس وقت کی کوئی سنا
  • مسکن آبائے انساں جب بنا دامن ترا
  • کچھ بتا اس سیدھی سادی زندگی کا ماجرا
  • داغ جس پر غازۂ رنگ تکلف کا نہ تھا
  • ہاں دکھا دے اے تصور! پھر وہ صبح و شام تو
  • دوڑ پیچھے کی طرف اے گردش ایام تو