ابلیس کی مجلس شوریٰ تشریح

0
  • (١) پہلا شعر:

یہ عناصر کا پرانا کھیل! یہ دنیائے دوں
ساکنان عرش اعظم کی تمناؤں کا خوں

تشریح:

اس میں کوئی شک نہیں کہ اقبال نے ان دو لفظوں میں ابلیسیت کی پوری روح کھینچ کر رکھ دی ہے۔دنیا کو”عناصر کے پرانے کھیل”سے تعبیر کرنا ابلیس کی تعلیمات کا سنگ بنیاد ہے کیونکہ ابلیسیت کی تمام صورتیں اسی تصور سے پیدا ہوتی ہیں کہ دنیا عناصر مادی کا پرانا کھیل ہے۔
“پرانا کھیل”غور طلب ترکیب ہے اقبال نے پوری مادیت کو دو لفظوں میں بند کردیا ہے۔واضح ہو کہ مادیت کی تعلیم یہ ہے کہ دنیا سالمات مادی کے غیر شعوری اور ازلی امتزاج کا نتیجہ ہے۔بالفاظ واضح تر:
١-تجارت اور تنافر سالمات کا جذب باہمی یا اس کے برعکس عمل کا کوئی مقصد نہیں ہے۔ایک اندھی طاقت ان سالمات کو ملاتی رہتی ہے اور ان کے بلامقصد امتزاج سے مختلف چیزیں بنتی رہتی ہیں۔
٢-یہ کھیل پرانا ہے یعنی مادہ ازل ہے اس کی کوئی ابتدا نہیں ہے۔ جن لوگوں نے مسلک مادیت کا مطالعہ کیا ہے ان سے یہ حقیقت مخفی نہیں ہے کہ اس مسئلہ کی بنیاد انہی دو باتوں پر ہے۔اگر اس نکتہ کو مدنظر رکھ کر اس مصرع کو پڑھا جائے تو اس کی موزونیت بخوبی واضح ہو سکتی ہے۔

“ساکنوں نے عرش اعظم”کنایہ ہے فرشتوں سے جو اس دنیا میں خلافت ونیابت الٰہی کے امیدوار تھے۔لیکن اللہ تبارک وتعالی نے جب حضرت آدم علیہ سلام کو اپنا خلیفہ مقرر فرمایا تو ان کی تمناؤں اور آرزوؤں کا خون ہو گیا۔

  • (٢) دوسرا شعر:

اس کی بربادی پہ آج آمادہ ہے وہ کارساز
جس نے اس کا نام رکھا تھا جہان کاف و نوں

تشریح:

ابلیس اپنے مشیروں سے کہتا ہے کہ دنیا جو بذاتِ خود ذلیل اور کمینی ہے اور جس پر فرشتے حکمرانی کی آرزو رکھتے تھے لیکن ناکام رہ گئے،اس دنیا کو وہ “کارساز” برباد کرنے پر تلا ہوا ہے جس کا دعویٰ یہ ہے کہ میں نے اس کو کلمۂ کن سے پیدا کیا ہے اور اسی لئے اس نے اس کا نام “جہان کاف ونون” رکھا ہے۔

ابلیس اس حقیقت کو تسلیم نہیں کرتا کہ یہ دنیا کلمہ کن سے پیدا ہوئی ہے اسی لیے وہ کہتا ہے کہ اس ‘کارساز’ نے اس کا نام جہان کاف و نون رکھا تھا۔

  • (٣) تیسرا شعر:

میں نے دکھلایا فرنگی کو ملوکیت کا خواب
میں نے توڑا مسجد و دیر و کلیسا کا فسوں

تشریح:

یورپ کی اقوام کو ملوکیت کی تعلیم میں نے ہی تو دی ہے۔برطانوی کامن ویلتھ کے ارکان جس ملکہ معظمہ کی صحت کا جام نوش کرتے ہیں وہ میرے ہی قائم کردہ نظام ملوکیت و سلطنت کی نگراں ہے۔عوام الناس کے دلوں سے مذہب کا اثر میں نے ہی زائل کیا ہے۔اسلامی ممالک کے باشندے شریعت اسلامیہ کا استخفاف میرے ہی باطنی اشارے پر تو کر رہے ہیں۔میری ہی تلقین کا تو یہ اثر ہے کہ عورتیں بے حیائی اور بے حجابی کو ‘ترقی’ سے تعبیر کر رہی ہیں اور اس غیر اسلامی طرز عمل کو فخریہ انداز میں دنیا کے سامنے پیش کر رہی ہیں۔میں نے ہی تو ان کے کان میں یہ افسوں پڑھ کر پھونک دیا ہے کہ اگر یورپ کی عورتوں کی تقلید کرو گی تو تمہاری قوم ترقی کی بلند ترین منزل پر پہنچ جائے گی۔چنانچہ وہ دن دور نہیں جب ان ملکوں میں بھی عریانی کے کلب قائم ہو جائیں گے۔

  • (٤) چوتھا شعر:

میں نے ناداروں کو سکھلایا سبق تقدیر کا
میں نے منعم کو دیا سرمایہ داری کا جنوں

تشریح:

شیطان مزید کہتا ہے کہ میں نے ہی مفلسوں، مزدوروں، فاقہ کشوں اور کاشتکاروں کو تقلید کا سبق پڑھایا ہے کے زمینداروں اور جاگیرداروں کی غلامی کرتے رہو۔اگر وہ تمہاری بیٹی کی عصمت ریزی کریں تو صبر کرو۔پھر اگر تمہاری بیوی کو غائب کردیں تو چپ رہو۔اگر تمہارے گھروں کو آگ لگوادی تو اف مت کرو۔کیونکہ تمہاری تقدیر ہی میں یہ باتیں لکھی ہوئی ہیں۔تقدیر کے اس غلط مفہوم نے دنیا کے ناداروں کو قوت عمل سے محروم کردیا گویا شیروں کو بکریاں بنا دیا۔

  • (٥) پانچواں شعر:

کون کر سکتا ہے اس کی آتش سوزاں کو سرد
جس کے ہنگاموں میں ہو ابلیس کا سوز دروں

تشریح:

دولت مندوں کے دلوں میں سرمایہ داری کا جذبۂ بے پناہ میں نے ہی تو پیدا کیا ہے کہ یہ لوگ رات و دن دولت جمع کرتے رہتے ہیںاور اس کے حصول کے لیے جائز اور نا جائز، حلال اور حرام، حق اور ناحق، جھوٹ اور سچ میں کوئی امتیاز نہیں کرتے۔

  • (٦) آخری شعر:

جس کی شاخیں ہوں ہماری آبیاری سے بلند
کون کر سکتا ہے اس نخل کہن کو سرنگوں

تشریح:

آخری شعر میں اقبال قوم سے مخاطب ہیں کہ حضرات آپ غور کریں کہ میں نے کتنی محنت اور جانفشانی سے ملوکیت، دہریت (مادہ پرستی)، تقدیر پرستی اور سرمایہ داری۔ یہ چار ادارے قائم کئے ہیں! کیا میں خدا کو اس بات کی اجازت دے دوں گا کہ وہ ان درختوں کو جو میں نے ہزاروں سال کی محنت کے بعد پروان چڑھائے ہیں (اور اب ان کے اثمار شریں سے بہرہ اندوز ہونے کا وقت آیا ہے) بیخ و بن سے اکھاڑ کر پھینک دے اور ان کی جگہ”چودہ سو سال کا پرانا نظام”قائم کردے؟چنانچہ میں آپ صاحبان کو یقین دلاتا ہوں کہ دنیا کی کوئی طاقت وقوت ہمارے نظام ملوکیت اور سرمایہ داری کو باطل و سرنگوں نہیں کر سکتی!؀

کون کر سکتا ہے اس نخل کہن کو سرنگوں۔