نظم جاگو جگاو کی تشریح، سوالات و جوابات

0
  • نظم : جاگو، جگاو
  • شاعر: محمد شفیع الدین نیر

تعارف شاعر

محمد شفیع الدین نیر 09 فروری 1903 میں علی گڑھ اتر پردیش میں پیدا ہوئے۔ محمد شفیع الدین نیر کا نام بچوں کے عظیم شاعر کی حیثیت سے ہمیشہ زندہ رہے گا۔ انہونے حالی، اسماعیل ،اقبال اور حامد اللہ افسر کی روایات کو آگے بڑھایا۔ ان کا انتقال 03 جنوری 1978ء میں ہوا۔

تعارف ِ نظم

یہ نظم ہماری درسی کتاب سے ماخوذ ہے۔ اس نظم کے شاعر محمد شفیع الدین نیر ہیں۔ اس نظم میں نیر صاحب نے جا گنے کی تشبیہ کو استعمال کیا ہے۔ ظاہری طور پر شاعر نیند سے جاگنے کی تاکید کرتا ہے مگر اگر نظم کی گہرائی میں جائیں تو شاعر عوام سے خاص کر نوجوانوں کو بیدار ہونے کی تلقین کرتا ہے۔

نظم جاگو جگاو کی تشریح

جاگو جاگو جاگو پیارے
جاگے دنیا والے سارے
دیکھو سورج چاند ستارے
کرتے ہیں سب تم کو اشارے
تم بھی غفلت سے باز آؤ
جاگو جاگو صبح کو جگاؤ

شاعر عوام سے مخاطب ہوکر اس بند میں فرماتے ہیں کہ جاگ جاؤ ساری دنیا جاگ چکی ہے تم بھی جاگ جاؤ۔ سورج اور چاند جاگ چکے ہیں اور تمہیں اشارہ کر رہے ہیں کہ غفلت سے باز آجاؤ اور جاگ جاؤ۔

بیکاری کا رونا کب تک
آنسوؤں سے منہ دھونا کب تک
تکیہ اور بچھونا کب تک
جاگو جاگو سونا کب تک
اٹھو اٹھو اب اٹھ جاؤ
جاگو جاگو سب کو جگاؤ

اس بند میں شاعر نوجوانوں کی طرف اشارہ کرتے ہوئے فرماتے ہیں کہ کب تک آپ بیکاری کا رونا رو گے اور کب تک آنسوؤں سے اپنا منہ دو گے۔ کب تک بستر بچھائے تکیہ کے ساتھ سوئے رہو گے۔اٹھو اب جاگ جاؤ اور سب کو جگاؤ۔

کوشش سے کچھ کرنا سیکھو
بل پر اپنے ابھرنا سیکھو
صرف خدا سے ڈرنا سیکھو
حق کی خاطر مرنا سیکھو
کام کوئی جگ میں کر جاؤ
جاگو جاگو سب کو جگاؤ

شاعر اس بند میں قوم کے نوجوانوں سے خطاب کرتے ہوئے فرماتے ہیں کہ کوشش سے کچھ کرنا سیکھو اور کوشش کرنا مت چھوڑو، اپنے بل پر چلنا سیکھو صرف خدا سے ڈرو اور حق کی خاطر لڑتے رہو، دنیا میں کوئی اچھا کام کرو تاکہ لوگ آپ کو یاد رکھیں۔ خود جاگ جاؤ ، اوروں کو بھی جگادو دو۔

الفت کی بارش برساؤ
نفرت کی یہ آگ بجھاؤ
مل کر گیت پریم کے گاؤ
گھر گھر یہ پیغام سناؤ
آپس کے جھگڑوں کو مٹاؤ
جاگو جاگو سب کو جگاؤ

شاعر اس بند میں فرماتے ہیں کہ آپس میں محبت رکھو اور نفرت کو ختم کرو، محبت کے گیت گاؤ ، محبت کا پیغام گھر گھر پہنچاؤ اور آپس میں جھگڑے ختم کر دو۔ خود جاگ جاؤ اوروں کو بھی جگا دو۔(نظم میں جاگو بار بار استعمال ہوا ہے ،جاگنا یہاں شاعر نے تشبیہ کے طور پر استعمال کیا ہے جاگنے کا مطلب ہے اپنے حقوق ، اپنے فرائض اور اپنی اہمیت کو جاننا اور غفلت سے بیدار ہونا)

سب ہمت ہاروں کو اٹھاؤ
قسمت کے ماروں کو اٹھاؤ
قوم کے بے کاروں کو اٹھاؤ
بے بس بے چاروں کو اٹھاؤ
نیر کا یہ نغمہ گاؤ
جاگو جاگو سب کو جگاؤ

نظم کے آخری بند میں شاعر ان لوگوں کو دلاسہ دینے کی کوشش کر رہا ہے جنہوں نے ہمت ہاری ہوئی ہے۔ وہ فرماتے ہیں کہ سب ہمت ہاروں اور قسمت کے ماروں کو اٹھاؤ، قوم میں جو بیکار اور بے روزگار بیٹھے ہیں اور جو لا چار ہیں، ان سب کو جگاؤ ان کو جینے کا حوصلہ سکھاؤ، ان کو حالات سے لڑنا سکھاؤ ان کو دنیا میں آگے بڑھنا سکھاؤ اور نیر (جو کہ شاعر خود ہے) کا یہ نغمہ گاتے جاؤ اور پیغام پہنچاؤ کہ جاگو اور سب کو جگاؤ۔

سوالات

سوال: یہ نظم کس شاعر نے لکھی ہے؟

ج: یہ نظم محمد شفیع الدین نیر نے لکھی ہے۔

سوال: اس نظم میں سورج چاند اور ستاروں کا اشارہ کس طرف ہے؟

ج: اس نظم میں سورج چاند اور ستاروں کا اشارہ لوگوں کی طرف ہے۔

سوال: نظم میں کس چیز کی بارش ہونے کی بات کہی گئی ہے؟

ج: نظم میں محبت کی بارش ہونے کی بات کہی گئی ہے۔

سوال: کس سے ڈرنا چاہیے اور کس کی خاطر مرنا چاہیے؟

ج: خدا سے ڈرنا چاہیے اور حق کی خاطر مرنا چاہیے۔

سوال: شاعر نے کس آگ کو بجھانے کی بات کی ہے؟

ج: شاعر نے نفرت کی آگ کو بجھانے کی بات کی ہے۔

سوال: شاعر کے مطابق ہم کون سا گیت گائیں اور ہر گھر تک کون سا پیغام پہنچائیں؟

ج : شاعر کے مطابق ہمیں محبت کا گیت گانا چاہیے اور محبت کا پیغام ہر گھر پہنچانا چاہیے۔

سوال: نظم میں شاعر کن لوگوں کو اٹھانے کی دعوت دے رہا ہے؟

ج: نظم میں شاعر بے کاروں،بے کسوں،قسمت کے ماروں اور بے چاروں کو اٹھانے کی دعوت دے رہا ہے۔

درج ذیل الفاظ کی ضد لکھیے۔

جاگنا سونا
رونا ہنسنا
اٹھنا بیٹھنا
مر نا جینا

معنی لکھیے اور جملوں میں استعمال کیجئے۔

الفاظ معانی جملے
الفت محبت ہمیں والدین سے محبت رکھنی چاہیے۔
چاند مہتاب رات بھر چاند چمکتا رہا۔
ستارے تارے آسمان ستاروں سے بھرا پڑا ہے۔
سورج آفتاب سورج کی گرمی کی شدت بڑھ رہی ہے۔
کوشش سعی کوشش کرنے سے کامیابی ملتی ہے۔
پیارے اچھے چھوٹے بچے بہت پیارے ہوتے ہیں۔
قسمت مقدر دعاؤں سے قسمت بدل جاتی ہے۔
ہمت جرت انسان کو ہمیشہ ہمت سے کام لینا چاہیے۔