آمد صبح

0
  • نظم : آمدِ صبح
  • شاعر : میر انیس

تعارفِ نظم

یہ بند ہماری درسی کتاب کی نظم ”آمدِ صبح“ سے لیا گیا ہے۔ اس نظم کے شاعر کا نام میر انیس ہے۔

تعارفِ شاعر

میر انیس کا نام میر ببر علی اور انیس تخلص تھا۔ آپ فیض آباد (ہندوستان) کے سید گھرانے میں پیدا ہوئے۔ انیس نے ہزاروں نوحے اور بہت سے سلام تحریر کیے۔ آپ نے “واقعہ کربلا” کو اپنے اشعار میں نہایت کمال سے منظر نگاری، کردار نگاری اور مکالمہ نگاری کی صورت میں پیش کیا ہے۔

پھولا شفق سے چرخ پہ جب لالہ زار صبح
گلزار شب خزاں ہوا آئی بہار صبح
کرنے لگا فلک ذرِ انجم نثار صبح
سرگرم ذکر حق ہوئے طاعت گزار صبح
تھا چرخ اخضری پہ یہ رنگ آفتاب کا
کھلتا ہے جیسے پھول چمن میں گلاب کا

اس بند میں شاعر نے صبح کے منظر کی خوبصورتی کا ذکر کیا ہے۔ شاعر کہتا ہے کہ آسمان پر صبح کی سرخی پھیلی ہوئی ہے، باغوں میں آمدِ بہار کے پھول کھلے ہوئے ہیں اور صبح کی آمد کو دیکھ کر آسمان نے بھی چاند تاروں کو چھپادیا ہے۔ کیونکہ کے صبح کے وقت وہ آسمان پر نہیں ہوتے۔اللہ کے بندے نیند کی قربانی دیئے اس کی اطاعت میں لگے ہیں۔ اور گہرے آسمان پر سورج کی روشنی کا رنگ یوں پھلتا ہے جیسے باغ میں کھلا کوئی حسین گلاب ہو۔

چلتا وہ باد صبح کے جھونکوں کا دم بدم
مرغان باغ کی وہ خوز الحانیاں بہم
وہ آب و تابِ نہر وہ موجوں کا پیچ و خم
سردی ہوا میں پر نہ زیادہ بہت نہ کم
کھا کھا کے اوس اور بھی سبزہ ہرا ہوا
تھا موتیوں سے دامنِ صحرا بھرا ہوا

اس بند میں شاعر نےکربلا کے منظر کا ذکر کیا ہے شاعر کہتا ہے کہ وادی میں ٹھنڈی ہوا کے جھونکوں نے منظر دلفریبی پیدا کردی ہے۔ باغ میں موجود پرندے اپنی خوبصورت آوازوں میں اللہ پاک کا ذکر کر رہے ہیں نہر کا پانی اور اس کی بل کھاتی لہریں آپس میں ٹکرا رہی ہیں۔ ہوا میں سردی ہے مگر نہ بہت زیادہ ہے نہ بہت کم۔ رات بھر پڑنے والی اوس سے گھاس اور بھی ہری نظر آرہی ہے۔ اور گھاس پر اوس کے قطرے ہر طرف بکھرے ہوئے موتیوں کا منظر پیش کر رہے ہیں۔

وہ صبح نور اور وہ صحرا وہ سبزہ زار
تھے طائروں کے غول درختوں پہ بے شمار
چلنا نسیمِ صبح کا رہ رہ کہ بار بار
کُو کُو وہ قمریوں کی وہ طاوُس کی پکار
وا تھے دریچے باغِ بہشت نعیم کے
ہر سو رواں تھے دشت میں جھونکے نسیم کے

اس بند میں شاعر کہتے ہیں کہ صبح کی روشنی چاروں اور پھیل چکی ہے۔ سبزہ روشنی سے نہا چکا ہے۔ اور ردختوں کی شاخوں پر بے شمار پرندوں کے جھنڈ موجود ہیں۔ بھینی بھینی ہوائیں چل رہی ہیں۔ اور کوئل کی کوک اور طاؤس کی آوازیں سنائی دے رہی ہیں۔ ہر طرف ایسے معطر جھونکوں سے ایسا محسوس ہوتا تھا جیسا جنت کی ایک کھڑکی اس باغ میں کھل گئی ہے۔ اور ہر طرف اس کا فسوں پھیلا ہوا ہے۔

آمد وہ آفتاب کی وہ صبح کا سماں
تھا جس کے ضَو سے وجد میں طاؤسِ آسماں
ذروں کی روشنی پہ ستاروں کا تھا گماں
نہر فرات بیچ میں تھی مثل کہکشاں
ہر نخل پر ضیائے سرِ کوہ طور تھی
گویا فلک سے بارش باران نور تھی

اس بند میں شاعر نے صبح طلوع ہونے کے بعد کا منظر بیان کیا ہے۔ شاعر کہتا ہے کہ سورج کی چمک دمک سے آسمان سج گیا ہے۔ اس کی کرنیں آسمان پر مور کی طرح رقص میں ہیں۔ اور جب یہی کرنیں آسمان سے اتر کر صحرا کی مٹی کے زروں پر پڑتی ہیں ہیں تو وہ ستاروں کی مانند جگمگانے لگتے ہیں اور اس صحرا کے درمیان میں نہر فرات اس طرح معلوم ہوتی جیسے ستاروں کے درمیاں کہکشاں ہو۔ مخمل جیسی گھاس اور درختوں پر کوہ طور کی سی روشنی ہے اور ایسا لگتا ہے آسمان سے اللہ کا نور برس رہا ہے۔

اوجِ زمین سے پست تھا چرخِ زبر جدی
کوسوں تھا سبزہ زار سے صحرا زمردی
ہر خشک و تر پہ تھا کرمِ بحرِ سرمدی
بے آب تھے مگر دُرِ دریائے احمدی
روکے ہوئے تھی نہر کو امت رسول کی
سبزہ ہرا تھا خشک تھی کھیتی بتول کی

میں شاعر نے شاعر کہتا ہے کہ کربلا کی زمین اتنی خوبصورت ہے کہ اس کے سامنے آسمان بھی پھیکا لگتا ہے۔ اس کا وسیع میدان سبزہ کی وجہ سے ہرا بھرا دیکھائی دیتا ہے اور وہ زمرد کا منظر پیش کرتا ہے۔ زمین اور پانی اللہ کا کرم ہے، مگر نہر فرات کے پانی پر یزید نے قبضے میں کرلیا تھا وہ اہلِ بیت کو پانی تک نہیں پینے دیتے تھے۔ ہر طرف سبزہ ہرا بھرا ہے، مگر یزیدیوں کے اس ظلم کی وجہ سے امت رسول ﷺ پیاس سے مرجھا رہی ہے۔

وہ پھولنا شفق کا وہ مینائے لاجورد
مخمل س وہ گیا وہ گل سبز سرخ و زرد
رکھتی تھی پھونک کر قدم اپنا ہوائے سرد
یہ خوف تھا کہ دامنِ گل پر پڑے نہ گرد
پھولوں سے سبز سبز شجر سرخ پوش تھے
تھالے بھی نخل کے سبد گل فروش تھے

اس میں شاعر نے صبح کی آمد کے منظر کا ذکر کیا ہے شاعر کہتا ہے کہ صبح کی سرخی کا پھیلنا اور ہر طرف سبزہ کے مخملیں قالیوں نے صبح کو دلکش بنا دیا ہے۔ اور ہوائیں بھی وہاں پھونک پھونک کر قدم رکھتی ہیں یعنی دھیمی چلتی ہیں تاکہ خاک اڑ کر گلوں پر نہ پڑ جائے۔ وہاں سبھی درخت پھولوں سے لدے ہوئے تھے۔ اور ایسا لگتا تھا کے پھولوں کو بیچنے کے لیے ایک جگہ جمع کر رکھا ہے۔

سوال ۱ : دوسرے اور چوتھے بند کی تشریح کیجیے :

بند نمبر ۲ :

چلتا وہ باد صبح کے جھونکوں کا دم بدم
مرغان باغ کی وہ خوز الحانیاں بہم
وہ آب و تابِ نہر وہ موجوں کا پیچ و خم
سردی ہوا میں پر نہ زیادہ بہت نہ کم
کھا کھا کے اوس اور بھی سبزہ ہرا ہوا
تھا موتیوں سے دامنِ صحرا بھرا ہوا

اس بند میں شاعر نےکربلا کے منظر کا ذکر کیا ہے شاعر کہتا ہے کہ وادی میں ٹھنڈی ہوا کے جھونکوں نے منظر دلفریبی پیدا کردی ہے۔ باغ میں موجود پرندے اپنی خوبصورت آوازوں میں اللہ پاک کا ذکر کر رہے ہیں نہر کا پانی اور اس کی بل کھاتی لہریں آپس میں ٹکرا رہی ہیں۔ ہوا میں سردی ہے مگر نہ بہت زیادہ ہے نہ بہت کم۔ رات بھر پڑنے والی اوس سے گھاس اور بھی ہری نظر آرہی ہے۔ اور گھاس پر اوس کے قطرے ہر طرف بکھرے ہوئے موتیوں کا منظر پیش کر رہے ہیں۔

بند نمبر ۴ :

آمد وہ آفتاب کی وہ صبح کا سماں
تھا جس کے ضَو سے وجد میں طاؤسِ آسماں
ذروں کی روشنی پہ ستاروں کا تھا گماں
نہر فرات بیچ میں تھی مثل کہکشاں
ہر نخل پر ضیائے سرِ کوہ طور تھی
گویا فلک سے بارش باران نور تھی

اس بند میں شاعر نے صبح طلوع ہونے کے بعد کا منظر بیان کیا ہے۔ شاعر کہتا ہے کہ سورج کی چمک دمک سے آسمان سج گیا ہے۔ اس کی کرنیں آسمان پر مور کی طرح رقص میں ہیں۔ اور جب یہی کرنیں آسمان سے اتر کر صحرا کی مٹی کے زروں پر پڑتی ہیں ہیں تو وہ ستاروں کی مانند جگمگانے لگتے ہیں اور اس صحرا کے درمیان میں نہر فرات اس طرح معلوم ہوتی جیسے ستاروں کے درمیاں کہکشاں ہو۔ مخمل جیسی گھاس اور درختوں پر کوہ طور کی سی روشنی ہے اور ایسا لگتا ہے آسمان سے اللہ کا نور برس رہا ہے۔

سوال ۲ : جزو (ا) میں دیے ہوئے الفاظ کا معنوی رشتہ جزو (ب) میں دیئے ہوئے جن الفاظ سے ہے، ان کا انتخاب کر کے لکھیے۔

جزو (ا) جزو ( ب)
شفق کہکشاں
آفتاب لالا زار
انجم زر
شبنم گلاب
نہر فرات موتی

اب آپ نظم “آمد بہار” میں سے تمام تشبیہات چن کر مندرجہ بالا چارٹ کی شکل میں لکھیے۔

  • مشبہ : شفق
  • مشبہ بہ : لالہ زار
  • وجہ تشبیہہ : سرخی
  • حرف تشبیہ : ــــــــــــــ
  • مشبہ : محبوب کا لب
  • مشبہ بہ : گلاب کی پنکھڑی
  • وجہ تشبیہہ : گلابی رنگت اور نازکی
  • حرف تشبیہ : کی سی
  • مشبہ : زر انجم
  • مشبہ بہ : چاند ستارے
  • وجہ تشبیہہ : چمک
  • حرف تشبیہ : ــــــــــــــ
  • مشبہ : موتی
  • مشبہ بہ : شبنم
  • وجہ تشبیہہ : موتی جیسی شفافیت
  • حرف تشبیہ : ــــــــــــــ
  • مشبہ : مخمل
  • مشبہ بہ : نرم کپڑا
  • وجہ تشبیہہ : مخمل کے قالیں جیسا نرم
  • حرف تشبیہ : مخمل سی