نعت (الطاف حسین حالیؔ)، تشریح، سوالات و جوابات

0

نعت کی تعریف

نعت اس کو کہتے ہیں جس میں حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی تعریف کی جائے۔

سوال نمبر 1: اس نظم کے بندوں کی تشریح بیان کیجیے۔

یہ نظم (نعت) الطاف حسین حالیؔ کی ہے۔ اس میں انہوں نے حضرت محمدﷺ کی تعریف کی ہے۔ انہوں نے اس نعت میں یہ بتایا ہے کہ وہ رحمت اللعالمین تھے۔ پوری دنیا کے لئے ایک رہنما بن کر آئے تھے۔ انہوں نے لوگوں کو راہ راست دکھایا اور برے راستے پر چلنے سے روکا۔

وہ نبیوں میں رحمت لقب پانے والا
مرادیں غریبوں کی بر لانے والا
مصیبت میں غیروں کے کام آنے والا
وہ اپنے پرائے کا غم کھانے والا
فقیروں کا ملجا ضعیفوں کا ماویٰ
یتیموں کا والی غلاموں کا مولیٰ

پہلے بند میں الطاف حسین حالی کہتے ہیں کہ وہ نبیوں میں رحمت لقب پانے والے آپ صلی اللہ علیہ وسلم آخری نبی تھے۔جن کو رحمت للعالمین کا لقب ملا اور وہ غریبوں کی مرادیں پورا کرتے تھے اور غریبوں کے کام آتے تھے فقیروں کو پناہ دیتے تھے۔ ضعیف کو ٹھکانہ دیتے تھے۔ یتیموں اور غلاموں کی سرپرستی کرتے تھے الغرض اس پورے بند کا مطلب یہ ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ و سلم چاہے وہ اپنا ہو یا پرایا ہو دونوں کی مدد کرتے تھے۔

خطا کا ر سے درگزر کرنے والا
بد اندیش کے دل میں گھر کرنے والا
مفاسد کا زیر و زبر کرنے والا
قبائل کو شیر و شکر کرنے والا
اتر کر حِرا سے سوئے قوم آیا
اور اک نسخہ کیمیا ساتھ لایا

دوسرے بند میں وہ اس طرح کہتے ہیں کہ اگر کسی نے کوئی خطا کی ہو تو اس کو معاف فرما دیتے اور اگر کوئی شخص بداندیش ہوتا یا برا چاہنے والا ہوتا اس کے دل میں وہ اپنے لئے جگہ بناتے تھے۔ وہ ان سے بدلہ نہیں لیتے تھے بلکہ ہمدردی سے پیش آتے تھے۔ اگر کوئی فساد کرتا تو اس کو اپنے طریقے سے سمجھاتے تھے بدلہ نہیں لیتے تھے بلکہ قبائل کو شیر و شکر کرنے والے تھے۔ غار حرا میں جہاں وہ اللہ پاک کی عبادت کرتے تھے وہاں پر ہی قرآن کریم کی وحی نازل ہوئی اور وہ اس کو ہمارے لئے لے کر آئے اور ہمیں راہ راست پہ چلنے کی دعوت دی۔

مس خام کو جس نے کندن بنایا
کھرا اور کھوٹا الگ کر دکھایا
عرب جس پہ قرنوں سے تھا جہل چھایا
پلٹ دی بس اک آن میں اس کی کایا
رہا ڈر نہ بیڑے کو موجِ بلا کا
اِدھر سے اُدھر پھر گیا رخ ہوا کا

تیسرے بند میں اس طرح کہتے ہیں کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم ہمارے لئے رحمت بن کے آئے۔ اس سے پہلے یہ دنیا ایک جہالت میں پڑی ہوئی تھی اور لوگوں کو اچھے برے کی تمیز نہیں تھی۔ انہوں نے برے اور اچھے کو الگ کر کے دکھایا اور یہ بتایا کہ اچھا کیا ہے اور برا کیا۔عرب جو صدیوں سے جہالت میں پڑی ہوئی تھی اس کو راہ راست دکھایا۔ مثال کے طور پر جیسے بچوں کو پہلے زندہ درگور کیا جاتا تھا آخری مصرے میں وہ اس طرح کہتے ہیں۔ کشتی کو ہمیشہ سمندر کی تیز وتندلہروں سے ڈر لگتا ہے لیکن آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کا رخ تبدیل کر دیا یعنی جو قوم پہلے برائیوں کے دلدل میں پھنسی ہوئی تھی اب ان کو دین اسلام کا راستہ دکھایا۔

اس نظم کے سوالوں کے جوابات

سوال: آپﷺ غار حرا میں خدا کی عبادت کرتے تھے۔ یہ غار کس جگہ واقع ہے؟

جواب: آپﷺ غار حرا میں خدا کی عبادت کرتے تھے اور یہ غار مکہ مکرمہ میں واقع ہے۔

سوال: اسلام قبول کرنے سے پہلے عربوں میں قسم قسم کی برائیاں تھیں، شاعر نے ان میں سے کس کس برائی کا ذکر کیا ہے؟

جواب: اسلام قبول کرنے سے پہلے عرب میں طرح طرح کی برائیاں موجود تھیں۔ وہ غریبوں کا خون کرتے تھے، لڑکیوں کو زندہ در گور کرتے تھے، جنگ و فساد کرتے تھے وغیرہ وغیرہ۔

سوال: شاعر نے حضرت محمدﷺ کی کچھ صفات کا ذکر کیا ہے۔ آپ ان خوبیوں کو اپنے الفاظ میں بیان کریں؟

جواب: شاعر نے اس نعت میں آپ ﷺ کی بہت ساری خوبیوں کا ذکر کیا ہے جن میں سے چند یوں ہیں۔ آپ غریبوں یتیموں اور محتاجوں کے والی تھے، آپ نے لوگوں کو جہالت سے نکالا اور سیدھے راستے کا پیغام دیا اور آپ اپنے مخالفین سے بھی نیک برتاؤ کرتے تھے اور ہر کسی کے کام آتے تھے۔