سبق: کرپشن ایک سماجی برائی، خلاصہ، سوالات و جوابات

0
  • پنجاب کریکولم اینڈ ٹکیسٹ بک بورڈ “اردو” برائے “آٹھویں جماعت”
  • سبق نمبر: 17
  • سبق کا نام: کرپشن ایک سماجی برائی

خلاصہ سبق:

کرپشن یا بد عنوانی کسی بھی معاشرے کے لیے زہر قاتل سے کم نہیں۔ جو لوگ بدعنوانی کرتے ہیں، وہ در حقیقت دوسروں کا حق مارتے ہیں جس سے معاشرے میں مایوسی بغص انتقام، نفاق اور نفرت جیسے جذبات فروغ پاتے ہیں۔نتیجتا امن اور ترقی کے بجائے معاشرہ افراتفری، لاقانونیت کا شکار ہو جاتا ہے۔

لفظ کر پشن وسیع مفہوم رکھتا ہے۔اردو میں اس کے معنی بدعملی، بدعنوانی، بد اخلاقی ، بگاڑ وغیرہ کے ، جب کہ عربی میں کرپشن“ کا لفظ فساد، انحراف اور مفسد کے معنوں میں استعمال ہوتا ہے۔ کرپشن کا لفظ ہر زبان، ہر ملک اور ہر معاشرے میں گھناؤنے اور منفی کاموں کے لیے بولا جاتا ہے۔کسی بھی ملک وقوم کی تباہی میں کرپشن کا بنیادی کردار ہوتا ہے۔یہ نہ صرف برائیوں کی جڑ بلکہ ایک بین الاقوامی مسئلہ ہے۔

دنیا بھر میں حکومتوں کی کارکردگی میں شفافیت اور کرپشن کا جائزہ لینےوالی عالمی تنظیم ٹرانسپرنسی انٹرنیشنل نے اپنی متعدی سالانہ رپورٹوں میں کرپشن کا جائزہ لیتی ہےاس کے مطابق جنوبی ایشیا کا خطہ سب سے زیادہ بد عنوانی کا شکار ہے۔چھوٹے یا بڑے پیمانے پر مالیاتی ہیر پھیر غبن ، دھوکا، فریب، جھوٹ ، بے قاعدگی سے مال بنانا کرپشن کی صرف چند معروف صورتیں ہے۔

ان کے علاوہ انسان کے اندر دولت کی ہوس اور غصب کا رجحان در اصل ایک فساد زدہ ذہنیت، پست اخلاقی رویے اور حرص کا میلان ہوتا ہے۔اُصول، قاعدے اور ضابطے سے ہٹ کر کیا جانے والا ہر عمل کر پشن ہے۔ ملکی آئین اور دستور سے ماورا کوئی اقدام خواہ ملک کا صدر اور وزیر اعظم کریں، انتظامی مشینری کے چھوٹے بڑے اہلکار کریں یا کوئی اور کرے اس کو کرپشن ہی کہیں گے۔

حکومت یا عدالت یا کسی اور اہم ادارے میں کوئی شخصیت اگر قواعد و ضوابط کو توڑ کر لوٹ ماراقربا پروری اور دوست نوازی کرے یا خاص افراد اور گروہوں کو بے جواز اور ناحق فائدہ پہنچائے تو یہ کرپشن ہے، قطع نظر اس کے کہ ایسا کرنے والی شخصیت نے خود اس کام کے عوض کوئی پیسے یا مفادلیا ہے یا نہیں۔سرکاری محکموں کے افسران کی رشوت خور نہ ہوں مگر وقت پر دفتر نہ پہنچتے ہوں اور وقت سے پہلے دفتر سے چلے جاتے ہوں تو ان کا یہ طرز عمل بھی کر پشن کی ایک قسم ہے۔

سرکاری دفتروں میں قومی وسائل کابے دریغ استعمال بھی ےکر پیش کی ذیل میں آنے والی حرکت ہے۔ حتی کہ اگر اعلی مناصب پر فائز شخصیات خودسرکاری خرچ پر حج و عمرہ کریں اور اپنے اعزہ واقارب اور دوست احباب کو بھی ساتھ لے جائیں تو یہ بھی کر پشن ہے۔ان تمام اقسام کی کرپشن کے خاتمے کے بغیر معاشرہ آگے نہیں بڑھ سکتا۔کرپشن پر قابو پانے کا ایک مؤثر طریقہ سزا اور جزا ہے لیکن اس کے علاوہ بھی عصر حاضر میں کرپشن کے خاتمے کا دنیا بھر میں تیزی سے مقبول ہوتا ہوا ایک اور طریقہ ڈیجیٹلائزیشن بھی ہے۔

اس طریقے کے تحت وہ سرکاری اہل کا ہوتا کار جنھوں نے کسی شہری کا کوئی کام کرنا ہوتا ہے اور وہ شہری جنھوں نے ان سے کام کروانا ہوتا ہے، دونوں کو ایک دوسرے سےدور کر دیا جاتا ہے ، یعنی شہریوں کے مسائل آن لائن یا ڈیجیٹل نظام کے تحت ایک خود کار انداز میں حل کیے جاتے ہیں جس کی مدد سے وہ اپنے گھروں یا دفاتر میں بیٹھے بیٹھے اپنے مسائل و معلومات اور دستاویزات کو متعلقہ ادارے کے ڈیجیٹل پورٹل پر آپ لوڈ کر دیتے ہیں جس کے بعد متعلقہ اہل کاروں کے لیے موصول ہونے والے ڈیٹا کے درست ہونے پر شہریوں کے مسائل حل کرنا لازمی ہو جاتا ہے۔

یوں جب درخواست گزار اور درخواستوں پر عمل درآمد کرنے والے ایک دوسرے کے سامنے ہی نہیں آتے اور ایک دوسرے سے واقف ہی نہیں ہوتے تو پھر ظاہر ہے کہ ان کے لیے ہیرا پھیری کرنا یا ایک دوسرے سے پیسے یا کوئی اور مفاد لینا یا دینا بھی آسان نہیں رہتا۔کرپشن پر قابو پانے کا ایک طریقہ شہریوں کی زندگیوں میں زیادہ سے زیادہ سہولیات پیدا کرنا بھی ہے۔ اگر ریاست شہریوں کے لیے زندگی آسان بنا دے تو انھیں کرپشن کی ضرورت ہی نہیں رہے گی ، یعنی جب شہریوں کو کھانے پینے کی اشیا ستے داموں ملیں گی ، تعلیم اور صحت کی ستی سہولیات میسر آئیں گی تو پھر انھیں بدعنوانی کرنے کی ضرورت ہی نہیں رہے گی۔اکثرلوگ اپنے کردار کی کم زوری یا تربیت کے خام ہونے کے سبب سے اپنی نفسانی خواہشات کی تکمیل کے لیے بد عنوانی کی جانب راغب ہوتے ہیں۔لیکن ہم اپنے شہریوں کو اعلیٰ اخلاقی اقدارسکھا کر،دینی تعلیمات سے روشناس کروا کراوربدعنوانی کےنقصانات سے آگاہ کر کے بھی اس مہلک فعل سے باز رکھ سکتے ہیں۔

  • مشق:

مندرجہ ذیل سوالات کے مختصر جواب دیں۔

کرپشن سے کیا مراد ہے؟

لفظ کر پشن وسیع مفہوم رکھتا ہے۔اردو میں اس کے معنی بدعملی، بدعنوانی، بد اخلاقی ، بگاڑ وغیرہ کے ، جب کہ عربی میں کرپشن“ کا لفظ فساد، انحراف اور مفسد کے معنوں میں استعمال ہوتا ہے۔ کرپشن کا لفظ ہر زبان، ہر ملک اور ہر معاشرے میں گھناؤنے اور منفی کاموں کے لیے بولا جاتا ہے۔

کرپشن کی چند صورتیں بیان کریں۔

چھوٹے یا بڑے پیمانے پر مالیاتی ہیر پھیر غبن ، دھوکا، فریب، جھوٹ ، بے قاعدگی سے مال بنانا کرپشن کی صرف چند معروف صورتیں ہے۔ ان کے علاوہ انسان کے اندر دولت کی ہوس اور غصب کا رجحان در اصل ایک فساد زدہ ذہنیت، پست اخلاقی رویے اور حرص کا میلان ہوتا ہے۔

شفافیت سے کیا مراد ہے؟

دنیا بھر میں حکومتوں کی کارکردگی میں شفافیت اور کرپشن کا جائزہ لینےوالی عالمی تنظیم ٹرانسپرنسی
انٹرنیشنل نے اپنی متعدی سالانہ رپورٹوں میں کرپشن کا جائزہ لیتی ہے یہ شفافیت بھی کہلاتی ہے۔

کیا کرپشن یا بد عنوانی صرف رشوت خور اہلکار کرتے ہیں یا کوئی اور بھی کرتا ہے؟

اُصول، قاعدے اور ضابطے سے ہٹ کر کیا جانے والا ہر عمل کر پشن ہے۔ ملکی آئین اور دستور سے ماورا کوئی اقدام خواہ ملک کا صدر اور وزیر اعظم کریں، انتظامی مشینری کے چھوٹے بڑے اہلکار کریں یا کوئی اور کرے اس کو کرپشن ہی کہیں گے۔ حکومت یا عدالت یا کسی اور اہم ادارے میں کوئی شخصیت اگر قواعد و ضوابط کو توڑ کر لوٹ ماراقربا پروری اور دوست نوازی کرے یا خاص افراد اور گروہوں کو بے جواز اور ناحق فائدہ پہنچائے تو یہ کرپشن ہے، قطع نظر اس کے کہ ایسا کرنے والی شخصیت نے خود اس کام کے عوض کوئی پیسے یا مفادلیا ہے یا نہیں۔سرکاری محکموں کے افسران کی رشوت خور نہ ہوں مگر وقت پر دفتر نہ پہنچتے ہوں اور وقت سے پہلے دفتر سے چلے جاتے ہوں تو ان کا یہ طرز عمل بھی کر پشن کی ایک قسم ہے۔ سرکاری دفتروں میں قومی وسائل کابے دریغ استعمال بھی ےکر پیش کی ذیل میں آنے والی حرکت ہے۔ حتی کہ اگر اعلی مناصب پر فائز شخصیات خودسرکاری خرچ پر حج و عمرہ کریں اور اپنے اعزہ واقارب اور دوست احباب کو بھی ساتھ لے جائیں تو یہ بھی کر پشن ہے۔

کیا ریاست صرف سز او جزا کے ذریعے سے کرپشن پر قابو پاسکتی ہے؟

کرپشن پر قابو پانے کا ایک مؤثر طریقہ سزا اور جزا ہے لیکن اس کے علاوہ بھی عصر حاضر میں کرپشن کے خاتمے کا دنیا بھر میں تیزی سے مقبول ہوتا ہوا ایک اور طریقہ ڈیجیٹلائزیشن بھی ہے۔ اس طریقے کے تحت وہ سرکاری اہل کا ہوتا کار جنھوں نے کسی شہری کا کوئی کام کرنا ہوتا ہے اور وہ شہری جنھوں نے ان سے کام کروانا ہوتا ہے، دونوں کو ایک دوسرے سےدور کر دیا جاتا ہے ، یعنی شہریوں کے مسائل آن لائن یا ڈیجیٹل نظام کے تحت ایک خود کار انداز میں حل کیے جاتے ہیں جس کی مدد سے وہ اپنے گھروں یا دفاتر میں بیٹھے بیٹھے اپنے مسائل و معلومات اور دستاویزات کو متعلقہ ادارے کے ڈیجیٹل پورٹل پر آپ لوڈ کر دیتے ہیں جس کے بعد متعلقہ اہل کاروں کے لیے موصول ہونے والے ڈیٹا کے درست ہونے پر شہریوں کے مسائل حل کرنا لازمی ہو جاتا ہے۔ یوں جب درخواست گزار اور درخواستوں پر عمل درآمد کرنے والے ایک دوسرے کے سامنے ہی نہیں آتے اور ایک دوسرے سے واقف ہی نہیں ہوتے تو پھر ظاہر ہے کہ ان کے لیے ہیرا پھیری کرنا یا ایک دوسرے سے پیسے یا کوئی اور مفاد لینا یا دینا بھی آسان نہیں رہتا۔

کیا تعلیم بد عنوانی کے خاتمے میں کوئی کردار ادا کرسکتی ہے؟

جی ہاں تعلیم بد عنوانی کے خاتمے میں اہم کردار ادا کرسکتی ہے۔کیونکہ اکثرلوگ اپنے کردار کی کم زوری یا تربیت کے خام ہونے کے سبب سے اپنی نفسانی خواہشات کی تکمیل کے لیے بد عنوانی کی جانب راغب ہوتے ہیں۔لیکن ہم اپنے شہریوں کو اعلیٰ اخلاقی اقدارسکھا کر،دینی تعلیمات سے روشناس کروا کراوربدعنوانی کےنقصانات سے آگاہ کر کے بھی اس مہلک فعل سے باز رکھ سکتے ہیں۔

مندرجہ ذیل سوالات کے تفصیلی جواب دیں۔

(الف) کرپشن ختم کرنے کا کوئی ایک طریقہ تفصیل سے بتائیں۔

کرپشن پر قابو پانے کا ایک طریقہ شہریوں کی زندگیوں میں زیادہ سے زیادہ سہولیات پیدا کرنا بھی ہے۔ اگر ریاست شہریوں کے لیے زندگی آسان بنا دے تو انھیں کرپشن کی ضرورت ہی نہیں رہے گی ، یعنی جب شہریوں کو کھانے پینے کی اشیا ستے داموں ملیں گی ، تعلیم اور صحت کی ستی سہولیات میسر آئیں گی تو پھر انھیں بدعنوانی کرنے کی ضرورت ہی نہیں رہے گی۔

(ب) ڈیجیٹلائزیشن کے ذریعے سے کس طرح بدعنوانی پر قابو پایا جاسکتا ہے؟

ڈیجیٹلائزیشن بدعنوانی پر قابو پانے کا ایک مؤثر طریقہ کار ہے اس طریقے کے تحت وہ سرکاری اہل کار جنھوں نے کسی شہری کا کوئی کام کرنا ہوتا ہے اور وہ شہری جنھوں نے ان سے کام کروانا ہوتا ہے، دونوں کو ایک دوسرے سےدور کر دیا جاتا ہے ، یعنی شہریوں کے مسائل آن لائن یا ڈیجیٹل نظام کے تحت ایک خود کار انداز میں حل کیے جاتے ہیں جس کی مدد سے وہ اپنے گھروں یا دفاتر میں بیٹھے بیٹھے اپنے مسائل و معلومات اور دستاویزات کو متعلقہ ادارے کے ڈیجیٹل پورٹل پر آپ لوڈ کر دیتے ہیں جس کے بعد متعلقہ اہل کاروں کے لیے موصول ہونے والے ڈیٹا کے درست ہونے پر شہریوں کے مسائل حل کرنا لازمی ہو جاتا ہے۔ یوں جب درخواست گزار اور درخواستوں پر عمل درآمد کرنے والے ایک دوسرے کے سامنے ہی نہیں آتے اور ایک دوسرے سے واقف ہی نہیں ہوتے تو پھر ظاہر ہے کہ ان کے لیے ہیرا پھیری کرنا یا ایک دوسرے سے پیسے یا کوئی اور مفاد لینا یا دینا بھی آسان نہیں رہتا۔

متن کے مطابق درست جواب پر ✔️ کا نشان لگا ئیں۔

  • کسی بھی ملک وقوم کی تباہی میں کرپشن کا کردار ہوتا ہے:
  • بنیادی نوعیت کا ✔️ ثانوی نوعیت کا عجیب نوعیت کا لطیف نوعیت کا
  • برائیوں کی جڑ بھی کہاں جاتا ہے :
  • مشکلات کو بیماری کو فراست کو کرپشن کو✔️
  • شہریوں کی زندگیوں میں زیادہ سے زیادہ سہولیات پیدا کرنا :
  • بدعنوانی کرنے کا طریقہ ہے بدعنوانی پر قابو پانے کا طریقہ ہے✔️ بدعنوانی بڑھانے کا طریقہ ہے بدعنوانی دبانے کا طریقہ ہے
  • شہریوں کی تعلیم و تربیت پر بھر پور توجہ دینا:
  • برا طریقہ ہے بدعنوانی پر قابو پانے کا طریقہ ہے✔️ اچھا طریقہ ہے ناقص طریقہ ہے
  • سرکاری دفتروں میں قومی وسائل کا بے دریغ استعمال بھی :
  • معصومیت ہے بے وقوفی ہے کرپشن ہے✔️ ایمان داری ہے
  • کر پشن کے خاتمے کا دنیا بھر میں تیزی سے مقبول ہوتا ہوا طریقہ :
  • ریشنلائزیشن ہے فارملائزیشن ہے ڈیجیٹلائزیشن ہے✔️ ریجنلائزیشن ہے

مصنف نے سبق ” کر پشن : ایک سماجی برائی کے ذریعے سے ہمیں کیا بتانے کی کوشش کی ہے؟ سبق کو تو جہ سے پڑھیے اور جواب دیجیے۔

کرپشن ایک سماجی برائی کے ذریعے یہ بتانے کی کوشش کی گئی ہے کہ دراصل یہ کرپشن ہے کیا اور کسی طرح یہ کسی قوم یا معاشرے کو تباہی کی جانب دھکیلتی ہے۔ کون کون سے افعال کرپشن کے دائرہ کار میں آتے ہیں اور ساتھ ہی اس کے معاشرے پر اثرات اور اس مسلئے پر قابو پانے کا حل بھی تجویز کیا گیا ہے۔

زبان شناسی:تلمیح کے لغوی معنی ہیں ” اشارہ کرنا۔ شعری اصطلاح میں تلمیح سے مراد ہے ایک لفظ یا مجموعہ الفاظ جن کے ذریعے سے کسی تاریخی، سیاسی ، اخلاقی یا مذہبی واقعے کی طرف اشارہ کیا جاتا ہے۔ تلمیح کے استعمال سے شعر کے معنوں میں وسعت اور حسن پیدا ہوتا ہے۔

ذیل میں موجود تمیحات سے منسلک روایات کو اپنے الفاظ میں تحریر کریں۔

آب زم زم

آب زمزم پروردگار کی دائمی رحمت کی نشانی ہے جو پانچ ہزار سال قبل حضرت اسماعیل علیہ السلام کے قدموں تلے پھوٹا تھا، جب ان کی والدہ پانی کی تلاش میں کوہ صفا اور مروہ کے درمیان چکر لگا رہی تھیں۔زمزم کے کنویں کا نام درحقیقت ’زم زم‘ سے پڑا ہے جس کے معنی ’ٹھرنا‘ کے ہیں۔ یہ الفاظ حضرت اسماعیل علیہ السلام کی والدہ نے اس وقت دہرائے تھے جب اچانک زمین سے چشمہ پھو ٹنے کے بعد وہ بہتے پانی کو روکنے کی کوشش کر رہی تھیں۔

طوفانِ نوح

حضرت نوح مدت دراز تک اپنی قوم کو سمجھاتے رہے مگر (۸۰) آدمیوں کے سوا کوئی ان پر ایمان نہیں لایا۔ انہوں نے اپنی قوم کے لیے بدعا کی۔ خدا نے پانی کا طوفان بھیجا۔ حضرت نوح کو پہلے سے خبر دی گئی۔ ہدایت الہی کے مطابق انہوں نے ایک کشتی تیار کی۔ اس میں ہرجانور کا ایک جوڑا رکھا، تاکہ طوفان کے بعد ان جانوروں کی نسل چلے۔ (۱۰۸) مریدوں کو بھی اسی کشتی میں جگہ دی۔ آغاز طوفان کے وقت آسمان سے موسلادھار پانی برسنے لگا اور ایک بڑھیا کے تنور سے بھی الغاروں پانی ابلنے لگا۔ کشتی پانی پر تیرنے لگی۔ درختوں اور ٹیلوں پر پانی پھر گیا۔ حضرت نوح کا بیٹا کنعان ان سے سرکش رہا۔ اس نے باوجود بار بار بلانے کے کشتی میں پناہ نہیں لی۔ ایک تندموج آئی اور اسے بہا لے گئی۔ حضرت نوح کی کشتی جو دی پہاڑ پر ٹھیری۔ کبوتر جو کشتی میں سے چھوڑا گیا تھا، زیتون کی ہری ٹہنی چونچ میں لایا۔ اور اس نے طوفان تھمنے کی خبردی۔ اس قصے کی طرف جب اشارہ کیا جاتا ہے تو حسب ذیل الفاظ آتے ہیں۔ کشتی نوح۔ طوفان نوح وغیرہ۔

تیشه فرہاد

شیریں کو تازہ دودھ سے بہت رغبت تھی۔ شہر کے کنارے ایک پہاڑ کوہ بے ستوں نامی کھڑا تھا۔ اس کی پشت پر بکریوں کے گلے چرتے تھے۔ انہیں کا دودھ شیریں کے محل میں لایا جاتا تھا، مگر اتنی دور سے لانے میں دقت تھی۔ ایک نامی سنگ تراش فرہاد سے کہا گیا کہ وہ کوہ مذکور سے ایک نہر کاٹ کر شیریں کے محل تک پہنچادے تاکہ چراگاہ سے بکریوں کا دودھ دُہ کر نہر میں ڈالا جائے اور وہ بہہ کر شیریں کے محل میں پہنچے۔ فرہاد مذکور بھی اتفاق سے شیریں پر فریفتہ تھا۔ اس کے عشق کے چرچے پھیل چکے تھے۔ خسرو نے اس خیال سے کہ اس سے پیچھا چھڑائے، یہ خدمت اس کے سپرد کی اور وعدہ کیا کہ اگر وہ اس خدمت کو سر انجام دے سکا تو شیریں اس کو بخش دی جائےگی۔خسرو کو یقین تھا کہ فرہاد اس سنگین خدمت کو انجام تک نہ پہنچا سکےگا، مگر عشق اور امید وصال محبوب نے فرہاد میں ہزاروں سنگ تراشوں کی قوت پیدا کر دی۔ وہ کمر باندھ کر اس کام میں مشغول ہو گیا۔ بے ستون کے پتھر کاٹنے کے وقت فرہاد عشق کی دھن میں جابجا شیریں کی مورتیں تراشتا جاتا تھا۔ کئی سال کے بعد جب یہ کام اختتام کے قریب پہنچا اور ایفائے وعدہ کا وقت آیا، تو خسرو نے ایک مکار بڑھیا کو فرہاد کے پاس بھیجا جو سر کے بال بکھرے ہوئے روتی پیٹتی اس کے پاس پہنچی اور اس نے یہ جھوٹی خبر سنائی کہ شیریں کا انتقال ہو گیا۔ فرہاد کو جو صدمہ اس خبر سے ہوا، وہ الفاظ میں بیان نہیں ہو سکتا۔ اس کے ہاتھ میں تیشہ تھا، وہی تیشہ اپنے سرپر دے مارا اور ہلاک ہو گیا۔

چاه یوسف

وہ کنواں جس میں حضرت یوسف علیہ السلام کو پھینکا گیا تھا۔

آتش نمرود

بابل کے بادشاہ نمرود نے خدائی کا دعوی کیا۔ حضرت ابراہیم نے اسے خدائے واحد کی اطاعت کی دعوت دی۔ مناظر بھی ہوا لیکن نمرود اس میں ناکام ہوا۔حضرت ابرا ہیم ایک دفعہ ان کے بت خانے میں پہنچ گئے ۔ کلہاڑے سے ان کے بت توڑ کر کلہاڑا ایک بڑے بت کے کندھے پر رکھ دیا۔نمرود نے غصے میں آ کرحضرت ابراہیم علیہ السلام کو دعوت توحید پھیلانے اور بت شکنی کی سزا دینے کےلیے نے بہت بڑے گڑھے میں آگ دہکائی اور پھر انہیں اس میں پھینک دیا۔ایسا سب کچھ عشق کی بدولت ممکن تھا۔لیکن اللہ کے حکم سے آپ کے لیے وہ آگ پھول بن گئی اور آپ محفوظ رہے۔

  • لفظوں کا کھیل:

ان تلمیحات کو پہچان کر اپنے جملوں میں استعمال کریں۔

آب حیات مشہور ہے کہ ہر خضر علیہ السلام نے آب حیات پیا تھا۔
تخت سلیمان قرآن مجید میں تخت سلیمان کا ذکر موجود ہے۔
اعجازمسیحا حضرت عیسیٰ علیہ السلام کو اعجازِ مسیحا بھی کہا جاتا ہے۔
کوہ طور کوہ طور وہ پہاڑ ہے جس پر حضرت عیسیٰ اللہ تعالیٰ سے ہم کلام ہوئے۔
چاہ یوسف چاہِ یوسف اس کنویں کو کہا جاتا ہے جس میں حضرت یوسف علیہ السلام کو ان کے بھائیوں نے ڈالا تھا۔

تخلیقی لکھائی:اس تلمیحاتی شعر کی وضاحت کیجیے۔

ابنِ مریم ہوا کرے کوئی
میرے دُکھ کی دعا کرے کوئی

یہ تلمیح کا شعر ہے۔ابن مریم سے مراد حضرت مریم رضی اللہ تعالی عنہا کا بیٹا یعنی حضرت عیسی علیہ السلام ہیں۔ حضرت عیسی علیہ السلام کو اللہ پاک نے یہ قوت عطا کی تھی کہ وہ مردوں کو زندہ کر دیتے تھے اور بیماروں کو اللہ کے حکم سے ٹھیک کر دیتے تھے۔شاعر کہتا ہے کہ حضرت عیسی علیہ السلام کو اللہ نے اگر یہ قوت عطا کی تھی تو مجھے اس سے کوئی فرق نہیں پڑتا میں تو جب جانوں کہ کوئی میرے دکھ دور کرے۔ اصل میں شاعرغالب مرضِ عشق میں مبتلا ہیں اور شاید عشق کی بیماری کا علاج کسی کے پاس بھی نہیں ہے کیونکہ اصل میں یہ کوئی مرض ہے ہی نہیں بلکہ ایک قسم کا وہم ہے اور و ہم کا علاج نہیں ہوتا۔

انسداد بد عنوانی کے موضوع پر مضمون قلم بند کریں۔

کرپشن یا بد عنوانی کینسر کی مانند خطرناک اور سماج کو سماجی موت سے ہمکنار کرنے والا بھیانک مرض ہے، جس معاشرے کو لگ جائے اس معاشرے کی بربادی یقینی سمجھیں۔ بدعنوانی معاشرے میں ایک اچھوت مرض کی طرح پھیلتی ہے اور زندگی کے ہر پہلو کو تباہ کرکے رکھ دیتی ہے، جس طرح آکاس کی زرد بیل درختوں کو جکڑ کر ان کی زندگی چوس لیتی ہے، اسی طرح اگر ایک بار کرپشن کسی صحت مند و توانا معاشرے پر آگرے تو ایک ادارے سے دوسرے ادارے کو جکڑتی چلی جاتی ہے، حتیٰ کہ ہر چیز زرد ہو جاتی ہے اور آباد اور کامیاب اداروں میں کچھ عرصے بعد الو بولنا شروع ہو جاتے ہیں۔انسان خطا کا پتلا ہے۔ زندگی کے حقیقی عنوان سے بھٹکنے والے بدعنوانی کا شکار ہوتے ہیں۔

کرپشن کا یہ راستہ کسی ایک نقطے پر مرکوز نہیں رہتا ۔ وسعتِ کائنات کی طرح یہ بھی دائرہ در دائرہ اپنا جال بچھاتے ہیں۔ بدعنوانی ایک جال ہے جس میں لالچ ، طمع، حرص، جھوٹ،مکاری ، فریب اور خود نمائی کے خوش نما نگینے جَڑے ہیں۔کم فہمی اور خود فریبی کے شکار لوگ ،ان جھوٹے نِگوں کی چمک سے اپنی حقیقت فراموش کر جاتے ہیں۔اُن کی آنکھیں چندھیاجاتی ہیں۔اُنھیں اپنی ذات کے علاوہ کچھ نظر نہیں آتا۔ وہ اپنی بے جا خواہشات کی تکمیل کے لیے ناجائز ذرائع اختیار کرتاہے ۔اپنے ماحول اور معاشرے کا حق مارتاہے ۔ وہ خود کو دوسروں سے بالا تر رتبے کا خواہاں ہوجاتاہے۔ اپنے نفس کی تسکین کے لیے وہ بدعنوانی کا راستہ اختیار کرتاہے ۔اپنی حیثیت سے بالا تر ہو کر لوٹ مار ، قتل و غارت ،ڈاکہ زنی ، چوری ، رشوت اور اپنے اختیار ات کے ناجائز استعمال سے وہ چند روزہ زندگی کو اُلجھنوں اور پریشانیوں میں مبتلا کر لیتاہے۔بدعنوان عناصرپاکستان کی تعلیم ، صحت اور بنیادی ضرورتوں کی تکمیل میں حائل ہیں۔

پاکستان کی ۶۰ فیصد آبادی غربت کا شکار ہے۔صاف پانی ، طبی سہولتوں ، تعلیمی سرگرمیوں ،بجلی، گیس اور اسی قسم کی لازمی ضروریات سے محروم یہ طبقہ گداگری اور دیگر سٹریٹ کرائمز میں مبتلا ہوجاتاہے۔ اس لیے ضروری ہے کہ ہم کرپشن اور بدعنوانی کے خلاف اجتماعی جنگ کریں۔ آج ہم جن مسائل کا شکار ہیں وہ بدعنوانی کی وجہ سے پیدا ہوئے ہیں۔ محبِ وطن طبقہ بدعنوانی سے پاک پاکستان کا خواب دیکھ رہا ہے ۔ یہی وجہ ہے کہ بدعنوانی کے خلاف جنگ میں ہم سب ایک ہیں۔ مقاصد کے حصول کے لیے ایمان داری، محنت ، حب الوطنی اور خلوصِ نیت بہت ضروری ہے ۔ سماجی انصاف کا راستہ بدعنوانی کے خاتمہ سے ہی ممکن ہے ۔

پاکستان کو کرپشن سے پاک کرنے کے لیے اخلاقی اقدار کا فروغ وقت کی اہم ضرورت ہے۔کے ہاتھ بہت لمبے ہیں۔کسی برائی کے خلاف جد وجہد کا انحصار معاشرہ کے اخلاقی معیاروں پر ہوتا ہے۔ اہمیت اس بات کی ہوتی ہے کے ہم کس بات کو رد اور کس کو قبول کرتے ہیں۔ اخلاقی اقدار اور جذبۂ دردِ دل ایسے خزینے ہیں جو کسی بھی قوم کو قابلِ احترام بناتے ہیں۔بد عنوانی کے رویوں کے ساتھ بدعنوانی کا مقابلہ ممکن نہیں۔ کوئی نگران اگر خود بد دیانت ہو تو لوٹ میں اپنا حصہ مانگ کر کرپشن میں معاونت کرتا ہے جس سے بربادی کا عمل اور گہرا ہو جاتا ہے۔کرپشن کے خاتمےکےلیےجب تک معاشرے کا ہر فرد اپنا اپنا انفرادی کردار ادا نہیں کرے گا کرپشن کا علاج ممکن نہیں۔ محکمہ انسدادِ رشوت ستانی کے ساتھ قدم بہ قدم تعاون کی ضرورت ہے ۔ یہ امر ایک جہاد ہے ۔اس سماجی برائی کے خاتمے کے لیے خاص کر اساتذۂ کرام کے علاوہ ، علمائے کرام اور میڈیا کا فرض عین ہے کہ وہ معاشرے میں موجود کرپشن کی حقیقت کو بے نقاب کریں اور اس کے خاتمے کے لیے ہر فرد اپنا کردار ادا کرے۔