فصاحت کی تعریف

0

فصاحت

لغوی تعریف: فصاحت عربی لفظ ہے جس کے لغوی معنی ظاہر اور صاف ہونے کے ہیں۔ عربی زبان میں کہتے ہیں فَصَحَ الصبحُ=صبح ظاہر ہوئی۔ اَفْصَحَ الاَمرُ= معاملہ واضح ہو گیا۔ افصح اللبنُ=دودھ بے جھاگ ہو گیا۔

اصطلاحی تعریف:

علمائے ادب نے فصاحت کی یہ تعریف کی ہے کہ لفظ میں جو حروف آئیں ان میں تنافر نہ ہو، الفاظ نامانوس نہ ہوں، قواعدِ صرفی کے خلاف نہ ہو۔ اس اجمال کی تفصیل یہ ہے کہ لفظ در حقیقت ایک قسم کی آواز ہے اور چونکہ آوازیں بعض شیریں، دل آویز، اور لطیف ہوتی ہیں، مثلاً طوطی وبلبل کی آواز اور بعض مکروہ و ناگوار مثلاً کوے اور گدھے کی آواز، اس بنا پر الفاظ بھی دو قسم کے ہوتے ہیں، بعض شستہ، سبک، شیریں اور بعض ثقیل، بھدے، ناگوار، پہلی قسم کے الفاظ کو فصیح کہتے ہیں اور دوسرے کو غیر فصیح۔

بعض الفاظ ایسے ہوتے ہیں کہ فی نفسہٖ ثقیل اور مکروہ نہیں ہوتے لیکن تحریر و تقریر میں ان کا استعمال نہیں ہوا ہے یا بہت کم ہوا ہے، اس قسم کے الفاظ بھی جب ابتداءً استعمال کئے جاتے ہیں تو کانوں کو ناگوار معلوم ہوتے ہیں، ان کو فنِ بلاغت کی اصطلاح میں غریب کہتے ہیں اور اس قسم کے الفاظ بھی فصاحت میں خلل انداز خیال کئے جاتے ہیں۔

کلام کی فصاحت :

کلام کی فصاحت میں صرف لفظ کا فصیح ہونا کافی نہیں بلکہ یہ بھی ضروری ہے کہ جن الفاظ کے ساتھ وہ ترکیب میں آئے ان کی ساخت، ہیئت، نشست، سبکی اور گرانی کے ساتھ اس کو خاص تناسب اور توازن ہو، ورنہ فصاحت قائم نہ رہے گی۔ اس میں نکتہ یہ ہے کہ ہر لفظ چونکہ ایک قسم کا سُر ہے اس لئے ضروری ہے کہ جن الفاظ کے سلسلے میں وہ ترکیب دیا جائے ان آوازوں سے اس کو خاص تناسب بھی ہو ورنہ گویا دو مخالف سروں کو ترکیب دینا ہوگا۔ نغمہ اور راگ مفرد آوازوں یا سروں کا نام ہے، ہر سر بجائے خود دلکش اور دل آویز ہے لیکن اگر دو مخالف سروں کو باہم ترکیب دے دیا جائے تو دونوں مکروہ ہو جائیں گے۔ الفاظ بھی چونکہ ایک قسم کی صوت اور سر ہیں، اس لئے ان کی لطافت، شیرینی اور روانی اسی وقت تک قائم رہتی ہے جب گرد و پیش کے الفاظ بھی لے میں ان کے مناسب ہوں۔ جب کسی مصرع یا شعر کے تمام الفاظ میں ایک قسم کا تناسب، توازن اور توافق پایا جاتا ہے، اس کے ساتھ وہ تمام الفاظ بجائے خود بھی فصیح ہوتے ہیں تو وہ پورا مصرع یا شعر فصیح کہا جاتا ہے اور یہی چیز ہے جس کو بندش کی صفائی، نشست کی خوبی، ترکیب کی دل آویزی، برجستگی، سلاست اور روانی سے تعبیر کرتے ہیں۔

بلاغت کے ساتھ ایک اور لفظ مستعمل ملتا ہے جسے فصاحت کہتے ہیں۔ اس لیے یہ دونوں الفاظ ’’فصاحت و بلاغت‘‘ مرکبِ عطفی کی صورت میں یکجا نظر آتے ہیں، جس سے اندازہ ہوتا ہے کہ یہ دونوں الفاظ ایک دوسرے کے لیے لازم ملزوم ہیں اور ایک جامع مفہوم لیے ہوئے ہیں۔ اگرچہ بلاغت کی طرح فصاحت بھی اپنا الگ مفہوم رکھتا ہے، یعنی کلام میں ایسے الفاظ کا استعمال جو روزمرہ، محاورے اور موقع و محل کے مطابق ہوں اور چند نقائص سے پاک ہوں جیسے: ضعفِ تالیف، تعقید، تنافر، کثرتِ تکرار، غرابت، مخالفتِ قیاس وغیرہ۔ اب آتے ہیں مختلف لغات کے حوالوں کی طرف:

1:۔ فرہنگِ آصفیہ:

فصاحت (ع) مونث: کشادہ سخنی، تیز زبانی، خوش کلامی، خوش گفتاری، علم بیان کی اصطلاح میں تراکیب، غیر مانوس الفاظ، ثقیل و درشت و مشکلہ سے کلام کا پاک ہونا۔

2:۔ نوراللغات:

خوش بیانی، خوش کلامی، (اصطلاحِ علمِ معانی) کلام میں ایسے الفاظ ہونا جن کو اہلِ زبان بولتے ہوں۔ جس میں انوکھی ترکیبیں، ثقیل، بھدے، غیر مانوس، مغلق، خلافِ محاورہ الفاظ و مرکبات نہ ہوں۔ ایسی تعریف تقریباً علمی لغت، فیروز اللغات وغیرہ میں بھی ملتی ہے۔

3:۔ اصطلاحاتِ نقد و ادب:

فصاحت کا مادہ ’’فصح‘‘ سے ہے جس کے معنی خوش بیانی کے ہیں۔ فصاحت سے مراد یہ ہے کہ جملے اور فقرے میں الفاظ و محاورے کی ادائیگی میں مستند اہلِ زباں کی پیروی کی جائے۔

مولانا شبلی نعمانی کے مطابق:۔

علمائے ادب نے فصاحت کی یہ تعریف کی ہے کہ لفظ میں جو حروف آئیں، ان میں تنافر نہ ہو۔ الفاظ نامانوس نہ ہوں۔ قواعدِ صرفی کے خلاف نہ ہوں۔ الغرض، مختلف ادبی و تنقیدی اصطلاحات کی کتب میں تقریباً تقریباً یہی مشترکہ تعریف ملتی ہے۔

فصاحت و بلاغت دونوں کو استعمال کرنے کا مطلب یہ ہے کہ کلام میں ان دونوں کی وجہ سے ان الفاظ کا انتخاب کیا جائے جو بولنے، سننے اور لکھنے میں موزوں اور مناسبِ حال ہوں۔ اُردو اہلِ زباں کی بول چال کے مطابق بھی ہوں۔ مفہوم و معانی کے لحاظ سے ان کی وضاحت ایسی ہو کہ اصل مفہوم تک باآسانی رسائی ممکن ہو۔ اصطلاحی مفہوم کے لحاظ سے لفظ ’’فصاحت‘‘ کوئی اور مفہوم نہیں رکھتا اور نہ یہ کوئی الگ خاص علم ہے۔ ہاں، شعر و ادب میں استعمال کے وقت جمالیاتی پہلوؤں کو مد نظر رکھا جاتا ہے۔ اس وقت فصاحت اور بلاغت کی اصطلاحیں استعمال کی جاتی ہیں۔ اُس وقت کلام میں مستعمل الفاظ اور معنی کے حسن کو دیکھا جاتا ہے، جس سے یہ نتیجہ اخذ کیا جاسکتا ہے کہ فصاحت کا تعلق لفظ کے حسن و خوبی سے ہے اور بلاغت معنوی حسن و خوبی سے بحث کرتی ہے۔ اس مفہوم کو ایک شاعر نے کیا خوب واضح کیا ہے:

اثر ہو سننے والوں پر بلاغت اُس کو کہتے ہیں
سمجھ میں جلد جو آئے فصاحت اس کو کہتے ہیں

لیکن جب لفظ ’’بلاغت‘‘ کو الگ بہ طورِ اصطلاح زیرِ بحث لایا جاتا ہے، تو اس وقت اس سے وہ فن یا علم مراد لیا جاتا ہے جو تین شاخوں ’’علمِ معانی، علمِ بیان اور علمِ بدیع‘‘ پر مشتمل ہو، جس کی بدولت کلام دلکش اور مقتضائے حال بنتا ہے۔

تحریر محمد ذیشان اکرم