مولانا حسرت موہانی کی غزلیں

0

تعارفِ غزل

یہ شعر ہماری درسی کتاب کی غزل سے لیا گیا ہے۔ اس غزل کے شاعر کا نام حسرت موہانی ہے۔

تعارفِ شاعر

حسرت موہانی کا اصل نام سید فضل الحسن تھا۔ آپ کا سلسلہ نسب حضرت امام علی موسی کاظم سے ملتا ہے۔ آپ حق گو ، بے باک اور درویش مزاج انسان تھے۔ آپ جدید اندازِ غزل کے شاعر تھے۔ آپ کو رئیس المتغزلین بھی کہا جاتا ہے۔ آپ نے ایک رسالہ اردو معلی کے نام سے جاری کیا تھا۔ آپ کا کلام کلیاتِ حسرت کے نام سے موجود ہے۔ نکاتِ سخن آپ کی مشہور کتاب ہے۔

(غزل نمبر ۱)

تجھ کو پاسِ وفا ذرا نہ ہوا
ہم سے پھر بھی ترا گلا نہ ہوا

اس شعر میں شاعر اپنے محبوب سے مخاطب ہو کر کہتا ہے کہ تم بے وفا نکلے اور تمھیں ہماری محبت کا تھوڑا سا بھی احساس نہ ہوا، لیکن ہم محبت میں اتنے فرمابردار اور وفادار ہیں کہ تمہاری بے وفائی کے باوجود کبھی کسی کے سامنے تمہاری برائی نہیں کی اور نہ ہی کسی کے سامنے تمہاری کوئی شکایت کی۔

ایسے بگڑے کہ پھر جفا بھی نہ کی
دشمنی کا بھی حق ادا نہ ہوا

اس شعر میں شاعر اپنے محبوب سے مخاطب ہو کر کہتا ہے کہ تم نے ہم سے بے وفائی کرنے کے بعد ہماری محبت کا تو حق ادا نہیں کیا، لیکن تم نے ہماری دشمنی کا حق بھی ادا نہیں کیا اور ہماری غلطی نہ ہونے کے باوجود تم نے ہمیں سزا دی اور بے وفائی کی۔

کٹ گئی احتیاطِ عشق میں عمر
ہم سے اظہار مدعا نہ ہوا

اس شعر میں شاعر کہتے ہیں کہ ہم تو اتنے وفا دار اور فرماں بردار تھے کے تمام عمر یہی سوچتے رہے کہ ہمارا کوئی فعل، ہماری کوئی بات ہمارے محبوب کو تکلیف نہ پہنچائے اور یہی سوچ کر ہم نے کبھی اپنے محبوب کے سامنے اپنی محبت کا اظہار بھی نہیں کیا اور تمام عمر اپنے محبوب سے خاموش محبت کرتے کرتے ہی ہماری عمر کٹ گئی۔

مر مٹے ہم تو مٹ گئے سب رنج
یہ بھی اچھا ہوا برا نہ ہوا

اس شعر میں شاعر کہتے ہیں کہ ہم مر گئے تو ہمارے محبوب اور ہمارے ارد گرد رہنے والے لوگوں کے تمام رنج و غم بھی ختم ہوگئے۔ اگر ایسے ہی تھا تو ہمارا مرنا بھی کوئی برا عمل نہیں، بلکہ اچھا ہی ہوا کہ ہمارے مرنے سے کم ازکم دوسرے لوگوں کی پریشانیاں بھی ختم ہوگئی اور اب ہمارا محبوب سکون کی زندگی بسر کر سکے گا۔

تم جفا کار تھے کرم نہ کیا
میں وفادار تھا خفا نہ ہوا

اس شعر میں شاعر اپنے محبوب کو مخاطب کرتا ہے اور اس کی سخت اور ظالم طبیعت کے بارے میں بتاتا ہے اور کہتا ہے کہ تم تو سزا دینے والوں میں سے تھے اور تم نے ہماری غلطی نہ ہونے کے باوجود بھی ہمیں سزا دی، لیکن میں اتنا وفادار تھا کہ تمہاری بلاوجہ سزا دینے کے باوجود بھی تم سے خفا نہیں ہوا اور تمہارے لئے وفا نبھاتا رہا۔

ہجر میں جان مضطرب کو سکوں
آپ کی یاد کے سوا نہ ہوا

اس شعر میں شاعر اپنے محبوب سے مخاطب ہو کر کہتے ہیں کہ جب ہم لوگ ایک دوسرے سے جدا ہوگئے تب بھی میرے دل کو سکون آپ کی یاد کے علاوہ نہیں ملتا تھا۔ یعنی آپ کی بیوفائی کے باوجود یہ دل آپ سے ہی محبت کرتا ہے اور اسے آپ کی جدائی کے باوجود بھی سکون اس دل کو تب ہی ملتا ہے جب اس کے سامنے آپ کا ذکر کیا جاتا ہے۔

رہ گئی تیرے فقرِ عشق کی شرم
میں جو محتاج اغنیا نہ ہوا​

اس شعر میں شاعر اپنے محبوب کو کہتے ہیں کہ تمھیں تو ہم سے کوئی محبت نہیں تھی، لیکن ہمیں تم سے اس قدر محبت تھی کہ میری محبت ہی ہم دونوں کے لئے کافی تھی اور تمہارے مجھ سے محبت نہ کرنے کے باوجود بھی میں نے تمہیں کبھی کچھ نہیں کہا اور تم سے محبت کرتا رہا اور تمہارا بھرم رکھا۔

(غزل نمبر ۲)

نگاہ یار جسے آشنائے راز کرے
وہ اپنی خوبی قسمت پہ کیوں نہ ناز کرے

اس شعر میں شاعر لوگوں کو مخاطب کر کے کہتے ہیں کہ جس کے محبوب کی نگاہ اسے تلاش کرے، اور جس کا محبوب اس انسان سے محبت کرے، اس انسان کو اپنی قسمت پر ناز ہونا چاہیے۔ کیونکہ یہ نعمت سب کو حاصل نہیں ہوتی کہ انسان کا محبوب انسان سے محبت کرے اور اسے اپنے رازوں میں شریک کرے۔

دلوں کو فکر دوعالم سے کر دیا آزاد
ترے جنوں کا خدا سلسلہ دراز کرے

اس شعر میں شاعر اپنے محبوب کو کہتے ہیں کہ تمہاری محبت اور تمہارے جنون نے ہمارے دلوں کو فکر دوعالم سے آزاد کردیا۔ اب نہ ہمیں اس دنیا کی فکر ہے اور نہ ہی کسی اور بات کی فکر ہے۔ پھر شاعر کہتے ہیں کہ خدا کرے تمہارا یہ جنون برقرار رہے اور تم ہم سے ہمیشہ یوں ہی محبت کرتے رہو اور ہمارے ساتھ رہو۔

خرد کا نام جنوں پڑ گیا جنوں کا خرد
جو چاہے آپ کا حسن کرشمہ ساز کرے

اس شعر میں شاعر کہتے ہیں کہ اب تو عقل کا نام جنون اور جنون کا نام عقل ہو گیا ہے۔ اور آپ کا یہ جنون اور یہی عقل ہمیں آپ سے محبت کرنے پر مجبور کرتا ہے، اور آپ جو چاہیں وہ کرسکتے ہیں کیونکہ آپ چاہے جانے کے قابل ہیں اور ہم آپ سے بہت محبت کرتے ہیں۔

ترے کرم کا سزاوار تو نہیں حسرتؔ
اب آگے تیری خوشی ہے جو سرفراز کرے

اس شعر میں شاعر اپنے محبوب کو مخاطب کرتے ہیں اور کہتے ہیں کہ ہم نے کچھ ایسا تو نہیں کیا کہ تم ہم پر اپنا کرم کرو، لیکن تمہیں اس کا غنی دل کے مالک ہو اور اس لیے تم جو چاہو وہ کر سکتے ہو، تو اگر تم ہمیں اب بھی اپنی محبت نوازنا چاہتے ہو تو یہ تمہارے کرم نوازی اور ہماری خوش قسمتی ہے۔

سوالوں کے جوابات

سوال ۱ : مندرجہ ذیل اشعار کی تشریح کیجیے :

ایسے بگڑے کہ پھر جفا بھی نہ کی
دشمنی کا بھی حق ادا نہ ہوا

اس شعر میں شاعر اپنے محبوب سے مخاطب ہو کر کہتا ہے کہ تم نے ہم سے بے وفائی کرنے کے بعد ہماری محبت کا تو حق ادا نہیں کیا، لیکن تم نے ہماری دشمنی کا حق بھی ادا نہیں کیا اور ہماری غلطی نہ ہونے کے باوجود تم نے ہمیں سزا دی اور بے وفائی کی۔

رہ گئی تیرے فقرِ عشق کی شرم
میں جو محتاج اغنیا نہ ہوا​

اس شعر میں شاعر اپنے محبوب کو کہتے ہیں کہ تمھیں تو ہم سے کوئی محبت نہیں تھی، لیکن ہمیں تم سے اس قدر محبت تھی کہ میری محبت ہی ہم دونوں کے لئے کافی تھی اور تمہارے مجھ سے محبت نہ کرنے کے باوجود بھی میں نے تمہیں کبھی کچھ نہیں کہا اور تم سے محبت کرتا رہا اور تمہارا بھرم رکھا۔

دلوں کو فکر دوعالم سے کر دیا آزاد
ترے جنوں کا خدا سلسلہ دراز کرے

اس شعر میں شاعر اپنے محبوب کو کہتے ہیں کہ تمہاری محبت اور تمہارے جنون نے ہمارے دلوں کو فکر دوعالم سے آزاد کردیا۔ اب نہ ہمیں اس دنیا کی فکر ہے اور نہ ہی کسی اور بات کی فکر ہے۔ پھر شاعر کہتے ہیں کہ خدا کرے تمہارا یہ جنون برقرار رہے اور تم ہم سے ہمیشہ یوں ہی محبت کرتے رہو اور ہمارے ساتھ رہو۔

خرد کا نام جنوں پڑ گیا جنوں کا خرد
جو چاہے آپ کا حسن کرشمہ ساز کرے

اس شعر میں شاعر کہتے ہیں کہ اب تو عقل کا نام جنون اور جنون کا نام عقل ہو گیا ہے۔ اور آپ کا یہ جنون اور یہی عقل ہمیں آپ سے محبت کرنے پر مجبور کرتا ہے، اور آپ جو چاہیں وہ کرسکتے ہیں کیونکہ آپ چاہے جانے کے قابل ہیں اور ہم آپ سے بہت محبت کرتے ہیں۔

سوال ۲ : مولانا حسرت موہانی کی غزل گوئی کی خصوصیات تحریر کیجیے۔

جواب : مولانا حسرت اپنی غزلیات میں آسان الفاظ استعمال کرتے ہیں اور آپ کی غزل عشق مزاجی سے لے کر عشق حقیقی تک ہر موضوع کو اپنے اندر قید رکھتی ہے۔ آپ کی زبان سادہ ہے اور آپ کی غزل میں بہت بڑے بڑے مفہوم موجود ہوتے ہیں۔

سوال ۳ : مندرجہ ذیل الفاظ پر اعراب لگائیے۔

  • جواب :
  • گَلّہ
  • مُدَّعا
  • بَرْمَلا
  • مُضطَرب
  • تَصَرُّف
  • اَغْنِیا
  • جُنُوں

سوال ۴ : پانچ ایسے محاورے لکھیے جن میں لفظ “آسمان” آتا ہو۔

آسمان کے تارے ہاتھ کو آتیں کیا رے
آسمان سے گرا، کھجور میں اٹکا
آسمان سر پہ اٹھانا
دماغ آسمان پر ہونا
آسمان کو تھوکا، منہ پر گرے