ہم اور ہمارا دین

0

کہنے کو ہم ماشاء اﷲ پیدائشی مسلمان ہیں۔ پیدا ہوتے ہی ہمیں ایک سند مل جاتی ہے کہ ہم مسلمان ہیں، پھر آگے چاہے کام اور عمل جیسا بھی ہو سند تو مل گئی ہے لیبل لگ چکا ہے۔ کیا محض مسلم گھرانے میں پیدا ہونا ہی کافی ہے مسلمان ہونے کے لئے؟؟ ہمارا عمل ہمارا رہن سہن ہمارے مسلمان ہونے کی گواہی کیوں نہیں دے رہا؟

اﷲ اور اسکے رسول ﷺ اور قرآنِ مجید کو جھٹلا کر ہم خود کو مسلمان کہتے ہیں؟ہمارا نماز نہ پڑھنا روزہ نہ رکھنا دینی تعلیمات پر عمل نہ کرنا یہ ثابت کرتا ہے کہ ہم جھٹلانے والوں میں سے ہیں لیکن ہمیں اس کا شعور نہیں ہے۔ یہ ہمارا طرزِ عمل منافقت کے زمرے میں آتا ہے کہ اقرار تو کر لیا لیکن جب کچھ کرنے کو کہا جائے تو آئیں بائیں شائیں۔

تاریخ اٹھا کر دیکھ لیں منافقیں کا یہی طرز تھا مان لیتے تھے لیکن عمل نہیں تھا۔ قرآنِ کریم میں اﷲ عزوجل ارشاد فرماتا ہے”وہ خدا کو دھوکہ دینے کی کوشش کرتے ہیں در حقیقت وہ خود دھوکے میں ہیں”ہم واقعی دھوکے میں ہیں ہم کہاں جا رہے ہیں اسکی ہمیں خود بھی خبر نہیں۔

اﷲ نے نماز کا حکم دیا ہم میں سے کتنے ہیں جو پوری نمازیں ادا کرتے ہیں؟اﷲ بڑا رحیم و کریم ہے کہہ کر چھوڑ دیتے ہیں۔ ہم کیوں بھول جاتے ہیں فرائض کی کوئی معافی نہیں ہوتی محض کہہ دینا قابلِ قبول نہیں ہے۔ اﷲ کو ہمارے قول و قرار کی نہیں ہمارے عمل کی ضرورت ہے۔

ہم اﷲ کو بس مانتے ہیں
اﷲ “کی” نہیں مانتے

ترجمہ:
اللہ معبود ہے اس کے سوا کوئی عبادت کا مستحق نہیں ہے، تمام اچھے نام اسی کے ہیں۔
القرآن – سورۃ 20 – طه – آیت 8

ایک باپ یا ماں اپنے بچے کی تربیت کیلئے ماڈل کی حیثیت رکھتے ہیں۔ اگر بچپن سے ہی ایسے کبیرہ گناہوں کو عملی سبق بنا کر بچوں کو سکھایا جائیگا تو بچے جھوٹ بولنے کو کبھی غلط نہیں مانیں گے۔ یہ وہ بنیادی معاملہ ہے جس کی وجہ سے تمام بچے بڑے ہوکر جھوٹ بولنا عام سے بات سمجھتے ہیں۔

یہی بچے جو کل بڑے ہوکر ملک کی قیادت سنبھالتے ہیں، سیاستدان، ڈاکٹر، انجینئر، سرکاری افسران، حکام، عمال، حتاکہ عام مزدور بھی بنتے ہیں تو سب کا اگر کردار جھوٹ کی بنیاد پر تعمیر کیا گیا ہو تو آپ سمجھ سکتے ہیں کہ ان عہدوں پر بیٹھ کر جھوٹ سچ ملا کر کیسے عوام کو بےوقوف بنایا جاتا ہے۔

اسلام فقط دینِ عبادت بھی نہیں۔بلکہ دینِ اسلام مکمل ضابطہُ حیات ہے۔ اس میں معاشرت سے لیکر اخلاقیات، سیاست سے لیکر معاشیات تک ہر شئے کا نظام موجود ہے۔ اسلام قبول کرنے والے کسی ایک کو قبول اور باقی کو رد کرنے کی نہ تو طاقت رکھتے ہیں اور نہ ہی اہلیت۔ لازم ہے اسلام میں پورے کے پورے داخل ہو جائیں۔ یہی قرآن میں اللہ ارشاد فرماتا ہے:ترجمہ: اے ایمان والو اسلام میں پورے پورے داخل ہو جاؤ اور شیطان کے قدموں کی تابعداری نہ کرو وہ تمہارا کھلا دشمن ہے۔البقرۃ (٢:٢٠٨)

یہاں پورے پورے داخل ہونے سے مراد یہی ہے کہ احکاماتِ الہی کو جوں کا توں بغیر حیلہ و حجت تسلیم کیا جائے۔ احکامات میں تدبر اختیار کرنے کا حکم نہیں، کہ انسان اپنی مرضی سے کسی عمل کو بدلنے کی کوشش کرے۔ مثلا” اگر فجر کی دو رکعت رکھی ہیں تو کوئی مواحد یہ چاہے کہ وہ چار رکعت پڑھے تو نماز باطل ہے۔

آج ہم جس معاشرے میں جی رہے ہیں وہاں تربیت کا فقدان ہی اس لئے ہے کوئی کام بھی ہم فرض جان کر نہیں کرتے، اور دوسروں کو حق ناصرف روک لیتے ہیں بلکہ انکی حق تلفی کرتے ہیں جو اسلام کی بنیادی تعلیمات کے منافی ہے۔اگر ہم اپنے فرائض سرعت سے انجام دیں تو حق ہمیں خود بخود ملیں گے۔ لیکن ہمارے یہاں تو گنگا ہی الٹی بہتی ہے۔ ہمارا حق دو جبکہ فرائض کی ادائیگی کیلئے کوئی تیار نہیں۔

تحریر عامر سہیل