Advertisement
Advertisement

تعارف

اردو ادب کے نامور اور ممتاز مزاح نگار ، مضمون نویس اور شاعر مرزا فرحت اللہ بیگ ۱ ستمبر ۱۸۸۳ کو دہلی میں پیدا ہوئے۔ ابتدائی تعلیم آبائی شہر دہلی سے گورنمنٹ ہائی اسکول سے حاصل کی اور بعد ازیں بی اے کی ڈگری بھی یہیں سے حاصل کی۔ مگر تلاش معاش کے سلسلے میں حیدرآباد دکن پہنچے۔ عدالتی مختلف عہدوں پر کام کرتے رہے۔ وہیں حیدرآباد کی ادبی ہوا نے مرزا فرحت بیگ کو اپنی لپیٹ میں لیا اور وہ لکھنے لگے۔

Advertisement

ادبی سفر

مرزا فرحت اللہ بیگ کی مزاح نگاری دراصل ان کی خوش طبعی زندہ دلی ، خوش مذاقی اور بزلہ سنجی کی دین تھی۔ انھوں نے ظریفانہ انشائیے لکھنے پر تکیہ بھی کیا بلکہ فرضی یا اصلی واقعات پر جو مضامین لکھے ان میں ظرافت اور خوش دلی کے عناصر اس طرح شامل کر دیے کہ مضمون میں ایک نئی جان پڑگئی۔ ان کی طرح دار اسلوب کے خاص عناصر دہلی کی ٹکسالی زبان ، روزمرّہ اور محاورہ کا برجستہ استعمال، ضرب الامثال کا چٹکلا پن ، طرزِ ادا کا سہج سبھاؤ اور داستانی اندازِ بیان ہیں۔

اسلوب

مزاح کا سارا لطف ان کی کہانی کہنے کے انداز میں سمٹ آتا ہے۔ وہ اپنے تخیل سے جو مضحکہ صورتِ حال پیش کرتے ہیں، وہ اصلیت سے پرے نہیں ہوتی ، تاہم اس میں کچھ ایسے پہلو نکال لیتے ہیں جن کو پڑھ کر قاری مسکرائے بغیر نہیں رہ سکتا۔ان کا ایک مضمون ہے ایڈیٹر صاحب کا کمرہ جس میں انھوں نے اخبار کے اڈیٹروں کی چالاکی اور ہیرا پھیری کی پول کھولتے ہوئے ان کے اس طنطنے کو بھی ظاہر کیا ہے جو اردو اخبار کے اڈیٹروں میں عموماً پایا جاتا ہے۔

Advertisement

مرزا فرحت اللہ بیگ نے اپنی ہم عصر زندگی کے زندہ علامتی کرداروں کو بھی بڑی خوبی سے پیش کیا ہے جس میں ان کے مشاہدے، مطالعے ، تجربے اور اسلوب کی لطافت اور شوخی کا ایک خوشگوار امتراج ملتا ہے۔ تاہم یہ صحیح ہے کہ ان کے سب مضامین یکساں معار کے نہیں ہیں۔ وہ زندگی کے معاملات پر گہری نظر رکھتے تھے۔

Advertisement

آج کے پیچیدہ اور تناؤ بھری زندگی میں مرزا فرحت کی یہ سہل اور سادہ تقسیم، مناسبِ حال نہیں معلوم ہوتی۔ غمگین مزاج لوگ بھی اکثر ہنسنے یا مسکرانے پر مجبور ہوجاتے ہیں اور زندہ دل لوگ بھی کبھی رنج و غم کا شکار ہو جاتے ہیں۔ہنسنا اور رونا زندگی کے ناگزیر مظاہر ہیں جس سے اس زندگی میں کسی کو مفر نہیں تاہم اس میں شک نہیں کہ مزاح چھینٹے تپتی دھوپ میں بارش کی خوشگوار بوندوں کاکام کرتے ہیں اور دقتی طور پر ہی سہی، لیکن زندگی کو دلچسپ بنا دیتے ہیں۔

مضامین


مرزا فرحت بیگ کے مضامین میں ایسے بھی مضمون شامل ہیں جو آج کے سائنسی ، خلائی و صنعتی دور میں انسان کی بگڑتی ہوئی سماجی، معاشرتی و اخلاقی ذمہ داریوں پر جہاں ایک طرف کاری ضرب لگاتا ہے وہیں دوسری جانب سماج و معاشرے کی اصلاح کی بابت اہم نکتہ بھی پیش کرتے ہیں۔ ایسے مضامین میں عبرت آموز درس پنہاں ہیں جو یہ ظاہر کرتے ہیں کہ انسان ترقی کی راہ پر خواہ کتنا ہی بلندیوں پر پہنچ جائے پھر بھی وہ اپنی سماجی ، معاشی و اخلاقی ذمہ داریوں سے عہدہ برآ نہیں ہو سکتا۔

Advertisement

تصانیف

  • مرزا فرحت بیگ کی مشہور تصانیف میں
  • آخری شمع ،
  • چارکہانیاں،
  • دہلی کا ایک یادگار مشاعرہ،
  • دہلی کی آخری شمع،
  • انشاء،
  • مضامین فرحت،
  • میری شاعری قابل ذکر ہیں۔

آخری ایام


مرزا فرحت اللہ بیگ تقسیم سے چند ماہ پہلے ۲۷ اپریل ۱۹۴۷ کو حیدر آباد میں ہی راہی ملک عدم ہو گئے۔ ان کی تدفین بھی حیدرآباد میں کی گئی۔